پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی عمران کشور نے استعفی کیوں دیا ؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
جب بانی پی ٹی آئی عمران خان کو زمان پارک سے گرفتار کیا گیا تھا، اس وقت ڈی آئی جی عمران کشور اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے عمران خان کے گھر پہلے پہنچ کر چھاپہ مارا تھا۔ بعد ازاں عمران کشور نے اڈیالہ جیل میں جاکر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی سے بھی سانحہ 9 مئی کے کیسز میں تفتیش کی تھی اور کیس کا چالان عدالت میں بھجوایا تھا۔
گزشتہ روز ڈی آئی جی عمران کشور کی جانب سے استعفی دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے ’ پولیس سروس آف پاکستان سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ میں نے اپنے حلف کی پاسداری غیر متزلزل عزم کے ساتھ کی اور کئی بار ذاتی قیمت چکائی۔ میں ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہوں جہاں میری مزید خدمات ممکن نہیں۔
مستعفی ڈی آئی جی نے مزید لکھا ہے کہ تاریخ گواہ رہے کہ میں نے عزت کے ساتھ خدمات سرانجام دی ہیں۔میں خاموشی سے مزید خدمت نہیں کروں گا۔ براہ کرم میرا استعفیٰ قبول کریں۔
استعفیٰ دینے کی وجہ کیا ہے ؟
عمران کشور کا تعلق پولیس سروس کے 33 ویں کامن سے ہے۔ ایس ایس پی عمران کشور پے سکیل پر ڈی آئی جی انویسٹی گیشن، ڈی آئی جی او سی یو لاہور بھی تعینات رہ چکے ہیں۔ ڈی پی او قصور، شیخوپورہ اور نارووال بھی رہے۔ انہی پے سکیل پر ڈی آئی جی ایڈمن لاہور تعینات تھے۔ جناح ہاؤس حملہ کیس میں جے آئی ٹی کے سربراہ تھے۔ انہوں نے اپنی سربراہی میں تفتیشی افسروں سے تھانہ سرور روڈ مقدمہ میں ملزموں کے چالان بھی عدالتوں میں جمع کروائے تھے جس پر آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ نے ان کی کارکردگی کو سراہا تھا۔ ذرائع کے مطابق ڈی آئی جی ایڈمن کا عمران کشور کے پاس ایڈیشنل چارج تھا تاہم وہ اب بھی ایس ایس پی رینک میں ہی کام کر رہے تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ روز سینٹرل سلیکشن بورڈ کی میٹنگ ہوئی جس میں پاکستان پولیس سروس پاکستان کے 17 افسروں کی گریڈ 21 اور 32 افسروں کو گریڈ20میں پروموٹ کیا گیا۔ اس پروموشن لسٹ میں عمران کشور کا نام بھی شامل تھا لیکن پروموشن بورڈ میں ان کے خلاف کمنٹس بھیجے گئے جس پر انہیں ترقی نہ دی گئی۔ اس لیے دلبرداشتہ ہو کر وہ مستعفی ہوگئے۔
پولیس ذرائع کے مطابق عمران کشور کے جونئیر 2 افسران کو گریڈ 19 سے 20 میں ترقی دی گئی جو ڈی آئی جی بن گئے لیکن ان کو پروموٹ نہیں کیا گیا۔ ڈی آئی جی عمران کشور کو پچھلے سال بھی پروموٹ کرنا تھا لیکن ان کو پروموٹ نہیں کیا گیا۔ اس دفعہ بھی ان کو ڈی آئی جی کی پوسٹ کے لیے نظر انداز کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
ذرائع نے بتایا کہ اس وقت عمران کشور ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ انہوں نے استعفیٰ دینے کے بعد اب تک کسی سے بات نہیں کی۔ ان کا نمبر بھی بند ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس گریڈ 21 میں ترقی پانے والوں میں پرنسپل سیکرٹری وزیر اعلیٰ پنجاب ساجد ظفر ڈال، کیپٹن ریٹائرڈ مشتاق احمد، یاور حسین، جاوید اختر شامل ہیں۔
گریڈ 20 میں ترقی پانے والوں میں کلثوم حئی، صائمہ احد، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن، کیپٹن ریٹائرڈ فرید الدین سمیت دیگر افسران بھی شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب پولیس ڈی آئی جی عمران کشور.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پنجاب پولیس ڈی ا ئی جی عمران کشور ڈی آئی جی عمران کشور کیا گیا
پڑھیں:
ریاست کو شہریوں کی جان بچانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہو گا: لاہور ہائیکورٹ
لاہور (خبر نگار) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواستگزار کو فوری طور پر پولیس پروٹیکشن دینے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو اسے پولیس پروٹیکشن اس کا حق ہے۔ 10صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین میں شہریوں کی جان کا تخفظ مشروط نہیں بلکہ اسے ہر قیمت پر بچانا ہے۔ قرآن پاک میں بھی ہے کہ جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ ریاست کو اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہوگا۔ درخواست گزار کے مطابق وہ قتل کے متعدد کیسز میں بطور گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کا سٹار گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق مقدمے میں نامزد ایک ملزم کا پولیس مقابلہ ہو گیا، مقتول کی فیملی اسے دھمکیاں دے رہی ہے۔ آئی جی پنجاب نے رپورٹ جمع کرائی کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے درخواستگزار کو دو پرائیوٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی، ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کی تحت پولیس پروٹیکشن کی 16مختلف کیٹگریز بنائی گئی ہیں، جن میں وزیر اعظم، چیف جسٹس، چیف جسٹس ہائیکورٹ، بیوروکریٹس سمیت دیگر شامل ہیں، پالیسی کے پیرا چار میں معروف شخصیات کو پولیس پروٹیکشن دینے کا ذکر ہے۔ آئی جی پولیس مستند رپورٹ پر 30 روز تک پولیس پروٹیکشن دے سکتا ہے، غیر ملکیوں اور اہم شخصیات کو سکیورٹی دینے کیلئے پنجاب سپشل پروٹیکشنز یونٹ ایکٹ 2016 لایا گیا۔ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، آرٹیکل 4 کے تحت ہر پولیس افسر پر شہریوں کے تحفظ کی قانونی ذمہ داری عائد ہے، اضافی پولیس کی تعیناتی صوبائی پولیس افسر کی منظوری سے مشروط ہوگی۔ درخواست گزار کاروباری ہونے کے ناطے سنگین دھمکیوں کے پیش نظر پولیس تحفظ کا حق رکھتا تھا، ایف آئی آرز میں گواہ ہونے کے باعث اسے پنجاب وِٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت بھی تحفظ دیا جا سکتا تھا، پنجاب کے تمام قوانین اور پالیسیز شہری کے تحفظ کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔ درخواست گزار کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب ہے۔ پولیس کسی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے۔ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے، حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔