WE News:
2025-09-18@11:51:45 GMT

شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

آج شاعری کا عالمی دن ہے، یہ دن ہر سال 21 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ 1999 میں یونیسکو نے اس دن کو شاعری سے مختص کیا، جس کا مقصد دنیا بھر میں شاعری پڑھنے، پڑھانے اور اس سے متعلق آگاہی کا فروغ ہے۔

ایڈیٹر پلاننگ ’وی نیوز‘ احسن ابرار خالد نے اس دن کے حوالے سے کچھ لکھنے کو کہا تو سوچا کہ گزشتہ 26 برس سے اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اہل قلم نے نت نئے موضوعات کو صفحہ قرطاس پر انڈیل کر قارئین کے 14 طبق سُن کر رکھے ہیں۔

اس لیے میرا موضوع قدرے ہٹ کر لیکن کسی نہ کسی طرح اس دن سے جڑا ہے۔ گزشتہ ماہ سے اس پر لکھنا چاہ رہا تھا پھر سبیل بن ہی گئی۔ جی ہاں! آج کا موضوع ’پاکستانی زبانوں کا ادبی عجائب گھر‘ ہے، جس کا افتتاح ٹھیک ایک ماہ قبل اکادمی ادبیات پاکستان میں 21 فروری 2025 کو ہوا، لیکن یہ سرخ پھٹوں کی گرد میں اٹے میڈیا کی توجہ نہ پا سکا۔

مزید پڑھیں: احمد فراز: صحرائے محبت کا مسافر

ایک پروقار تقریب میں وفاقی سیکریٹری قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن حسن ناصر جامی نے پاکستانی زبانوں کے ادبی عجائب گھر کا افتتاح کیا۔ صدر نشیں اکادمی ادبیات ڈاکٹر نجیبہ عارف نے استقبالیہ کلمات میں اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی، تقریب کی اہم بات یونیسکو کے نمائندہ خصوصی جواد عزیز کی شرکت تھی۔

حسن ناصر جامی نے کہا کہ پاکستانی زبانوں کا ادبی عجائب گھر، اپنی نوعیت کے اعتبار سے بے حد اہم اور منفرد منصوبہ ہے، اس کا افتتاح کرنا میرے لیے فخر اور خوشی کی بات ہے، بلاشبہ ہمیں اپنی ثروت مند تہذیب و ثقافت پر فخر ہے۔ ہم معدوم ہوتی ہوئی زبانوں کی بقا اور تسلسل کے لیے اکادمی کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔

مزید پڑھیں: عینی آپا تھیں تو پاکستانی

ڈاکٹر نجیبہ عارف کا کہنا تھا کہ پاکستانی زبانوں کا عجائب گھر ایک منفرد اور نادر منصوبہ ہے،جو پاکستان کے تہذیبی و ثقافتی ورثے کی ثروت مندی اور ہمارے لسانی تنوع کا عکاس و ترجمان ہے۔ یہ لسانی تنوع بلاشبہ ہماری طاقت ہے،کمزوری نہیں۔ یہ ہماری صدیوں نہیں بلکہ قرنوں پرانی تہذیب اور روایت کے تسلسل کا ترجمان ہے۔

صدر نشیں اکادمی ادبیات کا کہنا تھا کہ یہ لسانی تنوع ہمارے خطے کی قدامت، تہذیبی ارتقا اور ذہنی و فکری روایت کا بین ثبوت ہے۔ پاکستانی زبانوں کا ادبی عجائب گھر پاکستان کے طول و عرض میں بولی جانے والی 74 زبانوں کے آثار کا امین و محافظ ہے۔ یہ لسانی ماہرین کی ایک مجلسِ تحقیق و علم کا مشترکہ نتیجہ ہے۔ عجائب گھر میں پاکستانی زبانوں کے مخطوطات بھی محفوظ کیے گئے ہیں۔

نمائندہ خصوصی یونیسکو جواد عزیز نے پاکستانی زبانوں کے ادبی عجائب گھر کو پاکستانی زبانوں کے فروغ اور تحفظ کے حوالے سے اکادمی کا ایک اہم اور مفید منصوبہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ یونیسکو ورلڈ اٹلس آف لینگویجز میں پاکستانی زبانوں کا ڈیٹا بھی محفوظ ہے۔

یہ پاکستان کا پہلا لسانی ادبی عجائب گھر ہے جہاں 74 زبانوں کی بنیادی معلومات، رسم الخط اور قدیم مخطوطات محفوظ کیے گئے ہیں۔ مستقبل قریب میں سمعی و بصری مواد کے ساتھ ساتھ گفت و شنید کی سہولیات بھی مہیا کی جائیں گی تاکہ معدومیت کے خطرات سے دوچار زبانوں کے چاشنی بھرے لہجوں اور حروف تہجی سے تعلق قائم رکھا جا سکے۔

مزید پڑھیں: داستاں سرائے، راجا گدھ اور بانو آپا

ڈاکٹر نجیبہ عارف اکادمی ادبیات پاکستان کی پہلی خاتون چیئرپرسن اور ادبی حلقوں میں کثیرالجہت علمی و ادبی شخصیت کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے علمی، ادبی اور درس و تدریس کے تجربے کی بدولت اکادمی کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔

ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ’وی نیوز‘ کو بتایا کہ پاکستان اکادمی ادبیات، پاکستان کی تمام زبانوں کی ترقی، فروغ، بقا اور ارتقا کے لیے کوشاں ہے۔ مختلف سطحوں پر معدوم ہوتی زبانوں کی بقا کے لیے بھی کوششیں کی گئیں ہیں جو جاری و ساری ہیں۔ نئے منصوبے، زبانوں کے عجائب گھر میں 74 زبانوں کے بارے میں بنیادی معلومات آویزاں کی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں: جب کہانی ’عبداللہ حسین‘ کے گلے پڑ گئی

انہوں نے بتایا کہ آئندہ سمعی و بصری سہولیات کے اضافے کی بدولت نوجوان نسل معدوم ہوتی زبانوں کے لب ولہجے، تہذیب و تمدن اور ان سے جڑی لوک داستانوں سے بھی روشناس ہو سکیں گے۔ چترال کی معدومیت کے خطرے سے دوچار 2 زبانوں ’یدغا‘ اور گوارباتی‘ پر خصوصی دستاویزی فلمیں بھی تیار کی ہیں۔

ڈاکٹر نجیبہ عارف نے بتایا کہ ہم اردو سمیت پاکستان کی تمام زبانوں بشمول دم تورٹی زبانوں کا ادب بھی باقاعدگی شائع کرتے ہیں۔ جبکہ مختلف زبانوں کے ادب کو فروغ دینے کے لیے ان کے انگریزی تراجم بھی شائع کیے جاتے ہیں۔ سہ ماہی اردو مجلے ’ادبیات‘ کے ساتھ ساتھ صوبائی زبانوں کے سالانہ شمارے بھی شائع کیے جاتے ہیں۔ اہم تحریری زبانوں پر سالانہ انعامات بھی دیے جاتے ہیں۔

شاعری کے عالمی دن اور تحریر کے عنوان کی مناسبت سے جاتے جاتے احمد فرازؔ کی عالمی شہرت یافتہ غزل کا لطف اٹھائیں:

اس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے

جیسے کوئی در دل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے نہ بروں ہے یوں ہے

تم نے دیکھی ہی نہیں دشت وفا کی تصویر
نوک ہر خار پہ اک قطرۂ خوں ہے یوں ہے

تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے
عشق کا نام خرد ہے نہ جنوں ہے یوں ہے

اب تم آئے ہو مری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے یوں ہے

ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے

شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ
یہ بھی اک سلسلۂ کن فیکوں ہے یوں ہے

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

’پاکستانی زبانوں کا ادبی عجائب گھر احمد فراز اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹر نجیبہ عارف شاعری کا عالمی دن عالمی یوم شاعری غالب یونیسکو.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستانی زبانوں کا ادبی عجائب گھر اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹر نجیبہ عارف شاعری کا عالمی دن عالمی یوم شاعری غالب یونیسکو پاکستانی زبانوں کا ادبی عجائب گھر پاکستانی زبانوں کے ڈاکٹر نجیبہ عارف اکادمی ادبیات مزید پڑھیں زبانوں کی ہے یوں ہے بتایا کہ کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت

انسانی تاریخ میں کچھ بیماریاں ایسی بھی رہی ہیں جو نسلِ انسانی کے وجود پر سوالیہ نشان بن کر ابھریں۔ کینسر ان میں آج بھی سب سے بھیانک ہے۔ مگر سائنس نے انسان کو یہ پیغام دیا کہ اندھیروں میں بھی چراغ جلائے جاسکتے ہیں۔

انہی چراغوں میں سے ایک ہے ایچ پی وی ویکسین (Human Papillomavirus Vaccine)، جسے اردو میں ’’انسانی پیپلیلوما وائرس حفاظتی دوا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ویکسین بالخصوص خواتین کی زندگی اور صحت کی حفاظت کے لیے آج کی سائنسی دنیا میں بڑی عظیم کامیابی ہے۔


عالمی تحقیق اور ابتدا

ایچ پی وی ویکسین کی بنیاد 1990 کی دہائی میں رکھی گئی جب آسٹریلیا کے سائنس دان پروفیسر یان فریزر (Ian Frazer) اور ان کے ساتھی جیہان ژو (Jian Zhou) نے وائرس جیسے ذرات (Virus-like Particles) ایجاد کیے۔ یہ ذرات بیماری نہیں پھیلاتے لیکن جسم کو مدافعتی ردعمل کے لیے تیار کر دیتے ہیں۔ 2006 میں امریکا نے پہلی بار اسے Gardasil کے نام سے متعارف کرایا، بعد ازاں Cervarix اور Gardasil 9 جیسے مزید مؤثر ورژن سامنے آئے۔

عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (CDC) کے مطابق یہ ویکسین خواتین میں سروائیکل کینسر (Cervical Cancer) کے تقریباً 70 فیصد سے 90 فیصد تک کیسز کو روکتی ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور ناروے جیسے ممالک میں یہ ویکسینیشن پروگرام اس حد تک کامیاب رہا کہ وہاں نوجوان نسل میں سروائیکل کینسر کی شرح نصف سے بھی کم ہوگئی۔

 

پاکستان میں ضرورت

پاکستان میں ہر سال تقریباً 5,000 خواتین سروائیکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ اموات کی شرح 60 فیصد کے قریب ہے، کیونکہ عموماً مرض کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔ یہ بیماری صرف عورت تک محدود نہیں رہتی، بلکہ خاندان کی بقا، بچوں کی تربیت اور سماج کی اخلاقی ساخت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے میں ایچ پی وی ویکسین کا استعمال ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔

مزید یہ کہ عالمی تحقیق ثابت کرچکی ہے کہ ایچ پی وی صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ وائرس مردوں میں منہ، گلے اور تولیدی اعضا کے سرطان کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں ویکسین لگنے کے بعد مردوں میں بھی اس کے خلاف نمایاں تحفظ دیکھا گیا ہے۔


سماجی اور مذہبی رکاوٹیں

پاکستان میں اس ویکسین کے فروغ میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں۔
کچھ حلقے اسے مغربی سازش قرار دیتے ہیں اور مذہبی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں۔
والدین میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ یہ ویکسین نوجوانوں میں جنسی آزادی کو فروغ دے گی۔
لاعلمی اور کم علمی کی وجہ سے اکثر اسے غیر ضروری یا غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔


اسلامی ممالک اور علما کا موقف

کچھ اسلامی ممالک نے نہ صرف ایچ پی وی ویکسینیشن پروگرام فعال کیے ہیں بلکہ علما نے بھی اسے شرعی اعتبار سے جائز قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملیشیا میں 2010 میں Jabatan Kemajuan Islam Malaysia (JAKIM) نے باضابطہ فتوٰی جاری کیا کہ اگر ویکسین کی ترکیب میں کوئی مشکوک جزو نہ ہو اور یہ نقصان دہ نہ ہو تو رحمِ مادر کے سرطان سے بچاؤ کےلیے HPV ویکسین لگوانا ’’مباح‘‘ (permissible) ہے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات (UAE) نے 2018 میں HPV ویکسین کو اپنے قومی حفاظتی پروگرام میں شامل کیا، اور وہاں کے نیشنل امیونائزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ نے حکومتی سطح پر اس کی تائید کی۔

مزید یہ کہ سعودی عرب کے صوبے جازان میں عوامی رویے اور تحقیق سے واضح ہوا کہ مذہبی خدشات کے باوجود طبی اور شرعی دلائل نے ویکسین کے استعمال کو قابلِ قبول بنایا ہے۔

یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی جان کے تحفظ کو اسلام میں اولین ترجیح حاصل ہے، اور جب کوئی دوا جان بچانے کا ذریعہ ہو تو اس کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ واجب کے قریب قرار دیا جا سکتا ہے۔

ایچ پی وی ویکسین آج پاکستانی معاشرے کے لیے محض ایک طبی ایجاد اور ضرورت ہی نہیں بلکہ خواتین کی زندگی، اور معاشرتی بقا کی بھی ضامن ہے۔ اگر حکومت اسے قومی حفاظتی ٹیکوں کے دیگر ذرائع کی طرح مستقل پروگراموں میں شامل کر لے تو ہر سال ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اعداد و شمار، تحقیق اور عالمی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی اور مذہبی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • کیا زمین کی محافظ اوزون تہہ بچ پائے گی؟ سائنسدانوں اور اقوام متحدہ نے تازہ صورتحال بتادی
  • گلشن معمار میں فائرنگ سے پولیس اہلکار شہید، 4 نامعلوم حملہ آور فرار
  • کراچی: گلشنِ معمار میں فائرنگ، پنکچر لگوانے والا پولیس اہلکار جاں بحق
  • سندھ میں بیراجوں میں پانی کی آمد و اخراج کے تازہ ترین اعداد و شمار جاری
  • کراچی، گلشن معمار میں فائرنگ سے پولیس اہلکار شہید
  • کیا زمین کی محافظ اوزون تہہ بچ پائے گی، سائنسدانوں اور اقوام متحدہ نے تازہ صورتحال بتادی
  •  نوجوانوں میں مالیاتی امید بلند مگر مجموعی عوامی اعتماد میں کمی ہوئی، اپسوس کا تازہ سروے
  • دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی تازہ ترین صورتحال
  • وزیراعظم  اور سعودی ولی عہد کی اہم ملاقات، خطے کی تازہ صورتحال اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال