Daily Ausaf:
2025-09-18@19:06:21 GMT

مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی منصوبہ بندی

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ’’قومی سلامتی کونسل‘‘ نے1991 کے دوران عالم اسلام اور مشرق وسطیٰ کے حوالہ سے ایک منصوبہ طے کیا تھا جوجولائی میں1992 میں میڈیا میں آیا ۔ یہ منصوبہ اس سے پہلے بھی چند سال قبل قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا چکا ہے مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اعلانات کا پس منظر سمجھنے کے لیے اس پر دوبارہ نظر ڈال لینا بلکہ بار بار اسے دیکھتے رہنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ اسے ارباب فکر و دانش کی خدمت میں اس گزارش کے ساتھ ایک بار پھر پیش کیا جا رہا ہے کہ اس امر کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس منصوبے پر عملدرآمد کی اب تک کی صورتحال کیا ہے اور اس وقت ہم کس مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔ عملاً ہم کچھ کرنا چاہیں یا نہیں یا کچھ کر سکیں یا نہیں، کم از کم ہمیں اس حوالہ سے اپنی موجودہ صورتحال کا علم اور ادراک تو ہونا چاہیے۔ (راشدی)
1۔ مستقبل میں قیام امن کے نفاذ میں دیگر ممالک مثلاً فرانس، برطانیہ، اٹلی اور روس کو شامل کیا جانا چاہیے۔
2۔ ایران اور ترکی ایسے غیر عربی ممالک کو ان ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار کیا جانا چاہیے جنہوں نے ہمارے ساتھ مل کر عراق کے خلاف جنگ لڑی مثلاً خلیجی ریاستیں، مصر، شام اور مراکش۔3۔ ایران اور عراق میں ہونے والے واقعات کے پیش نظر ہماری مستقبل میں سیاست یہ ہوگی کہ ایک ایسی فوج تیار کی جائے یا موجود رکھی جائے جو کسی بھی دوسری فوجی طاقت کا مقابلہ کر سکے، اس طرح اس منطقہ (مشرق وسطیٰ) میں طاقت کا توازن بھی قائم رہے گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ کسی عرب ریاست یا ترکی یا ایران یا ایتھوپیا (حبشہ) کو (علاقہ کا پولیس مین بنا کر اسے یہ اجازت بھی دی جائے کہ وہ) امریکی مفادات کے لیے خطرہ بن سکے۔4۔ خلیجی ریاستوں کی دفاعی طاقت (نہ کہ جنگی صلاحیت) کو بہتر بنایا جائے اور یہاں فوجی خدمات کو لازمی بنایا جائے۔ 5۔ جارحانہ اور مکمل تباہ کن جنگی ساز و سامان کی فروخت عربی اور اسلامی ممالک کو کرنا ہی پڑے تو درج ذیل امور کو مدنظر رکھنا ہوگا: (۱) ایسا اسلحہ زیادہ مقدار میں نہ دیا جائے۔ (۲) اس قسم کا اسلحہ نہ دیا جائے جو تیزی کے ساتھ حرکت میں لایا جا سکے یا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکے۔ (۳) فاضل پرزہ جات پوری مقدار میں نہ دیے جائیں۔ (۴) اس اسلحہ کا سودا پانچ عرب ریاستوں (غالباً سعودی عرب، عرب امارات، شام، مصر اور مراکش) کی نگرانی میں کیا جائے۔ (۵) بعض مخصوص اقسام کا اسلحہ فروخت نہ کیا جائے بلکہ کرایہ پر دیا جائے۔
6۔ شام، مصر اور بعض دوسری چھوٹی غیر عرب ریاستوں مثلاً ایران، ترکی اور ایتھوپیا کی معمولی نمائندگی کے اشتراک سے ایک مشترکہ امن فوج تیار کی جائے۔
7۔ خلیجی ریاستوں کی دولت جو ان پر حملوں کا سبب بنی ہوئی ہے، کی مناسب تقسیم ایک بینک برائے تعمیر کے ذریعے عمل میں لائی جائے گی مگر اس بینک کی اصل پالیسی امریکہ، برطانیہ اور فرانس وضع کریں گے۔ اس بینک کی نمایاں ترجیحات یہ ہوں گی: (۱) مشترکہ امن فوج کا کنٹرول سنبھالنا۔ (۲) ایسے ممالک میں بڑے منصوبوں کی تعمیر و تکمیل کے لیے فنڈ مہیا کرنا جو (مذکورہ بالا) مشترکہ فوج کے معاون ہوں مثلاً شام۔ (۳) اس طرح ان بعض غیر عرب ممالک میں ایسے منصوبوں کی تکمیل کے لیے فنڈات مہیا کرنا ۔8۔ تمام عرب ملکوں کے ایسے حکومتی نظاموں کی تبدیلی جو امریکی پالیسی سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ اس منصوبہ کی بعض تفصیلات یوں ہوں گی:
(الف) خلیجی ریاستیں:ان ریاستوں کے حکومتی نظام میں ردوبدل کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہمیشہ امریکی پالیسی کی پرجوش حامی رہی ہیں اور رہیں گی۔ ان کے اس حکومتی نظام کو باقی رکھنا ہی امریکی مفادات کا تحفظ ہے۔ البتہ یہ کوششیں جاری رکھی جائیں کہ ان ریاستوں میں زمام اقتدار ایسے افراد کے ہاتھوں میں آئے جو مغرب کے تعلیم یافتہ ہیں اور ایسی کوششیں بھی کی جائیں جن کی بدولت ان ریاستوں کی مذہبی ثقافت کو بدل دیا جائے۔
(ب) دیگر ممالک:(۱) شام: شام کے حکمران حافظ الاسد ہمیں قبول ہیں، انہیں اس منطقہ میں کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔(۲) مصر: اگرچہ مصر کی موجودہ قیادت نے (امریکی پالیسی کے اتباع میں) صحیح اور قابل قبول رویہ اختیار کیا لیکن یہ حکومت مصری رائے عامہ کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ لہٰذا ہمیں اس کے بارے میں جدید خطوط پر سوچنا ہوگا۔ دراصل جمال عبد الناصر اور انور السادات کے دور میں آزادیٔ رائے پر پہرہ لگا دیا گیا تھا جس کے جمہوریت پر منفی اثرات ظاہر ہوئے۔ اب ضروری ہے کہ مصر میں جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا جانا چاہیے تاکہ ہر شخص آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکے اور اسلامیین (بنیاد پرستوں) کو راہ سے ہٹانے کا یہی ایک طریقہ ہے۔(۳) فلسطین اور اسلامی تحریکات: اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو روکنے اور فلسطین کے قبضہ پر مسلمانوں کے (دینی، اخلاقی اور نفسیاتی) دباؤ کو کم کرنے کے لیے ان خطوط پر عمل پیرا ہونا ہوگا:
مسلمانوں کو ان کے فروعی اختلافات میں الجھا کر ایک دوسرے سے لڑانا تاکہ وہ اپنی طاقت کا آپ مقابلہ کرتے رہیں۔ جیسے مصر کے محمد الغزالی نے اسلام میں عورت کے مقام کے موضوع کو چھیڑ کر باہمی منافرت کی جنگ کو بھڑکایا۔
وہ خلیجی ریاستیں جو اسلامی شریعت کے نفاذ پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہیں یا اس کے نفاذ کے بارے میں غور کر رہی ہیں، ان کی حکومتوں کو تبدیل کرنا۔ جب کوئی حکومت اسلامی شریعت کا نفاذ کرے، اس کے خاتمہ کے لیے پوری کوشش کرنا۔ مثلاً سعودی عرب میں شرعی حدود کا نفاذ ہے، اس لیے ان کے بعض شیوخ کو ورغلانا اور ان کی سرگرمیوں کو معطل کرنا چاہیے۔ اس طرح تمام اسلامی تحریکات اور مظاہر پر کاری ضرب لگانا ضروری ہے۔ حساس قسم کے حکومتی اداروں میں اسلامی ذہن رکھنے والوں کو ملازمت کے مواقع نہیں ملنا چاہئیں۔ یہ پالیسی صرف خلیجی ریاستوں تک ہی محدود نہ ہوگی بلکہ اس کا دائرہ کار تمام اسلامی ریاستوں تک بڑھانا ہوگا۔ اسلامی فکر کو آگے بڑھانے والوں کو تعلیم و تربیت اور ابلاغ عامہ کے ذریعے اپنے خیالات عوام الناس تک پہنچانے سے روکنا ہوگا۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کی بدولت اسلام کی ترویج و ترقی کے لیے کام کرنے والوں کو رائے عامہ کو متاثر کرنے کا موقع ملتا ہے اور یوسف القرضاوی نے انہی ذرائع (تعلیم و تربیت اور ابلاغ عامہ) سے عوام الناس میں پذیرائی پائی۔ اسی طرح سعودی عرب میں مناع القطان نے اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ اسلامیین کو (ان کے اپنے ممالک میں بھی) اقتصادی اور اجتماعی معاملات میں نمایاں مقام پیدا کرنے سے باز رکھنا ہوگا، ورنہ وہ ان کے توسط سے اپنے ممالک سے باہر بھی اثر انداز ہوں گے۔9۔ بہت ہی قابل توجہ معاملہ عرب اور مسلمان ممالک سے افرادی قوت کا خلیجی ریاستوں میں آنے کا ہے، اس کا روکنا نہایت ضروری ہے۔ ان کے مقابل افرادی قوت کا سری لنکا، فلپائن اور تھائی لینڈ سے لانا ضروری ہے کیونکہ ان ممالک سے لائی گئی غیر مسلم افرادی قوت اسلامی اعتقادات اور اقدار پر منفی اثرات چھوڑے گی۔ اگر ان تینوں ملکوں کی افرادی قوت ضرورت کا معیار یا مقدار پوری کرنے سے قاصر ہو اور دیگر ممالک (اسلامیہ اور عربیہ) سے لوگ منگوانا ہی پڑیں تو پھر یہ ضرور ملحوظ رکھنا ہوگا کہ وہ پاکستان یا بنگلہ دیش سے نہ ہوں۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ دیگر (غیر مسلم) ممالک سے رابطہ کیا جائے (تاکہ بوقت ضرورت وہاں سے افراد بلائے جا سکیں)۔10۔ ضروری ہوگیا ہے کہ (مسلم ممالک) کے نظام تعلیم اور ثقافت کو تبدیل کیا جائے اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کا وقت بڑھایا جائے۔11۔ اسلامی اور دینی جماعتوں مثلاً سلفی اور اخوانی کے مابین اختلافات کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں زیادہ بڑھایا جائے۔
12۔ اسلامی فکر و کردار رکھنے والی حکومتوں مثلاً پاکستان اور سوڈان کو پسماندگی اور مشکلات کا شکار رہنے دیا جائے۔‘‘

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: خلیجی ریاستوں جانا چاہیے افرادی قوت دیا جائے ضروری ہے ممالک سے کیا جائے کے ساتھ کیا جا اور اس کے لیے

پڑھیں:

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کے بارے میں اطلاعات تھیں .بھارت

دہلی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 ستمبر ۔2025 ) پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے پر انڈین وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال کا کہنا تھا کہ انہیں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات اور دفاعی معاہدے کے بارے میں اطلاعات تھیں اور ان پر غور بھی کیا جا رہا تھا جاری بیان میں انڈیا کا کہنا ہے کہ دہلی اس اہم پیش رفت کے اپنی قومی سلامتی کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی استحکام کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے ممکنہ اثرات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور اس پر کام جاری رہے گا اور انڈین حکومت اپنے مفادات کے تحفظ اور قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے.

(جاری ہے)

سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ اہم دفاعی معاہدہ کیا ہے جبکہ بھارت کے ساتھ اس کے بڑے پیمانے پر معاشی شراکت داری ہے اور تیل ریفائنریوں کے علاوہ متعددبڑے منصوبوں پر دہلی اور ریاض کے درمیان وسیع معاشی شراکت داری ہے. پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی تعاون اور سلامتی سے متعلق معاہدے کے تحت کسی ایک ملک کے خلاف بیرونی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا ‘دونوں ممالک کے درمیان 1970کی دہائی سے دفاعی تعاون کا معاہدہ بھی موجود ہے جس کے تحت پاکستانی فوج کے دستوں نے مکہ مکرمہ اور مسجد الحرام میں قبضے کو ختم کروانے کے لیے آپریشن میں حصہ لیا تھا .

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دفاعی شراکت داری سے متعلق معاہدے کا اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب اسرائیل کی جانب سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے حملے کے بعد سے عرب ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے ریاض کے قصر یمامہ میں ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانا ہے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین سٹرٹیجک باہمی شراکت داری کا معاہدہدونوں ممالک کی اپنی سلامتی و دفاع اور خطے سمیت دنیا بھر میں قیامِ امن کے مشترکہ عزم کو ظاہر کرتی ہے.

مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین گذشتہ آٹھ دہائیوں پر مشتمل دفاعی شراکت داری، سٹریٹیجک مفادات کے تناظر میں دونوں ملکوں نے سٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں دسمبر 2015 میں دہشت گردی کے خلاف 40 اسلامی ممالک کے اتحاد نے سعودی عرب کی کمان میں ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا تھا پاکستان کے تعاون سے ایک خصوصی فورس تشکیل دی تھی. 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کے بارے میں اطلاعات تھیں .بھارت
  • ٹرمپ کے قریبی ساتھی چارلی کرک کا قتل: منصوبہ بندی کے شواہد سامنے آگئے
  • صدر ٹرمپ کا ’گولڈن ڈوم‘ منصوبہ حتمی منصوبہ بندی کے مرحلے میں داخل
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات ، مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال سمیت اہم امور پر گفتگو
  • مشرق وسطی میں اسرائیل کی جارحیت کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے ،شہباز شریف
  • امارات میں عوام کو شدید گرمی سے بچانے کے لیے نئی منصوبہ بندی
  • مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال کا یمن پر گہرا اثر، ہینز گرنڈبرگ
  • متحدہ عرب امارات میں عوام کو شدید گرمی سے بچانے کیلئے نئی منصوبہ بندی
  • امارات میں عوام کو شدید گرمی سے بچانے کیلئے نئی منصوبہ بندی کرلی گئی
  • صیہونی مخالف اتحاد، انتخاب یا ضرورت!