Daily Ausaf:
2025-11-03@14:33:34 GMT

مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی منصوبہ بندی

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ’’قومی سلامتی کونسل‘‘ نے1991 کے دوران عالم اسلام اور مشرق وسطیٰ کے حوالہ سے ایک منصوبہ طے کیا تھا جوجولائی میں1992 میں میڈیا میں آیا ۔ یہ منصوبہ اس سے پہلے بھی چند سال قبل قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا چکا ہے مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اعلانات کا پس منظر سمجھنے کے لیے اس پر دوبارہ نظر ڈال لینا بلکہ بار بار اسے دیکھتے رہنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ اسے ارباب فکر و دانش کی خدمت میں اس گزارش کے ساتھ ایک بار پھر پیش کیا جا رہا ہے کہ اس امر کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس منصوبے پر عملدرآمد کی اب تک کی صورتحال کیا ہے اور اس وقت ہم کس مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔ عملاً ہم کچھ کرنا چاہیں یا نہیں یا کچھ کر سکیں یا نہیں، کم از کم ہمیں اس حوالہ سے اپنی موجودہ صورتحال کا علم اور ادراک تو ہونا چاہیے۔ (راشدی)
1۔ مستقبل میں قیام امن کے نفاذ میں دیگر ممالک مثلاً فرانس، برطانیہ، اٹلی اور روس کو شامل کیا جانا چاہیے۔
2۔ ایران اور ترکی ایسے غیر عربی ممالک کو ان ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار کیا جانا چاہیے جنہوں نے ہمارے ساتھ مل کر عراق کے خلاف جنگ لڑی مثلاً خلیجی ریاستیں، مصر، شام اور مراکش۔3۔ ایران اور عراق میں ہونے والے واقعات کے پیش نظر ہماری مستقبل میں سیاست یہ ہوگی کہ ایک ایسی فوج تیار کی جائے یا موجود رکھی جائے جو کسی بھی دوسری فوجی طاقت کا مقابلہ کر سکے، اس طرح اس منطقہ (مشرق وسطیٰ) میں طاقت کا توازن بھی قائم رہے گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ کسی عرب ریاست یا ترکی یا ایران یا ایتھوپیا (حبشہ) کو (علاقہ کا پولیس مین بنا کر اسے یہ اجازت بھی دی جائے کہ وہ) امریکی مفادات کے لیے خطرہ بن سکے۔4۔ خلیجی ریاستوں کی دفاعی طاقت (نہ کہ جنگی صلاحیت) کو بہتر بنایا جائے اور یہاں فوجی خدمات کو لازمی بنایا جائے۔ 5۔ جارحانہ اور مکمل تباہ کن جنگی ساز و سامان کی فروخت عربی اور اسلامی ممالک کو کرنا ہی پڑے تو درج ذیل امور کو مدنظر رکھنا ہوگا: (۱) ایسا اسلحہ زیادہ مقدار میں نہ دیا جائے۔ (۲) اس قسم کا اسلحہ نہ دیا جائے جو تیزی کے ساتھ حرکت میں لایا جا سکے یا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکے۔ (۳) فاضل پرزہ جات پوری مقدار میں نہ دیے جائیں۔ (۴) اس اسلحہ کا سودا پانچ عرب ریاستوں (غالباً سعودی عرب، عرب امارات، شام، مصر اور مراکش) کی نگرانی میں کیا جائے۔ (۵) بعض مخصوص اقسام کا اسلحہ فروخت نہ کیا جائے بلکہ کرایہ پر دیا جائے۔
6۔ شام، مصر اور بعض دوسری چھوٹی غیر عرب ریاستوں مثلاً ایران، ترکی اور ایتھوپیا کی معمولی نمائندگی کے اشتراک سے ایک مشترکہ امن فوج تیار کی جائے۔
7۔ خلیجی ریاستوں کی دولت جو ان پر حملوں کا سبب بنی ہوئی ہے، کی مناسب تقسیم ایک بینک برائے تعمیر کے ذریعے عمل میں لائی جائے گی مگر اس بینک کی اصل پالیسی امریکہ، برطانیہ اور فرانس وضع کریں گے۔ اس بینک کی نمایاں ترجیحات یہ ہوں گی: (۱) مشترکہ امن فوج کا کنٹرول سنبھالنا۔ (۲) ایسے ممالک میں بڑے منصوبوں کی تعمیر و تکمیل کے لیے فنڈ مہیا کرنا جو (مذکورہ بالا) مشترکہ فوج کے معاون ہوں مثلاً شام۔ (۳) اس طرح ان بعض غیر عرب ممالک میں ایسے منصوبوں کی تکمیل کے لیے فنڈات مہیا کرنا ۔8۔ تمام عرب ملکوں کے ایسے حکومتی نظاموں کی تبدیلی جو امریکی پالیسی سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ اس منصوبہ کی بعض تفصیلات یوں ہوں گی:
(الف) خلیجی ریاستیں:ان ریاستوں کے حکومتی نظام میں ردوبدل کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہمیشہ امریکی پالیسی کی پرجوش حامی رہی ہیں اور رہیں گی۔ ان کے اس حکومتی نظام کو باقی رکھنا ہی امریکی مفادات کا تحفظ ہے۔ البتہ یہ کوششیں جاری رکھی جائیں کہ ان ریاستوں میں زمام اقتدار ایسے افراد کے ہاتھوں میں آئے جو مغرب کے تعلیم یافتہ ہیں اور ایسی کوششیں بھی کی جائیں جن کی بدولت ان ریاستوں کی مذہبی ثقافت کو بدل دیا جائے۔
(ب) دیگر ممالک:(۱) شام: شام کے حکمران حافظ الاسد ہمیں قبول ہیں، انہیں اس منطقہ میں کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔(۲) مصر: اگرچہ مصر کی موجودہ قیادت نے (امریکی پالیسی کے اتباع میں) صحیح اور قابل قبول رویہ اختیار کیا لیکن یہ حکومت مصری رائے عامہ کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ لہٰذا ہمیں اس کے بارے میں جدید خطوط پر سوچنا ہوگا۔ دراصل جمال عبد الناصر اور انور السادات کے دور میں آزادیٔ رائے پر پہرہ لگا دیا گیا تھا جس کے جمہوریت پر منفی اثرات ظاہر ہوئے۔ اب ضروری ہے کہ مصر میں جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا جانا چاہیے تاکہ ہر شخص آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکے اور اسلامیین (بنیاد پرستوں) کو راہ سے ہٹانے کا یہی ایک طریقہ ہے۔(۳) فلسطین اور اسلامی تحریکات: اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو روکنے اور فلسطین کے قبضہ پر مسلمانوں کے (دینی، اخلاقی اور نفسیاتی) دباؤ کو کم کرنے کے لیے ان خطوط پر عمل پیرا ہونا ہوگا:
مسلمانوں کو ان کے فروعی اختلافات میں الجھا کر ایک دوسرے سے لڑانا تاکہ وہ اپنی طاقت کا آپ مقابلہ کرتے رہیں۔ جیسے مصر کے محمد الغزالی نے اسلام میں عورت کے مقام کے موضوع کو چھیڑ کر باہمی منافرت کی جنگ کو بھڑکایا۔
وہ خلیجی ریاستیں جو اسلامی شریعت کے نفاذ پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہیں یا اس کے نفاذ کے بارے میں غور کر رہی ہیں، ان کی حکومتوں کو تبدیل کرنا۔ جب کوئی حکومت اسلامی شریعت کا نفاذ کرے، اس کے خاتمہ کے لیے پوری کوشش کرنا۔ مثلاً سعودی عرب میں شرعی حدود کا نفاذ ہے، اس لیے ان کے بعض شیوخ کو ورغلانا اور ان کی سرگرمیوں کو معطل کرنا چاہیے۔ اس طرح تمام اسلامی تحریکات اور مظاہر پر کاری ضرب لگانا ضروری ہے۔ حساس قسم کے حکومتی اداروں میں اسلامی ذہن رکھنے والوں کو ملازمت کے مواقع نہیں ملنا چاہئیں۔ یہ پالیسی صرف خلیجی ریاستوں تک ہی محدود نہ ہوگی بلکہ اس کا دائرہ کار تمام اسلامی ریاستوں تک بڑھانا ہوگا۔ اسلامی فکر کو آگے بڑھانے والوں کو تعلیم و تربیت اور ابلاغ عامہ کے ذریعے اپنے خیالات عوام الناس تک پہنچانے سے روکنا ہوگا۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کی بدولت اسلام کی ترویج و ترقی کے لیے کام کرنے والوں کو رائے عامہ کو متاثر کرنے کا موقع ملتا ہے اور یوسف القرضاوی نے انہی ذرائع (تعلیم و تربیت اور ابلاغ عامہ) سے عوام الناس میں پذیرائی پائی۔ اسی طرح سعودی عرب میں مناع القطان نے اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ اسلامیین کو (ان کے اپنے ممالک میں بھی) اقتصادی اور اجتماعی معاملات میں نمایاں مقام پیدا کرنے سے باز رکھنا ہوگا، ورنہ وہ ان کے توسط سے اپنے ممالک سے باہر بھی اثر انداز ہوں گے۔9۔ بہت ہی قابل توجہ معاملہ عرب اور مسلمان ممالک سے افرادی قوت کا خلیجی ریاستوں میں آنے کا ہے، اس کا روکنا نہایت ضروری ہے۔ ان کے مقابل افرادی قوت کا سری لنکا، فلپائن اور تھائی لینڈ سے لانا ضروری ہے کیونکہ ان ممالک سے لائی گئی غیر مسلم افرادی قوت اسلامی اعتقادات اور اقدار پر منفی اثرات چھوڑے گی۔ اگر ان تینوں ملکوں کی افرادی قوت ضرورت کا معیار یا مقدار پوری کرنے سے قاصر ہو اور دیگر ممالک (اسلامیہ اور عربیہ) سے لوگ منگوانا ہی پڑیں تو پھر یہ ضرور ملحوظ رکھنا ہوگا کہ وہ پاکستان یا بنگلہ دیش سے نہ ہوں۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ دیگر (غیر مسلم) ممالک سے رابطہ کیا جائے (تاکہ بوقت ضرورت وہاں سے افراد بلائے جا سکیں)۔10۔ ضروری ہوگیا ہے کہ (مسلم ممالک) کے نظام تعلیم اور ثقافت کو تبدیل کیا جائے اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کا وقت بڑھایا جائے۔11۔ اسلامی اور دینی جماعتوں مثلاً سلفی اور اخوانی کے مابین اختلافات کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں زیادہ بڑھایا جائے۔
12۔ اسلامی فکر و کردار رکھنے والی حکومتوں مثلاً پاکستان اور سوڈان کو پسماندگی اور مشکلات کا شکار رہنے دیا جائے۔‘‘

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: خلیجی ریاستوں جانا چاہیے افرادی قوت دیا جائے ضروری ہے ممالک سے کیا جائے کے ساتھ کیا جا اور اس کے لیے

پڑھیں:

جماعت اسلامی کا احتجاجی مارچ ‘ ریڈ لائن منصوبہ فوری مکمل و حتمی تاریخ دینے کا مطالبہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-01-21
کراچی(اسٹاف رپورٹر) سندھ حکومت کی نا اہلی ، ریڈ لائن بی آر ٹی کی مسلسل تاخیر کے باعث لاکھوں شہریوں ، طلبہ و طالبات ، دکانداروں و تاجروں کی مشکلات و پریشانیوں کے خلاف جماعت اسلامی پبلک ایڈ کمیٹی کی ریڈ لائن عوامی ایکشن کمیٹی کے تحت ہفتہ کو امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کی زیر قیادت مین یونیورسٹی روڈ پر بیت المکرم مسجد سے حسن اسکوائر تک احتجاجی مارچ کیا گیا اور سندھ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ریڈ لائن منصوبہ فی الفور مکمل اور حتمی تاریخ کا اعلان کیا جائے ۔ روزانہ سفر کرنے والے لاکھوں افراد کے لیے متبادل راستے بنائے جائیں ، تاجروں کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے اور منصوبے کی تعمیر میں غیر معمولی تاخیر کے دوران جاں بحق و زخمیوں سمیت تمام متاثرین کو ہر جانہ ادا کیا جائے ، مارچ سے امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان ، نائب امیر کراچی و اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈووکیٹ ، امیر ضلع شرقی نعیم اختر ، ایکشن کمیٹی کے کنونیئر نجیب ایوبی و دیگر نے بھی خطاب کیا ۔مارچ کے شرکا نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جس پر کراچی دشمنی بند کرو، ریڈ لائن فوری مکمل کرو،اہل کراچی کو ان کا حق دو ، سمیت دیگر نعرے درج تھے ۔ منعم ظفر خان نے حسن اسکوائر پر مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی بد ترین نااہلی اور کرپشن کا امتزاج ہے۔پیپلز پارٹی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ تاجروں کا روزگار تباہ ہو یا عام شہری اور طلبہ و طالبات شدید مشکلات و اذیت کا سامنا کریں ۔ کراچی وہ واحد شہر ہے جہاں منصوبے کی تکمیل کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جاتی۔ منصوبے سے متاثرہ افراد کے لیے بھی کوئی انتظام نہیں کیا جاتا ۔ یونیورسٹی روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور شہریوں کے لیے کوئی متبادل راستہ نہیں ، جن لوگوں کا کاروبار تباہ ہورہا ہے انہیں معاوضہ نہیں دیا جارہا بلکہ ٹھیکے والوں کے نام پر جعلی لسٹ بنائی جارہی ہے۔ ریڈ لائن منصوبے کی مسلسل تاخیر سے لاکھوں شہری متاثر ہورہے ہیں۔ گلشن اقبال کاروباری مرکز ہے، یہاں تعلیمی ادارے اور جامعات ہیں، ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے اربوں روپے کے فنڈز دیے اور 2019 میں منصوبے پر کام شروع کیا گیا لیکن منصوبہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا اور ہر بار نئی تاریخ دی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی نے ریڈ لائن بی آر ٹی مکمل کرو مہم کا آغاز کردیا ہے جو تعمیر مکمل ہونے تک جاری رہے گی ، آج کا احتجاج علامتی ہے اگر مسائل حل نہ ہوئے تو اس سے بڑا احتجاج کریں گے۔ جدوجہد اور مزاحمت کو آگے بڑھائیں گے اور شہر کراچی کا مقدمہ لڑتے رہیں گے۔ کراچی کو قابض پیپلز پارٹی کی فسطائیت سے نجات دلانے کے لیے عوام جماعت اسلامی کا دست و بازو بنیں۔ سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی 17 سالہ حکومت کراچی کے عوام کے لیے مسلسل مصیبت اور اذیت بنی ہوئی ہے ، پورے کراچی کو کھنڈر بنادیا ہے اور پوری یونیورسٹی روڈ کھدی پڑی ہے ، سندھ حکومت اربوں کھربوں روپے کا فنڈز لینے کے باوجود کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو صرف اور صرف کمیشن کی فکر ہے۔ ریڈ لائن منصوبے سے متاثرہ کسی بھی فرد کو معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔ٹھیکے والوں کی جعلی لسٹیں بنائی جا رہی ہیں لیکن اصل حق دار کو معاوضہ نہیں دیا جارہا۔نعیم اختر نے کہا کہ بی آر ٹی منصوبہ کرپشن اور نااہلی کا شاہکار ہے۔ منصوبہ صرف 6 فیصد لوگوں کی ضروریات پوری کرے گا۔ پنجاب کے منصوبے مقررہ وقت پر مکمل کردیے جاتے ہیں لیکن بی آر ٹی منصوبہ 3 سال سے مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت بے حس ہوچکی ہے اسے عوام کی پریشانی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کی زیر قیادت مین یونیورسٹی روڈ پر ریڈ لائن بی آرٹی کی مسلسل تاخیر کے خلاف احتجاجی مارچ کیا جارہا ہے

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • جوہری دھماکوں کے تجربات کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے: امریکا
  • جوہری دھماکوں کے تجربات کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے، امریکی وزیر توانائی
  • افغانستان، پاکستان اور ایران سمیت وسطی ایشیائی ممالک زلزلے سے لرز اٹھے
  • نارروال: وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال آر ایل این جی کنکشز کا افتتاح کررہے ہیں
  • معاشی بہتری کیلئے کردار ادا نہ کیا تو یہ فورسز کی قربانیوں کیساتھ زیادتی ہوگی، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • جماعت اسلامی کا احتجاجی مارچ ‘ ریڈ لائن منصوبہ فوری مکمل و حتمی تاریخ دینے کا مطالبہ
  • کراچی: حملے کی منصوبہ بندی ناکام، ایس آر اے کے انتہائی مطلوب 2 دہشتگرد گرفتار
  • جماعت اسلامی کااجتماعِ عام “حق دو عوام کو” کا اگلا قدم ثابت ہوگا، ناظمہ ضلع وسطی
  • پاک افغان جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق