واشنگٹن:

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین کی توانائی تنصیبات پر عارضی طور پر حملے روکنے پر رضامندی ظاہر کی، تاہم انہوں نے 30 دن کی مکمل جنگ بندی کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا۔

یہ تجویز سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پیش کی گئی تھی، جن کا خیال تھا کہ یہ قدم ایک مستقل امن معاہدے کی جانب پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

یوکرین کی حکومت نے اس معاہدے کی حمایت کی، جس کے تحت دونوں ممالک توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر ایک ماہ تک حملے روکیں گے۔

تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ پیوٹن نے مشرقی یوکرین میں روسی افواج کی پیش قدمی کے پیش نظر اس معاملے میں اہم رعایتیں دینے سے گریز کیا۔

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان گزشتہ روز ہونے والی طویل ٹیلیفونک گفتگو کے بعد وسیع تر امن منصوبے پر مذاکرات فوری طور پر شروع ہوں گے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یوکرین ان مذاکرات میں شامل ہوگا یا نہیں۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق مذاکرات مشرق وسطیٰ میں ہوں گے اور ان میں بحیرہ اسود میں سمندری جنگ بندی کے ساتھ ساتھ مزید مکمل جنگ بندی اور مستقل امن معاہدے پر بات کی جائے گی۔

کریملن نے ایک بیان میں خدشہ ظاہر کیا کہ یوکرین اس عارضی جنگ بندی سے مزید فوجیوں کو دوبارہ تعینات کرنے اور متحرک کر سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

روس کا یوکرین پر اب تک کا سب سے طاقتور حملہ، 5 ہلاکتیں اور 20 زخمی

روس نے یوکرین کے مختلف شہروں پر میزائلوں، ڈرونز اور بموں سے اب تک کے سب سے شدید حملے کیے ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق رات بھر جاری رہنے والے حملوں میں روس نے 215 میزائل اور ڈرونز یوکرین پر داغے۔

یوکرینی دفاعی نظام نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے 87 ڈرونز اور 7 میزائلوں کو فضا میں تباہ کرکے ناکارہ بنا دیا۔

یوکرین کے شہر خارکیف کے میئر نے بتایا کہ شہر پر حملہ روس کی جانب سے 2022 میں شروع کی گئی مکمل جنگ کے بعد سے اب تک کا سب سے طاقتور حملہ تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ خارکیف پر 48 ایرانی ساختہ ڈرونز، دو میزائل اور چار گائیڈڈ بم فائر کیے گئے۔

خیال رہے کہ یوکرین کا شہر خارکیف، روسی سرحد سے صرف 50 کلومیٹر دور واقع ہے اور گزشتہ شب  حملے کا مرکز رہا۔

روس کے یوکرین پر ان حملوں میں رہائشی عمارتیں اور دیگر شہری انفرا اسٹریکچر بری طرح متاثر ہوئے جب کہ 5 ہلاکتیں ہوئیں اور 25 زخمی بھی ہوئے۔

روس نے ان حملوں کو یوکرین کے دہشت گردانہ اقدامات کا جواب قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔

یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے جب پچھلے ہفتے یوکرین نے ڈرون حملوں میں روس کے حساس عسکری ہوائی اڈوں پر نیوکلیئر صلاحیت والے طیاروں کو نقصان پہنچایا تھا۔

جس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ان حملوں کا سخت جواب دینے کا وعدہ کیا تھا۔

یوکرین نے جنگ بندی کے لیے 30 روزہ جنگ بندی کی تجویز دی ہے جس پر بات چیت پیر کے روز استنبول میں ہوئی تھئی۔

تاہم روس نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے یہ مسئلہ ملک کی بقاء سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ہمارے قومی مفاد، سلامتی اور مستقبل کا معاملہ ہے۔

صدر پیوٹن نے یوکرین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چار متنازع علاقوں سے دستبردار ہو، نیٹو میں شمولیت کا ارادہ ترک کرے اور مغربی فوجی تعاون کو ختم کرے۔

تاہم یوکرینی صدر نے ان تجاویز کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے اس کے برعکس تین طرفہ سربراہی اجلاس کی تجویز دی جس میں وہ پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہوں۔

تاہم اس پر بھی روس کی جانب سے کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا گیا۔

 

متعلقہ مضامین

  • بھارت کی ایٹمی تنصیبات اور مواد غیر محفوظ ہیں، ان کی سیکیورٹی لیا جائے، پاکستان کا مطالبہ
  • توانائی اصلاحات میں ریکوریز بہت شاندار رہیں،این ٹی ڈی سی کو تین کمپنیوں میں تقسیم کرنا اہم اقدام تھا، وزیر خزانہ 
  • وزیراعظم کا ترکیہ کے صدر سے ٹیلی فونک رابطہ، اہم فیصلوں پر عملدر آمد پر اتفاق
  • کرسٹیانو رونالڈو کا فیفا کلب ورلڈ کپ میں کھیلنے سے انکار
  • دوسرے بڑے شہر پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ، بڑا نقصان ہو گیا
  • روس کا یوکرین پر اب تک کا سب سے طاقتور حملہ، 5 ہلاکتیں اور 20 زخمی
  • یوکرین پر بڑا روسی حملہ، پانچ افراد ہلاک،۔متعدد زخمی
  • پاکستانی سائنسدانوں نے اے آئی جیو سائنس کے حوالے سے اہم اعزاز حاصل کرلیے
  • انکار کیوں کیا؟
  • جب عورت کا ’نہ‘ جرم بن جائے: ثنا یوسف کا قتل اور اِن سیل ذہنیت کا المیہ