مارے گئے دہشتگردوں میں سے پانچ افغانستان کے شہری ثابت ہو گئے
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
بنوں کینٹ حملے میں پاکستان کی سکورٹی فورسز نے جن دہشتگردوں کو ہلاک کیا ، ان میں سے مزید 3 افغانستان کے شہری نکل آئے۔ اس سے پہلے دو دہشتگردوں کے افغانستان کا شہری ہونے کی تصدیق ہوئی تھی۔
اب بنوں کینٹ حملہ مین مرنے والے پانچ دہشتگردوں کے افغانستان کا شہری ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ان تمام دہشت گردوں کا تعلق افغانستان کے مختلف اضلاع سے تھا۔
سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کے آغاز پر تیزی ، ڈالر سستا
ایک دہشتگرد عبدالرزاق حجران افغانستان کے صوبہ پکتیا کے ضلع زرمت میں کالاگو بازار کا رہائشی تھا۔
بنوں کینٹ پر افغانستان سے آئے ہوئے دہشتگردوں کے حملے میں حملے میں 16 دہشتگردوں کو پاکستان آرمی کے جوانوں نے ہلاک کیا تھا۔
اس حملے میں شہید ہونے والوں میں 5 بہن بھائیوں سمیت ایک ہی خاندان کے 6 افراد بھی شامل تھے۔ اس مذموم حملے میں سکیورٹی فورسز کے پانچ اہلکار بھی شہید ہوئے تھے۔
بنوں کینٹ پر حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی تھی، تمام 16 دہشتگرد ہلاک ہو گئے تھے۔ اب ان دہشتگردوں کی لاشوں کے ڈی این اے اور دیگر ویریفائیبل شواہد کی مدد سے ان کی اصلیت کو ٹریک کیا جا رہا ہے۔
اب تک ہو چکی تحقیقات میں مزید انکشاف ہوا کہ اس حملے میں افغان دہشت گرد انصار عرف طیب بھی مارا گیا۔ انصار کا تعلق میدان وردگ سے تھا اور وہ خودکش حملہ آور تھا۔
لاہور میں سورج کرنیں بکھیرنے لگا،بارش سے متعلق پیشگوئی
ہلاک دہشت گردوں میں ایک اور افغان عتیق صافی بھی تھا، جو کابل کے علاقے پل چرخی کا رہائشی تھا۔ عتیق صافی نے عسکری تربیت کالعدم گل بہادرگروپ کے دہشت گردوں کی نگرانی میں حاصل کی تھی۔
عتیق اور دوسرے افغان دہشتگردوں کے بنوں کینٹ حملے میں کتے کی موت مارے جانے کے بعد کابل میں خارجیوں نے اس کی موت کا سوگ منایا۔ خٓرجیوں کے زیر استعمال ایک عبادت گاہ میں عتیق اللہ صافی کے لیے دعائیہ تقریب بھی منعقد کی گئی۔
نوشہروفیروز، تیل منتقلی کے دوران ٹینکر میں آگ لگ گئی، گھروں اور دکانوں کو نقصان
تفتیش کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ ہلاک دہشت گردکے قریبی رشتہ داروں میں ان کا بھائی فرزاد، عاشق اور شفیق صافی شامل ہیں۔
بنوں کینٹ حملے کے مزید حقائق اور نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے کے لئے تحقیقات ابھی جاری ہیں۔
بنوں کینٹ کی حفاظتی دیوار کے ساتھ 4 مارچ کو 2 خودکش حملے ہوئے تھے جن کی ذمہ داری خارجیوں میں شامل ایک گروہ گل بہادر گروپ نے قبول کی تھی۔ بروقت اور مؤثر کارروائی کے نتیجے میں تمام 16 حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے۔
سلمان خان کی نئی ویڈیو نے مداحوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: افغانستان کے دہشتگردوں کے بنوں کینٹ حملے میں
پڑھیں:
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر حملہ، 24 افراد ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2025ء) ایک سینئر پولیس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ آج 22 اپریل بروز منگل کیے گئے اس حملے میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔
اس سے قبل جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا تھا، ''میں پہلگام میں سیاحوں پر اس بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتی ہوں، جس میں بدقسمتی سے پانچ افراد ہلاک اور کئی دیگر زخمی ہوئے ہیں۔
‘‘ حالیہ برسوں میں ہونے والا ہلاکت خیز حملہموجودہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا، ''یہ حملہ حالیہ برسوں میں شہریوں پر ہونے والے کسی بھی حملے سے کہیں زیادہ بڑا ہے اور ہلاکتوں کی تعداد کا ابھی تعین کیا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘ انہوں نے ایک بیان میں کہا، ''ہمارے مہمانوں پر یہ حملہ ایک گھناؤنا فعل ہے۔ اس حملے کے مرتکب افراد حیوان ہیں اور وہ حقارت کے مستحق ہیں۔
‘‘خطے کے گورنر منوج سنہا، جو نئی دہلی کے نمائندے ہیں، نے بھی ''سیاحوں پر اس بزدلانہ اور دہشت گردانہ حملے‘‘ کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ اس مکروہ حملے کے ذمہ داروں کو سزا سے نہیں بچایا جا سکے گا۔‘‘
ابھی تک کسی بھی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن اس مسلم اکثریتی خطے میں سن 1989 سے کشمیری عسکریت پسند ایک مسلح تحریک چلا رہے ہیں۔
یہ عسکریت پسند یا تو آزادی مانگتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔یہ حملہ پہلگام کے مشہور سیاحتی مقام پر ہوا، جو مرکزی شہر سرینگر سے تقریباً 90 کلومیٹر (55 میل) کے فاصلے پر ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے رویندر رینا نے بھارتی نشریاتی اداروں سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ان بزدل دہشت گردوں نے نہتے معصوم سیاحوں کو نشانہ بنایا، جو کشمیر کی سیر کے لیے گئے تھے۔
کچھ زخمی سیاحوں کو مقامی ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔‘‘ کشمیر میں سیاحت اور سکیورٹیسرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2024 میں تقریباً 35 لاکھ سیاحوں نے کشمیر کا رخ کیا، جن میں اکثریت ملکی سیاحوں کی تھی۔ سن 2019 میں مودی حکومت کی جانب سے خطے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور نئی دہلی کا براہ راست کنٹرول نافذ کرنے کے بعد سے لڑائی میں کمی آئی ہے۔
اس کے بعد سے حکام نے اس پہاڑی خطے میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بھرپور اقدامات کیے ہیں۔ کشمیر سردیوں میں اسکیئنگ اور گرمیوں میں بھارت کے دیگر حصوں کی شدید گرمی سے نجات کے لیے ایک پرکشش سیاحتی مقام ہے۔
سن 2023 میں بھارت نے سرینگر میں سخت سکیورٹی کے حصار میں جی ٹوئنٹی ممالک کے سیاحت سے متعلق اجلاس کی میزبانی کی تھی۔ حکام کے مطابق اس کا مقصد ''امن اور معمولات‘‘ کی بحالی کو ظاہر کرنا تھا۔
اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول کے قریب کئی نئے ریزورٹس بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔بھارت نے اس خطے میں مستقل طور پر اپنے تقریباً پانچ لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ بھارت اکثر پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے کہ کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے، جبکہ اسلام آباد حکومت ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔
ادارت: مقبول ملک