Daily Ausaf:
2025-04-25@11:37:17 GMT

مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی منصوبہ بندی

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ’’قومی سلامتی کونسل‘‘ نے1991 کے دوران عالم اسلام اور مشرق وسطیٰ کے حوالہ سے ایک منصوبہ طے کیا تھا جوجولائی میں1992 میں میڈیا میں آیا ۔ یہ منصوبہ اس سے پہلے بھی چند سال قبل قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا چکا ہے مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اعلانات کا پس منظر سمجھنے کے لیے اس پر دوبارہ نظر ڈال لینا بلکہ بار بار اسے دیکھتے رہنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ اسے ارباب فکر و دانش کی خدمت میں اس گزارش کے ساتھ ایک بار پھر پیش کیا جا رہا ہے کہ اس امر کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس منصوبے پر عملدرآمد کی اب تک کی صورتحال کیا ہے اور اس وقت ہم کس مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔ عملاً ہم کچھ کرنا چاہیں یا نہیں یا کچھ کر سکیں یا نہیں، کم از کم ہمیں اس حوالہ سے اپنی موجودہ صورتحال کا علم اور ادراک تو ہونا چاہیے۔ (راشدی)
1۔ مستقبل میں قیام امن کے نفاذ میں دیگر ممالک مثلاً فرانس، برطانیہ، اٹلی اور روس کو شامل کیا جانا چاہیے۔
2۔ ایران اور ترکی ایسے غیر عربی ممالک کو ان ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار کیا جانا چاہیے جنہوں نے ہمارے ساتھ مل کر عراق کے خلاف جنگ لڑی مثلاً خلیجی ریاستیں، مصر، شام اور مراکش۔3۔ ایران اور عراق میں ہونے والے واقعات کے پیش نظر ہماری مستقبل میں سیاست یہ ہوگی کہ ایک ایسی فوج تیار کی جائے یا موجود رکھی جائے جو کسی بھی دوسری فوجی طاقت کا مقابلہ کر سکے، اس طرح اس منطقہ (مشرق وسطیٰ) میں طاقت کا توازن بھی قائم رہے گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ کسی عرب ریاست یا ترکی یا ایران یا ایتھوپیا (حبشہ) کو (علاقہ کا پولیس مین بنا کر اسے یہ اجازت بھی دی جائے کہ وہ) امریکی مفادات کے لیے خطرہ بن سکے۔4۔ خلیجی ریاستوں کی دفاعی طاقت (نہ کہ جنگی صلاحیت) کو بہتر بنایا جائے اور یہاں فوجی خدمات کو لازمی بنایا جائے۔ 5۔ جارحانہ اور مکمل تباہ کن جنگی ساز و سامان کی فروخت عربی اور اسلامی ممالک کو کرنا ہی پڑے تو درج ذیل امور کو مدنظر رکھنا ہوگا: (۱) ایسا اسلحہ زیادہ مقدار میں نہ دیا جائے۔ (۲) اس قسم کا اسلحہ نہ دیا جائے جو تیزی کے ساتھ حرکت میں لایا جا سکے یا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکے۔ (۳) فاضل پرزہ جات پوری مقدار میں نہ دیے جائیں۔ (۴) اس اسلحہ کا سودا پانچ عرب ریاستوں (غالباً سعودی عرب، عرب امارات، شام، مصر اور مراکش) کی نگرانی میں کیا جائے۔ (۵) بعض مخصوص اقسام کا اسلحہ فروخت نہ کیا جائے بلکہ کرایہ پر دیا جائے۔
6۔ شام، مصر اور بعض دوسری چھوٹی غیر عرب ریاستوں مثلاً ایران، ترکی اور ایتھوپیا کی معمولی نمائندگی کے اشتراک سے ایک مشترکہ امن فوج تیار کی جائے۔
7۔ خلیجی ریاستوں کی دولت جو ان پر حملوں کا سبب بنی ہوئی ہے، کی مناسب تقسیم ایک بینک برائے تعمیر کے ذریعے عمل میں لائی جائے گی مگر اس بینک کی اصل پالیسی امریکہ، برطانیہ اور فرانس وضع کریں گے۔ اس بینک کی نمایاں ترجیحات یہ ہوں گی: (۱) مشترکہ امن فوج کا کنٹرول سنبھالنا۔ (۲) ایسے ممالک میں بڑے منصوبوں کی تعمیر و تکمیل کے لیے فنڈ مہیا کرنا جو (مذکورہ بالا) مشترکہ فوج کے معاون ہوں مثلاً شام۔ (۳) اس طرح ان بعض غیر عرب ممالک میں ایسے منصوبوں کی تکمیل کے لیے فنڈات مہیا کرنا ۔8۔ تمام عرب ملکوں کے ایسے حکومتی نظاموں کی تبدیلی جو امریکی پالیسی سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ اس منصوبہ کی بعض تفصیلات یوں ہوں گی:
(الف) خلیجی ریاستیں:ان ریاستوں کے حکومتی نظام میں ردوبدل کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہمیشہ امریکی پالیسی کی پرجوش حامی رہی ہیں اور رہیں گی۔ ان کے اس حکومتی نظام کو باقی رکھنا ہی امریکی مفادات کا تحفظ ہے۔ البتہ یہ کوششیں جاری رکھی جائیں کہ ان ریاستوں میں زمام اقتدار ایسے افراد کے ہاتھوں میں آئے جو مغرب کے تعلیم یافتہ ہیں اور ایسی کوششیں بھی کی جائیں جن کی بدولت ان ریاستوں کی مذہبی ثقافت کو بدل دیا جائے۔
(ب) دیگر ممالک:(۱) شام: شام کے حکمران حافظ الاسد ہمیں قبول ہیں، انہیں اس منطقہ میں کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔(۲) مصر: اگرچہ مصر کی موجودہ قیادت نے (امریکی پالیسی کے اتباع میں) صحیح اور قابل قبول رویہ اختیار کیا لیکن یہ حکومت مصری رائے عامہ کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ لہٰذا ہمیں اس کے بارے میں جدید خطوط پر سوچنا ہوگا۔ دراصل جمال عبد الناصر اور انور السادات کے دور میں آزادیٔ رائے پر پہرہ لگا دیا گیا تھا جس کے جمہوریت پر منفی اثرات ظاہر ہوئے۔ اب ضروری ہے کہ مصر میں جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا جانا چاہیے تاکہ ہر شخص آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکے اور اسلامیین (بنیاد پرستوں) کو راہ سے ہٹانے کا یہی ایک طریقہ ہے۔(۳) فلسطین اور اسلامی تحریکات: اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو روکنے اور فلسطین کے قبضہ پر مسلمانوں کے (دینی، اخلاقی اور نفسیاتی) دباؤ کو کم کرنے کے لیے ان خطوط پر عمل پیرا ہونا ہوگا:
مسلمانوں کو ان کے فروعی اختلافات میں الجھا کر ایک دوسرے سے لڑانا تاکہ وہ اپنی طاقت کا آپ مقابلہ کرتے رہیں۔ جیسے مصر کے محمد الغزالی نے اسلام میں عورت کے مقام کے موضوع کو چھیڑ کر باہمی منافرت کی جنگ کو بھڑکایا۔
وہ خلیجی ریاستیں جو اسلامی شریعت کے نفاذ پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہیں یا اس کے نفاذ کے بارے میں غور کر رہی ہیں، ان کی حکومتوں کو تبدیل کرنا۔ جب کوئی حکومت اسلامی شریعت کا نفاذ کرے، اس کے خاتمہ کے لیے پوری کوشش کرنا۔ مثلاً سعودی عرب میں شرعی حدود کا نفاذ ہے، اس لیے ان کے بعض شیوخ کو ورغلانا اور ان کی سرگرمیوں کو معطل کرنا چاہیے۔ اس طرح تمام اسلامی تحریکات اور مظاہر پر کاری ضرب لگانا ضروری ہے۔ حساس قسم کے حکومتی اداروں میں اسلامی ذہن رکھنے والوں کو ملازمت کے مواقع نہیں ملنا چاہئیں۔ یہ پالیسی صرف خلیجی ریاستوں تک ہی محدود نہ ہوگی بلکہ اس کا دائرہ کار تمام اسلامی ریاستوں تک بڑھانا ہوگا۔ اسلامی فکر کو آگے بڑھانے والوں کو تعلیم و تربیت اور ابلاغ عامہ کے ذریعے اپنے خیالات عوام الناس تک پہنچانے سے روکنا ہوگا۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کی بدولت اسلام کی ترویج و ترقی کے لیے کام کرنے والوں کو رائے عامہ کو متاثر کرنے کا موقع ملتا ہے اور یوسف القرضاوی نے انہی ذرائع (تعلیم و تربیت اور ابلاغ عامہ) سے عوام الناس میں پذیرائی پائی۔ اسی طرح سعودی عرب میں مناع القطان نے اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ اسلامیین کو (ان کے اپنے ممالک میں بھی) اقتصادی اور اجتماعی معاملات میں نمایاں مقام پیدا کرنے سے باز رکھنا ہوگا، ورنہ وہ ان کے توسط سے اپنے ممالک سے باہر بھی اثر انداز ہوں گے۔9۔ بہت ہی قابل توجہ معاملہ عرب اور مسلمان ممالک سے افرادی قوت کا خلیجی ریاستوں میں آنے کا ہے، اس کا روکنا نہایت ضروری ہے۔ ان کے مقابل افرادی قوت کا سری لنکا، فلپائن اور تھائی لینڈ سے لانا ضروری ہے کیونکہ ان ممالک سے لائی گئی غیر مسلم افرادی قوت اسلامی اعتقادات اور اقدار پر منفی اثرات چھوڑے گی۔ اگر ان تینوں ملکوں کی افرادی قوت ضرورت کا معیار یا مقدار پوری کرنے سے قاصر ہو اور دیگر ممالک (اسلامیہ اور عربیہ) سے لوگ منگوانا ہی پڑیں تو پھر یہ ضرور ملحوظ رکھنا ہوگا کہ وہ پاکستان یا بنگلہ دیش سے نہ ہوں۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ دیگر (غیر مسلم) ممالک سے رابطہ کیا جائے (تاکہ بوقت ضرورت وہاں سے افراد بلائے جا سکیں)۔10۔ ضروری ہوگیا ہے کہ (مسلم ممالک) کے نظام تعلیم اور ثقافت کو تبدیل کیا جائے اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کا وقت بڑھایا جائے۔11۔ اسلامی اور دینی جماعتوں مثلاً سلفی اور اخوانی کے مابین اختلافات کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں زیادہ بڑھایا جائے۔
12۔ اسلامی فکر و کردار رکھنے والی حکومتوں مثلاً پاکستان اور سوڈان کو پسماندگی اور مشکلات کا شکار رہنے دیا جائے۔‘‘

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: خلیجی ریاستوں جانا چاہیے افرادی قوت دیا جائے ضروری ہے ممالک سے کیا جائے کے ساتھ کیا جا اور اس کے لیے

پڑھیں:

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا منصوبہ ختم کیا جائے، مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت گرانے کی دھمکی دیدی

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے نہروں کا معاملہ بہت خراب کردیا ہے، ہمیں اس نہج پر نہ لے جائیں کہ ایسا فیصلہ کردیں جس کا سب کو نقصان ہو، ہم حکومت کو گرانا نہیں چاہتے لیکن گرا سکتے ہیں، نہروں کا منصوبہ ختم کیا جائے۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل میں زیر بحث لائے اور ختم کرے، یہ منصوبہ ہر صورت واپس لینا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں ’وزیراعظم کینالز کے معاملے پر آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘، رانا ثنااللہ کا ایاز لطیف پلیجو کو ٹیلیفون

مراد علی شاہ نے کہاکہ سندھ کے عوام چاہتے ہیں کہ کینالز کا منصوبہ واپس لیا جائے، وفاقی حکومت جو کہہ رہی ہے اور جو لکھ کردیا ہے اس میں فرق ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ سندھ کے لوگ اب ایک ہی بات پر راضی ہوں گے کہ منصوبہ ختم کیا جائے، صوبائی حکومت کی کامیابی ہے کہ اب تک منصوبے کو روکنے میں کامیاب ہے۔

انہوں نے کہاکہ پانی کا یہی مسئلہ پاکستان کا بھارت اور بھارت کا چین کے ساتھ ہے، ہمارے پاس دلیل موجود ہے کہ یہ منصوبہ ملک کے لیے فائندہ مند نہیں۔

انہوں نے کہاکہ ارسا میں جو درخواست دی گئی اس میں کہا گیا ہے کہ 27 فیصد پانی سمندر میں جارہا ہے اس لیے کینال بنانے کی اجازت دی جائے، اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ پانی کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کے معاملے پر وفاقی اور سندھ حکومت آمنے سامنے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے مل بیٹھ کر معاملہ حل کرنے پر اتفاق کرلیا ہے تاہم ابھی تک کوئی باضابطہ میٹنگ نہیں بلائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں کینالز تنازع پر ن لیگ پیپلزپارٹی آمنے سامنے، کیا پی ٹی آئی کا پی پی پی سے اتحاد ہو سکتا ہے؟

آج سینیٹ اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی نے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف احتجاج کیا اور ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews ارسا دریائے سندھ کینالز منصوبہ مراد علی شاہ مشترکہ مفادات کونسل وزیراعلیٰ سندھ وفاقی حکومت وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • بھارت پاکستان کے شہروں پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کررہا ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • بھارت پاکستانی شہریوں پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، اگر ایسا ہوا تو بھارتی شہری بھی محفوظ نہیں رہیں گے، وزیر دفاع
  • ٹرمپ ٹیرف کے خلاف امریکا کی 12 ریاستوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا
  • صدر ٹرمپ کا چین پر ٹیرف میں کمی کا عندیہ، امریکی ریاستوں کا عدالت سے رجوع
  • ناقص منصوبہ بندی کے نقصانات
  •  فلسطین سے ملحقہ 23 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو سانپ سونگھ گیا ہے، خواجہ سلیمان صدیقی 
  • سیکورٹی مسائل اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر قطری و امریکی وزرائے خارجہ کی گفتگو
  • امریکا کا ایشیائی ممالک کی سولر مصنوعات پر 3521 فیصد ٹیکس کا اعلان
  • دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا منصوبہ ختم کیا جائے، مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت گرانے کی دھمکی دیدی
  • سعودی عرب کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو فروغ دیا جائے گا، ایران