بھید اپنے جیون کا کیا سمجھ میں آتا ہے۔۔۔۔۔۔ ؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
زندگی مُشکلات میں گھری ہوئی ہے، سُکون نہ قرار، بس ہر پَل اذیّت سے بھرا ہُوا۔ جیون ہے کیا ہے یہ۔۔۔۔۔ ؟ اک مُشکل سے بہ صد کوشش نکلتے ہیں تو دوسری سامنے کھڑی منہ چڑا رہی ہوتی ہے، کچھ نہیں بچا، بس دُکھ ہی دُکھ ہیں، کَرب سے بھری ہوئی زندگی، کوئی کسی کا نہیں جی، ہر ایک اپنے پسینے میں ڈوبا ہُوا کرّاہ رہا ہے، اور کسے کہتے ہیں نفسانفسی، عسرت بھری زندگی۔ کسی کو دَھن گننے کی فرصت نہیں اور کوئی عسرت و مفلسی کا مارا دھیلے کوڑی کو ترس گیا ہے۔
کیا ہے یہ سب کچھ، اور جب بالکل ہی مایوس ہوجاتے ہیں تو اس کا حل یہ نکالتے ہیں کہ اس سے تو موت ہی بھلی، لیکن پھر کوئی سوال اٹھاتا ہے کہ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔۔۔۔۔ ؟ تو دانتوں تلے انگلی داب سوچ کے ساگر میں غوطے کھانے لگتے ہیں۔ دوسری طرف نگاہ دوڑائیں تو عیش و عشرت بھری زندگی گزارنے والے بھی یہی کہتے نظر آتے ہیں، ہاں! ان کے الفاظ ضرور مختلف ہوں گے لیکن رونا ان کا بھی یہی ہے۔ لیکن کیا یہ جیون آج کا مسئلہ ہے۔۔۔۔۔؟
نہیں معلوم! آپ سلجھائیے اس گتھی کو، اور بُوجھیے یہ جیون پہیلی۔ فقیر تو کچھ نہیں جانتا جی۔
ایک دن فقیر اور اس کے سنگی ساتھیوں نے اپنے بابا جی حضور کے سامنے یہی پہیلی رکھی تھی تو یاد ہے، بہت اچھے سے کہ مسکرائے اور خاموشی اختیار کی۔ سب تو صابر تھے اور شانت کہ نوازے گئے تھے اس نعمت سے لیکن فقیر عجلت کا مارا، بے صبرا، بے علم و بے عمل، احمق و نادان اصرار کرتا رہا کہ خاموش کیوں ہیں، بتائیے ۔۔۔۔ ؟ اور جب ان کی خاموشی طویل ہوگئی تو فقیر کمّی کمین بول پڑا تھا، نہیں معلوم تو یہی کہہ دیجیے۔
وہ دن تو گزر گیا اور بابا جی حضور خاموش رہے لیکن دوسرے دن خود ہی فقیر سے ہم کلام ہوئے اور پوچھا: تم جیون پہیلی کو بُوجھ سکے ۔۔۔۔ ؟ نہیں تو بابا جی! کچھ سمجھ نہیں آیا۔ یہ سن کر انھوں نے فقیر کے کاندھے پر پیار بھرا ہاتھ رکھا اور فرمایا: کب تک ایسا ہی رہے گا تُو پگلے! اتنی آسان جیون پہیلی بھی نہیں بُوجھ پایا، دیکھ اگر جیون سے مُشکلات نکال دیں تو کچھ باقی نہیں بچے گا، یہ مُشکل ہی تو جیون پر اُکساتی ہے، یہ دُکھ ہی تو سُکھ کو جنم دیتا ہے، بے قراری سکون کو جنم دیتی ہے، یہ مشکلات، دُکھ، کرب، بے قراری سب کچھ جیون کو جیون بناتے اور اسے آگے کی سمت رواں رکھتے ہیں۔
یہ نہ ہوں تو سمجھ لو کہ زندگی بھی نہ ہو، یہ سب کچھ زندگی کے لوازمات ہیں، اگر کوئی یہ چاہے اور وہ کتنا بڑا رئیس ہی کیوں نہ ہو کہ اس کی زندگی سے یہ سارے روگ نکل جائیں تب بھی نہیں نکلتے۔ تو پگلے! بس یہی ہے پوری اور بھرپور زندگی جس میں یہ سب کچھ ہو، ورنہ تو جیون کچھ بھی نہیں، موت ہے اور مرے ہوؤں کی جگہ دنیا نہیں قبرستان ہے۔ جی بہت طویل تھی وہ نشست، چلیے سِرا تو آپ کو فقیر نے پکڑا دیا ہے، اب آپ اس ڈور کو خود سلجھائیے اور اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ جیون پہیلی کو بُوجھ لیں گے اور یقین جانیے، چاہے کچھ ہوجائے مسکرائیں گے۔
آج کل انڈیا میں مودی جیسے فاشسٹ لوگوں کا گروہ حکم راں ہے، کہنے کو تو وہاں جمہوریت ہے لیکن ہے کیا ۔۔۔۔ ؟ سبھی جانتے ہیں یہ جُھوٹ تو۔ مودی سرکار نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا ہے، اس سے پہلے ننگ انسانیت مودی ٹولے نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تمام اصولوں، قاعدے قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا اور عالمی احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے تمام تر حقوق کو جبراً غصب کرتے ہوئے پورے کشمیر کو کال کوٹھری میں بدل دیا ہے جو کئی سال ہوئے جاتے ہیں ہنوز ایک بدترین جیل ہے اور اس کے نہتّے اور مظلوم مسلمان قیدی بنا لیے گئے ہیں۔
لیکن! ہم تو جیون کتھا جی مشکلات بھری زندگی پر بات کر رہے تھے ناں تو اسی پر رہتے ہیں۔ یہ جو انڈیا کا ذکر بیچ میں آگیا تو اس کا جواز بھی بتائے گا فقیر۔
وہ بھی ایک بھارتی ہی تھا جو 14 اپریل 1891ء کو مہار ذات کے ایک غریب خاندان میں مہاؤ، مدھیہ پردیش میں پیدا ہوا۔ اس لڑکے کے والد کا نام رام جی اور والدہ کا نام بھیما بائی تھا۔ عجیب جیون تھا اس بچے کا اور اسی کا کیا اس ذات کے تمام لوگوں کا ہی کہ جن کا جیون صرف اذیّت تھا اور اذیّت بھی کوئی ایسی ویسی۔ نہیں جی ان کی تکالیف، دکھوں، مسائل اور مجبوریوں کو بیان کرنے کے لیے موجودہ الفاظ اور جملے کفالت نہیں کرتے، ان کے لیے الگ سے کوئی لغت ترتیب دینا ہوگی۔ اونچ نیچ، چھوت چھات کی بدبو سے بھرا، جسے سماج کہنا اس کی بدترین توہین ہے، لیکن کیا کریں، دھرتی رب کی ہے کہ وہی خالق ہے سب کا، وہی مالک ہے سب کا، وہی رب ہے سب کا۔ لیکن ان فرعون صفت انسان صورت شیاطین کا کیا کیجیے کہ وہ زمین پر خدا بن کر بیٹھ گئے اور مظلوم انسانوں کی زندگی اجیرن کر بیٹھے ہیں۔
اُس لڑکے کے من میں سمائی کہ وہ پڑھے گا، لیکن کہاں ۔۔۔۔ ؟ یہی اصل سوال تھا جس کا جواب ندارد۔ لیکن دُھن کے پکے اس لڑکے نے آخر اپنے باپ کو قائل کر ہی لیا تھا کہ وہ اسے کسی مکتب میں داخل کرائیں۔ مفلس اور دُھتکارے ہوئے انسان اس کے والد نے اپنی سی پوری کوشش کی لیکن کوئی اسے داخلہ دینے پر آمادہ نہ تھا۔ انسان کوشش جاری رکھے تو کچھ امید پیدا ہو ہی جاتی ہے تو ایک دن ایک اسکول کے ماسٹر صاحب نے کچھ شرائط کے ساتھ داخلے کی حامی بھرلی۔ اور وہ شرائط کیا تھیں، وہ اپنا ٹاٹ خود لائے گا، سب بچوں سے الگ ہوکر دُور بیٹھے گا، انھیں بہ راست نہیں دیکھے گا اور ان سے بات تو بالکل بھی نہیں کرے گا اور خاموشی کو بچھونا بنائے رکھے گا اور اس جیسی کئی شرائط۔ مجبور باپ نے ہر شرط مان لی تھی اور یوں وہ مکتب جانے لگا جہاں اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔
اسکول میں نل سے پانی پینے کی اسے اجازت نہ تھی اور گاؤں کے کنویں سے بھی پانی پینا ممنوع تھا۔ پانی پینے کے لیے اسے دو میل پیدل جانا پڑتا تھا۔ اونچی ذات کے دوسرے لڑکے اس سے شدید نفرت کرتے تھے۔ اس کا ہر پَل تمسخر اڑایا جاتا تھا۔ اسے زدوکوب کیا جاتا اور اسے احتجاج تو دُور رونے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ عجیب جیون تھا اس کا کہ جب کسی گلی سے گزرتا تو گلے میں گھنٹی باندھ لیتا تاکہ اونچی ذات کے لوگ اپنے گھروں کے دروازے بند کرلیں اور وہ گزر سکے۔ کوئی حجام اس کے بال تراشنے کو تیار نہ تھا، یہ سب کام وہ خود یا اس کی بہنیں کردیا کرتی تھیں۔ ایک دن وہ ایک حجام کے پاس اپنے بال ترشوانے پہنچا، اس سے اتنا بڑا جرم سرزد ہوگیا تھا کہ پھر کیا تھا حجّام سمیت ہجوم نے اسے گھیر لیا اور اسے حجام کے پاس اپنے بال ترشوانے کی جرأت کی سزا دی گئی اور اسے لہولہان کردیا۔ مکتب میں بھی ایک دن ماسٹر صاحب نے ایک امتحان لیا جس میں اونچی ذات کے بچے ناکام ہوگئے تھے اور بس وہی کام یاب ہُوا تھا، مکتب میں چھٹی کے بعد اسے لڑکوں نے گھیر لیا اور پھر وہ تشدد کیا کہ وہ اپنی کٹیا تک پہنچنے سے بھی قاصر تھا۔ جتنا ظلم بڑھتا گیا۔
اس لڑکے کا صبر اور عزم و ہمّت بھی بڑھنے لگی اور ان تمام مظالم کا سامنا کرتا رہا۔ ان بدترین حالات میں بھی وہ ہر جماعت میں نمایاں اور امتیازی کام یابی حاصل کرتا چلا گیا۔ اس ذلّت بھرے مشکل جیون کے باوجود وہ کالج جا پہنچا تھا اور پھر وہ اپنی محنت و لگن سے الفنسٹن کالج کا سب سے پہلا دلت گریجویٹ بنا۔ اس نے حالات کے قدموں میں گرنا نہیں سیکھا تھا اور اس نے اپنی راہ خود نکالی تھی۔ مشکلات کا ہر سنگ میل اسے سفر کرنے سے نہیں روک سکا تھا اور ایک دن وہ اسکالر شپ ملنے پر وہ وکالت پڑھنے لندن پہنچ گیا۔
اس کا سفر جاری رہا اور وہ لندن سے امریکا کی کولمبیا یونی ورسٹی چلا گیا جہاں سے اس نے اقتصادیات میں ماسٹر اور 1923 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد وہ پھر لندن جا پہنچا اور لندن اسکول آف اکنامکس سے پی ایچ ڈی دوبارہ کیا۔ اس کے بعد اس نے انڈیا کا رخ کیا اور ممبئی ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کی۔ وہ اپنے مؤکلوں کو ہمیشہ کہتا تھا اپنے جھگڑے عدالت سے کراؤ گے تو بہت خرچ آئے گا اگر خود اپنے جھگڑے نپٹاؤ گے تو مفت میں کام ہو جائے گا۔ اس کا کہنا تھا اگر آپ کسی معاشرے کو ترقی پذیر کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے تعلیم کو عام کرنا ہوگا، تعلیم امتیازات و افتراق کا استحصال کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں استحصال کم سے کم ہوتا جاتا ہے ان بالا دست طبقات کی بالا دستی خود بہ خود ختم ہوجاتی ہے، جو بے علم عوام کو اپنی مطلب براری کے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں۔
اس نے اپنا جیون سدھانے کے بہ جائے اپنے جیسے مظلوم انسانوں کو ذلت کے جہنم سے نکالنے اور ان کی آواز بننے کا فیصلہ کرتے ہوئے 1920 میں مراٹھی زبان میں ایک ہفت روزہ اخبار نکالا اور اس کا نام ’’لوک نایک‘‘ (گونگے لوگوں کا لیڈر) رکھا۔ اس نے اپنے جیسے مظلوموں کی فلاح و بہبود اور ان کی قانونی جنگ لڑنے کے لیے ’’جنتا‘‘ نامی اخبار بھی نکالا۔ پسے ہوئے دلت جن کا حق چھین لیا گیا تھا، کے لیے کئی ایسے اسکول کھولے جس میں ان کی اقامت بھی تھی، جن کا تمام خرچ وہ اٹھاتا تھا۔
اس نے سیاسی جنگ لڑنے کے لیے ایک نئی پارٹی بنائی۔ 1930ء میں دلتوں کو مندر میں داخلے کی اجازت نہ دینے کے خلاف غیرمتشددانہ مزاحمت کے ذریعے سماجی اور سیاسی اصلاح کی تحریک برپا کی۔ وہ چھوت چھات سے اور تحقیر سے اتنا بددل ہوگیا تھا کہ اس نے ہُندو مت سے بغاوت کی اور مہاتما گوتم بدھ کا پیروکار بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے لاکھوں پیروکار بھی بدھ مت میں داخل ہوئے۔ وہ ان سب کا نجات دہندہ تھا۔
وہ گورنمنٹ لا کالج میں پروفیسر رہا۔ 1926 سے 1937ء تک وہ مہاراشٹر اسمبلی کا رکن منتخب ہوا اور دلتوں کے نمائندے کے لیے حیثیت سے ’’ آزاد لیبر پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ 1942 میں شیڈیولڈ کاسٹ کی فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔ 1942 سے1946ء تک وہ اس کا کرتا دھرتا اور سرگرم قائد رہا۔ برصغیر پاک و ہند کی برطانوی استعمار سے آزادی میں وہ پیش پیش تھا۔ موہن داس گاندھی کی قیادت میں انڈیا کی آزادی کے بعد نئے ملک کا آئین بنانا مشکل ترین کام تھا جو موہن داس گاندھی نے اسے سونپ دیا اور اس نے انتہائی سوچ بچار اور گفت شنید کے بعد انڈیا کا آئین تیار کیا جو آئین ساز اسمبلی سے 26 جنوری 1950 کو منظور کرلیا گیا۔
اس طرح وہ انڈین آئین کا معمار بنا۔ آئین منظور ہونے سے ایک دن پہلے اس نے آئین ساز اسمبلی میں کم زور طبقوں ، دلتوں اور مفلوک الحال لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ہمیں ان بے کس اور بے سہارا لوگوں کے لیے بھیک نہیں برابری چاہیے۔ ہمیں خیرات نہیں چاہیے۔‘‘ ہال تالیوں سے گونج اٹھا، تو ایک ممبر نے بہ آواز بلند کہا تھا: ’’ جب آنے والی نسل ان الفاظ کو دہرائے گی تو انھیں وہ یاد آئیں گے، جنھوں نے ایک روندے ہوئے طبقات کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سکھایا۔ تہذیب کو ایک عنوان دیا، خودداری کے جذبے پیدا کیا، دلتوں کو عزت سے نہ صرف جینا سکھایا بل کہ مرنا بھی۔‘‘
بھارت کا آئین بنا کر اس نے اپنی ایسی ذمے داری نبھائی کہ وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس نے انڈین آئین کی رُو سے اچھوت کا لفظ ہی لغت سے نکال دیا آج اس لفظ کا استعمال غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ اسی آئین کی دفعہ 45 کے تحت چھے سے چودہ سال کے بچوں کے لیے ابتدائی تعلیم مفت اور لازمی قرار دی گئی ہے۔
وہ کہا کرتا تھا: ’’ملک کی دولت بینکوں اور لاکروں میں نہیں بل کہ پرائمری اسکولوں میں ہیں۔‘‘
وہ ایک روشن خیال، بلند ہمت، عالی ظرف، سماجی، اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے پس ماندہ طبقات کا مفکّر اور قائد تھا۔ جس نے دنیا سے کہا تھا: ’’معاشرتی اتحاد کے بغیر سیاسی اتحاد ایک مُشکل عمل ہے، اگر یہ حاصل بھی ہوجائے تو اس میں استقلال کا ہونا اس طرح غیر یقینی ہے جس طرح ہوا کے تیز جھونکوں سے کسی بھی لمحے موسم گرما کے پودوں کا جڑ سے اکھڑ جانے کا خدشہ لاحق ہوتا ہے۔ صرف سیاسی اتحاد ہی سے ہندوستان ایک مستحکم ملک بن سکتا ہے۔ لیکن ملک ہونا قوم ہونا نہیں ہوتا اور ایک ایسا ملک جو قومیت کا حامل نہیں ہوتا اسے زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔‘‘
وہ بھارت رتن تھا۔ اس کی گراں قدر خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے جواہر لعل نہرو نے اسے وزیر قانون بناکر اپنی کابینہ میں شامل کیا تھا، اس طرح اسے انڈیا کا پہلا وزیر قانون بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ اسے ’’معمار آئین‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس نے 63 کتب تحریر کیں۔ 1990ء میں اسے اپنے ملک کے سب سے بڑے قومی اعزاز ’’بھارت رتن‘‘ سے نوازا گیا۔ یہ باکمال شخص 6 دسمبر 1956ء کو دہلی میں لاکھوں مظلوموں کو روتا چھوڑ اس دنیا سے کوچ کرگیا۔ وہ ایک ایسی شخص تھا جو صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتا ہیں۔
وہ عظیم شخص اس دنیا سے تو رخصت ہوگیا مگر دنیا بھر کے انسان دوست اسے کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے اور اس کے اصول مشعل راہ بنے رہیں گے۔ آج اگر وہ زندہ ہوتا تو کشمیر پر لشکر کشی اور ان کے حقوق غضب کرنے کی کبھی اجازت نہیں دیتا۔ آج اگر وہ زندہ ہوتا تو مودی سرکار کبھی بھی شہریت کا کالا قانون نہیں بنا سکتی تھی۔ لیکن اس عظیم انسان نے جن لوگوں تربیت کی اور انھیں فکر و شعور سے نوازا اس کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور رکھیں گے اور ایک دن ہندتوا کے سرخیل مودی اور آر ایس ایس رسوائی کی دھول اپنے چہرے پر ملے نابود ہوجائیں گے۔
اس عظیم شخص کو آج ہم ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ ایک بے مثل ماہر قانون، سیاست داں، ماہر تعلیم، اور معاشیات سب سے بڑھ کر مظلوموں کے حقوق کے علم بردار اور انسانی حقوق کے پاس دار تھے۔ لوگ انھیں عقیدت و احترام سے ’’ بابا صاحب امبیڈکر‘‘ اور ’’رام جی‘‘ پکارتے ہیں۔
مت سہل ہمیں جانو پِھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرتے ہوئے اور اس کے انڈیا کا بھی نہیں تھا اور اور اسے ذات کے کے لیے نہیں ب سب کچھ اور وہ وہ ایک کے بعد ایک دن ہیں تو بھی نہ س لڑکے اور ان ہے اور
پڑھیں:
امریکہ کی ناکامی اور دلدل میں دھنستا عالمی سامراج(1)
اسلام ٹائمز: نیویارک شہر کی انتظامیہ جو ہمیشہ صیہونیوں پر مشتمل رہی اور گذشتہ 70 سالوں سے ہر انتخابی امیدوار کو اس شہر میں ووٹ لینے کیلئے صیہونیوں کی بیعت کرنا پڑتی ہے۔ 3 نومبر کو پاپولر ووٹوں اور ووٹوں کے ایک بڑے مارجن سے ایک ایسا شخص نیویارک کا مئیر بننے میں کامیاب ہوا، جس نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ "میں امام حسینؓ کا پیروکار ہوں" اور یہ بھی کہا تھا کہ "اگر اسرائیلی وزیراعظم یہاں آئے تو میں اسے گرفتار کرلوں گا۔" الیکشن میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے انتخابی مہم کے دوران انہوں نے شہر کی دہائیوں پرانی روایت کے مطابق نہ صرف اسرائیل سے وفاداری کا حلف نہیں اٹھایا بلکہ فلسطین کے دفاع کو اپنا سلوگن بنایا۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
عالمی صہیونی میڈیا نے دنیا بھر میں ایک ایسا تاثر پیدا کر دیا کہ ہم امریکہ کے بارے میں یہ سوچنے پر بھی تیار نہیں ہوتے کہ امریکہ تیزی سے زوال کا شکار ہو رہا ہے اور ٹرمپ کا امریکہ وہ امریکہ نہیں، جو آج سے چند عشرے پہلے تھا۔ مغربی اور صیہونی میڈیا نے اپنے مضبوط اور منظم تشہیراتی ہتھکنڈوں کے ذریعے اس سوچ کو پروان نہیں چڑھنے دیا کہ امریکہ بڑی تیزی سے اپنی سوفٹ اور ہارڈ پاور کو ہاتھ سے دے رہا ہے۔ ہمیں اس میڈیا کے سحر سے نکلنا ہوگا۔ اپنے آپ کو ملٹی پولر نظام کی طرف بڑھتی دنیا کو حقیقت پسندانہ انداز فکر سے جانچنا ہوگا۔ آئیے ہم سب حقیقت پسند بنیں۔ آئیے معروضی حقائق سے انکار نہ کریں۔ آئیے یقین کریں کہ دنیا بہت تیزی سے بدل چکی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ تیزی سے بدل رہی ہے، جس کا ہم سوچ سکتے ہیں۔
میں اپنے ان دوستوں سے مخاطب ہوں، جنہوں نے جدوجہد کے تمام سالوں میں انقلابیوں کو حقیقت پسند ہونے کی دعوت دی اور ہمیں یہ باور کرانے پر زور دیا کہ آخری فتح حق کی ہوگی۔ ہم نے ایران میں شاہ اور دنیا میں کئی مضبوط حکمرانوں کو اقتدار سے محروم ہوتے دیکھا ہے۔ امریکہ کی طاقت عظیم تھی، شاید آج بھی ہو، لیکن اس بات کو بھی باور کر لیا جائے کہ اس ٹائیٹینک نے بالآخر ڈوبنا ہے۔ ایران کے انقلاب کے آغاز میں ایک بہت ہی قیمتی ٹیلی ویژن شو "حصار در حصار" نشر کیا جاتا تھا، یہ ایک بہت ہی بامعنی اور خوبصورت ٹی وی شو تھا۔ شو کا تھیم یہ تھا کہ انقلاب جیتے گا اور سیاسی قیدیوں کو کہا جائے گا کہ آزاد ہو جاؤ، جیل سے نکلو۔ اگرچہ تمام قیدی خوشی خوشی جیل سے نکل جائیں گے، لیکن کچھ قیدی، جو فریب میں مبتلا ہیں اور زمانے کے پیچھے پڑی رجعتی ذہنیت میں پھنسے ہوئے ہیں، جیل چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔
وہ جیل سے رہا ہوچکے ہیں، لیکن وہ اپنے وہم کی قید میں رہتے ہیں اور کہتے ہیں: "یہ ناممکن ہے کہ انقلاب کامیاب ہوگیا ہے۔ یہ ہمیں نکال باہر کرنے کی کوئی سازش ہوگی!!" یہاں تک کہ جب جیل میں ان کے ساتھی باہر جانے کے بعد واپس آتے ہیں اور وہ انہیں انقلاب کی کامیابی کے بارے میں بتاتے ہیں، پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ "یہ ناممکن ہے کہ ہم جیت گئے۔" ان دنوں بعض مغرب نوازوں کا مزاج بھی وہی ہے، جو اس ڈرامے میں دکھایا گیا تھا۔ وہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی طاقت کے حوالے سے اپنے وہم میں مبتلا ہیں اور مذاکرات اور تعامل کی ضرورت کے حوالے سے ماضی کے دہرائے گئے اور فرسودہ موقف کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں اور وہ اب بھی امریکہ کی طاقت سے خوفزدہ ہیں۔
اگر ایران اسلامی کے تناظر میں دیکھیں تو آج ہمیں امید افزا حقیقتوں کا سامنا ہے، جو خدائی وعدوں کی تکمیل ہیں۔ ان انقلابیوں کے لئے جنہوں نے جلاوطنی میں تمام امریکی پراکسیوں کے خلاف کھڑے ہو کر مقابلہ کیا، شاہ اور صدام سے لے کر چھوٹے اور بڑے شیطانوں سے مقابلہ کیا۔ فرقان گروپ سے لے کر MKO اور داعش تک، علیحدگی پسندوں اور ہر قسم کے کمیونسٹ اور مغربی و مشرقی سامراجی طاقتوں کے خلاف قیام کیا، ہم وطنوں سے لیکر بیرونی دشمن ہر ایک کے سامنے حق کا پرچم بلند کیا۔ انقلابی تمام میدانوں میں موجود رہے اور انہوں نے یکے بعد دیگرے امریکہ کے آلہ کاروں کو دھول چٹائی اور آج خود امریکہ کی باری ہے۔ آئیے آج ان میں سے کچھ حقیقتوں کا جائزہ لیتے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ تیزی سے زوال کی طرف گامزن ہے۔
پہلا، بین الاقوامی تعلقات کا میدان
1۔ بین الاقوامی عدالت، جس نے اپنے قیام کے بعد سے اکثر استکباری طاقتوں کا ساتھ دیا ہے، خطے میں امریکہ کے اہم اتحادی نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں اور اس کی گرفتاری کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔
2۔ مختلف ممالک کے تقریباً 80 فیصد وفود نیتن یاہو کی تقریر پر احتجاجاً اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہال سے نکل گئے۔
3۔ امریکہ کے اتحادیوں کی G20 سربراہی کانفرنس چند سال قبل اس ملک کی موجودگی کے بغیر منعقد نہیں ہوئی تھی۔ اس دفعہ بعض سربراہان مملکت نے امریکہ کی عدم موجودگی کا خیر مقدم کیا۔
دوسرا، ملکی سیاست کے میدان میں
1۔ نیویارک شہر کی انتظامیہ جو ہمیشہ صیہونیوں پر مشتمل رہی اور گذشتہ 70 سالوں سے ہر انتخابی امیدوار کو اس شہر میں ووٹ لینے کے لیے صیہونیوں کی بیعت کرنا پڑتی ہے۔ 3 نومبر کو پاپولر ووٹوں اور ووٹوں کے ایک بڑے مارجن سے ایک ایسا شخص نیویارک کا مئیر بننے میں کامیاب ہوا، جس نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ "میں امام حسینؓ کا پیروکار ہوں" اور یہ بھی کہا تھا کہ "اگر اسرائیلی وزیراعظم یہاں آئے تو میں اسے گرفتار کرلوں گا۔" الیکشن میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے انتخابی مہم کے دوران انہوں نے شہر کی دہائیوں پرانی روایت کے مطابق نہ صرف اسرائیل سے وفاداری کا حلف نہیں اٹھایا بلکہ فلسطین کے دفاع کو اپنا سلوگن بنایا۔
2۔ پچھلے ہفتے اس نوجوان نے وائٹ ہاؤس جا کر سامنے کھڑے ہو کر ٹرمپ کا مواخذہ کیا اور اسے بتایا کہ امریکی عوام اس بات سے خوش نہیں ہیں کہ ان کے ٹیکسوں کے پیسے غزہ میں نسل کشی کے لئے استعمال ہوں۔
3۔ امریکہ کے دو دیگر اہم شہروں کے میئر بھی ایک ہی مذہب اور ایک ہی انتخابی نعرے کے ساتھ جیت گئے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ایک اہم ترین ریاست (ورجینیا) کا لیفٹیننٹ گورنر بھی لوگوں کے اسی حلقے سے منتخب ہوا تھا، جو صیہونی جارحیت کا مخالف ہے۔
4۔ امریکہ میں داخلی جھگڑے اس حد تک بڑھ گئے کہ ایک صدر نے اپنے سے پہلے صدر کے تمام اعلانات منسوخ کر دیئے اور وائٹ ہاؤس میں سابق امریکی صدور کے وال البم سے ان کی تصویر تک ہٹا دی۔
5۔ ملکی سیاست میں ہلچل اس حد تک ہے کہ ٹرمپ نے اپنے اہم ترین انتخابی اتحادی (ایلون مسک) کو نکال باہر کیا اور ایک دوسرے قریبی ساتھی کے گھر کی تلاشی لی، جو اسلامی جمہوریہ کا خونی دشمن بھی ہے (جان بولٹن) اور اسے طویل المدتی سزا کے دہانے پر کھڑا کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔