Islam Times:
2025-09-18@17:16:50 GMT

خط و کتابت کے بہانے نفسیاتی جنگ

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

خط و کتابت کے بہانے نفسیاتی جنگ

اسلام ٹائمز: مذاکرات کے بارے میں رہبر معظم انقلاب نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ ہمہ جہت ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ تمام میدانوں میں مزاحمت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت امریکہ کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو جو خط لکھا ہے وہ محض ایک نفسیاتی جنگ ہے جس کا مقصد خود کو امن کا مدافع ظاہر کرنا ہے۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ بالفرض کل اگر ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی جنگ ہوتی ہے تو اس میں امریکہ قصور وار نہیں ہو گا۔ اس خط کا اصل مقصد امریکہ کی جانب سے ایران کے قومی ارادے پر دباو ڈالنا ہے اور اس میں محض کھوکھلے وعدوں اور دھمکیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تحریر: حسین کنعانی مقدم
 
ہم اس وقت تین بڑی اور بھرپور جنگوں سے روبرو ہیں: ارادوں کی جنگ، میڈیا جنگ اور اقتصادی جنگ۔ ارادوں کی جنگ میں رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ثابت کر دیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور غاصب صیہونی رژیم کی شیطانی سازشوں کے مقابلے میں ایرانی قوم، فلسطینی قوم اور اسلامی مزاحمت کا ارادہ اس قدر مضبوط ہے کہ ان کی دھمکیوں اور پابندیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو سکتے ہیں جبکہ تجربات نے بھی یہی ثابت کیا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے عاشورا کی منطق کے تحت یہ کام کیا ہے۔ دوسری طرف مدمقابل قوتیں آمرانہ اور فرعونی ذہنیت کی بنیاد پر یہ تصور کرتی ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کا میدان بھی مغربی فلموں کی مانند ہے جس میں کوئی بھی بہت آسانی سے مدمقابل کو گولی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔
 
اگر کوئی قوم اس آمرانہ اور فرعونی ذہنیت اور طرز عمل کے مقابلے میں کمزوری کا مظاہرہ کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قوتیں اسے جارحیت کا نشانہ بنا ڈالیں گی۔ اس کی تازہ ترین اور واضح ترین مثال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی صحافیوں اور میڈیا کے کیمروں کے سامنے شدید تحقیر اور بے عزتی کرنا ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دو ٹوک انداز میں اعلان کیا ہے کہ ہم ہر گز بدمعاشوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھیں گے تاکہ وہ اپنے ناجائز مطالبات ہم پر تحمیل کر سکیں۔ ہم رہبر معظم انقلاب کے اس شجاعانہ موقف کے بعد ارادوں کی جنگ کے میدان میں فاتح قرار پا چکے ہیں۔ امریکہ کا ارادہ ٹوٹ چکا ہے اور وہ پیچھے ہٹ گیا ہے۔
 
میڈیا کی جنگ میں مغربی طاقتوں کے پاس وسیع پیمانے پر انفارمیشن کے ذرائع اور طاقتور میڈیا ذرائع موجود ہیں جن کے ذریعے وہ ہمارا قومی ارادہ متزلزل کرنے کے درپے ہیں۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر ایران مذاکرات کے لیے تیار نہ ہوا تو تباہ ہو جائے گا۔ ممکن ہے کچھ افراد اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر یہ سوچنے لگیں کہ مذاکرات ہی واحد راہ حل ہے لیکن ماضی کے تجربات سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں مزاحمت اور ڈٹ جانے سے ہی بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ ماضی میں ایران نے جوہری مذاکرات سمیت مغربی ممالک سے متعدد مذاکرات انجام دیے جبکہ مغربی طاقتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی اور ایران کو کوئی مراعات فراہم نہیں کیں۔
 
اگلا مسئلہ اقتصادی جنگ کا ہے۔ مغربی طاقتیں معیشت کے میدان میں ایران پر زیادہ سے زیادہ بھرپور انداز میں دباو ڈالنا چاہتی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ جب عوام شدید اقتصادی مشکلات سے روبرو ہوں گے تو حکمفرما نظام کے خلاف بغاوت پر اتر آئیں گے اور یوں ایران میں سول نافرمانی کی تحریک جنم لے گی۔ اس کی واضح مثال حال ہی میں امریکہ کی جانب سے ایران کی تیل کی صنعت اور وزیر تیل پر پابندیاں عائد کیے جانا ہے۔ البتہ امریکہ اس سے پہلے بھی بارہا یہ کام کر چکا ہے اور اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ ایرانی قوم نے ثابت کیا ہے کہ جس قدر اس پر دباو میں اضافہ ہوتا جاتا ہے وہ اسی قدر مستحکم اور طاقتور ہوتی جاتی ہے اور اس کی مزاحمت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ رہبر معظم انقلاب گذشتہ کئی عشروں سے مزاحمتی اقتصاد پر زور دے رہے ہیں اور عوام کو اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لے کر پیداوار بڑھانے کی ترغیب دلا رہے ہیں۔
 
مذاکرات کے بارے میں رہبر معظم انقلاب نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ ہمہ جہت ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ تمام میدانوں میں مزاحمت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت امریکہ کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو جو خط لکھا ہے وہ محض ایک نفسیاتی جنگ ہے جس کا مقصد خود کو امن کا مدافع ظاہر کرنا ہے۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ بالفرض کل اگر ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی جنگ ہوتی ہے تو اس میں امریکہ قصور وار نہیں ہو گا۔ اس خط کا اصل مقصد امریکہ کی جانب سے ایران کے قومی ارادے پر دباو ڈالنا ہے اور اس میں محض کھوکھلے وعدوں اور دھمکیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔
 
حال ہی میں ایران، چین اور روس نے مشترکہ جنگی مشقیں انجام دی ہیں اور بیجنگ میں جوہری مذاکرات بھی انجام پائے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کی حکمت عملی سفارتکاری اور مذاکرات پر استوار ہے۔ دوسری طرف ایران نے چین اور روس سے 20 سے 25 سالہ طویل المیعاد فوجی اور سیکورٹی تعاون کا معاہدہ بھی انجام دے رکھا ہے۔ یوں ایک مشرقی نیٹو تشکیل پا چکی ہے جس کی مرکزیت ایران، روس اور چین کے پاس ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایران نے اس اتحاد میں شامل ہو کر اپنی دفاعی طاقت کا لوہا منوا لیا ہے۔ چین اور روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے پرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کے حق پر زور دیا ہے۔ لہذا اب خاص طور پر طوفان الاقصی آپریشن کے بعد خطہ اور دنیا میں طاقت کا توازن اسلامی مزاحمت کے حق میں تبدیل ہو چکا ہے اور عالمی نظام میں ایران کا اثرورسوخ بڑھ گیا ہے جو امریکہ کو بالکل پسند نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رہبر معظم انقلاب ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حکمت عملی میں ایران ہے اور اس کی کوشش رہے ہیں کیا ہے کی جنگ

پڑھیں:

غزہ میں کسی معاہدے کا امکان نہیں، کارروائی میں توسیع کریں گے: اسرائیل نے امریکہ کو بتا دیا

اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے حماس کو نئی دھمکیاں دی ہیں۔ کاٹز نے کہا ہے کہ اگر حماس نے اسرائیل کی شرائط نہ مانیں تو غزہ میں مزید شدت اختیار کرنے والے حملے کیے جائیں گے۔ اسرائیل اپنی دھمکی پر عمل کرے گا۔

غزہ میں کسی معاہدے کا کوئی امکان نہیں
اسرائیلی نشریاتی ادارے نے بتایا ہے کہ تل ابیب نے واشنگٹن کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ وہ تمام مذمتوں کے باوجود غزہ کی پٹی میں اپنی فوجی کارروائی کو مزید گہرا کرنے جا رہا ہے۔ ادارے نے مزید بتایا کہ تل ابیب نے واشنگٹن کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ غزہ میں کسی معاہدے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ سب ایسے وقت ہو رہا ہے جب وزیر رون ڈیرمر کا لندن میں وائٹ ہاؤس کے ایلچی سٹیو وٹکوف سے ملاقات کا شیڈول ہے تاکہ تمام یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے لیے ایک جامع معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کی بحالی کے امکان پر بات کی جا سکے۔

قطری اعلیٰ حکام بھی لندن میں موجود ہیں اور ایلچی کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔ ایک باخبر ذریعہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ امریکی اس وقت اسرائیل اور قطر کے درمیان ثالثی کر رہے ہیں تاکہ اس بحران کا کوئی حل تلاش کیا جا سکے جو دوحہ میں حماس کے اعلیٰ حکام کے خلاف اسرائیلی حملے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا اور دوحہ کو اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کے کردار میں واپس لایا جا سکے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکی اسرائیل پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کشیدگی کم کرنے اور قطر کے ساتھ بحران کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب میدان میں بھی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ کاٹز نے خبردار کیا ہے کہ اگر حماس نے یرغمالیوں کو رہا نہ کیا اور اپنے ہتھیار نہ ڈالے تو غزہ کو تباہ کر دیا جائے گا اور غزہ حماس کو ختم کرنے والوں کے لیے ایک یادگار بن جائے گا۔ اسرائیلی فوج نے حماس پر زمینی کارروائیاں اور سیاسی و فوجی دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر غزہ میں ایک فوری انسانی بحران کے بارے میں وارننگ دی جا رہی ہے۔

یہ بھی اعلان کیا گیا کہ غزہ کے شہریوں کے شہر سے نکلنے کے لیے ایک “عارضی منتقلی کا راستہ” قائم کیا گیا ہے۔ یہ اعلان اس کے بعد ہوا جب فوج نے حماس کے ساتھ تقریباً دو سال کی جنگ کے بعد پٹی کے سب سے بڑے شہر پر زمینی حملے اور بمباری میں اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران صہیونی فوج نے پٹی کے شمال میں واقع غزہ سٹی کے رہائشیوں کو شدید انتباہات دیے ہیں کہ وہ شہر چھوڑ کر پٹی کے جنوب میں قائم کردہ ایک “انسانی علاقے” میں منتقل ہو جائیں کیونکہ وہ شہر پر قبضہ کرنے کے لیے حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔

فوج نے منگل کو بھی کہا تھا کہ اس نے اس شہر میں اپنی زمینی کارروائیوں کو وسیع کرنا شروع کر دیا ہے اور غزہ میں مسلسل اور شدید بمباری ہو رہی ہے۔ بدھ کو اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے پیر کی رات سے 150 سے زیادہ اہداف پر بمباری کی ہے۔

فلسطینیوں کی نسل کشی
اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ ایک آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے اگست کے آخر میں غزہ شہر اور اس کے آس پاس رہنے والے افراد کی تعداد تقریباً دس لاکھ بتائی تھی۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں میں شہر سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے۔ لوگ پیدل، کاروں، گاڑیوں اور زرعی ٹریکٹروں کا استعمال کرتے ہوئے شہر کو چھوڑ رہے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے بدھ کو اندازہ لگایا ہے کہ غزہ سٹی چھوڑنے پر مجبور ہونے والوں کی تعداد 350,000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسی دوران بہت سے فلسطینی وہیں رہنے پر مصر ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ان کے پاس پناہ لینے کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • چین اور امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی مذاکرات کے نتائج مشکل سے حاصل ہوئے ہیں، چینی میڈیا
  • غزہ میں کسی معاہدے کا امکان نہیں، کارروائی میں توسیع کریں گے: اسرائیل نے امریکہ کو بتا دیا
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارت کے حوالے سے اہم مذاکرات ناکام
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • بانی نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی
  • بانی نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی
  • آپریشن حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن قائم کیا جائے، عمران خان
  • پاکستان سٹاک ایکسچینج میں مسلسل دوسرے روز تیزی کا رحجان ، 100 انڈیکس نے 1 لاکھ 56 ہزارپوائنٹس کی نفسیاتی حدکو عبورکرلیا
  • اسرائیلی جارحیت کو کسی بھی بہانے جواز فراہم کرنا ناقابل قبول ہے، اعلامیہ قطر اجلاس