نیپال میں ’جنریشن زی‘ سڑکوں پر کیوں نکلی؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما اولی نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے، یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب بدعنوانی کے خلاف جاری احتجاج کے دوران پولیس جھڑپوں میں کم از کم 22 افراد ہلاک ہوگئے۔
وزیراعظم کے دفتر کے مطابق، استعفیٰ اس لیے دیا گیا تاکہ موجودہ بحران کا آئینی حل نکالا جاسکے۔
سوشل میڈیا پابندی اور احتجاج کا آغاز
احتجاج کا آغاز اس وقت ہوا جب حکومت نے 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جن میں فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ شامل ہیں، پر پابندی عائد کردی۔
ناقدین کے مطابق یہ اقدام نوجوانوں کی بدعنوانی مخالف تحریک کو دبانے کی کوشش تھی، اگرچہ حکومت نے پیر کی رات یہ پابندی ختم کردی تھی لیکن احتجاج مزید شدت اختیار کرگیا۔
پرتشدد مظاہرے
کٹھمنڈو سمیت کئی شہروں میں ہزاروں نوجوان، جو خود کو ’جنریشن زی‘ قرار دیتے ہیں، سڑکوں پر نکل آئے، پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، لاٹھی چارج، پانی کی توپیں اور براہِ راست فائرنگ کی۔
منگل کو مشتعل مظاہرین نے پارلیمنٹ اور نیپالی کانگریس پارٹی کے ہیڈکوارٹر کو آگ لگا دی جبکہ سابق وزیراعظم شیر بہادر دیوبا سمیت کئی سیاست دانوں کے گھروں پر بھی حملے کیے گئے۔
ہلاکتیں اور زخمی
بی بی سی نیپالی کے مطابق اب تک کم از کم 22 افراد ہلاک جبکہ تقریباً 200 زخمی ہوئے ہیں۔ اسپتالوں میں گولیوں اور ربڑ کی گولیوں سے زخمی ہونے والے نوجوانوں کا علاج جاری ہے۔ پولیس اہلکار بھی جھڑپوں میں زخمی ہوئے ہیں۔
فوج کا کردار
نیپالی فوج کے سربراہ جنرل اشوک راج سگڈیل نے کہا ہے کہ مظاہرین بحران کا فائدہ اٹھا کر سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر حالات قابو میں نہ آئے تو فوج کارروائی کرے گی، تاہم ساتھ ہی مذاکرات کی بھی پیشکش کی ہے۔
نوجوانوں کی قیادت میں نئی تحریک
یہ تحریک کسی جماعت یا شخصیت کی قیادت میں نہیں بلکہ نوجوانوں اور طلبہ کی کال پر چل رہی ہے۔ مظاہرین کے مطابق ان کا مقصد صرف سوشل میڈیا پر عائد پابندی ختم کرانا نہیں بلکہ بدعنوانی کے خاتمے کا مطالبہ بھی ہے۔
’نیپو بے بی‘ اور ’نیپو کڈز‘ جیسے سلوگن اس احتجاج کی علامت بن گئے ہیں، جو سیاسی خاندانوں کی عیاشیوں کے خلاف عوامی غصے کی عکاسی کرتے ہیں۔
نیپو کڈز؟
احتجاج کی ایک نمایاں خصوصیت 2 نعرے ہیں جو بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر استعمال کیے جا رہے ہیں، نیپو بے بی اورنیپوکڈز۔
یہ دونوں اصطلاحات حالیہ ہفتوں میں نیپال میں اس وقت مقبول ہوئیں جب سیاست دانوں اور ان کے خاندانوں کی عیش و عشرت بھری زندگیوں کی ویڈیوز وائرل ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں:
مظاہرین کا مؤقف ہے کہ یہ لوگ بغیر کسی قابلیت کے محض عوام کے پیسے پر عیش کر رہے ہیں جبکہ عام نیپالی شہری مشکلات کا شکار ہیں۔
ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر وائرل ویڈیوز میں سیاسی خاندانوں کی پرتعیش زندگیوں، ڈیزائنر کپڑوں، غیر ملکی سفر اور مہنگی گاڑیوں، کا موازنہ نوجوانوں کی تلخ حقیقتوں سے کیا گیا ہے، جن میں بیروزگاری اور ہجرت پر مجبور ہونا شامل ہے۔
یہ نعرے اب عدم مساوات کے خلاف گہرے غصے کی علامت بن گئے ہیں، جہاں مظاہرین اشرافیہ کی زندگی کو عام شہریوں کی زندگیوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔
آگے کیا ہوگا؟
وزیراعظم کے مستعفی ہونے کے بعد یہ واضح نہیں کہ ملک کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہوگی، کچھ وزرا نے سکیورٹی فورسز کی پناہ لے لی ہے جبکہ مظاہرین کرفیو کو نظرانداز کرتے ہوئے سڑکوں پر موجود ہیں، تجزیہ کاروں کے مطابق اگر حکومت نے مؤثر اقدامات نہ کیے تو بدامنی مزید بڑھ سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جنریشن زی جنریشن زیڈ کٹھمنڈو نیپال.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جنریشن زیڈ کٹھمنڈو نیپال سوشل میڈیا کے مطابق
پڑھیں:
نیپال: روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا میں پہلی بار سوشل میڈیا کے ذریعے کسی وزیراعظم کا انتخاب ہوا ہے، اور یہ منفرد تجربہ جنوبی ایشیائی ملک نیپال میں سامنے آیا ہے۔
دنیا بھر میں حکمرانوں کا انتخاب عموماً پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈال کر یا پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ہوتا ہے، مگر نیپال میں سیاسی بحران اور عوامی مظاہروں کے بعد سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی کو چیٹنگ ایپ ’’ڈسکارڈ‘‘ کے ذریعے عوامی ووٹنگ سے عبوری وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ عوامی احتجاج اور حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد جب اقتدار کا بحران پیدا ہوا تو نوجوان مظاہرین نے فیصلہ کیا کہ قیادت خود چنی جائے اور اس مقصد کے لیے ڈسکارڈ کو انتخابی پلیٹ فارم بنایا گیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق، نیپال میں نوجوانوں نے ’’یوتھ اگینسٹ کرپشن‘‘ کے نام سے ایک ڈسکارڈ سرور بنایا جس کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ہو گئی۔ یہ سرور احتجاجی تحریک کا کمانڈ سینٹر بن گیا، جہاں اعلانات، زمینی حقائق، ہیلپ لائنز، فیکٹ چیکنگ اور خبریں شیئر کی جاتی رہیں۔ جب وزیراعظم کے پی شرما اولی نے استعفیٰ دیا تو نوجوانوں نے 10 ستمبر کو آن لائن ووٹنگ کرائی۔ اس میں 7713 افراد نے ووٹ ڈالے جن میں سے 3833 ووٹ سشیلا کارکی کے حق میں پڑے، یوں وہ تقریباً 50 فیصد ووٹ کے ساتھ سب سے آگے نکلیں۔
ووٹنگ کے نتائج کے بعد سشیلا کارکی نے صدر رام چندر پاوڈیل اور آرمی چیف جنرل اشوک راج سگدی سے ملاقات کی اور بعد ازاں عبوری وزیراعظم کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ مارچ 2026 میں عام انتخابات کرائے جائیں گے اور 6 ماہ میں اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کر دیا جائے گا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی اولین ترجیح شفاف الیکشن اور عوامی اعتماد کی بحالی ہوگی۔
خیال رہے کہ ڈسکارڈ 2015 میں گیمرز کے لیے بنایا گیا پلیٹ فارم تھا، مگر آج یہ ایک بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورک میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کا استعمال خاص طور پر جنریشن زیڈ میں مقبول ہے کیونکہ یہ اشتہارات سے پاک فیڈ، ٹیکسٹ، آڈیو اور ویڈیو چیٹ کے فیچرز فراہم کرتا ہے۔ نیپال میں اس پلیٹ فارم کے ذریعے وزیراعظم کا انتخاب جمہوری تاریخ میں ایک نیا اور حیران کن باب ہے جو مستقبل میں عالمی سیاست کے لیے بھی مثال بن سکتا ہے۔