بس حملوں کے واقعات؛ رات کے وقت کوئٹہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کو سفر کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 مارچ 2025ء ) بسوں پر حملوں کے واقعات کے پیش نظر رات کے وقت کوئٹہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کو سفر کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں کوئٹہ سے رات کے اوقات میں پبلک ٹرانسپورٹ کو سفر کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا، اجلاس میں ہونے والے فیصلے کے تحت بسوں اور کوچز کی بروقت روانگی یقینی بنائی جائے گی، تمام کوچز اور بسوں میں ٹریکر اور سی سی ٹی وی کیمرے فعال رکھے جائیں گے، اس حوالے سے تمام ٹرانسپورٹروں کو حکومتی اقدامات سے متعلق بھرپور تعاون کی بھی ہدایت کردی گئی۔
علاوہ ازیں وزیر اعلیٰ بلوچستان کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں جعفر ایکسپریس اور نوشکی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی شدید مذمت کی گئی، اجلاس میں شہید ہونے والے جوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ان کی مغفرت کے لیے دعا کی گئی، علماء کی ٹارگٹ کلنگ پر بھی کابینہ کی جانب سے گہری تشویش کا اظہار کیا گیا، اجلاس میں کابینہ ارکان نے فورسز کے بروقت اور مؤثر ردعمل کو سراہتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی اداروں نے اپنی کارروائیوں کے ذریعے بلوچستان کو بڑے نقصان سے بچالیا، عوام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فورسز کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔(جاری ہے)
معلوم ہوا ہے کہ اجلاس میں صوبائی کابینہ نے خصوصی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں ذخیرہ شدہ گندم فروخت کرنے کی اجازت دے دی، اس کے علاوہ گولیمار چوک اور کچرا روڈ کے نام تبدیل کرنے کی منظوری بھی دیدی گئی، کابینہ نے تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کے تحت میرٹ پر بھرتیوں کے عمل کو جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی، تمام بھرتیاں ابتدائی طور پر 18 ماہ کے لیے کنٹریکٹ کی بنیاد پر ہوں گی اور تسلی بخش کارکردگی پر ملازمت کا دورانیہ بڑھایا جائے گا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اجلاس میں کی اجازت
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔