سحری و افطاری کے ٹی وی پروگرامز پر ایک نظر
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہوتے ہی جہاں ہر طرف نور ہی نور بکھر جاتا ہے وہیں وہاں میڈیا ہاؤسز خصوصا ٹی وی سٹیشنز پر گہما گہمی بھی بڑھ جاتی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے ٹی وی چینلز پر رمضان المبارک کے حوالے سے خصوصی نشریات کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں اس ماہ مقدس کے حوالے سے مختلف موضوعات پر گفتگو کی جاتی ہے، فہم دین اور تاریخ و سیرت کے حوالے سے خصوصی نشریات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مارننگ شوز کا فارمیٹ بھی رمضان سپیشل میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اس موقع پر پاکستان میں بھی مختلف ٹی وی چینلز پر خصوصی افطاری اور سحری کے پروگرامز ناظرین کی بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت کے اس دور میں ان نشریات کی بیش بہا خوبیاں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے پہلو بھی ہیں جو اصلاح طلب ہیں۔ دیکھا جائے تو ان پروگراموں میں علماء کرام دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات، روزے کی فضیلت، عبادات کے فضائل و مسائل اور دیگر اسلامی موضوعات پر علمی و فکری گفتگو کر کے سیر حاصل روشنی ڈالتے ہیں، جو عوام کے لیے یقینا فائدہ مند ہوتی ہے۔ رمضان کے بابرکت مہینے میں ان پروگرامز کے ذریعے ناظرین کو ایک روحانی ماحول فراہم کیا جاتا ہے، جس میں نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، تلاوتِ قرآن حکیم اور اسلامی تاریخ کے قصص و واقعات شامل ہوتے ہیں۔ بہت سے پروگرامز میں ناظرین بھی سامنے موجود ہوتے ہیں جو سوال و جواب کے سیشن میں شرکت کرکے علم میں اضافہ کرتے اور اجتماعی دعاؤں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ کئی ایسے پروگرام بھی ہیں کہ جن میں مستحق افراد کی مدد کی جاتی ہے، فلاحی کاموں کی ترغیب دی جاتی ہے، اور ناظرین کو بھی ان نیکی کے کاموں میں شامل ہونے کی دعوت دی جاتی ہے۔
علاوہ ازیں ان پروگراموں میں پاکستان بھر کے مختلف حصوں کی روایات اور ثقافت کو اجاگر کیا جاتا ہے، جس سے قومی یکجہتی کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح مختلف مکاتب فکر کے علماء اور شخصیات کو مدعو کر کے معاشرتی ہم آہنگی اور رواداری کا پیغام بھی دیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سی خامیاں بھی ہیں جن کی اصلاح بے حد ضروری ہے۔ اگر اصلاح کی طرف توجہ نہ دی گئی تو رمضان المبارک کا حقیقی مقصد اور روحانی بالیدگی وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ خیالوں سے ہی محو ہوتی چلی جائے گی اور باقی فکر آخرت سے خالی فقط میلا ٹھیلا نما ثقافت رہ جائے گی۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ پروگراموں میں زیادہ فوکس اشتہارات، اسپانسرشپ، اور برانڈ پروموشن پر ہوتا ہے، جس کی وجہ سے رمضان کی اصل روح کہیں کھو جاتی ہے۔ کچھ افطار اور سحری شوز میں غیر ضروری تفریحی عناصر شامل کیے جاتے ہیں، جیسے گیم شوز، مزاحیہ خاکے، اور بےجا ہلڑ بازی، جو رمضان کے تقدس کے قطعی خلاف ہیں۔ بعض اوقات ایسے علماء کو مدعو کیا جاتا ہے، جو متنازعہ بیانات دیتے ہیں یا فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں جبکہ فرقہ واریت اور مصائب و مشکلات میں گھرے وطن عزیز پاکستان کو اس وقت اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض پروگرامز میں نماز اور عبادات کے اوقات کی پابندی نہیں کی جاتی، اور تفریحی یا اشتہاری مواد زیادہ وقت لے لیتا ہے، جس سے ناظرین کی عبادات متاثر ہو سکتی ہیں۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کچھ چینلز رمضان کے مقدس مہینے کو ریٹنگ حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور پروگرامز میں غیر ضروری ڈرامائی عناصر یا غیر اخلاقی مواد شامل کر دیتے ہیں۔ رمضان کے دوران ٹی وی پروگرامز اگر حقیقی معنوں میں دینی اور اخلاقی تربیت کا ذریعہ بنیں تو یہ ایک مثبت پیشرفت ہو سکتی ہے، بدقسمتی سے کچھ چینلز ریٹنگ کے چکر میں غیر مہذب گفتگو اور اسلامی اقدار کے منافی تفریحی عناصر کو اپنے پروگراموں میں شامل کرتے ہیں، جو نہ صرف رمضان کی روح کے خلاف ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ کا بھی سبب ہے۔۔ بہتر ہوگا کہ چینلز ایسا متوازی مواد نشر کریں، جو معلوماتی، روحانی، اور عوام کے لیے دینی اور دنیوی طور پر فائدہ مند ہو۔
اسلام مرد اور عورت کے اختلاط کے حوالے سے واضح ہدایات دیتا ہے۔ غیر محرم مرد و زن کا بلا ضرورت اختلاط اور ایسی محافل جہاں بے پردگی اور بے حیائی کا عنصر موجود ہو، عام حالات میں بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔ رمضان المبارک تو خاص طور پر تزکیہ نفس اور عبادات کا مہینہ ہے، اس لیے اس قسم کے پروگرام اسلامی نکتہ نظر سے ناقابل قبول ہیں۔ اور ایک بات یہ بھی قابل توجہ رہے کہ ایسے ماحول میں بے حیائی پر مبنی مناظر رمضان المبارک کی با برکت گھڑیوں میں فتنے کا باعث بن سکتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں برے خیالات پیدا کر سکتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ رمضان المبارک میں ایسے مخلوط ٹی وی پروگرام جہاں بے حیائی پھیلائی جائے، اسلامی تعلیمات سے قطعا موافقت نہیں رکھتے۔ عوام الناس کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے پروگراموں سے اجتناب کریں اور رمضان کے قیمتی اوقات کو عبادات اور نیک کاموں میں صرف کریں۔ کیونکہ رمضان المبارک ایک مقدس مہینہ ہے، جو روحانی پاکیزگی، عبادت، تقویٰ، اور برائیوں سے بچنے کا درس دیتا ہے۔ اگر ان پروگرامز میں ایسا کوئی بھی عنصر شامل ہو جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو، تو یہ رمضان کی روح کو متاثر کرتا ہے۔ چاہیے یہ کہ رمضان المبارک کے پروگرامز کو دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کی روشنی میں ترتیب دیا جائے، جہاں اسلامی اقدار، شرم و حیاء، عفت و عصمت اور شائستگی کا مکمل خیال رکھا جائے۔ ایسے تمام عناصر جن سے بے حیائی پھیلنے کا خدشہ ہو، انہیں ختم کر دیا جائے تاکہ رمضان کی اصل برکات اور رحمتیں حاصل کی جا سکیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میں بھی اسلامی احکام کو نظر انداز کیا جائے گا تو یہ عوام قلوب و اذہان پر برے اثرات کا باعث بنے گا۔ خصوصاً نوجوان نسل جو پہلے کئی مسائل کا شکار ہے، اس سے متاثر ہو کر رمضان المبارک کی اصل اہمیت، فضیلت اور مقصدیت ہی کھو دے گی۔ ان پروگراموں کو مزید بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ معیاری مواد تیار کیا جائے، وقت کی پابندی کی جائے، اور ناظرین کے جذبات کا خیال رکھا جائے۔ اس کے علاوہ ان پروگراموں کو زیادہ سے زیادہ تعمیری اور معلوماتی بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اگرچہ یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے جس پر معاشرے کے مختلف طبقات کے مختلف نقطہ ہائے نظر ہو سکتے ہیں۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ ایسے پروگراموں میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سماجی اقدار اور ثقافتی روایات کا ہر پہلو سے بھرپور خیال رکھا جائے تاکہ رمضان المبارک کی حقیقی روح کے مطابق لوگ استفادہ کر کے اپنی کمزوریوں کو دور کر سکیں اور با عمل مسلمان بن کے معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دور حاضر میں ان پروگرامز کی اشد ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں مزید مؤثر بنانے کیلئے خامیوں کو دور کرنا بھی ضروری ہے۔ جہاں یہ میڈیا ہاؤسز مالکان کی بنیادی ذمہ داری ہے، وہاں ان پروگراموں میں تشریف لانے والے علمائے کرام بھی بہتری کی طرف توجہ مبذول کرکے اپنا فرض منصبی ادا کرتے رہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کہ رمضان المبارک پروگراموں میں پروگرامز میں ان پروگراموں کے ساتھ ساتھ کیا جاتا ہے کے حوالے سے رمضان کی بے حیائی رمضان کے ضروری ہے ہوتے ہی جاتی ہے میں بھی یہ بھی
پڑھیں:
مقبوضہ وادی میں جماعت اسلامی پر پابندی
ریاض احمدچودھری
بھارتی وزارت داخلہ اور اس کی ریاستی تحقیقاتی ایجنسی ایس آئی اے نے آر ایس ایسـبی جے پی کے رہنما آر آر سوائن کی سربراہی میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر سمیت آزادی پسند جماعتوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کے بینک اکائونٹس منجمد کرنے کے بعدایس آئی اے نے زمینوں، اسکولوں، مکانات اور دفاترسمیت اس کی جائیدادوں کو ضبط کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس نے پہلے ہی اسلام آباد، شوپیاں، پلوامہ اور جنوبی کشمیر کے کئی دیگر اضلاع میں سو کروڑروپے سے زائد مالیت کے جماعت اسلامی کے اثاثے ضبط کرلئے ہیں۔جموں و کشمیر میں جماعت کی مزید 100جائیدادیں ضبط کرنے کی بھارتی وزارت داخلہ کی فہرست میں شامل کی گئی ہیں۔ اس کے لئے نوٹیفکیشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد جائیدادوں کو سیل کردیا جائے گا۔عہدیدارنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نوٹیفکیشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ایسی تمام جائیدادوں کو مرحلہ وار سیل کر دیا جائے گا۔نریندر مودی اور امیت شاہ کی زیر قیادت ہندوتوا حکومت حق خود ارادیت کے مطالبے کی حمایت کرنے پرجماعت اسلامی کو نشانہ بنارہی ہے۔
2019 میں مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کی حمایت کرنے پر بھارت نے جماعت اسلامی کشمیر پر پابندی لگا دی تھی۔بھارت کے مرکزی محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ جماعت اسلامی کے عسکریت پسندوں سے قریبی روابط ہیں اور وہ ان کی مکمل حمایت بھی کرتے ہیں۔جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کے اقدام کی وادی کشمیر کی تقریباً تمام سیاسی، مذہبی و سماجی جماعتوں نے مذمت کی تھی۔ جماعت نے پانچ سالہ پابندی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں محاصرے اور تلاشی کارروائیوں میں جماعت اسلامی کے پانچ رہنماؤں سمیت مقبوضہ جموں وکشمیر کے7 سرکردہ علمائے کرام کوگرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں جمعیت اہلحدیث کے رہنما مولانا مشتاق احمد ویری، عبدالرشید داودی، جماعت اسلامی کے رہنما عبدالمجید دار المدنی، فہیم رمضان اور غازی معین الدین بھی شامل ہیں۔
جماعت اسلامی نے دہشت گردی کی فنڈنگ سے متعلق بھارتی ایجنسیوں کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کا، ‘نہ تو کبھی کسی عسکریت پسند گروہ کے ساتھ کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی وہ تحریکی سیاست پر یقین رکھتی ہے’۔بھارتی ایجنسیوں کا یہ بھی الزام ہے کہ جماعت اسلامی وادی کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں اور بھارت مخالف سیاسی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔ اسی لیے گزشتہ ہفتے این آئی اے نے جموں و کشمیر میں واقع جماعت اسلامی سے وابستہ بہت سے کارکنان کے گھروں پر چھاپے بھی مارے تھے۔تنظیم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ بس ہراساں کرنے اور دھونس جتانے کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ تنظیم اس وقت سرگرم تو ہے نہیں۔ انہیں کوئی ثبوت دینا چاہیے کہ آخر جماعت نے کس کو فنڈنگ کی ہے اور کہاں دیا ہے؟ جماعت 1997 سے یہ مسلسل کہتی رہی ہے کہ ہمارا عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کشمیر میں سماجی خدمات کا کام کرتی ہے اور زیادہ سے زیادہ مذہبی تبلیغ کے لیے جلسے جلوس کرتی تھی جو پابندی کے سبب سب بند پڑے ہیں۔کشمیر میں اس وقت زبردست خوف اور دہشت ہے۔ ہر ایک کو کم سے کم بنیادی آزادی کے حقوق ملنے چاہیں۔ ہر شخص کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آزادانہ طور پر کام کرنے کی تو اجازت ہونی چاہیے۔ ہم کسی غیر قانونی کام کی بات نہیں کرتے ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے مظالم ڈھانے کا سلسلہ تو گزشتہ پون صدی سے جاری ہے۔ اب کشمیریوں کے مذہبی، سیاسی اور انسانی حقوق کو دبانے کے لیے مزید اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مودی سرکار بین الاقوامی قوانین اور عالمی اداروں کی طرف سے طے کردہ حدود و قیود کو بھی خاطر میں نہیں لا رہی۔ حال ہی میں بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے دو تنظیموں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھارتی حکام کی جانب سے عوامی ایکشن کمیٹی اور جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کو پانچ سال کے لیے غیر قانونی قرار دینے کی مذمت کی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت ممتاز سیاسی اور مذہبی رہنما میر واعظ عمر فاروق کررہے ہیں جبکہ جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کی بنیاد ایک اور قابل ذکر سیاسی اور مذہبی رہنما مولانا محمد عباس انصاری نے رکھی تھی۔حالیہ فیصلے سے کالعدم کشمیری سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی کل تعداد 16 ہو گئی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں پر پابندی لگانا کشمیر میں بھارتی حکام کے ظالم ہاتھوں سے چلنے والے رویے کا ایک اور مظہر ہے۔ یہ سیاسی سرگرمیوں اور اختلاف رائے کو دبانے کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ جمہوری اصولوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سراسر بے توجہی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ بیان میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کشمیری سیاسی جماعتوں پر عائد پابندیاں ہٹائے۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر ایمانداری سے عمل درآمد کروائے۔
مودی سرکار ہر اس آواز کو دبانا چاہتی ہے جو کشمیر اور مسلمانوں کے حق میں بلند ہوتی ہو۔ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کی ہر قسم کی آزادی سلب کی جا چکی ہے۔ انھیں نہ مذہبی آزادی حاصل ہے نہ سیاسی۔ عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو بھارت کے یہ مظالم کیوں نظر نہیں آتے؟
مقبوضہ جموں و کشمیر میں نریندر مودی اور امیت شاہ کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندوتوا حکومت سیاسی اور سماجی کارکنوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے علاقے میںجماعت اسلامی اور دیگر فلاحی تنظیموں سے وابستہ تقریبا 100مزید تعلیمی اداروں اور جائیدادوں کو سیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
٭٭٭