کیا آپ اپنا کمپیوٹر بدلنا چاہتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
کیا آپ کو اپنا پرانا کمپیوٹر بدلنے کی واقعی ضرورت ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر کمپیوٹر صارف کے ذہن میں کبھی نہ کبھی ضرور جنم لیتا ہے۔
ہر کمپیوٹر رکھنے والے شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ جدید سے جدید کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ اس کے زیر استعمال ہو۔ لیکن کیا ایسا واقعی ضروری ہے؟
کیا آپ کو اپنے کمپیوٹر کو بدلنے پر ہزاروں یا لاکھوں روپے خرچ کرنے کی ضرورت ہے؟ میں اپنے گزشتہ بیس سال کے تجربے کی بنیاد پر کہوں تو صرف اس وقت نیا کمپیوٹر خریدیں جب آپ کا موجودہ کمپیوٹر آپ کے ضروری کام انجام دینے کے قابل نہ رہے۔
پرانا کمپیوٹر بدلنے کی اصل وجہ کیا ہونی چاہیے؟
چونکہ وقت کے ساتھ آپریٹنگ سسٹم جیسے ونڈوز، لینکس، میک او ایس وغیرہ جدید سے جدید تر ہوتے جارہے ہیں، ایک وقت ایسا آتا ہے جب آپ کا موجودہ کمپیوٹر جدید سافٹ ویئر کے ساتھ کام نہیں کرپاتا۔ اسے Forced Obsolescence یا جبری متروکیت کہا جاتا ہے۔ مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ گوگل کروم براؤزر مائیکروسافٹ ونڈوز سیون پر استعمال تو کیا جاسکتا ہے مگر اسے گوگل کروم براؤزر کے تازہ ترین ورژن پر اپ گریڈ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا آسان حل تو یہ ہے کہ کمپیوٹر کو بدلنے کے بجائے ونڈوز سیون کو تبدیل کردیا جائے۔ مگر یہاں دقت یہ پیدا ہوسکتی ہے کہ آپ کے کمپیوٹر کا ہارڈ ویئر ونڈوز ٹین یا ونڈوز الیون سے مطابقت ہی نہ رکھتا ہو۔ یہ وہ موقع ہے جب آپ کو اپنے کمپیوٹر ہارڈ ویئر کو بدلنے کی ضرورت لازمی پڑنی ہے۔
ماضی میں ہارڈ ویئر ڈرائیورز کی عدم دستیابی کی وجہ سے کمپیوٹرز کو اپ گریڈ کیا جاتا تھا، آج یہی مسئلہ ویب براؤزرز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر آپ کمپیوٹر کے پرانے صارف ہیں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ جن کاموں کو انجام دینے کےلیے پہلے ڈیسک ٹاپ سافٹ ویئر درکار ہوتے تھے، آج وہی کام ویب براؤزر میں انجام دیے جاسکتے ہیں۔ یعنی اب آپ کو اگر جدید ترین ایپلی کیشنز سے مستفید ہونا ہے تو آپ کو ایسا کمپیوٹر اور آپریٹنگ سسٹم چاہیے جس پر تازہ ترین ویب براؤزر انسٹال ہوسکے۔
کیا کمپیوٹر پرانے ہو کر خراب ہوجاتے ہیں؟
یہ غلط فہمی عام ہے کہ کمپیوٹر وقت کے ساتھ ’’خراب‘‘ ہوجاتے ہیں، جیسے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گاڑی یا موٹر سائیکل کے مکینکل پارٹس میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ہارڈویئر میں بذات خود کوئی خاص تبدیلی نہیں آتی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کمپیوٹر میں برائے نام ایسے اجزا ہوتے ہیں جن میں کوئی حرکت ہوتی ہے۔ مثلاً پروسیسر کو ٹھنڈا رکھنے والا پنکھا یا پاور سپلائی کا پنکھا یا پرانی ہارڈ ڈرائیو جس میں موٹر موجود ہوتی ہے۔ اصل میں جو چیز کمپیوٹر کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے وہ سالہا سال کے اپڈیٹس، غیر ضروری سافٹ ویئر، پرانے ڈرائیورز اور عارضی فائلیں ہیں۔ اگر آپ کا پرانا کمپیوٹر سست رفتار ہوگیا ہے، تو اسے فوری طور پر بدلنے کے بجائے درج ذیل اقدامات کریں:
• آپریٹنگ سسٹم جیسے مائیکروسافٹ ونڈوز کو دوبارہ انسٹال کریں۔ جس پارٹیشن میں آپریٹنگ سسٹم انسٹال کررہے ہیں، اسے فارمیٹ کریں۔
• ہارڈ ڈرائیو کو ایس ایس ڈی (SSD) یا اگر کمپیوٹر کا ہارڈ ویئر اجازت دے تو جدید ترین NVM میں تبدیل کریں۔
• ریم کو اپ گریڈ کریں۔ مثلاً اگر آپ چار جی بی ریم استعمال کررہے ہیں، تو اس میں اضافہ کرکے آٹھ یا سولہ جی بی کردیں۔ یاد رہے کہ کمپیوٹر کے مدر بورڈ پر محدود تعداد میں میموری سلاٹس دستیاب ہوتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ ریم کی بھی ایک حد مقرر ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ 16 جی بی تک ہوتی ہے۔ جدید کمپیوٹروں میں یہ حد اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
• اگر ضرورت ہو تو گرافکس کارڈ کو تبدیل کرلیں۔
کیا آپریٹنگ سسٹم کی سپورٹ ختم ہونا مسئلہ ہے؟
یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی آپریٹنگ سسٹم کی سپورٹ ختم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کمپیوٹر کام نہیں کرے گا۔ مثال کے طور پر، مائیکروسافٹ اکتوبر 2025 میں ونڈوز 10 کی سپورٹ ختم کررہا ہے، لیکن اس کے باوجود ونڈو 10 آپریٹنگ سسٹم آپ کو کئی سال تک بغیر کسی مسئلے کے کمپیوٹروں میں کام کرتا نظر آئے گا۔ تکنیکی طور پر، ونڈوز 7 اور ونڈوز ایکس پی آج بھی فعال ہیں اور کئی کمپنیاں آج بھی انہیں استعمال کررہی ہیں، حالانکہ اس کی سپورٹ کئی سال پہلے ختم ہوچکی ہے۔
کیا نیا کمپیوٹر خریدنا واقعی آسان حل ہے؟
ایک نیا کمپیوٹر خریدنا بظاہر ایک آسان حل لگتا ہے، لیکن ایسے کسی بھی فیصلے کو اس خریداری کی قیمت اور پھر اس سے حاصل ہونے والے فائدے کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے۔ اگر آپ کے دفتر میں آپ کا کام صرف کچھ دستاویز ٹائپ کرنا اور اسپریڈ شیٹس بنانا ہے تو اس کےلیے کثیر سرمایہ لگا کر نیا کمپیوٹر خریدنا ایک فضول خرچی ہی تصور ہوگی۔
اس ساری تفصیل کے بعد جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے پرانے کمپیوٹر کو خیرآباد کہنے سے پہلے حتی الامکان کوشش کریں کہ اس میں ضروری نوعیت کی اجزا کو انفرادی طور پر اپ گریڈ کرلیا جائے۔ اور نیا کمپیوٹر صرف اسی وقت خریدیں جب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ بچا ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آپریٹنگ سسٹم نیا کمپیوٹر ہارڈ ویئر کی سپورٹ ہوتی ہے کے ساتھ اپ گریڈ اگر آپ
پڑھیں:
ترکی کا اسرائیلی سے تجارتی بندھن
اسلام ٹائمز: یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے اور اس سے دونوں فریقوں کو معاشی نقطہ نظر سے فائدہ ہوتا ہے۔ دریں اثنا، ترک حکام اور حکومت کے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کے بارے میں عوامی بیانات زیادہ تر مقامی اور عالمی رائے عامہ میں پانی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے ہیں، اور جب تک کشیدگی "بیان بازی کی سطح پر" رہے گی، اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے مابین منافع بخش تجارت کے راستے میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ خصوصی رپورٹ:
عرب مسلم ممالک کی طرح موجودہ ترک حکومت بدقسمتی سے صہیونی حکومت کے اہم معاشی اور تجارتی سپلائرز میں سے ایک ہے۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران غزہ کی پٹی میں صہیونی حکومت کی فوجی جارحیت کے آغاز اور عوامی مظاہروں میں اضافے کے بعد ترک حکومت نے رائے عامہ کے دباؤ کو دھوکہ دینے کے لئے اپنے نام نہاد اسرائیل مخالف موقف کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ لیکن حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ترک حکومت کی یہ پوزیشنی حقیقت پر مبنی نہیں۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے اقتصادی اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے کے بارے میں پرجوش بیانات کے باوجود عملی طور پر دونوں ممالک کے درمیان یہ تعاون خفیہ اور اعلانیہ طور پر جاری ہے۔ ترکی کا صہیونی حکومت کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعاون اور تعلق سمندری، زمینی اور فضائی تینوں حوالوں سے جاری ہے۔
جہاز رانی اور سمندری رسد کا استعمال:
تیل، تعمیراتی مواد، سٹیل وغیرہ کو غیرجانبدار ممالک جیسے لائبیریا، پاناما وغیرہ کے جھنڈے کے تحت بحری جہازوں کے ذریعے ترکی کی بندرگاہوں سے اسرائیلی بندرگاہوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق اسرائیلی حکومت کے لئے مذکورہ اشیا کا تقریبا 18 فیصد ترکی کے کارگو جہازوں کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی حکومت کو تیل کی فراہمی کے لیے سمندری راستہ اہم اور بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اسرائیلی حکومت کو درکار تیل کا زیادہ تر حصہ وسطی ایشیائی ممالک جیسے آذربائیجان اور قازقستان سے بحری جہازوں کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے اور یہ سب ترکی کے راستے سے گزرتے ہیں۔ لہذا، اسرائیلی حکومت کو درکار تیل باکو حکومت کی طرف سے اور ترکی کے تعاون سے باکو تبلیسی سیہان پائپ لائن کے ذریعے بحیرہ کیسپین سے ترکی میں داخل ہوتا ہے۔ ترک آئل ٹینکرز سییہان کی بندرگاہ سے تیل لوڈ کرتے ہیں اور اسرائیلی حکومت کے پانیوں میں داخل ہوتے وقت اپنے اے آئی ایس شناختی نظام کو بند کر دیتے ہیں، اور یہ تیل صیہونی بندرگاہوں حیفہ، اشدود اور اشکیلون کی تک پہنچاتے ہیں۔ گزشتہ سال جنوری میں صہیونی حکومت 297 ملین ڈالر مالیت کی 5 لاکھ 23 ہزار 500 ٹن تیل کی ترسیل کے ساتھ جمہوریہ آذربائیجان سرفہرست تھا۔
باکو-تبلیسی-سییہان پائپ لائن ، جو بحیرہ کیسپین سے بحیرہ روم تک تیل پہنچاتی ہے
زمینی اور ہوائی راستوں کا استعمال:
اس طریقہ کار میں تجارت تیسرے ممالک کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس طریقہ کار میں، سامان ترکی سے آذربائیجان اور جارجیا تک زمینی راستے سے منتقل کیا جاتا ہے، اور وہاں سے انہیں ہوائی جہاز کے ذریعے اسرائیلی حکومت تک پہنچایا جاتا ہے۔ باکو کی سرکاری لاجسٹک کمپنیاں اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ باکو حکومت کی اسرائیلی حکومت کے لئے کارگو پروازیں بہت فعال ہیں۔
ترکی اور دیگر اسرائیل دوست ممالک کے فضائی راستوں کا استعمال:
ترک اور اسرائیلی ایئر لائنز اردن، متحدہ عرب امارات اور یونان جیسے راستے استعمال کرتی ہیں۔ کارگو کو "عمان کے لئے" کے لیبل کے ساتھ بھیجا جاتا ہے، لیکن اصل منزل تل ابیب ہی ہوتا ہے۔ مالیاتی لین دین بھی درمیانی ممالک کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سوئٹزرلینڈ کے بینک اس سلسلے میں ترکی اور اسرائیل کی مدد کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کرپٹو کو بھی لین دین چھپانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
صہیونی حکومت کو تیل اور سامان کی منتقلی کے لئے ممکنہ سمندری اور فضائی راستے
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ نہ ترکی اور نہ ہی اسرائیلی حکومت ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات مکمل طور پر منقطع کرنے پر راضی ہیں۔ ترکی کو صہیونی حکومت کے ساتھ مختلف شعبوں میں تجارت سے فائدہ ہوتا ہے اور صہیونی حکومت ترکی کی سرزمین یورپ کو اسرائیلی گیس برآمد کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے، جبکہ اسے مطلوبہ تیل حاصل کرنے اور اس کی ضروری اشیاء جیسے ٹیکسٹائل اور کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل بھی ہوتی ہے۔ اسرائیلی حکومت ترکی کے راستے وسطی ایشیا اور قفقاز کی منڈیوں تک بھی رسائی حاصل کرتی ہے۔
یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے اور اس سے دونوں فریقوں کو معاشی نقطہ نظر سے فائدہ ہوتا ہے۔ دریں اثنا، ترک حکام اور حکومت کے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کے بارے میں عوامی بیانات زیادہ تر مقامی اور عالمی رائے عامہ میں پانی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے ہیں، اور جب تک کشیدگی "بیان بازی کی سطح پر" رہے گی، اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے مابین منافع بخش تجارت کے راستے میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ اسرائیلی حکومت کے ساتھ دنیا کا اور بالخصوص اسلامی ممالک کا تعاون اور تجارتی روابط، اسلامی جمہوریہ ایران اور مقاومتی محاذ کی پالیسی اور فلسطینیوں کی حمایت کو نمایاں کرتے ہیں۔ لیکن یہاں اتحاد کی ضرورت ہے، قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد لازم ہو گیا ہے، یہ مسلم امہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ احساس کریں کیونکہ اسرائیلی حکومت پر جرائم کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا ایک اہم طریقہ تعاون اور بات چیت منقطع کرنا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اسلامی ممالک اور اسرائیلی حکومت کے درمیان اقتصادی اور سیاسی تعاون منقطع کرنے کی ضرورت پر بار بار تاکید کی ہے۔ حکومتوں کا فرض یہ ہے کہ وہ سیاسی حمایت اور اسلحے کی امداد بند کریں اور صہیونی حکومت کو اشیائے ضروریہ نہ بھیجیں۔ یہ اہم مسئلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بدقسمتی سے اسلامی ممالک کی متعدد حکومتیں اسرائیلی حکومت کے ساتھ اپنے سیاسی، تجارتی اور عسکری تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ترکی کو ایک اہم اور بااثر علاقائی وزن کے حامل ملک کی حیثیت سے اسرائیلی حکومت کے ساتھ اپنے اقتصادی، تجارتی اور سیاسی تعلقات منقطع کرنے ہوں گے، اگر وہ واقعی فلسطینیوں کے خلاف قتل و غارت گری اور جنگ کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے، بصورت دیگر اسے اسرائیلی حکومت کے جرائم کا براہ راست اور بالواسطہ ساتھی اور شراکت دار سمجھا جائے گا۔