عمر ایوب کی ضمانت خارج، عدالت نے گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 19 مارچ 2025ء ) عدالت نے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی ضمانت خارج کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ تفصیلات کے مطابق عمر ایوب کے خلاف 26 نومبر احتجاج کے مقدمات درج ہیں، اس حوالے سے سماعت کے دوران عمر ایوب خان عدالت پیش نہیں ہوئے اور ان کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان بھی عدالت نہ آئے، جس پر اس حوالے سے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج امجد علی شاہ نے فیصلہ سنایا، جس میں قائد حزب اختلاف اور پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب کی عبوری ضمانت خارج کرتے ہوئے عدالت نے انہیں گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا ہے جب کہ عدالت کی جانب سے صنم جاوید کی عبوری ضمانت میں توسیع کردی گئی۔
دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جناح ہاؤس حملہ سمیت نو مئی کے آٹھ مقدمات میں ضمانتوں پر سماعت چوبیس مارچ تک ملتوی کردی، عدالت نے تمام سپیشل پراسکیوٹرز کو دلائل کے لیے چوبیس مارچ کو طلب کرلیا، جسٹس سید شہباز علی رضوی اور جسٹس طارق سلیم شیخ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی ضمانتوں پر سماعت کی۔(جاری ہے)
دوران سمت سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’اس کیس میں حکومت نے سپیشل پراسیکیوٹر کو تعینات کیا ہے، وہ آج موجود نہیں ہیں، جناح ہائوس کیس میں پراسیکیوٹرجنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے دلائل دینے ہیں‘، جس پر جسٹس شہباز رضوی نے ریمارکس دئیے کہ ’آٹھ کیسز ہیں، آٹھ مختلف سپیشل پراسکیوٹرز تعینات ہیں، یہ ایک تکلیف دہ بات ہے کہ ایک بھی سپیشل پراسکیوٹرز عدالت میں پیش نہیں ہوا‘۔ اس موقع پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ’میں گزشتہ دو ماہ سے ان ضمانتوں کا بہت شدت سے انتظار کر رہا تھا، ہماری درخواست ہے کہ سپیشل پراسکیوٹرز آج نہیں کل پیش ہو جائیں، ہماری استدعا ہے کہ اسی ہفتے سپیشل پراسکیوٹرز دلائل کے لیے پیش ہوں‘۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عدالت نے عمر ایوب
پڑھیں:
سپریم کورٹ: ضمانت مسترد ہونے کے بعد ملزم کی فوری گرفتاری لازمی قرار
اسلام آباد ( نیوزڈیسک) سپریم کورٹ نے عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے سے متعلق اہم فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ قبل از گرفتاری ضمانت مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کی سربراہی میں سنائے گئے 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صرف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے سے گرفتاری نہیں روکی جا سکتی، عبوری تحفظ کوئی خودکار عمل نہیں بلکہ اس کے لیے عدالت سے باقاعدہ اجازت لینا ضروری ہے۔
فیصلے کے مطابق ملزم زاہد خان اور دیگر کی ضمانت کی درخواست لاہور ہائی کورٹ سے مسترد ہوئی، اس کے باوجود پولیس نے 6 ماہ تک گرفتاری کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔
عدالت نے اسے انصاف کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا اور کہا کہ عدالتی احکامات پر فوری عملدرآمد انصاف کی بنیاد ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق آئی جی پنجاب نے پولیس کی غفلت کا اعتراف کیا اور عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے لیے سرکلر جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
عدالت نے قرار دیا کہ پولیس کی طرف سے گرفتاری میں تاخیر کو انتظامی سہولت کا جواز نہیں بنایا جا سکتا، کیونکہ ایسی غیر قانونی تاخیر انصاف کے نظام اور عوام کے اعتماد کو مجروح کرتی ہے، اگر اپیل زیر التوا ہو تب بھی گرفتاری سے بچاؤ ممکن نہیں، جب تک عدالت کی طرف سے کوئی حکم نہ ہو۔
درخواست گزار وکیل کی جانب سے درخواست واپس لینے پر عدالت نے اپیل نمٹا دی۔
Post Views: 4