UrduPoint:
2025-11-12@02:06:42 GMT

سرسید کی مغل سلطنت سے محبت

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

سرسید کی مغل سلطنت سے محبت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 مارچ 2025ء) تاریخ کا یہ دستور رہا ہے کہ ہر شاہی خاندان اپنے عروج کے زمانے میں اپنی طاقت اور شان و شوکت کے اِظہار کے لیے محلات، مقبرے، قلعے، عبادت گاہیں، دروازے اور مینار تعمیر کراتا تھا۔ مُغل حکمرانوں کے پاس لگان، ٹیکسوں اور مالِ غنیمت کے ذریعے بڑی دولت اکٹھی ہو گئی تھی۔ اِس دولت کے ذریعے اُںہوں نے اپنی سلطنت میں شاندار عمارات تعمیر کیں۔

تاج محل کی تعمیر بھی اسی کے عہد میں ہوئی۔ جب مغل خاندان کا زوال شروع ہوا تو وہ اِن عمارتوں کو اُن کی اصلی حالت میں نہ رکھ سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ عمارتیں خستہ ہو کر کھنڈرات بنتی رہیں۔ مُغل خاندان کی شان و شوکت اِن کھنڈرات میں گُم ہو گئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے مُغل دربار اِن کی حکومت کے لیے جائز ہو گیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر سرسید احمد خان نے تحریروں کے ذریعے مُغل دور کے کارناموں اور عروج کو بیان کرنے کا فیصلہ کیا۔

سرسید احمد خان کا تعلق دہلی کی اشرافیہ سے تھا اور اِن کے تعلقات مغل خاندان سے تھے۔ اس موقع پر اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خاص طور سے دہلی میں مُغل دور کی عمارتوں کی تعریف لکھ کر اپنی تحریروں میں اِن کے اصلی خدوخال اُجاگر کریں گے۔ اس منصوبے کو پورا کرنے کے لیے اُںہوں نے دہلی کی عمارتوں کا تحقیقی جائزہ لیا۔ اگرچہ وہ ماہر تعمیرات تو نہیں تھے مگر اُںہوں نے ایک ایک کر کے ان عمارتوں پر لکھی ہوئی تحریر اور اُن کے نقش و نگار کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔

بعض اوقات وہ عمارت کی بلندی پر جا کر اُس پر لِکھے گئے کتبے کی نقل کرتے تھے۔ نیچے اِن کے دوست امام بخش صحبائی ڈرتے تھے کہ سرسید احمد خان کہیں گِر نہ پڑیں۔ سرسید احمد خان نے اپنے منصوبے کو پورا کرنے کے بعد آثارُالصنادیر لکھی، جس نے یہ ثابت کیا کہ مغلیہ عہد تہذیب و کلچر میں اعلیٰ مقام حاصل کیے ہوئے تھے۔ فن معماری میں ماہرِ معمار، ہُنرمند اور رنگین نقش و نگار بنانے والے تھے۔

یہ اُسی وقت ممکن تھا کہ جب یہ ماہرین علمِ ریاضی اور جیومیٹری سے واقف ہوں۔ سرسید احمد خان کی تحریروں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین کو بھی مُغل خاندان کے بارے میں ایک نیا نقطۂ نظر دیا۔

سرسید احمد خان کا دوسرا اہم کام عہد اکبری کے درباری مؤرخ ابوالفضل کی کتاب آئین اکبری کی ترتیب و تدوین تھی۔ اِس کتاب میں ابوالفضل نے اکبر کے عہد کے اُن شعبوں کا ذکر کیا ہے، جنہیں اکبر نے قائم کیا تھا اور ہر شعبے کے انتظام کے لیے ملازمین کے مُختلف فرائض تھے، جن میں جانوروں کی دیکھ بھال، کیمپ کے انتظامات، فوج، فراش خانہ، باورچی خانہ، ملبوسات کی دیکھ بھال کرنے والا۔

کُتب خانہ اور دوسرے کئی شعبے ہیں۔ مثلاً آبدار خانے کے بارے میں لِکھا ہے، ''جہاں پناہ اس سرچشمہ زندگی کو آبِ حیات فرماتے ہیں۔ بادشاہ نے اس محکمے کا انتظام بیدار مغز اہل کاروں کے سپرد فرمایا ہے۔ قبلہ عالم خود زیادہ پانی نہیں پیتے لیکن سررشتہ آپ ہر وقت خاص توجہ فرماتے ہیں۔ بادشاہ سَفر و حضر ہر وقت گنگا کا پانی نوش فرماتے ہیں۔

(اُردو ترجمہ مولوی محمد فدا علی۔ آئین اکبری)۔

ابوالفضل نے خوشبو خانے کے بارے میں بہت دلچسپ لکھا ہے، ''جہاں پناہ جن کی گرامی ذات بزم سلطنت کی صدر ہے۔ خوشبو کو بےحد پسند فرماتے ہیں اور عزیز رکھتے ہیں۔ قبل عالم بوئے خوش کو خدا کی پرستش کا وسیلہ خیال فرماتے ہیں‘‘۔ (ترجمہ مولوی محمد فدا علی۔ آئین اکبری)۔

ابوالفضل نے شاہی کتب خانے کا ذکر کرتے ہوئے اس میں کام کرنے والے خوش نویسوں، مصوّروں اور جِلد بنانے والوں کا بھی حوالہ دیا ہے۔

تصویر خانے کے بارے میں اُس کا کہنا ہے، ''تصویر کَشی کی بہترین قِسم خطاطی ہے۔ جہاں پناہ اس پر خاص توجہ فرماتے ہیں اور ظاہر و باطن ہر شعبے میں دُوربینی سے کام لیتے ہیں۔ (ترجمہ مولوی محمد فدا علی۔ آئین اکبری)۔

سرسید احمد خان نے آئین اکبری کا پیش لفظ غالب سے لکھوایا تھا۔ غالب نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا کہ اب پرانے آئین کی ضرورت نہیں اب نئے آئین پر لکھو۔

درحقیقیت سرسید کا مقصد ان دونوں کتابوں کی اشاعت سے یہ تھا کہ برطانوی حکومت کو یہ احساس دِلوایا جائے کہ ہندوستان تہذیبی طور پر پسماندہ نہیں تھا۔ اس کا طرزِ حکومت اور انتظام سلطنت مُلک میں امن و امن کو برقرار رکھے ہوئے تھا۔

بعد میں برطانوی حکومت کو خیال آیا کہ آئین اکبری کا انگریزی ترجمہ ہونا چاہیے یہ انگریزی ترجمہ شائع ہوا اور کمپنی کے اَفسروں نے اس کا مطالعہ کیا تا کہ اس کی مدد سے وہ ہندوستان کے معاملات کو سمجھ سکیں۔

اِن دونوں کتابوں سے سرسید کی مُغل سلطنت سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ برطانوی حکومت کی تعریف کرتے تھے مگر مُغل دَور کی کمتری کا احساس نہیں تھا۔ اُن کی یہ دونوں کتابیں مُغل تاریخ کا اہم ماخِذ ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ا ئین اکبری کے بارے میں فرماتے ہیں کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ سے  شامی صدر احمد الشرع کی ملاقات، مشرق وسطیٰ کے لیے نیا اشارہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکا اور شام کے درمیان برسوں سے جمی برف پگھلنے لگی ہے۔

شامی صدر احمد الشرع نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی، جو نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک نئی سمت کا اشارہ قرار دی جا رہی ہے۔

عرب میڈیا کے مطابق ملاقات میں دوطرفہ تعلقات، علاقائی امن، اور بین الاقوامی معاملات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے گفتگو کے دوران احمد الشرع کی عملیت پسندی اور اصلاحاتی وژن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مجھے شامی صدر پسند آئے اور ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ شام کامیاب ہو کیونکہ یہ مشرقِ وسطیٰ کا اہم حصہ ہے۔

ملاقات کے چند گھنٹے بعد ہی امریکی محکمۂ خزانہ نے ایک غیر متوقع اعلان کیا، جس کے تحت سیزر سیریا ایکٹ کے تحت شام پر عائد اقتصادی پابندیاں چھ ماہ کے لیے عارضی طور پر ختم کر دی گئیں۔ یہ فیصلہ خطے میں استحکام کی کوششوں اور شام کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ایک اہم موڑ سمجھا جا رہا ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ کے بیان کے مطابق یہ فیصلہ شام کے شہریوں کے لیے معاشی مواقع بڑھانے، انسانی ترقی کو فروغ دینے اور تعمیرِ نو کے عمل کو آسان بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ اقدام اعتماد سازی کے عمل کا حصہ ہے، جس کے تحت امریکا شام کے ساتھ محدود سطح پر تعاون کے دروازے کھولنے پر غور کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ سیزر سیریا سویلین پروٹیکشن ایکٹ 2019 میں منظور کیا گیا تھا، جس کا مقصد سابقہ شامی حکومت اور فوج پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کریں۔ اس قانون کے تحت امریکی کمپنیوں اور شہریوں کو شام کی حکومت یا فوج سے کاروباری روابط رکھنے سے مکمل طور پر روک دیا گیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں سال جون میں بھی واشنگٹن نے انسانی بنیادوں پر شام پر عائد کچھ تجارتی پابندیاں نرم کی تھیں، مگر سیزر ایکٹ بدستور نافذ العمل تھا، تاہم، اب اس کے جزوی خاتمے نے شام کے لیے اقتصادی بحالی کی نئی امید پیدا کر دی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق ٹرمپ اور الشرع کی ملاقات ایک علامتی مگر اہم موڑ ہے۔ ایک طرف امریکا اپنے اقتصادی مفادات اور مشرقِ وسطیٰ میں اثر و رسوخ کی بحالی چاہتا ہے جبکہ دوسری طرف شام عالمی تنہائی سے نکلنے کی راہ پر گامزن ہے۔

اُدھر مشرقِ وسطیٰ میں کئی حلقے اس پیش رفت کو امریکا کی نئی عملی پالیسی قرار دے رہے ہیں، مگر فلسطینی اور عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کا یہ قدم وقتی اور سیاسی مفاد کے تحت ہے، کیونکہ واشنگٹن کبھی بھی شام، فلسطین یا کسی عرب ملک کے حقیقی مفاد میں دیرپا قدم نہیں اٹھاتا۔

متعلقہ مضامین

  • سر سید روڈ سے کروڑوں روپے کا نان کسٹم پیڈ کپڑا بر آمد ، 5اسمگلرزگرفتار
  • ٹرمپ سے  شامی صدر احمد الشرع کی ملاقات، مشرق وسطیٰ کے لیے نیا اشارہ
  • نفرت اور محبت
  • جے یو آئی نے27 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر سینیٹر احمد خان کو پارٹی سے نکال دیا
  • جے یو آئی کا سینیٹر احمد خان کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان
  • پی ٹی آئی سینیٹر سیف اللّٰہ ابڑو اور جے یو آئی کے سینیٹر احمد خان نے 27ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا
  • آئمہ بیگ سے شادی کے 3 ماہ بعد ہی علیحدگی، زین احمد نے تصاویر ڈیلیٹ کر دیں
  • سابق ایم این اے  جسٹس (ر) افتخار چیمہ سپردخاک
  • سابق ایم این اے جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ کی نمازجنازہ ادا
  • ایس آئی اے نے سات کشمیریوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کر دی