Daily Ausaf:
2025-06-06@10:46:39 GMT

مقروض یا امیر ترین ملک

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

گزشتہ دنوں ایک جاننے والے دفتر تشریف لائے۔ موصوف اوسلو یونیورسٹی ناروے میں معاشیات کے شعبے سے وابستہ ہیں، سیاحت کا جنون ہے اور اسی سلسلے میں بہت سے ممالک گھوم چکے ہیں۔ اب گزشتہ چار روز سے کراچی میں مقیم ہیں۔ بہرحال ہمیں سے ملاقات کے لیے فون کیا تو ہم نے انہیں دفتر بلا لیا۔ جب ان کی تشریف آوری ہوئی تو ہانپتے کانپتے انتہائی غصے میں معلوم ہو رہے تھے۔ ہم نے ان کی خیریت دریافت کی، ٹھنڈا پانی پیش کیا، کرسی پر بیٹھ گئے پھر ہمیں گھورتے ہوئے بولے۔ ’’قریشی صاحب، میں آدھے گھنٹے سے صدر کا روڈ بغیر زبرا کراسنگ کے کراس کرنے کے لیے دوسرے کنارے پر کھڑا ہوا تھا۔ ’’کیا واقعی آپ کا ملک غریب ہے جو بغیر قرضوں کے ایک قدم بھی نہیں چل سکتا، جس کو قرضوں کی ہمیشہ شدید ضرورت رہتی ہے؟‘‘ ہم ابھی کوئی مناسب جواب سوچ ہی رہے تھے کہ کہنے لگے۔ ’’قریشی صاحب، میں حیران ہوں کہ آپ کے ملک کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے اور آپ کا ملک دنیا کے تقریباً ساڑھے پچیس کھرب روپے کا مقروض ہے۔ ابھی جب میں آپ کا یہ صدر کا روڈ لیفٹ سے رائٹ کراس کرنا چاہ رہا تھا تو مجھے شدید انتظار کرنا پڑا پھر بھی مشکل سے سڑک پار کرسکا کیونکہ ہمیں تو زبر کراسنگ سے روڈ کراس کرنے کی عادت ہے اور وہ آپ کے مالک میں ناپید ہے سوری قریشی صاحب کہ بار کچھ اور ہورہی تھی اور چلی گئی دوسری طرف تو یہاں مختلف میک اور ماڈل کی کاریں، موٹریں اور انتہا سے زیادہ بائیک قطار در قطار اس طرح گزر رہی تھیں کہ درمیان سے گزرنے کی مجھ میں تو ہمت ہی نہیں ہوئی اور ساتھ ہی سڑک کے کنارے کھڑا یہ بھی سوچتا رہا کہ یہاں پبلک ٹرانسپوٹ نہ ہونے کے برابر ہے ہر شخص کے پاس اپنی سواری ہے اور اس کے ساتھ ہی میں حیرت سے ٹریفک میں شامل ان گزرتی گاڑیوں کو دیکھتا رہا اور حیران ہوتا رہا کہ یا اللہ یہ ملک جو تقریباً پندرہ سو کھرب کا مقروض ہے، اس کے ہر ہر شہر یہاں تک کہ گائوں دیہاتوں تک میں مختلف قسم اور نئے ماڈل کی گاڑیوں کی اس قدر بھر مار ہے کہ معلوم ہوتا ہے یہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ملک ہوگا۔ ایسے ہی آپ کے ملک کے مختلف شہروں میں یہ بلند و بالا عمارتوں کی قطاریں جو خود کئی کھرب مالیت کی ہوں گی۔
سر بفلک کھڑی اپنی امارت اور شان و شوکت کا خود مظہر ہیں۔ میں آپ سے ملنے سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک کی سیاحت کرتا ہوا آرہا ہوں۔ پاکستان پہلے بھی کئی بار آچکا ہوں۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ اوسلو یونیورسٹی میں میرا مضمون معاشیات اور معاشرت ہے، اس لیے میں اپنے اس مضمون پر مشاہدہ کرتا ہوں اور آپ کے ملک پاکستان میں آکر محسوس کرتا ہوں کہ کسی تیل پیدا کرنے والے ملک میں آگیا ہوں جہاں لوگوں کو صرف پیسہ خرچ کرنے اور لٹانے کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ اس بار تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی بہت ترقی یافتہ اور امیر ترین ملک میں آگیا ہوں۔ جناب کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں آپ اس طرح نہ تو سڑکوں پر جگہ جگہ دور تک پھیلے شو روم دیکھیں گے۔ نہ کپڑوں کی اتنی بڑی بڑی مارکیٹیں دیکھیں گے۔ خام کپڑا تمام ممالک میں بنتا ہے، وہ یوں اسے ضائع نہیں کرتے بلکہ دوسرے ممالک کو ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کماتے ہیں اور اپنے شہریوں کے لیے سلے سلائے کپڑے مہیا کرتے ہیں۔ یہاں آپ کے شہر کراچی میں مختلف علاقوں مثلاً ابھی میں کھارادر اور بولٹن مارکیٹ سے آرہا ہوں، وہاں مختلف مارکیٹیں جس طرح سامان سے بھری ہوئی ہیں، وہ کسی غریب ملک کا تاثر تو نہیں دیتیں۔ صدر کے بوہری بازار اور اس کے گرد و نواح کے علاقے ساتھ ہی طارق روڈ اس کے اطراف اور لیاقت آباد، ناظم آباد، حیدری، شاہ فیصل کالونی، ملیر اور میں تو سب سے زیادہ حیرت کا شکار تو کلفٹن اور زمزمہ کے علاقوں میں جاکر تو ایسا محسوس ہوا کہ یہ پاکستان نہیں بلکہ دبئی یا یورپ کے کسی بڑے شہر میں آگیا ہوں اور غرض آپ کے شہر کے ہر ہر علاقے میں چاہے وہ کسی حیثیت کے لوگوں کا رہائشی علاقہ ہو، کہیں یہ تاثر نہیں ملتا کہ یہ کسی غریب ملک کا کوئی علاقہ ہے اور اس کے ساتھ ہی میں لاہور، اسلام آباد اور پاکستان کے کئی بڑے اور چھوٹے شہروں سے ہوکر آرہا ہوں وہاں بھی کچھ اس ہی طرح کا تاثر ملتا ہے خاص کر کراچی کا زمزمہ اور لاہور و اسلام آباد تو لگتے ہی نہیں کہ پاکستان کا حصہ ہوں۔ ایسے ہی آپ کو پورے امریکا یا یورپ میں کہیں ڈرائی کلینرز یعنی کپڑے دھونے والوں کی اس قدر دکانیں نہیں ملیں گی۔
یہاں تو ہر گلی کوچے میں کئی کئی دکانیں کپڑے دھونے والوں کی موجود ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس لٹانے کے لیے کس قدر دولت ہے۔ بڑے گھرانوں کی بات تو الگ رہی، چھوٹے چھوٹے علاقوں میں گھروں میں کام کرنے کے لیے کئی کئی ملازمین رکھے جاتے ہیں پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کے اخبارات اور تمام سیاسی لیڈر ملک کے طول وعرض میں مہنگائی کا بڑا شور شرابہ کرتے نظر آرہے ہوتے ہیں لیکن میں نے سروے کیا ہے کہ کسی بھی قسم کی کسی بھی دکان پر کوئی شے اس لیے فروخت ہونے سے نہیں رہ جاتی کہ اس کی قیمت زیادہ ہے، چاہے وہ کتنی ہی غیر اہم یا اہم چیز کیوں نہ ہو، اس کے خریدار موجود نظر آرہے ہوتے ہیں۔ معاشیات کے استاد کی حیثیت سے میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہمارے لیے وہی چیز مہنگی ہوتی ہے جو ہماری قوت خرید میں نہ آسکے جسے ہم خرید نہ سکیں۔ آپ کے پاکستان میں لوگ جس طرح رہتے ہیں، خرچ کرتے ہیں، اس سے قطعی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کوئی غریب ملک ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ساتھ ہی دنیا کے ہے اور کے لیے اور اس

پڑھیں:

افغان تعصب

گزشتہ ماہ 7 مئی کو جب انڈیا پاک فضائیہ کے ہاتھوں سکتے سے دوچار تھا تو افغانستان سے ایک تعصب بھری ٹویٹ ہوئی۔ اس ٹویٹ میں کہا گیا:

’ہندوؤں اور پنجابیوں کے سیاسی جھگڑے کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے۔ پنجابی کوشش کریں گے کہ جہاد کے نام پر پختونوں کو اکسائیں۔‘

یہ ٹویٹ افغانستان کے ایک ایسے ملا کی تھی جس کے نام کے ساتھ ہی ’ضعیف‘ کا لاحقہ لگا ہوا ہے۔ امام غزالی نے لکھا ہے، نام کا شخصیت پر اثر پڑتا ہے۔ سو اس ٹویٹ نے ثابت کیا تھا کہ امام غزالی نے کم از کم اس افغان ملا کی حد تک تو ٹھیک ہی لکھا ہے۔ ان کی اس نام نہاد رائے کا ضعف دیکھیے کہ ایک فریق مذہبی اٹھایا تو دوسرا لسانی۔ ایسی پستی تو کبھی انڈین ہندوؤں نے بھی نہ دکھائی تھی۔ وہ جب پاکستان اور انڈیا کی بجائے مذہبی ریفرنس استعمال کرتے ہیں تو ہندو اور مسلمان ان کا حوالہ دیتے ہیں، نہ کہ ہندو اور پنجابی کا۔ سو پہلا سوال تو یہی ہے کہ ملاضعیف نے پاکستان یا مسلمان کی بجائے پنجابی ترکیب کیوں برتی؟ کیا اسے پاکستان کے پنجابیوں سے کوئی مسئلہ ہے؟

ایسا قطعاً نہیں ہے۔ آپ شاید حیران ہوں مگر ہر افغانی ہر پاکستانی کو پنجابی ہی قرار دیتا ہے۔ خود ہم نے ذاتی طور پر 40 سال تک ان کی یہ بکواس سن رکھی ہے کہ اچھی بھلی رواں پشتو میں بات ہو رہی ہوتی ہے کہ ان میں سے کوئی اجنبی پوچھ بیٹھتا کہ ہم کہاں کے ہیں؟ جب ہم خیبرپختون خوا کا بتاتے تو ان کا فوری ردعمل ہوتا

’اچھا پنجابی ہو !‘

ہم چونکہ لگ بھگ 40 سال ذاتی طور پر افغانستان میں کسی نہ کسی شکل میں انوالو رہے ہیں، سو ذاتی تجربے کی بنیاد پر پورے اعتماد کے ساتھ بتا دیں کہ یہ پاکستانی اقوام میں سے سب سے زیادہ پاکستانی پختونوں سے نفرت کرتے ہیں۔ جس کی کئی وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی پختون بیلٹ کسی زمانے میں افغانستان کا علاقہ تھا جو برطانیہ نے قبضہ کرلیا تھا۔ اس قبضے کو افغانستان نے نہ صرف یہ کہ ڈیورنڈ لائن معاہدے تحت قبول کرلیا تھا بلکہ آگے چل کر بے چوں و چرا اسے رینیو کرکے اس علاقے کے لوگوں کو بالکل ہی بھلا دیا تھا۔ اس سے یہاں کے پختونوں میں افغانستان کے خلاف نفرت ہی پیدا نہ ہوئی بلکہ انہوں نے طے کرلیا کہ یہ اب آنے والے وقت میں کسی بھی صورت افغانستان کا حصہ نہیں بنیں گے۔ جواباً افغانی پختونوں نے انہیں ’پنجابی‘ پکارنا شروع کردیا۔

اگر آپ یاد کیجیے تو 1947 میں بٹوارے کے وقت برطانیہ نے صوبہ سرحد کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کروانے کے لئے ریفرنڈم کروایا تو اس میں صرف انڈیا اور پاکستان کی آپشنز دی گئیں اور صوبہ سرحد کے لوگوں نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ باچا خان کی صورت یہ آواز تو موجود تھی کہ پختونستان کی آپشن بھی رکھی جائے مگر افغانستان کو بطور آپشن رکھنے کی کوئی آواز نہ تھی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ خود باچا خان بھی افغانستان پر تین حرف بھیج چکے تھے۔ صرف باچا خان ہی نہیں بلکہ آج 75 سال بعد بھی صورتحال یہ ہے کہ ’لر و بر‘ کا چورن بانٹنے والا منظور پشتین بھی افغانستان سے صرف مال پانی بٹورنے پر ہی یقین رکھتا ہے اس کا حصہ بننے کو وہ بھی تیار نہیں۔

افغان پشتونوں کا پاکستانی پختونوں پر دوسرا بڑا غصہ اس بات کا ہے کہ ایک زمانے میں افغانستان کا تعارف ایک پشتون ملک کا تھا۔ لیکن آج دنیا میں پشتون آبادی والے 2 ممالک ہیں۔ اور جب سوال ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پختون آبادی والا ملک کونسا ہے؟ تو درست جواب افغانستان نہیں بلکہ پاکستان ہوتا ہے۔ اور فرق اتنا بڑا ہے کہ افغانستان میں پشتون آبادی ایک کروڑ 70 لاکھ ہے جبکہ پاکستان ساڑھے 4 کروڑ پختونوں کا وطن ہے۔ پھر ایک اور اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ پختون تہذیب میں علم و فن کی نسبت سے جتنے بھی لیجنڈری نام ہیں ان کا تعلق تاریخی طور پر پاکستان والی بیلٹ سے رہا ہے۔ مثلاً آپ صرف شاعری میں ہی 3 نام دیکھ لیجیے۔ خوشحال خان خٹک، رحمان بابا اور غنی خان تینوں کا آبائی علاقہ پاکستان میں ہے۔

ذکر چل ہی نکلا ہے تو یہ صراحت بھی بے جا نہ ہوگی کہ پاکستان کے ابدالی اور غوری میزائلوں کی نسبت کو افغان نسبت سمجھنا ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ یہ نسبت عین پاکستان کی پختون بیلٹ کی طرف ہے۔  ذرا اس کا تاریخی تناظر بھی سمجھ لیجیے۔  غزنوی، ابدالی اور غوری کی اس خطے میں شہرت ہندوستان پر حملوں کی ہے۔ ذرا غور کیجیے آج کی تاریخ میں کون سے پختون انڈیا کے حامی اور کون سے اس کے دشمن ہیں؟ کیا ابھی پچھلے ماہ نظر نہیں آگیا کہ کون سے پختون تھے جو انڈیا کے خلاف صف آراء تھے اور کون سے پشتون تھے جن کا ملا صدر خفیہ دورے پر دہلی پہنچا ہوا تھا؟ اور وہ کون تھا جو 10 مئی کو انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کو فون پر ٹکوری تسلیاں دے رہا تھا ؟ کیا یہ مخلوق ابدالی اور غوری کی اولاد ہوسکتی ہے؟

یہ تو وہ لوگ ہیں کہ جب تقسیم ہند کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کا مرحلہ آیا تو افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی ممبرشپ کی مخالفت کی تھی۔ اور اس نے1948ء میں ہی پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے ٹریننگ سینٹر قائم کر لیے تھے۔ جہاں سے اگلے 27 سال تک یہ پاکستان میں دہشتگردی کرواتے رہے۔ وہ تو خدا بھلا کرے ذوالفقار علی بھٹو کا جو اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر افغانستان کی آگ افغانستان کی طرف ہی نہ لوٹائی گئی تو ہم مستقل جلتے رہیں گے۔ چنانچہ 1975ء میں انہوں نے احمد شاہ مسعود اور حکمت یار نامی افغان طلبہ کے ہاتھ میں ’جہاد کی ماچس‘ پکڑا دی۔ اور جب ان کے بعد جنرل ضیاء آئے تو انہوں نے وہ ماچس لے کر اس کی جگہ لائٹر مٹی کا تیل دیدیا۔ یوں سوویت یونین اور افغانیوں کے ہاتھوں پورا افغانستان خاکستر ہوگیا۔ جو رہی سہی کسر تھی وہ امریکا نے آکر پوری کردی۔ مگر ملاضعیفوں کو اب بھی عقل نہیں آئی۔

 وہ تو چین ایک ہاتھ میں ڈنڈا اور دوسرے ہاتھ میں گاجر لے کر کھڑا ہوگیا ہے تو یہ انسان بننے پر آمادہ ہوئے  ورنہ 10 مئی کو تو یہ جے شنکر کے گھنٹے سے لٹکے نظر آرہے تھے۔ پاکستان کو ان سے محتاط رہنا ہوگا۔ ان کی داڑھیوں اور پگڑیوں کے جھانسے میں آنا ایک سنگین غلطی ہوگی۔ یہ وہی ہیں جو حرم شریف میں عہد کرکے کابل پہنچتے ہی توڑ دیتے تھے۔ اور خون کی ندیاں بہایا کرتے تھے۔ گروپس بیشک الگ تھے، مگر نسل یہ وہی ہے۔ جو ان کا جتنا بڑا حاجی ہوتا ہے وہ اتنا ہی بڑا سود خور اور ہندوؤں کا یار ہوتا ہے۔اگر ان میں ذرا بھی دینداری یا خدا خوفی ہوتی تو شی جن پنگ کے کہنے پر فتوی جاری کرتے؟

حماقت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ محض پولیٹکل و ملٹری آڈر بھی تو جاری کرسکتے تھے۔ مگر عقل اپنے مقام سے کھسک کر وہیں پہنچ جائے جہاں کافور بادشاہ کی پہنچ گئی تھی تو پھر ملا کو فتوے والی ٹھرک بھی تو پوری کرنی ہوتی ہے۔ سو اب یہ ہمیشہ اس طعنے کے ساتھ جئیں گے کہ انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی ملحد ریاست کے حکم پر شرعی فتوی جاری کیا تھا۔ ایسے لوگ کس منہ سے یہ طے کرتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کی لڑائی کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

افغان رعایت اللہ فاروقی

متعلقہ مضامین

  • حالات خراب ہیں!
  • بارود اور دلیل کا چراغ
  • ہم اتنے بھی غلط نہیں تھے
  • لنگرخانہ
  • وزیراعظم کا ٹرمپ کو امن کا پیامبر قرار دینا ذہنی غلامی ہے، امیر جماعت اسلامی
  •  دیامیر بھاشا ڈیم متاثرین سے متعلق اہم پیشرفت، کمیٹی نے سفارشات کو حتمی شکل دے دیا
  • امیر ترین یوٹیوبر مسٹر بیسٹ شادی کیلئے والدہ سے اُدھار پیسے کیوں لے رہے ہیں؟
  • افغان تعصب
  • اپنے بل بوتے پر بننے والی امیر ترین خواتین کی فہرست جاری
  • بلوچستان پاکستان کا امیر ترین سوبہ بنے گا