آسٹریلیا(نیوز ڈیسک)آسٹریلیا کے سابق سٹار بیٹر ڈیوڈ وارنر نے بھی سیاست میں آنے کا اعلان کر دیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق آسٹریلوی ٹیم کو اپنی جارحانہ بیٹنگ سے کئی میچوں میں فتح دلوانے والے ڈیوڈ وارنرنے کرکٹ میں ریٹائرمنٹ کے بعد اب سیاست میں اپنی دلچسپی ظاہرکرکے سوشل میڈیا فالورزکو دنگ کردیا۔

سوشل میڈیا پرایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ وہ آسٹریلیا کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، وارن نے انکم ٹیکس کم کرنے اور جی ایس ٹی بڑھانے کا اپنا ارادہ پوسٹ کیا۔

بہت سے لوگ اس بات کا یقین نہیں کررہے تھے کہ آیا وہ آسٹریلیا میں یا بھارت میں سیاسی کیریئر پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

بنوں: پولیس چوکی پر دہشتگردوں کی فائرنگ، جوابی کارروائی سے حملہ پسپا

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ا سٹریلیا

پڑھیں:

ڈیجیٹل پردے کی اہمیت اور ضرورت

جدید دور میں ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو تبدیل کر دیا ہے۔ اسلامی نکتہ نظر سے جس طرح جسمانی طور پر لباس اور حجاب کا خیال رکھنا ضروری ہے ، اسی طرح ڈیجیٹل دنیا میں بھی پردے کے اصولوں کی پاسداری ضروری ہے۔ Digital Hijab یا Virtual Hijab اسلامی سماج کا ایک ایسا اہم اشو بن چکا ہے، جس پر غور و فکر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان سائنسی ترقی کی معراج پر پہنچ چکا ہے۔ معلومات کی دنیا سمٹ کر ایک چھوٹی سی اسکرین میں قید ہو گئی ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، ویڈیو چیٹ، لائیو اسٹریم اور دیگر جدید ذرائع نے فاصلے مٹا دیے ہیں، مگر ان سہولیات کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا اخلاقی و روحانی بحران بھی جنم لے چکا ہے اور وہ ہے ڈیجیٹل بے حیائی اور فحاشی کا طوفان بدتمیزی۔ ہم انسانی زندگی کے ایک ایسی تبدیلی کے دور سے گزر رہے ہیں جس کی رفتار بہت تیز ہے، مگر آواز بہت مدھم۔ یہ وہ انقلاب ہے جس نے انسان کے طرزِ زندگی، سوچنے کے انداز، حتیٰ کہ اس کی شرم و حیا کے پیمانے تک بدل ڈالے ہیں۔ پہلے بے حیائی کی طرف جانے کے لیے قدم اٹھانا پڑتا تھا، اب صرف کلک کرنا کافی ہے۔ پہلے گناہ چھپ کر کیا جاتا تھا، اب وہی گناہ فخر کے ساتھ شیئر کیے جاتے ہیں اور وہ بھی لائکس اور کمنٹس کی طلب کے ساتھ۔ سوشل میڈیا پر لڑکے لڑکیوں کی پروفائلز، فیشن شوٹ جیسی تصاویر، نازیبا ویڈیوز، غیر اخلاقی میمز، غیر محرموں سے دوستانہ گفتگو، لائیو سیشنز اور چیٹ رومز، یہ سب کچھ اب “نارمل” سمجھا جاتا ہے۔ اسے تفریح، آزادیٔ اظہار یا سوشل نیٹ ورکنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ مگر درحقیقت یہ روحانی زوال اور اخلاقی انحطاط کا ایک ایسا گڑھا ہے جس میں پوری نسلِ نو دھکیلی جا رہی ہے۔ بحیثیت مسلمان قرآن و سنت کی روشنی میں ہم غور کریں تو اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے:(سورۃ النور: 30)
مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ یہ حکم صرف بازاروں، دفاتر یا میل جول کی مجالس تک محدود نہیں، بلکہ جدید دنیا کے ہر پلیٹ فارم، ہر اسکرین اور ہر کلک پر لاگو ہوتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بھی ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں جب ہم تنہائی میں موبائل یا کمپیوٹر کے سامنے ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ (صحیح بخاری) جب ایمان کا یہ شعبہ آنکھوں، الفاظ، خیالات اور کلکس کے ذریعے پامال ہونے لگے تو سمجھ لیجیے کہ ایمان کی بنیادوں میں دراڑ پڑ چکی ہے۔ ڈیجیٹل پردے کا مفہوم یہ ہے کہ پردہ صرف جسم کو کپڑوں سے ڈھانپنے کا نام نہیں، بلکہ نگاہوں، خیالات، الفاظ اور تعلقات کی حدود کے خیال رکھنے کا نام بھی ہے۔”ڈیجیٹل پردہ” ایک جامع تصور ہے جس کے بنیادیعناصریہ ہیں:1. آنکھوں کا پردہ: ناپسندیدہ اور حرام تصاویر، ویڈیوز، اور پوسٹس سے بچنا۔ 2. زبان و الفاظ کا پردہ: چیٹ، کمنٹس اور پوسٹس میں ادب، وقار اور شرم و حیا کا لحاظ۔ 3. تعلقات کا پردہ: غیر ضروری دوستیاں، تعلقات، فالو،میسج کلچر سے اجتناب۔ 4. پروفائل کا پردہ: اپنی پروفائل تصویر، پوسٹس، ویڈیوز اور بایو میں اسلامی اخلاق کا عکس ہونا۔ 5. بچوں کی نگرانی، انہیں چھوٹی عمر میں موبائل دینا، سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنانے دینا، اور مکمل آزادی دینا دراصل ان کے اخلاق و کردار کا قتل ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف لوگ اسلامی پوسٹس، قرآنی آیات اور دینی اقوال شیئر کرتے ہیں، اور دوسری طرف وہی ہاتھ نیم عریاں تصاویر کو لائک کرتے ہیں، بے حیائی بھرے کلپس پر قہقہے لگاتے ہیں، اور غیروں کی زندگیوں کوفالو کرتے ہیں۔ یہ منافقت ہماری اجتماعی بربادی کا سبب بن رہی ہے۔
مسلمانوں کے اختیار و اقتدار کا کردار بھی افسوسناک حد تک مجرمانہ ہو چکا ہے۔ نیم برہنہ فلمیں اور ڈرامے فحاشی و عریانی کو معمول کا حصہ بنا چکے ہیں۔ اشتہارات میں بے حیائی کا عنصر اس قدر شامل ہو چکا ہے کہ اب شرم بھی شرما جائے۔ روز بروز ماحول اس قدر پراگندہ ہوتا جا رہا ہے کہ جس میں غیرت کا جنازہ نکل رہا ہے اور بات قتل و غارت گری تک آ پہنچی ہے۔۔اب وقت آ چکا ہے کہ ہم انفرادی، اجتماعی اور ریاستی سطح پر اس عریانی اور فحاشی کے خلاف ایک جامع اور قابل عمل حکمت عملی تشکیل دیں۔ انفرادی سطح پر ہم خود حیا و غیرت کے ضابطے اپنائیں، اپنی آن لائن شناخت کو اسلامی اقدار کے تابع بنائیں۔ اپنے گھروں میں ڈیجیٹل استعمال پر حدود و قیود مقرر کریں۔ اسی طرح علما، والدین، اساتذہ اور دانشوروں پر لازم ہے کہ وہ مسلسل اس موضوع پر قومی شعور بیدار کریں۔ مساجد کے جمعہ خطبات میں اس فتنہ کو موضوع سخن بنایا جائے۔ ریاستی و قانونی سطح پر میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر فحاشی پھیلانے والے مواد کی باضابطہ مانیٹرنگ کا اہتمام ہو۔ تعلیمی اداروں میں اخلاقیات اور “ڈیجیٹل حیا” کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ اگر ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے خاموش رہے کہ طوفان خود ہی تھم جائےگا، یہی کرتے کرتے اگر ہم نے اپنی نسلوں کو اس بے حیائی کے سپرد کر دیا، تو وہ دن دور نہیں جب ہماری نوجوان نسل صرف ٹرینڈنگ ویڈیوز کی پرستار رہ جائے گی اور ایمان، شرم و حیا اور غیرت صرف کتابوں میں باقی رہ جائے گی۔ مورخ ہماری بے حسی کو یوں رقم کرے گا کہ “یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے قرآن مجید، آخرت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے باوجود لائکس، ویوز اور شہرت کے چند لمحوں کی خاطر اپنی غیرت، حیا اور ایمان کا سودا کر دیا تھا، آج کے نوجوان انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتے، لیکن انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ڈیجیٹل زندگی بھی آخرت میں جواب دہی کا حصہ ہوگی۔ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو ڈیجیٹل میڈیا کے بامقصد استعمال کے آداب سکھائیں اور انہیں بتائیں کہ جو کچھ آن لائن ڈالا جاتا ہے، وہ ہمیشہ کے لیے ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ہر لائک، شیئر اور کمنٹ پر آخرت میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔غیر محرموں کے سامنے اپنی تصاویر یا ویڈیوز شیئر کرنا گویا اپنی عزت کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ مرد و عورت کی آزادانہ بات چیت اور تصاویر کا تبادلہ فتنے کا باعث بن سکتا ہے۔ گھر کے اندرونی معاملات یا رشتوں کے جذبات کو سوشل میڈیا پر بیان کرنا شرعی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے غلط ہے۔ بے مقصد چیٹنگ، ریئلز اور ویڈیوز میں وقت ضائع کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اب تو اس کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر اور کبھی عشق و محبت کی آڑ میں کئی قتل ہوچکے۔ چند دن قبل ثنا یوسف نامی ایک بچی کا اسلام آباد میں افسوس ناک قتل ہوا۔ اس کی تفتیش اور قاتل تک پہنچنا اور اسے سزا دینا عدالتوں کا کام ہے۔ البتہ ہم کہیں گے کہ ثناء یوسف کا کنفرم قاتل “معاشرے کی بے راہ روی ہے اور مادر پدرآزادی ہے” یہ بھی یاد رہے کہ ڈیجیٹل پردہ کوئی نیا قانون نہیں، بلکہ اسلام کے قدیم اصولوں کا جدید اطلاق ہے۔ جس طرح بازار یا دفتر میں حجاب اور شرعی حدود کا خیال رکھنا ضروری ہے، اسی طرح ڈیجیٹل دنیا میں بھی حیا اور تقویٰ کو اپنانا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین و دنیا کی بھلائی کی توفیق عطا فرمائے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت سے متعلق بیان جھوٹا ہے، میرے نام سے منسوب پوسٹ فیک ہے، شاہد آفریدی کی وضاحت
  • شاہد آفریدی نے سوشل میڈیا پربھارت مخالف بیان کی تردید کردی
  • آفریدی نے بھارت سے منسوب سوشل میڈیا پوسٹ کو 'جھوٹا' قرار دیدیا
  • اداکارہ ہانیہ عامر نے بھی حج کی سعادت حاصل کرلی
  • اقرار الحسن نے عید الاضحیٰ اپنی تینوں بیویوں کیساتھ منائی؛ تصاویر وائرل
  • عید الاضحیٰ پر بابر اعظم کا دلکش انداز، تصاویر نے مداحوں کے دل موہ لیے
  • سیاست میں اتار چڑھا آتا رہتا، پی ٹی آئی کی مقبولیت کم نہیں ہوئی، فواد چودھری
  • ایک اور بھارتی کرکٹر کا ریٹائرمنٹ کا اعلان
  • بابر، رضوان، شاہین کا مستقبل کیا؟ سابق کرکٹر نے بتادیا
  • ڈیجیٹل پردے کی اہمیت اور ضرورت