پاکستان میں صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے وسیع امکانات موجود ہیں ،وفاقی وزیر سید مصطفیٰ کمال کی ڈنمارک کے سفیر سے ملاقات میں گفتگو
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 مارچ2025ء) وفاقی وزیر برائے صحت سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ پاکستان میں صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے وسیع امکانات موجود ہیں ،حکومت پاکستان فارن سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہتی ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈنمارک کے سفیر سے ملاقات کے دوران کیا ۔ڈنمارک کے سفیر نے مصطفیٰ کمال کو وزارت صحت کا قلمدان سنبھالنے پر مبارکباد دی ۔
ملاقات میں صحت کے شعبے دوطرفہ تعاون اور باہمی دلچسپی کے امورپر بات چیت ہوئی۔سفیر نے ڈنمارک اور پاکستان کے مابین صحت کےشعبوں میں جاری منصوبوں وزیر صحت کو آگاہ کیا ۔سید مصطفی کمال نے کہا کہ پاکستان کے ڈنمارک کے ساتھ دیرینہ مراسم اور مضبوط تعلقات ہیں ۔پاکستان میں 33 ملین لوگ زیابیطس کا شکار ہیں ۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو صحت کے حوالے سے متعدی اور غیر متعدی امراض کے دہرے چیلنج کا سامنا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ڈنمارک گورنمنٹ امپورٹ کی بجائے انسولین کا خام مال منگوا کر پاکستان میں پروڈکشن کرے۔حکومت سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے تمام تر اقدامات کو یقینی بنارہی ہے۔اس موقع پر ڈنمارک کے سفیر نے کہا کہ ڈنمارک کی واحد کمپنی نوو نورڈسک جو پاکستان کو انسولین فراہم کرتی ہے ، پہلے مرحلے میں پاکستان میں ری پیکجنگ کی پلاننگ کر رہی ہے ۔انہوں نے پاکستان اور ڈنمارک کے درمیان صحت کے شعبے میں جاری تعاون کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا ۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈنمارک کے سفیر پاکستان میں سرمایہ کاری صحت کے شعبے نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
وفاقی وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے جاری کر دیا، معاشی استحکام کی جانب پیش رفت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے قومی اقتصادی سروے 2024-25 جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی معیشت استحکام کی جانب گامزن ہے، رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی گروتھ 2.7 فیصد رہی جبکہ افراط زر کی شرح کم ہو کر 4.6 فیصد پر آ گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ برس پالیسی ریٹ 22 فیصد تھا جو اب کم ہو کر 11 فیصد ہو چکا ہے، یہ شرح نصف سے بھی کم ہونا معیشت میں بہتری کا واضح اشارہ ہے، وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے آئی ایم ایف سے ایس بی اے پروگرام حاصل کیا، جسے نگران وزیر خزانہ نے ٹریک پر رکھا، یہ ان کی قابل تحسین کاوش ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب پانچ سال کی بلند ترین سطح پر ہے، اور ایف بی آر میں اصلاحات کے ذریعے محصولات میں اضافہ ہوا ہے،معیشت کے ڈی این اے کو تبدیل کرنے کیلئے اصلاحات ناگزیر تھیں، پاور سیکٹر میں ایک سال میں تاریخی بہتری آئی، تقسیم کار کمپنیوں کی گورننس میں بھی نمایاں اصلاحات ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کا بنیادی مقصد میکرو اکنامک استحکام ہے، اور اس حوالے سے پاکستان نے عالمی سطح کے مقابلے میں بہتر ریکوری کی، عالمی سطح پر مہنگائی 6.8 فیصد سے گھٹ کر 0.3 فیصد پر آ گئی ہے جبکہ پاکستان میں افراط زر 4.6 فیصد پر آ چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ رواں مالی سال زرمبادلہ کے ذخائر میں شاندار اضافہ ہوا ہے، اب ہمارا ہدف جی ڈی پی میں استحکام لانا ہے اور ہم درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، حالیہ آئی ایم ایف قسط کے حصول میں مشکلات پیش آئیں، بھارتی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی، لیکن عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کاکہنا تھا کہ مقامی وسائل کا فروغ حکومت کی ترجیح ہے، تعمیراتی شعبے میں گروتھ 1.3 فیصد رہی جو گزشتہ برس 3 فیصد تھی، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ گروتھ 1.5 فیصد، جبکہ ٹیکسٹائل سیکٹر میں 2.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
سینیٹر محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہزرعی شعبے کی کارکردگی مایوس کن رہی، اہم فصلوں کی پیداوار میں مجموعی طور پر 13.49 فیصد کمی آئی، کپاس میں 30 فیصد، گندم میں 8.9 فیصد اور گنے میں 3.9 فیصد کمی ہوئی، مکئی میں 15.4 فیصد اور چاول میں 1.4 فیصد کمی دیکھی گئی۔ تاہم آلو کی پیداوار میں 11.5 فیصد اور پیاز میں 15.9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اقتصادی سروے کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی گروتھ 4.5 فیصد، فارماسوٹیکل 2.3 فیصد اور کیمیکل کی گروتھ میں 5.5 فیصد کمی ہوئی۔ کان کنی و کھدائی کی گروتھ 3.4 فیصد رہی۔
تعلیم کے شعبے میں جولائی تا مارچ 0.8 فیصد جی ڈی پی خرچ ہوا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے 61.1 ارب روپے مختص کیے گئے۔ مجموعی شرح خواندگی 60.6 فیصد رہی، مردوں کی شرح 68 اور خواتین کی 52.8 فیصد رہی۔
ملک بھر میں یونیورسٹیوں کی تعداد 269 ہے، جن میں 160 سرکاری اور 109 نجی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ اسکل ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 60 ہزار سے زائد نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں تربیت دی گئی۔
ماحولیاتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسز میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ حالیہ برسوں میں سیلاب سے 3.3 کروڑ افراد متاثر ہوئے اور 15 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ سال 2024 کا اوسط درجہ حرارت 23.52 ڈگری ریکارڈ کیا گیا اور بارشوں میں 31 فیصد اضافہ ہوا۔