جنگ پاکستان اور افغانستان میں سے کسی کے مفاد میں نہیں، مولانا فضل الرحمان WhatsAppFacebookTwitter 0 22 March, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ جنگ پاکستان اور افغانستان میں سے کسی کے مفاد میں نہیں، اگر ہم جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں تو سوچنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ممکنہ جنگ کے خطرے پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے حوالے سے ماضی میں ریاستی غلطیوں نے صورتحال کو پیچیدہ بنایا اور افغان جنگ میں پاکستان کا کردار بین الاقوامی سیاست سے جڑا رہا۔
مولانا فضل الرحمان نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، جبکہ افغان جنگ کے دوران ملک کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ان کے مطابق، جہاد اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے مگر اس کے لیے حکمت عملی ضروری ہوتی ہے۔انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں امریکی پالیسیوں کی حمایت کو تضادات کی جڑ قرار دیا، اور کہا کہ اس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں افغانستان اپنی پارٹی کی کیپیسٹی میں جانے پر آمادہ ہوا، میں نے وزارت خارجہ اور حکام سے مشاورت کی اور ایجنڈا تیار کیا، میں نے افغانستان میں ایک ہفتہ گزارا، تمام مسائل پر بات کی اور اس کے نتائج بھی آئے۔ان کا کہنا تھا کہ کسی مخصوص مکتبہ فکر کو دہشتگردی سے جوڑنا درست نہیں، جو افراد ہتھیار اٹھاتے ہیں وہ خود ذمہ دار ہوتے ہیں، جبکہ ملک میں کوئی مسلکی تصادم نہیں پایا جاتا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ افغان علما پہلے ہی فتوی دے چکے ہیں کہ وہاں جہاد اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے اور اب کسی قسم کی لڑائی کو جنگ قرار دیا جائے گا، نہ کہ جہاد۔انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کی وجوہات واضح نہیں، حالانکہ ماضی میں پاکستانی حکومت اور مذہبی رہنماں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔مولانا فضل الرحمان نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ملک میں امن و استحکام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے اور کوئی جامع حکمت عملی ترتیب دے۔
ان کیمرا اجلاسوں سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حساس نوعیت کے معاملات کو خفیہ رکھنا ضروری ہوتا ہے، مگر بعض اوقات غلط معلومات پھیلنے سے وضاحت دینا ناگزیر ہو جاتا ہے۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جمہوریت کمزور ہوئی تو انتہا پسندی کو فائدہ ہوگا اور تمام سیاسی قوتوں کو مل کر ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان مولانا فضل الرحمان نے افغانستان میں انہوں نے کہا کہ نے کہا

پڑھیں:

بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن

اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دہشتگردی، کشمیر، فاٹا کے انضمام اور سود کے خاتمے سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ 11 ستمبر کے بعد نہیں بلکہ 40 سال سے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ علما کی جانب سے امریکا کے افغانستان پر قبضے کے باوجود پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوج نے مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کئی آپریشن کیے، جن کی وجہ سے آج بھی لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب دوبارہ لوگوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ شہر خالی کر دیے جائیں، اور سوال اٹھایا کہ جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ واپس کیسے آئیں گے۔ انہوں نے دہشتگردی کے خاتمے میں سیاسی ارادے کی کمی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت کو 4 گھنٹے میں شکست دے دی گئی لیکن دہشتگردی کو 40 سال سے شکست کیوں نہیں دی جا سکی۔

مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمن نے بھی 28 اگست کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت کردی

کشمیر کے حوالے سے انہوں نے پاکستان کی پالیسی پر نکتہ چینی کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان مسلسل پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار اور کشمیر کمیٹی کی صدارت کے حوالے سے کہا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی کے لیے کیا کچھ کیا، لیکن اب کئی برس سے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ اب کیا کیا گیا؟

انہوں نے کشمیر کی 3 حصوں میں تقسیم، جنرل پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کے فیصلے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے پر قرارداد میں اس کا ذکر شامل نہ ہونے پر سوالات اٹھائے۔ فاٹا کے انضمام پر بھی حکومت کی حالیہ پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ فاٹا کے لوگوں پر فوج اور طالبان دونوں کے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔

فلسطینی حماس کے رہنما خالد مشعل کے فون کال کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر پاکستان جنگ میں مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم انسانی امداد میں کردار ادا کرے۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی وعدے سے نہ پھرتی تو الیکشن بروقت ہو جاتے، مولانا فضل الرحمن

سود کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار کرایا اور مزید 22 نکات پر مزید تجاویز دیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 کو سود ختم کرنے کی آخری تاریخ دی ہے اور آئندہ یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ دستور میں شامل کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنے وعدے پر عمل نہ کرے تو عدالت جانے کے لیے تیار رہیں کیونکہ آئندہ عدالت میں حکومت کا دفاع مشکل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل معطل ہو جائے گی، اور آئینی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 کو سود کے خاتمے پر عمل درآمد لازمی ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارت جمیعت علمائے اسلام سود فلسطینی حماس کشمیر کشمیرکمیٹی ملی یکجہتی کونسل مولانا فضل الرحمن

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم سے مولانا فضل الرحمان کی ملاقات، تحفظات سے آگاہ کیا
  • وزیراعظم سے مولانا فضل الرحمان کی ملاقات، سیاسی صورتحال پر گفتگو
  •   وزیراعظم سے مولانا فضل الرحمان کی اہم ملاقات
  • غیرت کے نام پر کسی کو بھی قتل کرنا شرعی لحاظ سے جائز نہیں ہے، مولانا فضل الرحمان
  • حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہو گا،مولانافضل الرحمان
  • چھبیسویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
  • 26ویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • 26 ویں آئینی ترمیم آئی تو ہم سے کہا گیا کہ اسکی توثیق کریں، مولانا فضل الرحمان
  • پاکستان سے غزہ میں امداد کی رسائی کے لیے اثرورسوخ استعمال کریں، خالد مشعل کی فضل الرحمان سے اپیل