Daily Ausaf:
2025-04-25@09:42:44 GMT

پانی ہی زندگی ہے

اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT

گزشتہ ہفتے2مارچ کوکارپوریٹ فارمنگ پر مضمون شائع ہونے کے بعدکئی محترم تجربہ کار دوستوں نے رابطہ کرکے نہ صرف اس سلسلے کی تائیدکی بلکہ اس موضوع پرملک بھرکے ماہرین کوبھی اس اہم موضوع پرمتحرک ہونے کی دعوت دینے کی فرمائش کی جس کے بعدضروری سمجھ رہاہوں کہ قوم کونہ صرف اس اہم ملکی مسئلہ پرمزیدتفصیلات سے آگاہ کیاجائے بلکہ اس شعبے کے ماہرین کوبھی دلسوزی کے ساتھ دعوت عام دی جائے کہ وہ بھی اس معاملہ پرملک کی رہنمائی فرمائیں تاکہ ملک کے سب سے بڑے علاقے چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ کے نفع ونقصانات سے بروقت آگاہ کیاجائے ۔
پاکستان،جوکبھی خطے کازرعی مرکزسمجھاجاتا تھا ، آج ایک گہرے پانی کے بحران کے دہانے پرکھڑا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ بنتی جارہی ہے،جونہ صرف زراعت بلکہ مجموعی معاشی استحکام کے لئے بھی خطرہ ہے۔اس تناظر میں، کارپوریٹ فارمنگ اور چولستان کینال تنازعہ پاکستان میں پانی کے وسائل کی تقسیم اوراستعمال کے حوالے سے اہم نکات اجاگرکرتاہے۔چولستان کینال منصوبے پربین الصوبائی تنازعہ اس وسیع ترمسئلے کا مظہر ہے کہ پاکستان میں پانی کی دستیابی،ذخیرہ اندوزی اور اس کے موثراستعمال کے لئے کیاچیلنجزدرپیش ہیں۔ چولستان کینال تنازعہ،جوپنجاب اورسندھ کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کولے کر ابھرا ہے، درحقیقت ملک کے پانی کے انتظام میں گہری ناکامیوں کی عکاسی کرتاہے۔یہ تنازعہ محض ایک نہرکی تعمیرتک محدود نہیں،بلکہ یہ پاکستان کی نااہلی کامنہ بولتاثبوت ہے کہ وہ گزشتہ تین دہائیوں میں پانی کے ذخیرہ، تحفظ اور موثر استعمال کے لئے کوئی ٹھوس پالیسی مرتب نہیں کرسکا۔
آئیے!ان تمام اہم پہلوئوں کاتفصیلی جائزہ لیتے ہیں کہ یہ منصوبہ ارضِ وطن کے لئے مفیدثابت ہوسکتا ہے یاپھر ’’لمحوں نے خطاکی، صدیوں نے سزا پائی‘‘ والامعاملہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لئے وراثت میں چھوڑ کر جارہے ہیں۔
چولستان کینال کامنصوبہ پنجاب کے بنجرعلاقے چولستان کوسیراب کرنے کے لئے پیش کیاگیا،جہاں خشک سالی اورریت کے طوفانوں نے زراعت اور انسانی آبادی کوخطرے میں ڈال رکھاہے۔ تاہم، اس منصوبے کی مخالفت سندھ نے کی،جسے خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں دریائے سندھ کے پانی میں کمی واقع ہوگی۔پنجاب کاموقف ہے کہ یہ منصوبہ 1991ء کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے تحت اس کے مختص کردہ حصے میں آتا ہے، اس لئے چولستان کوسیراب کرنے کیلئے نہر 1991ء کے پانی کے معاہدے کے تحت اس کے حصے میں آنے والے پانی سے بنائی جائے گی۔تاہم، سندھ اس کی مخالفت کرتاہے،کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اس منصوبے سے اس کے پانی کے حقوق متاثرہوں گے اوریہ منصوبہ دریاکے پانی کے بہائو کومزیدکم کردے گا،جس سے اس کے کاشتکاروں کونقصان پہنچے گا۔
1991ء کے معاہدے نے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کاایک بنیادی اصول وضع کرتاہے ،جوچاروں صوبوں کوان کے حصے کے مطابق پانی فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے۔اس معاہدے کی شق 6 واضح طورپرکہتی ہے کہ ملک میں نئے آبی ذخائرتعمیر کیے جائیں گے تاکہ پانی کی دستیابی کویقینی بنایاجاسکے۔یہ واضح تھاکہ اگر پانی کی طلب بڑھی تونئے ڈیمزاور ذخائربنائے جائیں گے، تاکہ تقسیم کے تنازعات سے بچاجاسکے۔ تاہم گزشتہ 30 سالوں میں نہ توکوئی بڑاڈیم مکمل ہوا،جبکہ نئے ڈیموں کی تعمیرکی رفتار بھی سست ہے،جو پانی کے بڑھتے ہوئے بحران کو مزیدسنگین بنارہی ہے اورنہ ہی موجودہ ذخائر(جیسے تربیلا اورمنگلا)کی گادصاف کی گئی، جس کی وجہ سے ان کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30فیصد تک کم ہوچکی ہے۔ اگرپانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہ کیاگیا تومستقبل میں زرعی پیداوارمتاثرہوسکتی ہے، جو غذائی تحفظ کے لئے بھی خطرہ بن سکتاہے۔یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جوچولستان جیسے منصوبوں کوتنازعات کاشکار بنا رہا ہے۔اگرپاکستان(مرکز) اس معاہدے کے تحت اپنے وعدے پورے کرتاتو چولستان کینال جیسے منصوبے تنازعا ت کاشکارنہ ہوتے ۔
پاکستان کا پانی کا بحران تقسیم سے زیادہ ذخیرہ کی کمی سے جڑا ہوا ہے۔ ملک میں پانی کی سالانہ دستیابی 145 میٹرک ٹن سے کم ہو کر 2023 ء تک 100 میٹرک ٹن رہ گئی ہے، جبکہ آبادی اور زرعی ضروریات میں اضافہ ہوا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے، گلشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں تبدیلی، غیر متوقع بارشیں، اور شدید گرمی کی لہریں پانی کے انتظام کو مشکل تر بنا رہی ہیں۔ عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق، اگر ذخیرہ کی صلاحیت نہ بڑھائی گئی تو 2025ء تک پاکستان ’’پانی کی کمی‘‘والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔
پاکستان میں پانی کا انتظام غیرومؤثر ہے، جس کی وجہ سے پانی کے ضیاع کی شرح بہت زیادہ ہے۔ بر وقت اصلاحات نہ ہونے اور مستقبل کے خطرات سے آنکھیں چرانے کی بنا پر آج ارض وطن کئی مشکل مسائل سے دوچارہے جس میں چند اہم مسائل کی کی نشاندہی سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ تمام مقتدر اداروں کی مجرمانہ سستی و کاہلی سے ہمیںیہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں تاہم ان مسائل کیلئے بھی چند تجاویز اس امید پر تحریر کر رہا ہوں کہ اگر اب بھی ان پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو تاریخ میں آنے والی نسلوں کے لئے ہم قحط،خشک سالی اور بنجر زمین کا ترکہ ہی چھوڑ سکیں گے۔
پاکستان کا 90 فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے، لیکن فرسودہ آبپاشی کے طریقوں(جیسے سیلابی آبپاشی)کی وجہ سے 50 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، نہروں کی ناقص دیکھ بھال اور چوری کی وجہ سے 40 فیصدپانی زمین میں جذب ہو جاتا ہے یا غیرقانونی طور پر نکال لیا جاتا ہے۔ زیرزمین پانی کا غیرمنظم استعمال (خصوصاً پنجاب اور سندھ میں)بھی آبی ذخائر کو تیزی سے ختم کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر، لاہور میں زیرزمین پانی کی سطح 1990 ء کی دہائی کے مقابلے میں 2 میٹر سالانہ کی رفتار سے گر رہی ہے۔
پانی کے منصوبے اکثر صوبائی سیاست کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، دیامر بھاشا ڈیم کا منصوبہ، جو 4,500 میگاواٹ بجلی اور 8.

1ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، 2008 ء سے تعمیراتی مراحل میں ہی ہے۔ دیامر بھاشا، مہمند ڈیم، اور کالاباغ جیسے منصوبوں کو فوری طور پر مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موجودہ ڈیموں کی گاد صاف کرنے سے ذخیرہ کی صلاحیت 30فیصد تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح، کالاباغ ڈیم کا منصوبہ سیاسی مخالفت کی وجہ سے معطل ہے۔ چولستان کینال جیسے منصوبوں کی منظوری میں تاخیر بھی اسی سیاسی کشمکش کا نتیجہ ہے۔(جاری ہے)

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان میں پانی کے پانی کے کی صلاحیت کی وجہ سے کی تقسیم کرنے کی پانی کی کے لئے

پڑھیں:

سندھ طاس معاہدہ معطل: پانی کے ہر قطرے پر ہمارا حق ہے اور اس کا دفاع کریں گے، وزیر توانائی

وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اقدام پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پانی کے ہر قطرے پر ہمارا حق ہے اور اس کا دفاع بھی کریں گے۔

وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے پر بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی طرف سے جلد بازی اور اسکے نتائج کی پرواہ کے بغیر معطل کرنا آبی جنگ کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت یہ اقدام اور غیر قانونی ہے۔ وزیر توانائی نے کہا کہ پانی کے ہر قطرے پر ہمارا حق ہے، اور ہم قانونی، سیاسی اور عالمی سطح پر پوری طاقت سے اس کا دفاع کریں گے۔"

سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟

پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے 1960ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جسے سندھ طاس معاہدے کا نام دیا گیا۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے دریاؤں کا پانی منصفانہ تقسیم ہونا تھا۔ اس معاہدے میں ورلڈ بینک بطور ضامن ہے۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق معاہدے کے تحت پنجاب میں بہنے والے تین دریاؤں راوی ستلج اور بیاس پر بھارت کا کنٹرول زیادہ ہوگا۔ اس کے علاوہ دریائے سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا جس کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کو حق دیا گیا ہے۔

دونوں ممالک کو دریاؤں کے پانی سے بجلی بنانے کا حق تو حاصل ہے تاہم پانی ذخیرہ کرنے یا بہاؤ کو کم کرنے کا حق حاصل نہیں۔

بھارتی اقدام سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی

دوسری جانب ذرائع کے مطابق بھارت کا یہ مذموم فیصلہ 1960 کے سندھ طاس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے کیونکہ معاہدے کی شق نمبر12۔ (4) کے تحت یہ معاہدہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جبکہ دونوں ملک تحریری طور پر متفق نہ ہوں۔

ذرائع کے مطابق بھارت  نے بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے یہ انتہائی اقدام اٹھایا۔

سندھ طاس معاہدے کے علاوہ بھی انٹرنیشنل قانون کے مطابق Upper riparian , lower riparian کے پانی کو نہیں روک سکتا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کیلئے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔ جس میں عالمی بینک بھی بطور ثالت شامل ہے۔

معاہدے کی روح سے بھارت یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ معطل نہیں کر سکتا جبکہ انٹرنیشنل واٹر ٹریٹی بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت شدہ معاہدہ ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل معاہدے کو معطل کر کے بھارت دیگر معاہدوں کی ضمانت کو مشکوک کر رہا ہے، ہندوستان اس طرح کے نا قابل عمل  اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کر کے اپنے اندرونی بے قابو حالات سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ 

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت کشیدگی؛ پیٹرولیم مصنوعات کی وافر مقدار ذخیرہ کرنے کے احکامات
  • پاک بھارت کشیدگی کے پیش نظر پیٹرولیم مصنوعات کا وافر ذخیرہ کرنے کے احکامات جاری
  • پاک بھارت کشیدگی؛  پیٹرولیم مصنوعات کی وافر مقدار ذخیرہ کرنے کے احکامات
  • دریائے نیلم اور جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، ذرائع
  • سندھ طاس معاہدہ معطل: پانی کے ہر قطرے پر ہمارا حق ہے اور اس کا دفاع کریں گے، وزیر توانائی
  • سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان بے معنی؛ یہ معاہدہ کبھی جنگوں کے دوران بھی معطل نہیں ہوا
  • سندھ طاس عالمی معاہدہ،بھارت یکطرفہ طورپرختم کرنےکامجازنہیں
  • غریب کسانوں کا پانی چھین کر چولستان مین کارپوریٹ سیکٹر کو دینا چاہتے ہیں.چوہدری منظور
  • چولستان کینال کو پنجاب کی کون سی نہر کا پانی دیں گے؟ چوہدری منظور
  • گرین چولستان کا سارا کچا چٹھہ قوم کے سامنے کھولوں گا، ایمل ولی خان