بھارت میں اب مساجد کو ڈھانپنے کی نوبت آگئی ہے، سنجے راوت
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ نے بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمیں تنگ نظری کیطرف دھکیلا جا رہا ہے اور ایک مخصوص گروہ ہمیں مذہب کے نام پر تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آج پورے بھارت میں ہولی کا تہوار منایا گیا ہے۔ اس دوران شیو سینا کے رکن پارلیمنٹ سنجے راوت نے کہا کہ ہولی ایک ایسا تہوار ہے، جس میں سبھی لوگ مل کر رنگ کھیلتے ہیں لیکن آج ملک اور مہاراشٹر میں کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کہیں مساجد کو ڈھانپنے کی نوبت آرہی ہے، کہیں ایک طرف نماز پڑھی جاتی ہے تو دوسری طرف اسکے مقابلے میں ہولی کھیلی جارہی ہے۔ رکن پارلیمنٹ سنجے راوت نے کہا کہ ہم بہت تنگ نظری کی طرف جارہے ہیں اور یہ تنگ نظری ملک، سماج، معاشرہ اور ہندو مذہب کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں ہماری تصویر ایک آزاد خیال اور روادار مذہب کی ہے، اسی لئے دنیا میں ہندو مذہب کا احترام کیا جاتا ہے، ہم اپنے مذہب کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی ثقافت میں سب کو قبول کرتے ہیں، لیکن گزشتہ 10 برسوں میں یہاں ہماری ثقافت کی آزادی چھین لی گئی ہے۔
شیوسینا کے لیڈر سنجے راوت نے بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمیں تنگ نظری کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور ایک مخصوص گروہ ہمیں مذہب کے نام پر تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے ہولی کے موقع پر کہا کہ ہم کسی کو بھی مخالف نہیں مانتے، آج ہولی اور رنگ کا ایک اہم تہوار ہے۔ کئی سالوں سے یہ تہوار سبھی مل کر مناتے آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا "میں حال ہی میں دہلی میں تھا، جہاں پہلے مرلی منوہر جوشی، لال کرشن اڈوانی اور اٹل بہاری واجپئی جیسے لیڈر اپنے گھروں میں ہولی مناتے تھے، سبھی سیاسی پارٹیوں اور مذاہب کے لوگ اس میں شامل ہوتے تھے، لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے یہ روایت بند ہوگئی ہے"۔ پبلک سیکورٹی ایکٹ کے بارے میں سنجے راوت نے کہا کہ ہم اظہار رائے کی آزادی کے لئے آواز اٹھائیں گے۔
سنجے راوت نے کہا کہ ہم جیسے لوگ ہمیشہ اس لڑائی میں شامل رہے ہیں، ایمرجنسی کے خلاف لڑنے والے آج 26 جنوری کو یوم سیاہ کیوں مناتے ہیں، اگر آپ نے ہمارے حقوق اور آزادی کو سلب کیا تو اس ملک کی عوام خاموش نہیں رہیں گے۔ انہوں نے بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا "آپ مذہب کے نام پر نشہ دے کر ہماری آزادی پر حملہ نہیں کرسکتے"۔ سنجے راوت نے کہا کہ اگر حکومت کو لگتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کھڑا نہیں ہوگا، تو ہم کھڑے ہیں اور لاکھوں لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کی تاناشاہی کے خلاف مضبوطی سے لڑیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا نے کہا کہ ہم کہا کہ ا مذہب کے
پڑھیں:
شرح سود برقرار رکھنا معیشت کیلیے رکاوٹ ہے ،سید امان شاہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-3
کوئٹہ(کامرس ڈیسک )عوام پاکستان پارٹی بلوچستان کے صوبائی کنوینئر سید امان شاہ نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ غیر موزوں اور عوام کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے کے لیے بھی مایوس کن ہے۔ اپنے جاری کردہ بیان میں انہوں نے کہا کہ جب مہنگائی کی رفتار کم ہو رہی ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابو میں ہے اور کاروباری سرگرمیوں کو سہارا دینے کی اشد ضرورت ہے، ایسے میں شرح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنا ملکی معیشت اور ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بلند شرح سود کی وجہ سے کاروباری قرضے مہنگے ہو گئے ہیں، جس کے نتیجے میں خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs) شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ مالی بوجھ بڑھنے سے نئی سرمایہ کاری رک جاتی ہے اور روزگار کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ہاؤسنگ، گاڑیاں اور دیگر ضروریات کے لیے قرضوں میں نمایاں کمی واقع ہو چکی ہے، جس نے معیشت کے مختلف شعبوں پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔ سید امان شاہ نے مزید کہا کہ بینکوں کی جانب سے حکومتی بانڈز میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی جا رہی ہے جبکہ نجی شعبہ قرضوں کے حصول سے محروم رہ گیا ہے، جس سے کاروباری ماحول مزید کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسٹیٹ بینک اور معاشی پالیسی ساز فوری طور پر شرح سود میں کمی کریں، تاکہ کاروبار اور سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔ مانیٹری اور فِسکل پالیسی میں ہم آہنگی پیدا کی جائے تاکہ معیشت کو متوازن ترقی مل سکے۔SMEsاور نوجوان کاروباری افراد کے لیے رعایتی قرض اسکیمیں متعارف کروائی جائیں اور عام صارفین کے لیے بینک فنانسنگ کو سہل اور قابلِ رسائی بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ وقت محض احتیاط کا نہیں بلکہ جرات مندانہ اور دوراندیش فیصلوں کا ہے۔ اگر معیشت کو سانس لینے کا موقع نہ دیا گیا تو ملک طویل جمود کا شکار ہو سکتا ہے۔ سید امان شاہ نے اعلان کیا کہ وہ جلد معاشی ماہرین، کاروباری شخصیات اور صارفین کی نمائندہ تنظیموں کے ساتھ مشاورت کے بعد ایک جامع معاشی سفارشات پیکیج تیار کریں گے تاکہ پالیسی سازوں کے سامنے عوامی آواز مؤثر انداز میں پیش کی جا سکے۔