وزیراعظم سے بلاول بھٹو کی وفد کے ہمراہ ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیراعظم شہباز شریف سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی ساتھیوں کے ہمراہ ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، بلاول بھٹو زرداری کے کہنے پر گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے وزیراعظم شہباز شریف کو پنجاب کی صورتحال کے بارے میں اگاہ کیا۔
ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو کی ہدایت پر گورنر پنجاب نے وزیراعظم کو پنجاب میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے کہا کہ پنجاب میں امن و امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں ہے اور پولیس گردی جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سال گزر گیا مگر پنجاب کی سطح پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کا احساس ہی نہیں ہورہا، کوآرڈینیشن کمیٹیوں کے متعدد باراجلاس ہوئے مگر معاملات طے کرنے کے باوجود عمل درامد نہیں ہو رہا۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ پاور شیئرنگ فارمولے پر بہانے بناکر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا، انہوں نے کہا کہ پنجاب میں حکومتی سطح پر کوئی کوآرڈینیشن نہیں ہے۔
گورنر پنجاب کی جانب سے صورت حال سامنے رکھے جانے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، رانا ثنا اللہ اور خواجہ سعد رفیق کو معاملات حل کرنے کی ہدایات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اتحادی حکومت میں ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے دونوں جماعتوں کے درمیان طے شدہ معاملات پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ پنجاب میں اگرکوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو گورنرپنجاب آپ مجھ سے رابطہ کریں تمام معاملات حل ہوں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے گورنر ہاؤس میں کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس بھی طل کرنے کی ہدایت کردی جس کے بعد ن لیگ اور پیپلز پارٹی کوارڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہفتے کو طلب کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے پر بات کرے گی۔
صوبائی اتھارٹیز میں نامزدگیاں، ترقیاتی فنڈز، پولیس بیوروکریسی میں تبادلے،ایڈووکیٹ، اسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سمیت پیپلز پارٹی کے دیگر مطالبات بھی ہیں۔
مشترکہ کمیٹی کے اجلاس کی میزبانی گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کریں گے، جبکہ پیپلزپارٹی کی طرف سے راجہ پرویز اشرف، حسن مرتضی، ندیم افضل چن اور قاسم گیلانی شریک ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں مسلم لیگ ن کی طرف سے اسحاق ڈار، رانا ثنا اللہ، مریم اورنگزیب اور خواجہ سعد رفیق شرکت کریں گے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ذرائع کے مطابق گورنر پنجاب پیپلز پارٹی شہباز شریف
پڑھیں:
سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کی اندرونی بغاوت کا عمران خان کی رہائی کی تحریک پر کیا اثر ہوگا؟
خیبر پختونخوا سینیٹ الیکشن کے دوران نشستوں کے لیے نامزدگی پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ورکرز کی جانب سے قیادت کے خلاف بغاوت کے بعد قائدین اگست سے عمران خان کی رہائی کے لیے شروع کی جانے والی تحریک کے متاثر ہونے کے حوالے سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی قیادت نے پارٹی ورکرز اور نظریاتی رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود بیرسٹر سیف کی جانب سے دی گئی فہرست کے مطابق سینیٹ امیدواروں کو فائنل کیا جبکہ احتجاج کے باوجود پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو مبینہ طور پر نظرانداز کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: سینیٹ انتخابات کے بعد اب ایوان میں کس جماعت کو کتنی نشستیں حاصل ہوگئیں؟
پارٹی ورکرز کے مطابق پارٹی کے نظریاتی ورکرز اور رہنماؤں نے بیرسٹر سیف کی فہرست کو مسترد کر دیا تھا اور ان کا مطالبہ تھا کہ عمران خان کی ہدایت کے مطابق عرفان سلیم، ذیشان خرم اور عائشہ بانو کو ٹکٹ دیے جانے چاہییں، جو منظور نہیں کیا گیا۔
پارٹی کے اندرونی معاملات سے باخبر رہنماؤں کے مطابق سینیٹ انتخابات سے پارٹی میں اختلافات شدید حد تک بڑھ گئے ہیں اور ہر گروپ اس سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے جس سے قیادت اور ورکرز میں دوریاں اور عدم اعتماد مزید بڑھ گیا ہے۔
اختلافات اور قیادت پر عدم اعتمادسینیٹ انتخابات میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم پر ورکرز اور کئی پرانے نظریاتی اراکین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ سینیٹ الیکشن کے دوران دیرینہ کارکنان عرفان سلیم، عائشہ بانو اور دیگر نے مؤقف اپنایا کہ ان سے وعدہ کیا گیا تھا، تاہم ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت بیرسٹر سیف فہرست کے ساتھ سامنے آئے اور نظریاتی لوگ نظر انداز ہوئے۔ عرفان سلیم، عائشہ بانو اور ارشاد حسین نے آخری وقت میں الیکشن سے دستبرداری اختیار کی، لیکن ذیشان خرم نے الیکشن میں حصہ لیا۔
یہ بھی پڑھیے: سینیٹ ٹکٹوں کی تقسیم: نظریاتی کارکنوں کو نظرانداز کرنے پر پشاور میں پی ٹی آئی کا احتجاج
ناراض اراکین کا مؤقف تھا کہ فیصلے میرٹ کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ‘چند مخصوص شخصیات’ کے مفادات کے تحت کیے گئے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی سابق وزراء اور دیرینہ کارکنان نے نجی محفلوں میں علی امین گنڈاپور کی قیادت پر سخت تنقید کی جبکہ بعض نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا وہ پارٹی کو عمران خان کے نظریے سے ہٹا رہے ہیں؟
ذرائع کے مطابق پارٹی اپنی من پسند شخصیات کو ٹکٹ دینے میں تو کامیاب ہو گئی لیکن ورکرز کو ناراض کیا، جس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ورکرز کی ناراضگی، ایک خاموش بغاوتسینیٹ الیکشن کے بعد بظاہر خاموشی چھا گئی ہے، لیکن باخبر حلقے اسے طوفان کی علامت قرار دے رہے ہیں۔ پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے نام نہ بتانے کی شرط پر پارٹی کی موجودہ صورت حال اور اختلافات پر بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ ورکرز کی یہ ناراضگی محض محدود سطح تک نہیں بلکہ کئی اضلاع میں کھل کر سامنے آئی ہے۔ پارٹی کی ضلعی سطح کی تنظیمیں بھی اب تقسیم ہوتی جا رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عرفان سلیم کی خیبر پختونخوا میں مضبوط جڑیں ہیں اور وہ ورکرز میں بہت مقبول ہیں۔ وہ اس وقت سخت ناراض ہیں۔ ’عرفان سلیم کی ناراضگی کا مطلب ورکرز کو ناراض کرنا ہے اور ورکرز کی ناراضگی کا مطلب پارٹی کا نقصان ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے: مراد سعید کی سیاست میں واپسی، سینیٹ انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کا ٹکٹ حاصل
رہنما نے بتایا کہ پارٹی ورکرز اس وجہ سے بھی ناراض ہیں کہ سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن کو نشستیں دی گئیں۔ حکومت نے مبینہ طور پر کمپرومائز کیا اور مرزا آفریدی کو لایا گیا۔ ’یہ سب کچھ ورکرز کے دل میں ہے، وہ سخت ناراض ہیں۔‘
کیا عمران خان کی رہائی کے لیے اعلان کردہ تحریک متاثر ہو سکتی ہے؟پی ٹی آئی نے حال ہی میں عمران خان کی رہائی کے لیے ایک ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے اور خیبر پختونخوا کی قیادت نے ورکرز کو فعال کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا ہے۔
لیکن سینیٹ الیکشن کے بعد قائدین پریشان دکھائی دیتے ہیں جنہیں خدشہ ہے کہ ورکرز اب احتجاج سے دوری اختیار کر سکتے ہیں۔ پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے بتایا کہ ورکرز اب سوال اٹھا رہے ہیں کہ ‘ٹکٹ سرمایہ داروں کے لیے ہیں اور احتجاج، لاٹھی چارج، اور آنسو گیس کھانے کے لیے ورکرز ہیں۔’ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کسی بھی جلسے یا تحریک کی کامیابی کا انحصار پشاور کے ورکرز پر رہا ہے، اور ہمیشہ پشاور سے سب سے زیادہ ورکرز نکلتے ہیں، لیکن اس بار عرفان سلیم کو نظر انداز کرنے سے شاید حالات مختلف ہوں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، اگرچہ پارٹی قیادت نے سینیٹ الیکشن اور فہرست کو عمران خان کی منظور کردہ قرار دے کر تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی لیکن ورکرز اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر ارب پتی افراد کے سینیٹ تک پہنچنے کی داستان
عارف حیات، سینیئر صحافی و سیاسی تجزیہ کار کا ماننا ہے کہ سینیٹ الیکشن کے ایشو پر پی ٹی آئی مزید تقسیم ہو گئی ہے۔ ان کے مطابق پارٹی میں بیرسٹر سیف اور مرزا آفریدی کو مقتدر حلقوں کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے اور ان کے خلاف آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ ’ورکرز اور نظریاتی لوگ ہر وقت اور ہر پارٹی میں نظر انداز ہوتے ہیں، لیکن اس بار ایشو بیرسٹر سیف کا ہے، جیل سے نام بھی بیرسٹر سیف لے کر آئے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ورکرز کو بیرسٹر سیف کسی صورت منظور نہیں۔
عارف کا کہنا تھا کہ اختلافات کا پارٹی پر اثر پڑتا ہے اور سینیٹ الیکشن میں جو کچھ ہوا، اس کا آنے والی تحریک پر ضرور اثر پڑے گا۔ ’پی ٹی آئی نے اگست سے تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس وقت ورکرز ناراض ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس وقت ورکرز علی امین گنڈاپور کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں اور پہلے بھی احتجاج کے دوران علی امین پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: سینیٹ الیکشن کا معمہ: خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی نے پانچویں نشست کیوں گنوائی؟
عارف حیات نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے لیے لوگ نکلتے ہیں اور ورکرز کسی حد تک جانے کو تیار ہیں، لیکن اس بار سینیٹ الیکشن سے ورکرز میں یہ تصور پیدا ہوا ہے کہ فیصلے علی امین گنڈاپور مقتدر حلقوں کے کہنے پر کرتے ہیں اور نام عمران خان کا استعمال ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ورکرز اور قیادت میں اعتماد کا فقدان ہے، جس کا اثر پارٹی کی احتجاجی تحریکوں پر پڑے گا۔ ’یہ نہیں کہ کوئی بھی نہیں نکلے گا، لوگ ضرور نکلیں گے، لیکن شاید تعداد اتنی زیادہ نہ ہو اور ورکرز کی دلچسپی کم ہو۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انتخابات پی ٹی آئی احتجاج ٹکت خٰبرپختونخوا سینیٹ وزیراعلیٰ خٰبرپختونخوا