شاہ رخ خان نے 9/11 حملوں کے دوران نیویارک میں کیا دیکھا، آنکھوں دیکھا حال بتا دیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
امریکہ میں ہونے والے 9/11 کے حملے تاریخ کے سب سے المناک واقعات میں سے ایک مانے جاتے ہیں اور جو اس وقت وہاں موجود تھے وہ آج بھی اس حادثے کو یاد کرکے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔
بالی ووڈ کے بادشاہ شاہ رخ خان بھی بدقسمتی سے 9/11 کے وقت نیویارک میں اپنی اہلیہ گوری خان، بیٹے آریان اور کرن جوہر کی والدہ ہیرو جوہر کے ساتھ موجود تھے۔ بعد میں انہوں نے اپنی مشہور فلم ’مائی نیم از خان‘ کی تشہیر کے دوران اپنے تجربے کے بارے میں بتایا کہ اس واقعے کے وقت وہاں ہونا کتنا حیران کن اور خوفناک تھا۔
اداکار نے بتایا کہ انہیں صبح ہیرو جوہر نے ہڑبڑی میں جگایا اور ٹی وی کھول کر خبریں لگا دیں۔ کرن جوہر کی والدہ یہ سمجھیں تھیں کہ یہ اس پرواز کے بارے میں ہے جو ان کے فلمی عملے نے چند گھنٹے پہلے ٹورنٹو کے لیے لی تھی لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ اصل میں کیا ہو رہا تھا۔
اس وقت گھر میں صحافی ان کی فلم اشوکا کے بارے میں انٹرویو کے لیے شاہ رُخ خان کا انتظار کر رہے تھے، اور ہر کوئی اس خوفناک واقعات کو سامنے آتے دیکھ کر صدمے میں تھا۔
شاہ رُخ نے بتایا کہ پروازیں منسوخ ہونے اور شہر میں افراتفری کے باعث وہ اور ان کی فیملی کچھ دنوں کے لیے نیویارک میں پھنس گئی تھی۔ مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں بھی دیگر لوگوں کی طرح مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم وہ ایک بچے اور ایک بوڑھی عورت کے ساتھ سفر کر رہے تھے اس لیے لوگوں نے جتنی ہو سکتی تھی ان کی مدد کی۔
بالآخر وہ ٹورنٹو پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، اور وہاں سے واپس بھارت چلے گئے۔ اداکار کا کہنا تھا کہ وہ اس طرح کے مشکل وقت میں ملنے والی لوگوں کی مدد کے لیے شکر گزار تھے۔
شاہ رخ نے کہا کہ اس تجربے کے خوفناک منظر ان کے ساتھ کئی سالوں رہے جیسا کہ بہت سے دوسرے لوگوں کے لیے تھا۔ اتنی تباہی کو قریب سے دیکھ کر انہیں احساس ہوا کہ زندگی کتنی نازک ہے۔
یہی وجہ تھی کہ برسوں بعد، جب شاہ رُخ خان نے ’مائی نیم از خان‘ بنائی، جس میں نائن الیون کے بعد کی زندگی کے بارے میں بتایا گیا ہے، تو وہ فلم کے جذبات سے وہ بہت گہری سطح پر جڑ چکے تھے کیونکہ وہ وقت ان پر خود گزرا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ بے یقینی اور خوف کے ان دنوں کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ اگرچہ وہ اور ان کا خاندان محفوظ تھا، لیکن انکے ارد گرد موجود لوگوں کا درد اور نقصان دل دہلا دینے والا تھا۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جس نے دنیا کو بدل دیا، شاہ رُخ نے مزید کہا کہا کہ انہوں نے اپنے پیاروں کے ساتھ باحفاظت گھر واپس آنے پر خدا کا شکر ادا کیا اور خود کو خوش قسمت قرار دیا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے بارے میں کے ساتھ شاہ ر خ کے لیے
پڑھیں:
ایتھوپیا: امدادی کٹوتیوں کے باعث لاکھوں افراد کو فاقہ کشی کا سامنا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 اپریل 2025ء) ایتھوپیا میں اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے لیے امدادی وسائل کی قلت کے نتیجے میں غذائی کمی کا شکار 650,000 خواتین اور بچوں کو ضروری غذائیت و علاج کی فراہمی بند ہو جائے گی۔
ملک میں ادارے کے ڈائریکٹر زلاٹن میلیسک کا کہنا ہے کہ اس کے پاس باقیماندہ وسائل سے ان لوگوں کو رواں ماہ کے آخر تک ہی مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔
اگر ہنگامی بنیاد پر مدد نہ آئی تو ملک میں مجموعی طور پر 36 لاکھ لوگ 'ڈبلیو ایف پی' کی جانب سے مہیا کردہ خوراک اور غذائیت سے محروم ہو جائیں گے۔ Tweet URLانہوں نے بتایا ہے کہ ملک میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔
(جاری ہے)
ان میں جنگ اور موسمی شدت کے باعث بے گھر ہونے والے 30 لاکھ لوگ بھی شامل ہیں۔بچوں میں بڑھوتری کے مسائلایتھوپیا میں 40 لاکھ سے زیادہ حاملہ و دودھ پلانے والی خواتین اور چھوٹے بچوں کو غذائی قلت کا علاج درکار ہے۔ ملک میں بہت سی جگہوں پر بچوں میں بڑھوتری کے مسائل 15 فیصد کی ہنگامی حد سے تجاوز کر گئے ہیں۔ 'ڈبلیو ایف پی' نے رواں سال 20 لاکھ خواتین اور بچوں کو ضروری غذائی مدد پہنچانے کی منصوبہ بندی کی ہے لیکن اسے گزشتہ سال کے مقابلے میں نصف سے بھی کم مقدار میں امدادی وسائل موصول ہوئے ہیں۔
زلاٹن میلیسک نے کہا ہے کہ ادارے کے پاس مقوی غذا کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں اسی لیے جب تک مدد نہیں پہنچتی اس وقت تک یہ پروگرام بند کرنا پڑے گا۔
امدادی خوراک میں کمی'ڈبلیو ایف پی' نے رواں سال کے پہلے تین ماہ میں 30 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو غذائیت فراہم کی ہے۔ ان میں شدید غذائی قلت کا شکار 740,000 بچے اور حاملہ و دودھ پلانے والی خواتین بھی شامل ہیں۔
وسائل کی قلت کے باعث ادارے کی جانب سے لوگوں کو امدادی خوراک کی فراہمی بھی متاثر ہوئی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں 800,000 لوگوں کو فراہم کی جانے والی خوراک کی مقدار کم ہو کر 60 فیصد پر آ گئی ہے جبکہ بے گھر اور غذائی قلت کا سامنا کرنے والوں کی مدد میں 20 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔
شمالی علاقے امہارا میں مسلح گروہوں کے مابین لڑائی کی اطلاعات ہیں جہاں لوٹ مار اور تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔
ان حالات میں ادارے کے عملے کو لاحق تحفظ کے مسائل کی وجہ سے ضروری امداد کی فراہمی میں خلل آیا ہے۔22 کروڑ ڈالر کی ضرورتاطلاعات کے مطابق، اورومیا میں بھی لڑائی جاری ہے جبکہ ٹیگرے میں تناؤ دوبارہ بڑھ رہا ہے جہاں 2020 سے 2022 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی میں تقریباً پانچ لاکھ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
'ڈبلیو ایف پی' امدادی وسائل کی کمی اور سلامتی کے مسائل کے باوجود ہر ماہ سکول کے 470,000 بچوں کو کھانا فراہم کر رہا ہے۔
ان میں 70 ہزار پناہ گزین بچے بھی شامل ہیں۔ ادارے نے خشک سالی سے متواتر متاثر ہونے والے علاقے اورومیا میں لوگوں کے روزگار کو تحفظ دینے کے اقدامات بھی کیے ہیں۔ادارے کو ملک میں 72 لاکھ لوگوں کے لیے ستمبر تک اپنی امدادی کارروائیاں جاری رکھنے کی غرض سے 22 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے۔