Daily Ausaf:
2025-09-19@04:34:34 GMT

مقروض یا امیر ترین ملک

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

گزشتہ دنوں ایک جاننے والے دفتر تشریف لائے۔ موصوف اوسلو یونیورسٹی ناروے میں معاشیات کے شعبے سے وابستہ ہیں، سیاحت کا جنون ہے اور اسی سلسلے میں بہت سے ممالک گھوم چکے ہیں۔ اب گزشتہ چار روز سے کراچی میں مقیم ہیں۔ بہرحال ہمیں سے ملاقات کے لیے فون کیا تو ہم نے انہیں دفتر بلا لیا۔ جب ان کی تشریف آوری ہوئی تو ہانپتے کانپتے انتہائی غصے میں معلوم ہو رہے تھے۔ ہم نے ان کی خیریت دریافت کی، ٹھنڈا پانی پیش کیا، کرسی پر بیٹھ گئے پھر ہمیں گھورتے ہوئے بولے۔ ’’قریشی صاحب، میں آدھے گھنٹے سے صدر کا روڈ بغیر زبرا کراسنگ کے کراس کرنے کے لیے دوسرے کنارے پر کھڑا ہوا تھا۔ ’’کیا واقعی آپ کا ملک غریب ہے جو بغیر قرضوں کے ایک قدم بھی نہیں چل سکتا، جس کو قرضوں کی ہمیشہ شدید ضرورت رہتی ہے؟‘‘ ہم ابھی کوئی مناسب جواب سوچ ہی رہے تھے کہ کہنے لگے۔ ’’قریشی صاحب، میں حیران ہوں کہ آپ کے ملک کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے اور آپ کا ملک دنیا کے تقریباً ساڑھے پچیس کھرب روپے کا مقروض ہے۔ ابھی جب میں آپ کا یہ صدر کا روڈ لیفٹ سے رائٹ کراس کرنا چاہ رہا تھا تو مجھے شدید انتظار کرنا پڑا پھر بھی مشکل سے سڑک پار کرسکا کیونکہ ہمیں تو زبر کراسنگ سے روڈ کراس کرنے کی عادت ہے اور وہ آپ کے مالک میں ناپید ہے سوری قریشی صاحب کہ بار کچھ اور ہورہی تھی اور چلی گئی دوسری طرف تو یہاں مختلف میک اور ماڈل کی کاریں، موٹریں اور انتہا سے زیادہ بائیک قطار در قطار اس طرح گزر رہی تھیں کہ درمیان سے گزرنے کی مجھ میں تو ہمت ہی نہیں ہوئی اور ساتھ ہی سڑک کے کنارے کھڑا یہ بھی سوچتا رہا کہ یہاں پبلک ٹرانسپوٹ نہ ہونے کے برابر ہے ہر شخص کے پاس اپنی سواری ہے اور اس کے ساتھ ہی میں حیرت سے ٹریفک میں شامل ان گزرتی گاڑیوں کو دیکھتا رہا اور حیران ہوتا رہا کہ یا اللہ یہ ملک جو تقریباً پندرہ سو کھرب کا مقروض ہے، اس کے ہر ہر شہر یہاں تک کہ گائوں دیہاتوں تک میں مختلف قسم اور نئے ماڈل کی گاڑیوں کی اس قدر بھر مار ہے کہ معلوم ہوتا ہے یہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ملک ہوگا۔ ایسے ہی آپ کے ملک کے مختلف شہروں میں یہ بلند و بالا عمارتوں کی قطاریں جو خود کئی کھرب مالیت کی ہوں گی۔
سر بفلک کھڑی اپنی امارت اور شان و شوکت کا خود مظہر ہیں۔ میں آپ سے ملنے سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک کی سیاحت کرتا ہوا آرہا ہوں۔ پاکستان پہلے بھی کئی بار آچکا ہوں۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ اوسلو یونیورسٹی میں میرا مضمون معاشیات اور معاشرت ہے، اس لیے میں اپنے اس مضمون پر مشاہدہ کرتا ہوں اور آپ کے ملک پاکستان میں آکر محسوس کرتا ہوں کہ کسی تیل پیدا کرنے والے ملک میں آگیا ہوں جہاں لوگوں کو صرف پیسہ خرچ کرنے اور لٹانے کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ اس بار تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی بہت ترقی یافتہ اور امیر ترین ملک میں آگیا ہوں۔ جناب کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں آپ اس طرح نہ تو سڑکوں پر جگہ جگہ دور تک پھیلے شو روم دیکھیں گے۔ نہ کپڑوں کی اتنی بڑی بڑی مارکیٹیں دیکھیں گے۔ خام کپڑا تمام ممالک میں بنتا ہے، وہ یوں اسے ضائع نہیں کرتے بلکہ دوسرے ممالک کو ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کماتے ہیں اور اپنے شہریوں کے لیے سلے سلائے کپڑے مہیا کرتے ہیں۔ یہاں آپ کے شہر کراچی میں مختلف علاقوں مثلاً ابھی میں کھارادر اور بولٹن مارکیٹ سے آرہا ہوں، وہاں مختلف مارکیٹیں جس طرح سامان سے بھری ہوئی ہیں، وہ کسی غریب ملک کا تاثر تو نہیں دیتیں۔ صدر کے بوہری بازار اور اس کے گرد و نواح کے علاقے ساتھ ہی طارق روڈ اس کے اطراف اور لیاقت آباد، ناظم آباد، حیدری، شاہ فیصل کالونی، ملیر اور میں تو سب سے زیادہ حیرت کا شکار تو کلفٹن اور زمزمہ کے علاقوں میں جاکر تو ایسا محسوس ہوا کہ یہ پاکستان نہیں بلکہ دبئی یا یورپ کے کسی بڑے شہر میں آگیا ہوں اور غرض آپ کے شہر کے ہر ہر علاقے میں چاہے وہ کسی حیثیت کے لوگوں کا رہائشی علاقہ ہو، کہیں یہ تاثر نہیں ملتا کہ یہ کسی غریب ملک کا کوئی علاقہ ہے اور اس کے ساتھ ہی میں لاہور، اسلام آباد اور پاکستان کے کئی بڑے اور چھوٹے شہروں سے ہوکر آرہا ہوں وہاں بھی کچھ اس ہی طرح کا تاثر ملتا ہے خاص کر کراچی کا زمزمہ اور لاہور و اسلام آباد تو لگتے ہی نہیں کہ پاکستان کا حصہ ہوں۔ ایسے ہی آپ کو پورے امریکا یا یورپ میں کہیں ڈرائی کلینرز یعنی کپڑے دھونے والوں کی اس قدر دکانیں نہیں ملیں گی۔
یہاں تو ہر گلی کوچے میں کئی کئی دکانیں کپڑے دھونے والوں کی موجود ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس لٹانے کے لیے کس قدر دولت ہے۔ بڑے گھرانوں کی بات تو الگ رہی، چھوٹے چھوٹے علاقوں میں گھروں میں کام کرنے کے لیے کئی کئی ملازمین رکھے جاتے ہیں پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کے اخبارات اور تمام سیاسی لیڈر ملک کے طول وعرض میں مہنگائی کا بڑا شور شرابہ کرتے نظر آرہے ہوتے ہیں لیکن میں نے سروے کیا ہے کہ کسی بھی قسم کی کسی بھی دکان پر کوئی شے اس لیے فروخت ہونے سے نہیں رہ جاتی کہ اس کی قیمت زیادہ ہے، چاہے وہ کتنی ہی غیر اہم یا اہم چیز کیوں نہ ہو، اس کے خریدار موجود نظر آرہے ہوتے ہیں۔ معاشیات کے استاد کی حیثیت سے میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہمارے لیے وہی چیز مہنگی ہوتی ہے جو ہماری قوت خرید میں نہ آسکے جسے ہم خرید نہ سکیں۔ آپ کے پاکستان میں لوگ جس طرح رہتے ہیں، خرچ کرتے ہیں، اس سے قطعی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کوئی غریب ملک ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ساتھ ہی دنیا کے ہے اور کے لیے اور اس

پڑھیں:

بے حیا کلچر کے فروغ نے نوجوان نسل کو تباہ کردیا، نصر اللہ چنا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-08-10
کراچی (اسٹاف رپورٹر )جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر حافظ نصراللہ چنا نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں عالمی دباؤ پر قرآن وسنت کے منافی قانون سازی عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ حکومتی سرپرستی میں تعلیمی اداروں میں نشہ اور بے حیائی کلچر کے فروغ نے نوجوان نسل کو تباہ کردیا ہے۔کراچی میں سامنے آنے والا حالیہ جنسی اسکینڈل ہمارے معاشرتی اخلاقی دیوالیہ پن کی ایک شرمناک مثال ہے۔ان خیالات کااظہارانہوں نے جماعت اسلامی کے تحت کراچی، لاڑکانہ اوررتوڈیرو میںسیرت النبی ؐکے اجتماعات سے خطاب کے دوران کیا۔اس موقع پر امیرضلع ایڈووکیٹ نادرکھوسہ، مقامی امیر رمیز راجا شیخ بھی موجود تھے۔ صوبائی رہنما کا مزیدکہنا تھاکہ اسلام اورکلمہ طیبہ کے نام سے معرض وجود میں آئے ہوئے مملکت پاکستان کو 78 سال گزرچکے ہیں لیکن مسلم اکثریتی ہونے کے باوجود ایک دن کے لیے بھی یہاںرحمت العالمین ؐ کا بابرکت نظام نافذ نہیں کیا گیا جس کا خمیازہ پوری قوم مہنگائی بدامنی رزق کی تنگی سیلاب سمیت بے شمار مسائل کی صورت میں بھگت رہی ہے۔نجات کا واحد حل زندگی کے ہردائرے میں سیرت طیبہ ؐ کو اپنانا ہے۔ ماہ مبارک میں اس عزم کا اظہار کیا جائے کہ ہم مغرب کے فرسودہ اورشیطانی نظام سے نجات اورزندگی کی آخری سانس تک نظام مصطفوی ؐ کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • امیر قطر کی والدہ اسرائیل مخالف پروپیگنڈہ مہم کی قیادت کر رہی ہیں، نتن یاہو
  • وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام کا شرینگل بار میں خطاب، وکلاء کی خدمات کو سراہا، خصوصی گرانٹ کا اعلان
  • بے حیا کلچر کے فروغ نے نوجوان نسل کو تباہ کردیا، نصر اللہ چنا
  • امیر مقام کا پروفیسر عبد الغنی بٹ کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار
  • گزشتہ 15 سال میں کراچی کی ترقی کے 3360 ارب روپے غبن کیے گئے، حافظ نعیم الرحمان
  • وزیراعظم شہباز شریف اور امیر قطر کی ملاقات ، مکمل حمایت اور یکجہتی کا اعادہ
  • دنیا کے امیر ترین شخص کی اپنی عمر سے 47 برس چھوٹی خاتون سے پانچویں شادی 
  • وزیراعظم شہباز شریف کی امیر قطر سے ملاقات، قریبی روابط برقرار رکھنے پر اتفاق
  • وزیراعظم شہباز شریف کی امیرِ قطر سے ملاقات، امت مسلمہ کے اتحاد پر زور
  • ’’امت مسلمہ کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے‘‘ وزیراعظم کا امیرِ قطر سے ملاقات میں اظہارِ یکجہتی