جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 8 اپریل کو طلب، دو مزید ججز کی تقرری پر غور ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
چیف جسٹس آف پاکستان نے 8 اپریل کو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں سپریم کورٹ میں دو مزید ججز لانے پر غور ہوگا۔
ذرائع کے مطابق لاہورہائی کورٹ کے 5 سینیئر ججز میں سے 2 کو سپریم کورٹ لانے پر غور ہوگا۔
ذرائع کے مطابق جسٹس شجاعت علی خان کی اپنے متعلق جوڈیشل کمیشن میں دیے گئے ریمارکس حذف کرنے کی درخواست پر بھی جوڈیشل کمیشن غور کرے گا۔
ذرائع کے مطابق جوڈیشل کمیشن نے اپنے 4 جولائی 2024 کے اجلاس میں جسٹس شجاعت علی کے خلاف ریمارکس دیے تھے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ اینٹی کرپشن ہاٹ لائن صرف سپریم کورٹ سے متعلق قائم کی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق جوڈیشل کمیشن کے اپنے گزشتہ اجلاس میں اس بناء پر جسٹس شجاعت علی کے نام پر غور نہیں کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں ہائی کورٹس میں مستقل چیف جسٹس کی غیر موجودگی میں سابق چیف جسٹس کو کمیشن کا ممبر نامزد کرنے پر غور ہوگا۔
ذرائع کے مطابق اس وقت سندھ، بلوچستان، پشاور اور اسلام آباد کے ہائی کورٹس میں مستقل چیف جسٹس نہیں ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ذرائع کے مطابق جوڈیشل کمیشن پر غور ہوگا سپریم کورٹ اجلاس میں چیف جسٹس
پڑھیں:
18 سال سے کم عمر بچوں کے نکاح کا اندراج جرم قرار؛ صدر مملکت نے بل پر دستخط کردیے
اسلام آباد:صدر مملکت آصف علی زرداری نے کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی کے بل پر دستخط کردیے، جس کے بعد 18 سال سے کم عمر بچوں کے نکاح کا اندراج قانونی جرم قرار ہوگا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق صدر آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد یہ بل قانون کا حصہ بن گیا ہے، جس کے تحت 18 سال سے کم عمر بچوں کے نکاح کا اندراج قانونی جرم ہوگا۔
ایکٹ کے مطابق نکاح رجسٹرار کم عمر بچوں کی شادی کا اندارج نہ کرنے کے پابند ہوں گے۔ اسی طرح نکاح پڑھانے والا شخص نکاح پڑھانے یا رجسٹرڈ کرنے سے قبل فریقین کے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز کی موجودگی یقینی بنائے گا۔
قانون کے مطابق بنا کوائف کے نکاح رجسٹر کرنے یا پڑھانے پر ایک سال قید، ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔ 18 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی بھی جرم قرار دے دی گئی ہے اور 18 سال سے زائد عمر کے مرد کی کمسن لڑکی سے شادی پر سزا مقرر کی گئی ہے۔
علاوہ ازیں کمسن لڑکی سے شادی پر کم سے کم 2 سال اور زیادہ سے زیادہ 3 سال قید بامشقت ہوگی۔ کمسن لڑکی سے شادی پر جرمانہ بھی ہوگا اور کم عمر بچوں کی رضامندی یا بغیر رضامندی شادی کے نتیجے میں مباشرت نابالغ فرد سے زیادتی سمجھی جائے گی۔
ایکٹ کے مطابق نابالغ دلہن یا دلہے کو شادی پر مائل یا مجبور کرنے، ترغیب دینے اور زبردستی کرنے والا شخص بھی زیادتی کا مرتکب قرار ہوگا۔ نابالغ دلہن یا دلہے کی شادی کرانے پر 5 سے 7 سال قید، 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔
شادی کی غرض سے کسی بچے کو ملازمت پر رکھنے، پناہ دینے یا تحویل میں دینے والے شخص کو 3 سال قید بمع جرمانہ سزا ہوگی۔ قانون میں 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی پر والدین اور سرپرست کے لیے بھی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔
ایکٹ کے مطابق کمسن بچوں کی شادی کے فروغ، بدسلوکی یا شادی کے انعقاد پر والدین کو 3 سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا ہوگی۔ شادی کے لیے کمسن بچوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور یا زبردستی کرنا بچوں کی اسمگلنگ قرار دیا گیا ہے اور بچوں کی اسمگلنگ کے مرتکب شخص کو 5 سے 7 سال قید اور جرمانے کی سزائیں ہوں گی۔
قانون کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی رکوانے کے لیے عدالت کو حکم امتناع دینے کا اختیار ہوگا۔ عدالت کم عمر بچوں کی شادی سے متعلق مقدمات 90 روز میں نمٹانے کی پابند ہوگی۔
بل کا اطلاق وفاقی دارالحکومت میں فی الفور نافذ العمل ہوگا۔