گزشتہ دنوں ایک جاننے والے دفتر تشریف لائے۔ موصوف اوسلو یونیورسٹی ناروے میں معاشیات کے شعبے سے وابستہ ہیں، سیاحت کا جنون ہے اور اسی سلسلے میں بہت سے ممالک گھوم چکے ہیں۔ اب گزشتہ چار روز سے کراچی میں مقیم ہیں۔ بہرحال ہمیں سے ملاقات کے لیے فون کیا تو ہم نے انہیں دفتر بلا لیا۔ جب ان کی تشریف آوری ہوئی تو ہانپتے کانپتے انتہائی غصے میں معلوم ہو رہے تھے۔ ہم نے ان کی خیریت دریافت کی، ٹھنڈا پانی پیش کیا، کرسی پر بیٹھ گئے پھر ہمیں گھورتے ہوئے بولے۔ ’’قریشی صاحب، میں آدھے گھنٹے سے صدر کا روڈ بغیر زبرا کراسنگ کے کراس کرنے کے لیے دوسرے کنارے پر کھڑا ہوا تھا۔ ’’کیا واقعی آپ کا ملک غریب ہے جو بغیر قرضوں کے ایک قدم بھی نہیں چل سکتا، جس کو قرضوں کی ہمیشہ شدید ضرورت رہتی ہے؟‘‘ ہم ابھی کوئی مناسب جواب سوچ ہی رہے تھے کہ کہنے لگے۔ ’’قریشی صاحب، میں حیران ہوں کہ آپ کے ملک کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے اور آپ کا ملک دنیا کے تقریباً ساڑھے پچیس کھرب روپے کا مقروض ہے۔ ابھی جب میں آپ کا یہ صدر کا روڈ لیفٹ سے رائٹ کراس کرنا چاہ رہا تھا تو مجھے شدید انتظار کرنا پڑا پھر بھی مشکل سے سڑک پار کرسکا کیونکہ ہمیں تو زبر کراسنگ سے روڈ کراس کرنے کی عادت ہے اور وہ آپ کے مالک میں ناپید ہے سوری قریشی صاحب کہ بار کچھ اور ہورہی تھی اور چلی گئی دوسری طرف تو یہاں مختلف میک اور ماڈل کی کاریں، موٹریں اور انتہا سے زیادہ بائیک قطار در قطار اس طرح گزر رہی تھیں کہ درمیان سے گزرنے کی مجھ میں تو ہمت ہی نہیں ہوئی اور ساتھ ہی سڑک کے کنارے کھڑا یہ بھی سوچتا رہا کہ یہاں پبلک ٹرانسپوٹ نہ ہونے کے برابر ہے ہر شخص کے پاس اپنی سواری ہے اور اس کے ساتھ ہی میں حیرت سے ٹریفک میں شامل ان گزرتی گاڑیوں کو دیکھتا رہا اور حیران ہوتا رہا کہ یا اللہ یہ ملک جو تقریباً پندرہ سو کھرب کا مقروض ہے، اس کے ہر ہر شہر یہاں تک کہ گائوں دیہاتوں تک میں مختلف قسم اور نئے ماڈل کی گاڑیوں کی اس قدر بھر مار ہے کہ معلوم ہوتا ہے یہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ملک ہوگا۔ ایسے ہی آپ کے ملک کے مختلف شہروں میں یہ بلند و بالا عمارتوں کی قطاریں جو خود کئی کھرب مالیت کی ہوں گی۔
سر بفلک کھڑی اپنی امارت اور شان و شوکت کا خود مظہر ہیں۔ میں آپ سے ملنے سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک کی سیاحت کرتا ہوا آرہا ہوں۔ پاکستان پہلے بھی کئی بار آچکا ہوں۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ اوسلو یونیورسٹی میں میرا مضمون معاشیات اور معاشرت ہے، اس لیے میں اپنے اس مضمون پر مشاہدہ کرتا ہوں اور آپ کے ملک پاکستان میں آکر محسوس کرتا ہوں کہ کسی تیل پیدا کرنے والے ملک میں آگیا ہوں جہاں لوگوں کو صرف پیسہ خرچ کرنے اور لٹانے کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ اس بار تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی بہت ترقی یافتہ اور امیر ترین ملک میں آگیا ہوں۔ جناب کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں آپ اس طرح نہ تو سڑکوں پر جگہ جگہ دور تک پھیلے شو روم دیکھیں گے۔ نہ کپڑوں کی اتنی بڑی بڑی مارکیٹیں دیکھیں گے۔ خام کپڑا تمام ممالک میں بنتا ہے، وہ یوں اسے ضائع نہیں کرتے بلکہ دوسرے ممالک کو ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کماتے ہیں اور اپنے شہریوں کے لیے سلے سلائے کپڑے مہیا کرتے ہیں۔ یہاں آپ کے شہر کراچی میں مختلف علاقوں مثلاً ابھی میں کھارادر اور بولٹن مارکیٹ سے آرہا ہوں، وہاں مختلف مارکیٹیں جس طرح سامان سے بھری ہوئی ہیں، وہ کسی غریب ملک کا تاثر تو نہیں دیتیں۔ صدر کے بوہری بازار اور اس کے گرد و نواح کے علاقے ساتھ ہی طارق روڈ اس کے اطراف اور لیاقت آباد، ناظم آباد، حیدری، شاہ فیصل کالونی، ملیر اور میں تو سب سے زیادہ حیرت کا شکار تو کلفٹن اور زمزمہ کے علاقوں میں جاکر تو ایسا محسوس ہوا کہ یہ پاکستان نہیں بلکہ دبئی یا یورپ کے کسی بڑے شہر میں آگیا ہوں اور غرض آپ کے شہر کے ہر ہر علاقے میں چاہے وہ کسی حیثیت کے لوگوں کا رہائشی علاقہ ہو، کہیں یہ تاثر نہیں ملتا کہ یہ کسی غریب ملک کا کوئی علاقہ ہے اور اس کے ساتھ ہی میں لاہور، اسلام آباد اور پاکستان کے کئی بڑے اور چھوٹے شہروں سے ہوکر آرہا ہوں وہاں بھی کچھ اس ہی طرح کا تاثر ملتا ہے خاص کر کراچی کا زمزمہ اور لاہور و اسلام آباد تو لگتے ہی نہیں کہ پاکستان کا حصہ ہوں۔ ایسے ہی آپ کو پورے امریکا یا یورپ میں کہیں ڈرائی کلینرز یعنی کپڑے دھونے والوں کی اس قدر دکانیں نہیں ملیں گی۔
یہاں تو ہر گلی کوچے میں کئی کئی دکانیں کپڑے دھونے والوں کی موجود ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس لٹانے کے لیے کس قدر دولت ہے۔ بڑے گھرانوں کی بات تو الگ رہی، چھوٹے چھوٹے علاقوں میں گھروں میں کام کرنے کے لیے کئی کئی ملازمین رکھے جاتے ہیں پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کے اخبارات اور تمام سیاسی لیڈر ملک کے طول وعرض میں مہنگائی کا بڑا شور شرابہ کرتے نظر آرہے ہوتے ہیں لیکن میں نے سروے کیا ہے کہ کسی بھی قسم کی کسی بھی دکان پر کوئی شے اس لیے فروخت ہونے سے نہیں رہ جاتی کہ اس کی قیمت زیادہ ہے، چاہے وہ کتنی ہی غیر اہم یا اہم چیز کیوں نہ ہو، اس کے خریدار موجود نظر آرہے ہوتے ہیں۔ معاشیات کے استاد کی حیثیت سے میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہمارے لیے وہی چیز مہنگی ہوتی ہے جو ہماری قوت خرید میں نہ آسکے جسے ہم خرید نہ سکیں۔ آپ کے پاکستان میں لوگ جس طرح رہتے ہیں، خرچ کرتے ہیں، اس سے قطعی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کوئی غریب ملک ہے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ساتھ ہی دنیا کے ہے اور کے لیے اور اس
پڑھیں:
دیسی گھی کھا کے جی
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے دلاور فگارکی، منفرد لب و لہجہ کے شاعر تھے اور ان جیسا شاعر مشکل ہی سے پیدا ہوگا۔ اس وقت ہمیں ان کا ایک زبردست شعر یاد آرہا ہے جو انھوں نے اس زمانہ میں کہا تھا جب برصغیر کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ پنجاب میل اس دورکی سب سے تیز میل ٹرین ہوا کرتی تھی۔ شعر یوں تھا۔
کھا کے دیسی گھی اگر غالبؔ جیئے تو کیا جیے
ہم کو دیکھو جی رہے ہیں سونگھ کر سرسوں کا تیل
اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ لوگوں کو سرسوں کا خالص تیل بھی میسر نہیں ہے۔ بیچارے بناسپتی گھی کھا کر جی رہے ہیں۔ برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ جب بناسپتی گھی آیا تھا تو اس کے بارے میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ بناسپتی گھی کھانے والوں کی چوتھی نسل اندھی ہوگی۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ یہ بات صد فیصد درست تھی۔
اس کا اندازہ اس بات سے باآسانی اور بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آج کے بچوں کو نظر کے چشمے لگے ہوئے ہیں۔ ان بیچاروں کو دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے اور ترس آتا ہے کہ یہ کم نظری کی بیماری میں مبتلا ہیں جس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جا بجا چشمے کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں اور چشمہ فروشوں کا کاروبار زوروں پر ہے اور ان کے وارے نیارے ہو رہے ہیں۔
چشمہ فروشی کا بزنس دوسرے کاروباروں کے مقابلے میں بے حد منافع بخش ہے۔ ہماری صحت کا دار و مدار ہماری روزمرہ کی خوراک پر ہے۔ جیولن تھرو کے پرانے عالمی ریکارڈ کو توڑ کر نیا ریکارڈ قائم کرنے والے عظیم پاکستانی ارشد ندیم اپنے مدمقابل کو شکستِ فاش دے کر عالمی شہرت کے مالک بن گئے۔ ان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ اپنی خوراک میں خالص دیسی گھی استعمال کرتے ہیں۔
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھیں دیسی گھی میسر ہے۔ اسی لیے تو بچوں کے مشہور شاعر اسماعیل میرٹھی نے اپنی خوبصورت نظم میں جس کا عنوان’’ ہماری گائے‘‘ ہے یہ کہا ہے کہ:
دودھ دہی اور مَٹّھا مسکا
دے نہ خدا تو کس کے بس کا
پاکستان کے عوام صرف آم، قوالی اور قورمے کی خوشبو تک ہی محدود نہیں بلکہ صبح سویرے نانی اماں کے کچن سے اٹھتی ہوئی دیسی گھی کی مہک کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ دیسی گھی کوئی عام چکنائی نہیں بلکہ یہ ہر گھرکی لذت، یادوں اور جذبات سے جڑا ہوا ایک خزانہ ہے۔
ہمارے ہاں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، بجلی آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہے، انٹرنیٹ کا بھی کوئی بھروسہ نہیں لیکن جو چیز نسل در نسل چلی آ رہی ہے وہ ہے دیسی گھی۔ یہ وہ واحد چیز ہے جو نانی اماں سے لے کر ان کی نیوٹرشنسٹ نواسی تک سب کو ہر دلعزیز ہے بس استعمال کا طریقہ جدا جدا ہے۔ نانی اماں گھی چمچے سے ڈالتی تھیں اور نواسی ’’ اسپرے گھی‘‘ استعمال کرتی ہے، تاہم گھی کا چراغ آج بھی جل رہا ہے۔
گھی کا رشتہ پاکستانی دسترخوان سے ایسا ہی ہے جیسے کرکٹ کا موسم بہار سے۔ اگر صبح پراٹھا گھی کے بغیر ہو تو وہ ناشتہ نہیں بلکہ خالی پلیٹ کی بے بسی لگتی ہے۔ دیسی گھروں میں گھی صرف خوراک نہیں بلکہ ایک پیغام بھی ہوتا ہے:
’’محبت سے پکایا ہے، جی بھر کے کھاؤ۔‘‘
دیسی گھی وہ نعمتِ غیر مترقبہ ہے جس کے بغیر نہ پراٹھا مکمل ہوتا ہے اور نہ کھچڑی میں روح اترتی ہے۔ یہ وہ جادو ہے جو نہ صرف کھانے کو کھانا بناتا ہے بلکہ رشتوں میں مٹھاس بھی گھولتا ہے۔
دیسی گھی کی قیمت اب تقریباً اتنی ہو چکی ہے جتنی ایک نئے فون کی۔ پہلے لوگ گھی چمچے سے نکالتے تھے، اب قطرہ قطرہ گن کر استعمال کرتے ہیں جیسے آبِ زم زم ہو۔
مہنگائی کے اس دور میں گھی کی قیمت دیکھ کر دل کرتا ہے کہ اسے بینک لاکر میں رکھوا دیا جائے۔ ایسے حالات میں اگر کسی کے گھر میں گھی کی بڑی بوتل نظر آجائے تو لوگ رشک سے اسے کہتے ہیں۔
’’ بھائی صاحب کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں‘‘
اور دل میں جلتے ہیں جیسے بغیر گھی کے پراٹھا۔
لیکن پھر بھی جب کبھی گھر میں کوئی خوشی کا موقع ہو یا مہمان کی آمد ہو تو پہلا سوال یہی ہوتا ہے۔
’’ کیا گھی والے پراٹھے رکھے ہیں یا بسکُٹ سے کام چلانا پڑے گا؟‘‘
ایک وقت وہ تھا جب نانی اماں گھر میں بیٹھ کر گھی بنایا کرتی تھیں۔ اب بھلا نئی نسل کہاں اتنی محنت کرے؟ کبھی نہیں ! وہ تو ایپ سے’’ آرگینک دیسی گھی‘‘ آرڈرکرتے ہیں جو 3000 روپے فی کلو ہوتا ہے اور ذائقہ ایسا جیسے خالی پلاسٹک چبا رہے ہوں۔
نوجوان نسل کے لیے توگھی ایک ایسا دشمن بن چکا ہے جو ان کے ’’سکس پیک‘‘ کا راستہ روکتا ہے۔ صبح سویرے جم جانے والے نوجوان جب کسی دعوت میں دیسی گھی والی پتیلی دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں۔
’’ یار! میں تو صرف بوائلڈ چکن پر ہوں۔‘‘
ایسے وقت میں دل کرتا ہے کہ ان کے منہ میں پراٹھا رکھ کر کہوں:
’’ یہ ہے وہ ذائقہ جو تم نے پروٹین بارزکے بدلے قربان کردیا ہے‘‘
نوجوان نسل کا المیہ: ’’ گھی؟ اوہ نو،کیلوریز!‘‘
آج کا نوجوان دو چیزوں سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے۔ تعلق ختم ہونے سے اور گھی سے حاصل ہونے والی کیلوریز سے۔ اب جم جانے والے نوجوان کہتے ہیں۔ ’’ گھی؟ میں تو ایووکاڈو آئل میں ابلے انڈے کھاتا ہوں۔‘‘ ’’ ارے بیٹا ، اگر تم نے کبھی ناشتہ میں گھی والا پراٹھا ساتھ میں دہی اور آخر میں لسی نہیں پی تو تم کیا جیئے؟‘‘ یہ نوجوان بھول گئے ہیں کہ دیسی گھی وہ چیز ہے جس پر ہماری پوری قوم کی بھوک، محبت اور مزاج کا انحصار ہے۔
کچھ نوجوانوں کا حال یہ ہے کہ ایک طرف جم جا کر کیلوریز جلاتے ہیں اور دوسری طرف گھر آ کر چپکے سے گھی والا چپاتی لپک لیتے ہیں۔ پوچھو تو جواب ملتا ہے۔ ’’ امی نے زبردستی کھلا دیا ورنہ میں تو صرف اُبلی ہوئی بروکلی پر ہوں!‘‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ’’ گھی کھا کے مکرنا ہماری قومی روایت بن چکی ہے۔‘‘ شہر کے نوجوان چاہے لاکھ کیلوریزگنیں لیکن دیہات میں آج بھی ناشتہ وہی تندورکی روٹی، مکھن کی تہہ اور اوپر سے ایک چمچ دیسی گھی۔ وہاں گھی صحت کا دشمن نہیں بلکہ نظامِ ہاضمہ کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔ گاؤں والے تو یہاں تک کہتے ہیں’’ گھی کھاؤ، بلڈ پریشر نیچے لاؤ!۔‘‘ اب سائنس کیا کہتی ہے وہ بعد کی بات ہے۔
دیہی علاقوں میں توگھی کا راج ابھی تک قائم و دائم ہے۔ وہاں نہ کیلوریز کا تصور ہے اور نہ دل کی بیماری کا ڈر۔ وہاں تو صبح گھی والا پراٹھا، دوپہرکو گھی والی دال اور رات کو گھی والا حلوہ کھا کر ہی زندگی گزرتی ہے، لہٰذا گھی کا اصل محافظ اب بھی وہی دیہاتی چچا ہیں جو کہتے ہیں ’’ گھی کھاؤ، صحت پاؤ، ڈاکٹر سے دور رہو۔‘‘
اگرچہ دیسی گھی کے مخالفین بڑھتے چلے جا رہے ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ یہ وہ چکنائی ہے جو نسلوں کو جوڑتی ہے۔ مستقبل میں ہو سکتا ہے بازار میں ’’ زیرو فیٹ دیسی گھی، کولیسٹرول کنٹرول گھی یا اسمارٹ گھی جیسی بوتلیں آجائیں لیکن جو خوشبو چولہے سے اُٹھتی ہے وہ تب بھی وہی ہوگی۔ دیسی گھی کا مستقبل اسی وقت ختم ہوگا جب پاکستانیوں کا ذائقہ مرجائے گا اور وہ دن ابھی بہت دور ہے۔ جیسے ’’ بٹر بورڈز‘‘ کا فیشن آیا ہے کل کو ’’ گھی بورڈ‘‘ کا فیشن بھی آئے گا۔ لڑکیاں بوٹیاں گھی میں ڈبونے کی وڈیوز ڈالیں گی اورکیپشن ہوگا ’’ گھی سے زندگی۔‘‘
گھی پاکستان کا وہ ثقافتی ستون ہے جو نہ صرف کھانے بلکہ بول چال میں بھی جڑیں رکھتا ہے۔ یہ محض چکنائی نہیں بلکہ ایک ذائقہ، تعلق اور تہذیب ہے تو یاد رکھیں’’ اگر زندگی میں لذت چاہیے تو پراٹھا گھی سے اور بات نمک سے ہونی چاہیے۔‘‘