وادی کشمیر میں ایک درجن سے زائد مقامات پر بھارتی ایجنسی کے چھاپے
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
ذرائع کے مطابق ان چھاپوں میں ان افراد کو نشانہ بنایا جارہا ہے جن کا تعلق حال ہی میں وجود میں آنے والے کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے ذیلی گروہوں اور معاون تنظیموں سے ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے مقبوضہ کشمیر کے صوبہ جموں کے مختلف علاقوں میں 12 سے زائد مقامات پر چھاپے مارے۔ بھارتی ذرائع کے مطابق یہ کارروائیاں پاکستان سے ہندوستان میں عسکریت پسندوں کی دراندازی اور حالیہ سکیورٹی فورسز اور شہریوں پر حملوں کی تحقیقات کے سلسلے میں کی جا رہی ہیں۔ چھاپے مار کارروائی جموں کے مختلف علاقوں میں عسکریت پسند تنظیموں کے ہمدردوں اور کارکنوں کے ٹھکانوں پر مارے جا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان چھاپوں میں ان افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن کا تعلق حال ہی میں وجود میں آنے والے کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے ذیلی گروہوں اور معاون تنظیموں سے ہے۔
این آئی اے یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ افراد کس طرح دراندازی میں مدد فراہم کر رہے تھے اور بھارتی سرزمین پر دہشت گردانہ کارروائیوں میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہے تھے۔ یہ کارروائی کیس RC-04/2024/NIA/JMU کے تحت کی جا رہی ہے، جو 24 اکتوبر 2024ء کو این آئی اے نے درج کیا تھا۔ یہ کیس لشکرِ طیبہ ( ایل ای ٹی) اور جیشِ محمد کے دہشت گردوں کی بین الاقوامی سرحد آئی بی اور لائن آف کنٹرول ایل او سی کے ذریعے دراندازی سے متعلق خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر درج کیا گیا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ جموں کے گاؤں میں موجود دہشت گردوں کے سہولت کار (او جی ڈبلیو ایس) اور دیگر ساتھی ان دراندازوں کو لاجسٹک سپورٹ، خوراک، رہائش اور مالی معاونت فراہم کر رہے تھے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
نئی دلی، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ
اجلاس میں کشمیری رہنماﺅں فاروق عبداللہ، محمد یوسف تاریگامی اور آغا روح اللہ مہدی وغیرہ نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کا انعقاد ”فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر“ نے کیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی اور کشمیری سیاسی رہنمائوں، کارکنوں اور سابق بیوروکریٹس نے بھارتی دارالحکومت نئی دلی میں ایک اجلاس کا انعقاد کیا جس میں بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس کا انعقاد ”فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر“ نے کیا تھا۔ یہ اجلاس بھارتی پارلیمنٹ کے جاری مانسوں اجلاس کے موقع پر منعقد کیا گیا تاکہ ریاستی اور خصوصی حیثیت کی بحالی کے مطالبے کو پارلیمنٹ تک پہنچایا جا سکے۔سابق بھارتی مصالحت کار رادھا کمار نے اجلاس کے دوران کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے لیے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد لائی جائے۔ اجلاس میں کشمیری رہنماﺅں فاروق عبداللہ، محمد یوسف تاریگامی اور آغا روح اللہ مہدی وغیرہ نے بھی شرکت کی۔
سابق داخلہ سکریٹری Gopal Pillai سمیت 122 سابق سرکاری افسران کی دستخط شدہ ایک عرضداشت بھی بھارتی ارکان پارلیمنٹ کو پیش کی گئی جس میں ان پر ریاستی حیثیت کی بحالی کیلئے ایوان میں قرارداد لانے پر زور دیا گیا۔ اجلاس میں کانگریس اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے کچھ ارکان پارلیمنٹ بھی شریک تھے۔ فاروق عبداللہ نے اس موقع پر کہا کہ ہم یہاں بھیک مانگنے کے لیے نہیں آئے ہیں، ریاستی درجہ ہمارا آئینی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2019ء کا فیصلہ غیر قانونی تھا جسے واپس لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی حیثیت کی منسوخی سے قبل جموں و کشمیر کے منتخب نمائندوں کے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی۔
آغا روح اللہ مہدی نے کہا کہ جموں و کشمیر کو مسلم اکثریتی خطہ ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے رہنما محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ کشمیر آج بھی درد و تکلیف کا شکار ہے، کشمیریوں کو ان گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے جو انہوں نے کبھی نہیں کیے۔ کارگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے) کے سجاد کرگیلی نے کہا کہ لداخ کو دھوکہ دیا گیا ہے اور حق رائے دہی سے محروم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کو تبدیل کیا جانا چاہیے، ہماری زمین خطرے میں ہے۔