بلوچستان کی اہمیت اور خوفناک سازشیں
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ قدرت کی طرف سے عنائت کی گئی نعمتیں وبال جان بن جاتی ہیں۔ تیل کی دولت سے مالامال ممالک کے خلاف سامراجی طاقتوں کی سازشیں اور پھر حیلے بہانے سے وہاں کی ہنستی بستی آبادیوں کو اجاڑ کر تباہ و برباد کردینا ماضی قریب کی بات ہے۔ پاکستان کی دس سے بارہ فیصد آبادی پر مشتمل، رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا حال بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ خطہ بلوچستان کو رقبے کے تناظر میں دیکھا جائے تو بلوچستان، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، ڈنمارک، ہالینڈ، بیلجئیم اور یورپ کے کئی دیگر ترقی یافتہ ممالک سے بڑاہے ۔اس سے بڑھ کر یہ کہ بلوچستان ایک ایسی میری ٹائم ریاست (یعنی وہ ریاست کہ جن کا وسیع رقبے کے ساتھ کشادہ ساحلِ سمندر بھی ہو) ہے کہ جس کے پاس کم و بیش 950 کلومیٹر ایسا ساحل سمندر ہے جو کئی ممالک کے لیے بطور ٹرانزٹ استعمال ہونے کے کام آسکتا ہے ۔اس خطہ میں سونے، چاندی، تیل، گیس، انتہائی مہنگے ماربل، کوئلے اور مختلف دھاتوں کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔اسی وجہ سے پوری دنیا میں اس کی اہمیت و افادیت کو مانا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کا یہ اہم ترین صوبہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے صنعتکاروں و سرمایہ کاروں کی دلچسپی کا محور بھی رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں اقتصادی راہداری کے سبب اس کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ دشمن قوتوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے بلوچستان کے حوالے سے منفی سوچ پر مشتمل سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع کر دیا ہے۔ہمارا حریف پڑوسی ملک کبھی بھی نہیں چاہتا کہ سی پیک کا تاریخی منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو۔ اب بھی اس سرزمین کو استعمال کرکے پاکستان کو اندورنی طور پر غیر مستحکم کرنے کی سازشین عروج پر ہیں۔ پڑوسی ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے کئی خطرناک عزائم کے حامل افراد پکڑے گئے اور اب بھی زیر حراست ہیں۔ ان ناپاک عزائم کو شکست دینے کیلئے پاک فوج، پولیس اور سیکیورٹی ایجنسیز کے کئی جوانوں نے ملکی خود مختاری اور سالمیت کی بقاء کیلئے جام شہادت نوش کیا۔ ان سب شہداء کو پوری پاکستانی قوم خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ دو دن قبل بلوچستان کے ضلع کچھی میں 11 مارچ 2025 کو ایک المناک واقعہ پیش آیا، جب بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے عسکریت پسندوں نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کر لیا۔ اس ٹرین میں کم از کم 400 مسافر سوار تھے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ حملہ آوروں نے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑا کر ٹرین کو روک دیا اور انجن ڈرائیور کو ہلاک کر دیا۔ بعد ازاں، انہوں نے مسافروں کو یرغمال بنایا اور بلوچ سیاسی قیدیوں اور لاپتہ افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ بی ایل اے نے 48 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر مطالبات پورے نہ ہوئے تو ٹرین کو مکمل طور پر تباہ کر دیں گے اور ہر فوجی آپریشن کے بدلے 10 مغویوں کو پھانسی دیں گے ۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 155 مغویوں کو بازیاب کرایا، جن میں درجنوں خواتین اور بچے شامل تھے۔ اس آپریشن میں 27 عسکریت پسند بھی مارے گئے۔ بازیاب کیے گئے مسافروں کو قریبی قصبے مچھ منتقل کیا گیا، جہاں ان کے لیے طبی امداد کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ بلوچستان میں سیکیورٹی صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے، جہاں علیحدگی پسند گروپ طویل عرصے سے سرگرم ہیں اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کرتے رہے ہیں۔ حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ نہ صرف یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کرائیں بلکہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے بھی مؤثر اقدامات کریں۔ بلوچستان میں ٹرین پر قبضے جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ اقدامات حکومتی، فوجی اور عوامی سطح پر ہونے چاہئیں۔ خفیہ اداروں کو مزید فعال بنایا جائے تاکہ وہ ممکنہ حملوں کی پیشگی معلومات حاصل کر سکیں۔ اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ عملے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹرینوں کے راستوں پر فوج اور پولیس کی موجودگی بڑھائی جائے۔ خاص طور پر خطرناک علاقوں میں چیک پوسٹس قائم کی جائیں اور مسلح دستے تعینات کیے جائیں۔ مقامی لوگوں کو تربیت دے کر انہیں سیکیورٹی کے عمل میں شامل کیا جائے۔ وہ علاقے کی بہتر معلومات رکھتے ہیں اور مشکوک سرگرمیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ عوام کو ایسے واقعات کی اطلاع دینے کی ترغیب دی جائے۔ اس کے لیے مہم چلائی جائے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ کس طرح اپنے علاقے کی حفاظت میں مدد کر سکتے ہیں۔ ٹرینوں میں جدید سیکیورٹی سسٹم نصب کیے جائیں، جیسے کہ سی سی ٹی وی کیمرے، میٹل ڈٹیکٹرز اور سکیورٹی گارڈز۔ دہشت گردی کے خلاف قوانین کو مزید سخت کیا جائے اور ان کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ بلوچستان جیسے پسماندہ علاقوں میں معاشی ترقی کے منصوبے شروع کیے جائیں تاکہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں اور وہ دہشت گرد گروہوں میں شامل ہونے سے باز رہیں۔ان اقدامات کے ذریعے ٹرین پر قبضے جیسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکتی ہے۔
بلوچستان کی محرومیوں کے ازالے کے لیے حکومت پاکستان اور فوج کو ایک جامع اور طویل المدتی حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے عوام کو قومی سیاست میں فعال کردار دینے کے لیے مقامی قیادت کو بااختیار بنایا جائے۔ وفاقی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو بلوچ عوام کے حقیقی نمائندوں سے مذاکرات کرنے چاہئیں تاکہ ان کے تحفظات دور کیے جا سکیں۔ لاپتہ افراد کے مسئلے کو شفافیت اور انسانی حقوق کے اصولوں کے مطابق حل کیا جائے۔ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے مقامی آبادی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جائیں، نہ کہ صرف وفاقی حکومت یا بیرونی سرمایہ کاروں کے مفاد کے لیے۔سی پیک اور دیگر بڑے منصوبوں میں مقامی افراد کو روزگار کے مواقع دیے جائیں اور بلوچستان کے وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی کا مناسب حصہ صوبے کی ترقی پر خرچ کیا جائے۔قدرتی وسائل (گیس، معدنیات، گوادر بندرگاہ) پر بلوچستان کے عوام کو جائز حق دیا جائے اور رائلٹی کا نظام شفاف بنایا جائے۔ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کو جدید سہولیات سے آراستہ کیا جائے اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کیا جائے، اسپتالوں میں معیاری سہولیات فراہم کی جائیں اور دیہی علاقوں میں طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ فورسز اور سیکیورٹی ادارے عوام کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم کریں اور غیر ضروری عسکری کارروائیوں سے اجتناب کیا جائے۔ فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بلوچستان میں اعتماد سازی کے اقدامات کریں تاکہ عوام میں احساسِ تحفظ پیدا ہو۔
بلوچ ثقافت، زبان اور روایات کو قومی سطح پر تسلیم کیا جائے اور ان کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
میڈیا میں بلوچستان کے مسائل کو مثبت اور حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا جائے۔ بلوچستان کی ترقی اور اس کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ صرف تبھی ممکن ہوگا جب حکومت اور فوج ایک جامع پالیسی کے تحت مقامی آبادی کے ساتھ عزت اور برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کریں گے۔ بلوچستان کو ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کے لیے اعتماد بحال کرنا، وسائل میں شفافیت، اور عوامی مسائل کو حل کرنا ناگزیر ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بلوچستان میں اور سیکیورٹی بلوچستان کے بنایا جائے واقعات کی کیے جائیں کیا جائے جائے اور کے لیے اور ان
پڑھیں:
قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔
آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔
دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔
کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔
جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔
سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔
ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔
آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔
آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔
اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔
ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔
قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔
کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور 'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔
ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘
یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔