افغانستان کے خلاف جنگ کرنی چاہیے نہ ہم افورڈ کرسکتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
کراچی ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 18مارچ 2025ء ) امیرجماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ افغانستان کے خلاف جنگ کرنی چاہیے نہ ہم افورڈ کرسکتے ہیں، افغانستان کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کی زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے، حکومت کو افغانستان سے مذاکرات میں جماعت اسلامی کی ضرورت پڑی تو ہم ہر ممکن مدد کے لیے تیار ہیں، ملک میں فوجی آپریشن سے پہلے مسئلے حل ہوئے ہیں اور نہ آئندہ حل ہوں گے۔
تفصیلات کے مطابق امیرجماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے منگل کو ادارہ نور حق میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوااور بلوچستان کی سنگین صورتحال اورموجود حالات کا تقاضہ ہے کہ ملک میں گریٹر ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے، داخلی تحفظ یقینی بنانے اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے آزادو خود مختار اور جامع پالیسی بنائی جائے، امریکہ کا ساتھ چھوڑ کر پاکستان اور افغانستان کے عوام کا ساتھ دیا جائے، فوج اور عوام کے درمیان بڑھتے فاصلے کم کیے جائیں، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی نہ صرف پورے خطے بلکہ افغانستان اور پاکستان دونوں کے لیے نقصان دہ ہے، دونوں ممالک کے درمیان ہر صورت میں بات چیت ناگزیر ہے، افغانستان اور پاکستان دونوں کے حق میں یہ ہی بہتر کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو، افغان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لے استعمال نہ ہو، ملک میں فوجی آپریشن سے پہلے مسئلے حل ہوئے ہیں اور نہ آئندہ حل ہوں گے، جماعت اسلامی نے پروفیسر ابراہیم کی سربراہی میں کے پی کے اور لیاقت بلوچ کی قیادت میں بلوچستان کے حالات سے نمٹنے اور صورتحال بہتر کرنے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، 14اپریل کو اسلام آباد میں بلوچستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل کانفرنس کریں گے جس تمام پارٹیوں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا جائے گا، بلوچستان میں عوامی اعتماد سازی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ملک توڑنے والی قوتوں کا عوام سے کوئی تعلق نہیں، عوام اور فوج کے درمیان فاصلوں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی حقیقی قیادت کو آگے آنے دیا جائے، بلوچستان میں قومی و صوبائی اسمبلی کی صرف 10 نشستیں ایسی ہیں جہاں عوام کے نمائندے جیتے ہیں باقی تمام نشستوں پر باقاعدہ بولیاں لگی ہیں اور خرید و فروخت ہوئی، فارم 47 کی بنیاد پر کراچی سمیت پورے ملک میں مسترد شدہ لوگوں کو مسلط کر دیا گیا۔(جاری ہے)
عوام کے اندر اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قومی انتخابات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور فارم47 کے بجائے فارم 45 کی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں۔ حافظ نعیم الرحمان نے مزید کہا کہ ملک میں مہنگائی و بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے،صرف وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے اشتہاروں میں عوام کے حالات بہتر ہورہے ہیں،ویسے حالات ملک میں کہیں بھی بہتر نہیں ہورہے۔عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے 60 صفحات کے اشتہارات اور الیکڑونک و پرنٹ میڈیا کو خرید کر عوام کو بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔وزیر اعظم بتائیں کہ کون سی ایسی اشیاء ہیں جن کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہو،وزیر اعظم کہتے ہیں کہ گزشتہ سال 60 فیصد مہنگائی میں اضافہ ہوا اور اس سال 40 فیصد ہوا، یہ کون سی حکمت ہے، بجلی کے بلوں کے حوالے سے بار بار بیانات آرہے ہیں کہ ہم قوم کوخوشخبری دینے والے ہیں،عوام کو خوشخبری نہیں بجلی کے بلوں میں سے ناجائز ٹیکسز ختم اور عوام کو ریلیف دیا جائے،پیٹرول کی قیمتیں کم کی جائیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں نیشنل سیکوریٹی کونسل کا اجلاس جاری ہے، طویل مشاورت کر کے اس بات پر فوری اقدام کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی ذریعے سے افغان حکومت سے چاہے وہ جرگے کی صور ت میں ہو،کسی پارٹی کی صورت میں، افغان حکومت سے بات چیت کی جائے اور اس کے لیے جماعت اسلامی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ کے پی کے کی صوبائی اور و فاقی حکومت کی چبقلش ہر وقت جاری رہتی ہے،جس کے نتیجے میں نقصان عوام کا ہی ہورہا ہے،خیبر پختونخواہ کے مسئلے پر بھی جماعت اسلامی کی پروفیسر ابراہیم کی قیادت میں بنائی گئی کمیٹی چند دنوں میں تجاویز بناکر پیش کرے گی کہ وہ کون سا روڈ میپ ہے کہ جس کے نتیجے میں خیبرپختواہ میں امن و امان قائم کرسکتے ہیں،اس پر ہم سنجیدگی سے بات کرنا چاہتے ہیں، یہ صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا وقت نہیں، یہ خطہ بد امنی کا شکار ہے جس کے نتیجے میں پورا پاکستان زخمی ہے لہذا اسے ہر صورت ایڈریس کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ بلوچوں میں عدم اعتماد اس لیے پیدا ہوا کہ بلوچوں کے مسائل حل نہیں کیے جارہے، سی پیک میں بلوچوں کا تذکرہ تو بہت ہوتا ہے لیکن ان کے لیے تعمیر و ترقی کے کام نہیں کیے جاتے،نوجوانوں کو مین اسٹریم میں نہیں لایا جارہا،سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو لاپتا کردیا جاتا ہے، لوگوں کو عدالت میں لانے کے بجائے لاپتا کردینا کسی بھی آئین اور قانون میں موجود نہیں ہے، اسی کے نتیجے میں پورے معاشرے پر اثر پڑتا ہے اور ملک دشمن قوتیں فائدہ اُٹھاتی ہیں، بلوچوں کو مین اسٹریم میں رکھتے ہوئے ان کے مسائل حل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔بلوچستان کے حوالے سے جماعت اسلامی کی لیاقت بلوچ کی قیادت میں قائم کمیٹی نے اپنی ورکنگ کرلی ہے اب ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ خیبر پختونخواہ ہو یا بلوچستان یہ سنجیدہ نوعیت کے نیشنل سیکورٹی کے مسئلے ہیں لیکن ان سب کا حل آزاد وخود مختار ریاست میں ہے،ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے،ہم جب امریکہ کے دباؤ میں آکر فیصلے کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں وہ پالیسیاں بنانی پڑتی ہیں جس سے اعتماد کا بحران پیدا اور مسائل پیدا ہوتے ہیں،کوئی بھی جنگ جو امن کو حاصل کرنے کے لیے ہو یا دشمن کے خلاف لڑی جائے،وہ جنگ فوج نہیں قوم لڑتی ہے،جب فوج اور قوم کے درمیان فاصلہ پیدا ہوجائے تو اس کے نتیجے میں جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ عوام اور فوج کے درمیان فاصلہ اس لیے پیدا ہورہا ہے کہ ادارے، سیاست دان،اسٹییبلشمنٹ اور عدلیہ اپنی اپنی آئینی حدود کے مطابق کام نہیں کررہے،اگر یہ سب آئینی حدود کے مطابق کام کریں گے تو چیزیں بہتر ہوجائیں گی۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ اس وقت شدید بدامنی کاشکار ہیں،گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں میں خیبر پختونخواہ میں 57حملے ہوئے،کئی قیمتی جانیں گئیں، علماء کرام،فوجی اہلکار وں پر حملے کیے گئے، خیبر پختونخواہ خصوصاََ اس آگ میں اس لیے موجود ہے کیونکہ اس خطے کے حوالے سے ہماری پالیسی ہماری اپنی نہیں رہی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے حافظ نعیم الرحمان نے خیبر پختونخواہ جماعت اسلامی افغانستان کے کے نتیجے میں کرنے کے لیے کے درمیان نے کہا کہ عوام کے ملک میں کے خلاف
پڑھیں:
افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ
امید ہے 6 نومبر کو افغان طالبان کیساتھ مذاکرات کے اگلے دور کا نتیجہ مثبت نکلے گا،ترجمان
پاکستان خودمختاری اور عوام کے تحفظ کیلئے ہر اقدام اٹھائے گا،طاہر اندرابی کی ہفتہ وار بریفنگ
ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے کہا ہے کہ پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اگلے دور کا نتیجہ مثبت نکلے گا۔پاکستان افغانستان کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا، دراندازی بند کی جائے۔پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنی خودمختاری اور عوام کے تحفظ کے لیے ہر اقدام اٹھائے گا، جمعہ کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان مصالحتی عمل میں اپنا کردار جاری رکھے گا اور 6 نومبر کے مذاکرات سے مثبت نتائج کی امید رکھتا ہے۔انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور جمعرات کی شام استنبول میں ثالثوں کی موجودگی میں اختتام کو پہنچا۔ترجمان کے مطابق پاکستان نے 25 اکتوبر سے شروع ہونے والے استنبول مذاکرات میں خوش دلی اور مثبت نیت کے ساتھ شرکت کی۔انہوں نے بتایا کہ مذاکرات ابتدائی طور پر دو دن کے لیے طے کیے گئے تھے، تاہم طالبان حکومت کے ساتھ باہمی اتفاقِ رائے سے معاہدے تک پہنچنے کی سنجیدہ کوشش میں پاکستان نے بات چیت کو 4 دن تک جاری رکھا۔