پندرہ سالہ پی ایچ ڈی لورنٹ سائمنز
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
دنیا کی سائنسی تاریخ میں کبھی کبھار ایسے غیرمعمولی واقعات رونما ہوتے ہیں جو انسانی ذہانت کی نئی حدیں متعین کر دیتے ہیں۔
یہی کچھ بیلجیئم کے حیرت انگیز نوعمر سائنس داں لورنٹ سائمنز کے ساتھ ہوا، جس نے محض 15 سال کی عمر میں کوانٹم فزکس میں پی ایچ ڈی مکمل کرکے نہ صرف تعلیمی دنیا کو حیران کر دیا بلکہ مستقبل کے سائنسی افق پر اپنی موجودگی ایک روشن ستارے کی طرح ثبت کردی۔ یہ کارنامہ محض ایک بچے کی ذہانت کی جیت نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ جب کسی معاشرے میں مضبوط تعلیمی ڈھانچا، معاون نظام اور باصلاحیت والدین کی سرپرستی موجود ہو تو انسان کا جوہر کس قدر جلوہ گر ہو سکتا ہے۔
لورنٹ کا سفر اس قدر غیرمعمولی ہے کہ عام ذہن اسے کسی فلمی کہانی کا تصور سمجھ بیٹھتا ہے، مگر یہ سب حقیقت ہے ایک ایسی حقیقت جو انسانی دماغ کی لامحدود صلاحیتوں پر یقین کو تازہ کرتی ہے۔ لورنٹ نے صرف آٹھ سال کی عمر میں ہائی اسکول مکمل کرلیا، جو بذاتِ خود ایک تاریخی سنگِ میل ہے۔
اس کے بعد نو سے بارہ برس کی عمر میں یونیورسٹی آف اینٹورپ میں فزکس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی A سطح کی تعلیم جسے دنیا بھر کے ہونہار ترین طلبہ بھی برسوں میں مکمل کرتے ہیں، اسے اس بچے نے چند ہی برسوں میں مکمل کر دکھایا۔ اس کا بیچلر پروگرام محض اٹھارہ مہینے میں ختم ہوگیا، جب کہ ماسٹر ڈگری اس نے تیرہ سے چودہ سال کی عمر میں حاصل کی۔ اور پھر، نومبر 2025 میں، پندرہ برس کے اس نوجوان نے خصوصی شعبۂ کوانٹم فزکس میں اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کرکے عالمی ریکارڈز میں اپنا نام ہمیشہ کے لیے لکھوا دیا۔
اس کی تحقیق ’الیکٹران کے کوانٹم اسپن اور برقی مقناطیسی لہروں کے تعلق‘ پر مشتمل تھی، یعنی وہ ایسے بنیادی سوالات کا کھوج لگا رہا تھا جن پر دنیا کے صفِ اوّل کے سائنس دان دہائیوں سے تحقیق کر رہے ہیں۔ یہ موضوع محض پیچیدہ ہی نہیں بلکہ کوانٹم ٹیکنالوجی اور مستقبل کی الیکٹرانکس کا بنیادی سنگِ میل بھی ہے۔ اس سے پہلے اس نے اپنے ماسٹر کے مقالے میں ’بلیک ہولز اور بوسون ذرات کے درمیان مشابہت‘ جیسا غیرمعمولی موضوع چْنا تھا ایک ایسا تحقیقی میدان جس تک رسائی کے لیے عمر بھر کی ریاضت درکار ہوتی ہے۔ مگر لورنٹ نے کم عمری میں نہ صرف اس علم کو سمجھا بلکہ اس میں علمی اضافہ بھی کیا۔
یہ سارا سفر آسان نہیں تھا۔ اسے محض نو سال کی عمر میں ایئنڈہوون یونیورسٹی سے اس لیے نکلنا پڑا کہ ادارہ اس کی غیرمعمولی رفتار اور ذہانت کے مطابق سہولت فراہم نہیں کر پا رہا تھا۔ کئی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں، جیسے مائیکروسافٹ، نے اسے حیران کن مراعات اور ملازمت کی پیشکش کی، مگر اس کے والدین نے ہمیشہ ایک ہی جملہ کہا: ’’پہلے بچے کے خواب پورے کرنے ہیں، پیسہ کمانے کو پوری عمر پڑی ہے۔‘‘ یہی وہ سوچ تھی جس نے اسے دنیا کے کم عمر ترین سائنسی محققین کی صف میں لا کھڑا کیا۔ اس کے ساتھ جرمنی کے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ میں اس کے تحقیقی تجربات نے اسے عالمی علمی برادری کے لیے ایک سنجیدہ سائنس داں کے طور پر قبولیت دلائی، اور اب وہ وہیں میڈیکل سائنس میں دوسری ڈاکٹریٹ کا آغاز کر رہا ہے۔ اس کا مقصد انٹرڈسپلنری سائنسز فزکس، کیمسٹری، میڈیکل سائنسز اور مصنوعی ذہانت کو یک جا کر کے انسانی زندگی کو طویل تر بنانا اور صحت مند ’’سپر ہیومنز‘‘ کے امکانات کا جائزہ لینا ہے۔
اس تمام کام یابی کے پیچھے ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ لورنٹ کی تعلیم مفت نہیں تھی۔ بیلجیئم کی سرکاری یونیورسٹی ہونے کے باوجود یونیورسٹی آف اینٹورپ میں ٹیوشن فیس ادا کرنا لازم تھی۔ اسی طرح میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ جیسے اداروں میں تحقیق کا حصول بھی مالی وسائل کا محتاج ہے۔ نیدرلینڈز کی ایئنڈھوون یونیورسٹی میں بھی یہی صورت حال رہی۔ لورنٹ کے والدین نے ابتدا سے ہی اپنی بچتیں اس مقصد کے لیے مختص کی تھیں، پھر اسکالرشپس، تحقیقی گرانٹس اور کہیں کہیں پرائیویٹ اسپانسرشپ نے بھی اس علمی سفر کو ممکن بنایا۔
یہ تمام تر سفر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ذہانت کے چراغ صرف ذہین دماغوں سے نہیں جلتے بلکہ ان چراغوں کو روشن رکھنے کے لیے ایک مضبوط تعلیمی ڈھانچا، معاون ریاستی نظام اور وسائل سے بھرپور معاشرہ بھی ضروری ہوتا ہے۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو پاکستان کے تعلیمی بحران کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ یہاں ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں صرف اس لیے کہ ریاست اتنی اہلیت نہیں رکھتی کہ انہیں بنیادی تعلیم فراہم کر سکے۔ ریاست جب اپنے ہی بچوں کے حقوق نظرانداز کرے، جب تعلیمی بجٹ ہر سال کم کر دیا جائے، تو پھر لورنٹ جیسے بچے ہماری گلیوں میں موجود ہونے کے باوجود خود سے ابھر نہیں سکتے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سال کی عمر میں کے لیے
پڑھیں:
لودھراں: 7 سالہ اکلوتا بیٹا مین ہول میں گر کر جاں بحق، وزیراعلیٰ کا نوٹس، ڈی سی کو ہٹا دیا
لودھراں (نوائے وقت رپورٹ) دھنوٹ میں 7 سال کا بچہ مین ہول میں گر کر جاں بحق ہوگیا۔ ریسکیو حکام کے مطابق بچہ ریحان والد کے ساتھ ناشتہ لینے آیا تھا اور والد کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے مین ہول میں گر گیا۔ ریسکیو اہلکاروں نے دوگھنٹے بعد ریحان کی نعش نکالی۔ پولیس نے زیر تعمیر سڑک کے ٹھیکیدار اور سب انجینئر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ مریم نواز نے سوگوار خاندان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کو عہدے سے ہٹانے کاحکم دے دیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کسی معصوم جان کو سرکاری افسر کی غفلت کی بھینٹ چڑھنے نہیں دیں گے۔