تنظیمات اہلِ سنت پاکستان کے مفتیان کرام نے خودکش حملوں کو حرام قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تنظیماتِ اہل سنت پاکستان کے سینکڑوں مفتیانِ کرام نے ایک اہم مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے ملک میں ہونے والے خودکش حملوں کو کھل کر حرام قرار دے دیا۔
اس اعلامیے پر 500 سے زائد مفتیانِ کرام کے دستخط موجود ہیں۔ علما نے واضح طور پر کہا کہ اسلام اور پاکستان ایک دوسرے سے جدائی نہیں رکھتے اور ریاست کے خلاف کسی بھی قسم کی مسلح کارروائی یا دہشت گردی شریعت کے صریح احکامات کے منافی ہے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ طالبان کی جانب سے بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک سے مبینہ روابط اور گٹھ جوڑ نہ صرف اسلام مخالف عمل ہے بلکہ انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت بھی ہے۔ علما نے اسے امتِ مسلمہ کے جذبات اور اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیا۔
مفتیانِ کرام نے عالمی برادری اور بین الاقوامی ضامنوں سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے عملی کردار ادا کریں اور غزہ میں نہتے اور بے گھر مسلمانوں کو تحفظ فراہم کریں۔ اعلامیے کے آخر میں ایک بار پھر زور دے کر کہا گیا کہ پاکستان میں خودکش حملے قطعی طور پر حرام اور ناقابلِ قبول ہیں، اور ایسے اقدامات کرنے والے گمراہ ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
تاجکستان نے افغانستان سے حملوں میں 5 چینی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کر دی
تاجک حکام اور دوشنبے میں قائم چینی سفارتخانے نے پیر کے روز تصدیق کی ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران افغانستان کی جانب سے کیے گئے حملوں میں 5 چینی شہری ہلاک اور 5 زخمی ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے تاجکستان پر ڈرون حملہ اور فائرنگ، 3 چینی باشندے ہلاک
یہ حملے استقلال بارڈر پوسٹ کے قریب واقع ایک چینی کمپنی کے کیمپ پر کیے گئے جس کے بعد چینی سفارتخانے نے اپنے کارکنوں اور کمپنیوں کو ہدایت دی کہ وہ اس سرحدی خطے کو فوراً خالی کر دیں۔
افغان طالبان کے ساتھ کشیدگیوسطی ایشیا کے پہاڑی ملک تاجکستان کی طالبان انتظامیہ کے ساتھ طویل عرصے سے کشیدہ تعلقات چلے آ رہے ہیں۔
دوشنبے حکام اس سرحدی خطے میں منشیات اسمگلنگ، غیر قانونی کان کنی اور سیکیورٹی خطرات پر مسلسل تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
چین تاجکستان کا ایک بڑا غیر ملکی سرمایہ کار ہے اور وہ وہاں شمالی علاقوں میں مختلف منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔
افغان حکام نے تازہ حملوں سے متعلق تاجک مؤقف پر فی الحال کوئی ردعمل نہیں دیا۔
مزید پڑھیے: افغانستان سے حملے کے بعد چینی باشندوں کو تاجکستانی سرحدی علاقہ چھوڑنے کی ہدایت
البتہ گزشتہ ہفتے افغان طالبان عبوری حکومت کی وزارت خارجہ نے ان واقعات کا ذمہ دار ایک ’نامعلوم گروہ‘ کو قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ تاجک حکام سے تعاون کے لیے تیار ہیں، جیسا کہ رائٹرز نے رپورٹ کیا۔
سرحدی حفاظتی اقدامات میں اضافہتاجک صدر امام علی رحمان نے سیکیورٹی اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ اجلاس میں سرحدی تحفظ کے اقدامات کا جائزہ لیا۔
صدر کے دفتر کے مطابق انہوں نے افغان شہریوں کی جانب سے مذکورہ غیر قانونی اور اشتعال انگیز کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے سیکیورٹی اداروں کو سخت اقدامات کی ہدایت کی۔
تاجکستان سنہ 1990 کی دہائی کی تباہ کن خانہ جنگی کے بعد سے روس کے ساتھ قریبی عسکری تعلقات رکھتا ہے اور روسی فوج کا ایک بڑا اڈہ بھی ملک میں موجود ہے۔
مزید پڑھیں: افغان سرزمین سے تاجکستان میں چینی شہریوں پر حملہ، پاکستان کی طرف سے سخت تشویش کا اظہار
افغانستان میں لاکھوں نسلی تاجک آباد ہیں اور تاریخی طور پر تاجکستان نے طالبان مخالف تاجک گروہوں کی حمایت کی ہے۔
گزشتہ سال بھی افغان سرحد کے قریب ایک حملے میں ایک چینی کارکن ہلاک ہوا تھا جس نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی سیکیورٹی پر مزید سوالات اٹھائے تھے۔
دہشتگرد گروہوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہپاکستان بھی کئی بار اپنے پڑوسی ملک افغانستان کی طالبان رجیم سے مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں، خصوصاً تحریک طالبان پاکستان کے خلاف مؤثر کارروائی کرے۔
طالبان کے سنہ 2021 میں افغانستان پر قبضے کے بعد پاکستان میں دہشتگرد حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: افغانستان بطور عالمی دہشتگردی کا مرکز، طالبان کے بارے میں سخت فیصلے متوقع
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر افغان سرزمین سے سرگرم دہشتگرد گروہوں کے خلاف ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو ایسے حملے پورے خطے میں غیر ملکی سرمایہ کاری، سیکیورٹی اور اقتصادی تعاون کو شدید خطرات سے دوچار کر سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان سے تاجکستان پر حملہ تاجکستان تاجکستان میں چینی ہلاک