Daily Ausaf:
2025-07-26@01:15:28 GMT

بلوچستان کی اہمیت اور خوفناک سازشیں

اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ قدرت کی طرف سے عنائت کی گئی نعمتیں وبال جان بن جاتی ہیں۔ تیل کی دولت سے مالامال ممالک کے خلاف سامراجی طاقتوں کی سازشیں اور پھر حیلے بہانے سے وہاں کی ہنستی بستی آبادیوں کو اجاڑ کر تباہ و برباد کردینا ماضی قریب کی بات ہے۔ پاکستان کی دس سے بارہ فیصد آبادی پر مشتمل، رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا حال بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ خطہ بلوچستان کو رقبے کے تناظر میں دیکھا جائے تو بلوچستان، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، ڈنمارک، ہالینڈ، بیلجئیم اور یورپ کے کئی دیگر ترقی یافتہ ممالک سے بڑاہے ۔اس سے بڑھ کر یہ کہ بلوچستان ایک ایسی میری ٹائم ریاست (یعنی وہ ریاست کہ جن کا وسیع رقبے کے ساتھ کشادہ ساحلِ سمندر بھی ہو) ہے کہ جس کے پاس کم و بیش 950 کلومیٹر ایسا ساحل سمندر ہے جو کئی ممالک کے لیے بطور ٹرانزٹ استعمال ہونے کے کام آسکتا ہے ۔اس خطہ میں سونے، چاندی، تیل، گیس، انتہائی مہنگے ماربل، کوئلے اور مختلف دھاتوں کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔اسی وجہ سے پوری دنیا میں اس کی اہمیت و افادیت کو مانا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کا یہ اہم ترین صوبہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے صنعتکاروں و سرمایہ کاروں کی دلچسپی کا محور بھی رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں اقتصادی راہداری کے سبب اس کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ دشمن قوتوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے بلوچستان کے حوالے سے منفی سوچ پر مشتمل سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع کر دیا ہے۔ہمارا حریف پڑوسی ملک کبھی بھی نہیں چاہتا کہ سی پیک کا تاریخی منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو۔ اب بھی اس سرزمین کو استعمال کرکے پاکستان کو اندورنی طور پر غیر مستحکم کرنے کی سازشین عروج پر ہیں۔ پڑوسی ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے کئی خطرناک عزائم کے حامل افراد پکڑے گئے اور اب بھی زیر حراست ہیں۔ ان ناپاک عزائم کو شکست دینے کیلئے پاک فوج، پولیس اور سیکیورٹی ایجنسیز کے کئی جوانوں نے ملکی خود مختاری اور سالمیت کی بقاء کیلئے جام شہادت نوش کیا۔ ان سب شہداء کو پوری پاکستانی قوم خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ دو دن قبل بلوچستان کے ضلع کچھی میں 11 مارچ 2025 کو ایک المناک واقعہ پیش آیا، جب بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے عسکریت پسندوں نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کر لیا۔ اس ٹرین میں کم از کم 400 مسافر سوار تھے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ حملہ آوروں نے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑا کر ٹرین کو روک دیا اور انجن ڈرائیور کو ہلاک کر دیا۔ بعد ازاں، انہوں نے مسافروں کو یرغمال بنایا اور بلوچ سیاسی قیدیوں اور لاپتہ افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ بی ایل اے نے 48 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر مطالبات پورے نہ ہوئے تو ٹرین کو مکمل طور پر تباہ کر دیں گے اور ہر فوجی آپریشن کے بدلے 10 مغویوں کو پھانسی دیں گے ۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 155 مغویوں کو بازیاب کرایا، جن میں درجنوں خواتین اور بچے شامل تھے۔ اس آپریشن میں 27 عسکریت پسند بھی مارے گئے۔ بازیاب کیے گئے مسافروں کو قریبی قصبے مچھ منتقل کیا گیا، جہاں ان کے لیے طبی امداد کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ بلوچستان میں سیکیورٹی صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے، جہاں علیحدگی پسند گروپ طویل عرصے سے سرگرم ہیں اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کرتے رہے ہیں۔ حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ نہ صرف یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کرائیں بلکہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے بھی مؤثر اقدامات کریں۔ بلوچستان میں ٹرین پر قبضے جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ اقدامات حکومتی، فوجی اور عوامی سطح پر ہونے چاہئیں۔ خفیہ اداروں کو مزید فعال بنایا جائے تاکہ وہ ممکنہ حملوں کی پیشگی معلومات حاصل کر سکیں۔ اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ عملے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹرینوں کے راستوں پر فوج اور پولیس کی موجودگی بڑھائی جائے۔ خاص طور پر خطرناک علاقوں میں چیک پوسٹس قائم کی جائیں اور مسلح دستے تعینات کیے جائیں۔ مقامی لوگوں کو تربیت دے کر انہیں سیکیورٹی کے عمل میں شامل کیا جائے۔ وہ علاقے کی بہتر معلومات رکھتے ہیں اور مشکوک سرگرمیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ عوام کو ایسے واقعات کی اطلاع دینے کی ترغیب دی جائے۔ اس کے لیے مہم چلائی جائے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ کس طرح اپنے علاقے کی حفاظت میں مدد کر سکتے ہیں۔ ٹرینوں میں جدید سیکیورٹی سسٹم نصب کیے جائیں، جیسے کہ سی سی ٹی وی کیمرے، میٹل ڈٹیکٹرز اور سکیورٹی گارڈز۔ دہشت گردی کے خلاف قوانین کو مزید سخت کیا جائے اور ان کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ بلوچستان جیسے پسماندہ علاقوں میں معاشی ترقی کے منصوبے شروع کیے جائیں تاکہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں اور وہ دہشت گرد گروہوں میں شامل ہونے سے باز رہیں۔ان اقدامات کے ذریعے ٹرین پر قبضے جیسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکتی ہے۔
بلوچستان کی محرومیوں کے ازالے کے لیے حکومت پاکستان اور فوج کو ایک جامع اور طویل المدتی حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے عوام کو قومی سیاست میں فعال کردار دینے کے لیے مقامی قیادت کو بااختیار بنایا جائے۔ وفاقی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو بلوچ عوام کے حقیقی نمائندوں سے مذاکرات کرنے چاہئیں تاکہ ان کے تحفظات دور کیے جا سکیں۔ لاپتہ افراد کے مسئلے کو شفافیت اور انسانی حقوق کے اصولوں کے مطابق حل کیا جائے۔ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے مقامی آبادی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جائیں، نہ کہ صرف وفاقی حکومت یا بیرونی سرمایہ کاروں کے مفاد کے لیے۔سی پیک اور دیگر بڑے منصوبوں میں مقامی افراد کو روزگار کے مواقع دیے جائیں اور بلوچستان کے وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی کا مناسب حصہ صوبے کی ترقی پر خرچ کیا جائے۔قدرتی وسائل (گیس، معدنیات، گوادر بندرگاہ) پر بلوچستان کے عوام کو جائز حق دیا جائے اور رائلٹی کا نظام شفاف بنایا جائے۔ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کو جدید سہولیات سے آراستہ کیا جائے اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کیا جائے، اسپتالوں میں معیاری سہولیات فراہم کی جائیں اور دیہی علاقوں میں طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ فورسز اور سیکیورٹی ادارے عوام کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم کریں اور غیر ضروری عسکری کارروائیوں سے اجتناب کیا جائے۔ فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بلوچستان میں اعتماد سازی کے اقدامات کریں تاکہ عوام میں احساسِ تحفظ پیدا ہو۔
بلوچ ثقافت، زبان اور روایات کو قومی سطح پر تسلیم کیا جائے اور ان کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
میڈیا میں بلوچستان کے مسائل کو مثبت اور حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا جائے۔ بلوچستان کی ترقی اور اس کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ صرف تبھی ممکن ہوگا جب حکومت اور فوج ایک جامع پالیسی کے تحت مقامی آبادی کے ساتھ عزت اور برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کریں گے۔ بلوچستان کو ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کے لیے اعتماد بحال کرنا، وسائل میں شفافیت، اور عوامی مسائل کو حل کرنا ناگزیر ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بلوچستان میں اور سیکیورٹی بلوچستان کے بنایا جائے واقعات کی کیے جائیں کیا جائے جائے اور کے لیے اور ان

پڑھیں:

سلمان خان نے بالکونی میں بلٹ پروف شیشہ کیوں لگایا؟

بالی ووڈ کے دبنگ ہیرو، سلمان خان، ہمیشہ خبروں کی زینت بنے رہتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ان کی فلمیں باکس آفس پر دھوم مچاتی ہیں، وہیں ان کی ذاتی زندگی اور سیکیورٹی خدشات بھی عوامی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں سلمان خان نے اپنے گھر گلیکسی اپارٹمنٹس میں ایک نیا بلٹ پروف شیشہ نصب کروایا ہے، جس نے ان کے مداحوں اور میڈیا میں ہلچل مچا دی ہے۔

سلمان خان کے سیکیورٹی اقدامات میں اضافہ کیوں؟
1. گولیاں چلنے کا واقعہ

گزشتہ سال سلمان خان کے باندرہ واقع گھر پر نامعلوم افراد کی جانب سے گولیاں چلائی گئیں، جس کے بعد ان کی سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی۔ یہ واقعہ ان کے خاندان کے لیے بھی تشویش کا باعث بنا اور پولیس نے فوری تحقیقات کا آغاز کیا۔

2. مداحوں کا رش اور بالکونی میں خلل

سلمان خان کے گھر کے باہر مداحوں کا ہجوم روز کا معمول ہے۔ وہ اکثر بالکونی میں آ کر مداحوں کو ہاتھ ہلا کر سلام کرتے تھے، لیکن اب وہ بلٹ پروف شیشے کے پیچھے سے مداحوں کو جواب دیتے ہیں۔

3. بغیر اجازت افراد کا داخل ہونا

سلمان خان نے خود انکشاف کیا کہ کئی بار اجنبی افراد ان کی بالکونی میں سوئے ہوئے پائے گئے۔ یہ سیکیورٹی کے لحاظ سے خطرناک بات ہے، جس کے بعد انہیں حفاظتی اقدامات میں اضافہ کرنا پڑا۔

جان سے مارنے کی دھمکیاں: ایک سنگین خطرہ
4. واٹس ایپ پر بم دھماکے کی دھمکی

چند ماہ قبل سلمان خان کو ایک واٹس ایپ پیغام موصول ہوا جس میں ان کی گاڑی میں بم رکھ کر جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزم کا سراغ گجرات کے شہر وڈودرا سے لگا لیا۔

5. لارنس بشنوئی اور کالا ہرن کا کیس

مشہور گینگسٹر لارنس بشنوئی نے سلمان خان کو اپنے نشانے پر لیا، جس کی بنیادی وجہ 1998 میں پیش آنے والا کالا ہرن شکار کیس ہے۔ بشنوئی برادری اس جانور کو مقدس مانتی ہے، اور اسی وجہ سے سلمان کی جان خطرے میں سمجھی جا رہی ہے۔

سلمان خان کے تحفظ کے لیے اہم اقدامات
بلٹ پروف بالکونی شیشہ
سیکیورٹی گارڈز کی تعداد میں اضافہ
خصوصی پولیس ٹیم کی تعیناتی
بم پروف گاڑی کا استعمال
گھر کے ارد گرد جدید نگرانی نظام (CCTV)

سلمان خان کے سیکیورٹی خدشات پر عوامی ردعمل

مداحوں کا ردعمل ملا جلا رہا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ:

“سلمان خان ایک قومی اثاثہ ہیں، ان کی حفاظت ضروری ہے۔”
“مداحوں سے دوری ان کے دلوں کو توڑ رہی ہے، لیکن جان عزیز ہے۔”
“یہ اقدامات بہت پہلے ہونے چاہیے تھے۔”

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • کھانے کے تیل میں ناجائز منافع خوری کا خوفناک اسکینڈل، صارفین سے 150 روپے فی لیٹر زیادہ وصولی
  • سینٹ: تحفظ مخبر کمشن کے قیام، نیوی آرڈیننس ترمیمی بلز، بلوچستان قتل واقعہ کیخلاف قرارداد منظور
  • اٹلی میں بھارتی سپر اسٹار کی ریسنگ کار کو خوفناک حادثہ؛ بال بال بچ گئے
  • انتظامی افسران کو قیام امن کے لیے ‘فری ہینڈ’ دیتے ہیں، جرائم پیشہ عناصر کا ملکر خاتمہ کریں، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • بلوچستان حکومت کے نوجوان پائلٹس کے تربیتی پروجیکٹ میں اہم پیشرفت
  • ریاست سے ناراضی کا مطلب یہ نہیں کہ ہتھیار اٹھا لئے جائیں، سرفراز بگٹی
  • جنگلی حیات کی اہمیت و افادیت اجاگر کرنے کے لیے آگاہی مہم جاری
  • ایم آر آئی مشین کا خوفناک حادثہ، گلے میں پہنی چین نے امریکی کی جان لے لی
  • سلمان خان نے بالکونی میں بلٹ پروف شیشہ کیوں لگایا؟
  • کراچی، کباڑ کے بڑے گودام میں خوفناک آگ بھڑک اُٹھی