خط و کتابت کے بہانے نفسیاتی جنگ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: مذاکرات کے بارے میں رہبر معظم انقلاب نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ ہمہ جہت ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ تمام میدانوں میں مزاحمت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت امریکہ کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو جو خط لکھا ہے وہ محض ایک نفسیاتی جنگ ہے جس کا مقصد خود کو امن کا مدافع ظاہر کرنا ہے۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ بالفرض کل اگر ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی جنگ ہوتی ہے تو اس میں امریکہ قصور وار نہیں ہو گا۔ اس خط کا اصل مقصد امریکہ کی جانب سے ایران کے قومی ارادے پر دباو ڈالنا ہے اور اس میں محض کھوکھلے وعدوں اور دھمکیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تحریر: حسین کنعانی مقدم
ہم اس وقت تین بڑی اور بھرپور جنگوں سے روبرو ہیں: ارادوں کی جنگ، میڈیا جنگ اور اقتصادی جنگ۔ ارادوں کی جنگ میں رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ثابت کر دیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور غاصب صیہونی رژیم کی شیطانی سازشوں کے مقابلے میں ایرانی قوم، فلسطینی قوم اور اسلامی مزاحمت کا ارادہ اس قدر مضبوط ہے کہ ان کی دھمکیوں اور پابندیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو سکتے ہیں جبکہ تجربات نے بھی یہی ثابت کیا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے عاشورا کی منطق کے تحت یہ کام کیا ہے۔ دوسری طرف مدمقابل قوتیں آمرانہ اور فرعونی ذہنیت کی بنیاد پر یہ تصور کرتی ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کا میدان بھی مغربی فلموں کی مانند ہے جس میں کوئی بھی بہت آسانی سے مدمقابل کو گولی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔
اگر کوئی قوم اس آمرانہ اور فرعونی ذہنیت اور طرز عمل کے مقابلے میں کمزوری کا مظاہرہ کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قوتیں اسے جارحیت کا نشانہ بنا ڈالیں گی۔ اس کی تازہ ترین اور واضح ترین مثال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی صحافیوں اور میڈیا کے کیمروں کے سامنے شدید تحقیر اور بے عزتی کرنا ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دو ٹوک انداز میں اعلان کیا ہے کہ ہم ہر گز بدمعاشوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھیں گے تاکہ وہ اپنے ناجائز مطالبات ہم پر تحمیل کر سکیں۔ ہم رہبر معظم انقلاب کے اس شجاعانہ موقف کے بعد ارادوں کی جنگ کے میدان میں فاتح قرار پا چکے ہیں۔ امریکہ کا ارادہ ٹوٹ چکا ہے اور وہ پیچھے ہٹ گیا ہے۔
میڈیا کی جنگ میں مغربی طاقتوں کے پاس وسیع پیمانے پر انفارمیشن کے ذرائع اور طاقتور میڈیا ذرائع موجود ہیں جن کے ذریعے وہ ہمارا قومی ارادہ متزلزل کرنے کے درپے ہیں۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر ایران مذاکرات کے لیے تیار نہ ہوا تو تباہ ہو جائے گا۔ ممکن ہے کچھ افراد اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر یہ سوچنے لگیں کہ مذاکرات ہی واحد راہ حل ہے لیکن ماضی کے تجربات سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں مزاحمت اور ڈٹ جانے سے ہی بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ ماضی میں ایران نے جوہری مذاکرات سمیت مغربی ممالک سے متعدد مذاکرات انجام دیے جبکہ مغربی طاقتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی اور ایران کو کوئی مراعات فراہم نہیں کیں۔
اگلا مسئلہ اقتصادی جنگ کا ہے۔ مغربی طاقتیں معیشت کے میدان میں ایران پر زیادہ سے زیادہ بھرپور انداز میں دباو ڈالنا چاہتی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ جب عوام شدید اقتصادی مشکلات سے روبرو ہوں گے تو حکمفرما نظام کے خلاف بغاوت پر اتر آئیں گے اور یوں ایران میں سول نافرمانی کی تحریک جنم لے گی۔ اس کی واضح مثال حال ہی میں امریکہ کی جانب سے ایران کی تیل کی صنعت اور وزیر تیل پر پابندیاں عائد کیے جانا ہے۔ البتہ امریکہ اس سے پہلے بھی بارہا یہ کام کر چکا ہے اور اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ ایرانی قوم نے ثابت کیا ہے کہ جس قدر اس پر دباو میں اضافہ ہوتا جاتا ہے وہ اسی قدر مستحکم اور طاقتور ہوتی جاتی ہے اور اس کی مزاحمت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ رہبر معظم انقلاب گذشتہ کئی عشروں سے مزاحمتی اقتصاد پر زور دے رہے ہیں اور عوام کو اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لے کر پیداوار بڑھانے کی ترغیب دلا رہے ہیں۔
مذاکرات کے بارے میں رہبر معظم انقلاب نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ ہمہ جہت ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ تمام میدانوں میں مزاحمت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت امریکہ کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو جو خط لکھا ہے وہ محض ایک نفسیاتی جنگ ہے جس کا مقصد خود کو امن کا مدافع ظاہر کرنا ہے۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ بالفرض کل اگر ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی جنگ ہوتی ہے تو اس میں امریکہ قصور وار نہیں ہو گا۔ اس خط کا اصل مقصد امریکہ کی جانب سے ایران کے قومی ارادے پر دباو ڈالنا ہے اور اس میں محض کھوکھلے وعدوں اور دھمکیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔
حال ہی میں ایران، چین اور روس نے مشترکہ جنگی مشقیں انجام دی ہیں اور بیجنگ میں جوہری مذاکرات بھی انجام پائے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کی حکمت عملی سفارتکاری اور مذاکرات پر استوار ہے۔ دوسری طرف ایران نے چین اور روس سے 20 سے 25 سالہ طویل المیعاد فوجی اور سیکورٹی تعاون کا معاہدہ بھی انجام دے رکھا ہے۔ یوں ایک مشرقی نیٹو تشکیل پا چکی ہے جس کی مرکزیت ایران، روس اور چین کے پاس ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایران نے اس اتحاد میں شامل ہو کر اپنی دفاعی طاقت کا لوہا منوا لیا ہے۔ چین اور روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے پرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کے حق پر زور دیا ہے۔ لہذا اب خاص طور پر طوفان الاقصی آپریشن کے بعد خطہ اور دنیا میں طاقت کا توازن اسلامی مزاحمت کے حق میں تبدیل ہو چکا ہے اور عالمی نظام میں ایران کا اثرورسوخ بڑھ گیا ہے جو امریکہ کو بالکل پسند نہیں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: رہبر معظم انقلاب ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حکمت عملی میں ایران ہے اور اس کی کوشش رہے ہیں کیا ہے کی جنگ
پڑھیں:
اسرائیل کی جارحیت کا اصل حامی امریکہ ہے، شیخ نعیم قاسم
خوراک، زرعی مصنوعات اور دستکاری کی نمائش کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ یہ مارکیٹ ایک تخلیقی اور نتیجہ خیز خیال ہے اور ہمیں اس بازار کے لیے جہاد البناء فاؤنڈیشن کی کوششوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اسلام ٹائمز۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے اپنے خطاب میں اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن اسرائیلی جارحیت کو جواز فراہم کرتا ہے اور وہ کبھی بھی ایماندار اور غیر جانبدار ثالث نہیں رہا، بلکہ اسرائیلی جارحیت کا اصل حامی ہے۔ حزب اللہ تحریک کے سکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے آج خوراک، زرعی مصنوعات اور دستکاری کی نمائش کی افتتاحی تقریب میں کہا کہ یہ مارکیٹ ایک تخلیقی اور نتیجہ خیز خیال ہے اور ہمیں اس بازار کے لیے جہاد البناء فاؤنڈیشن کی کوششوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بازار میں حصہ لینے والے، زمین کے (اصل) لوگ اور جنوبی لبنان میں واپس آنے والے وہ لوگ ہیں جو آج اگلی صفوں پر ثابت قدم ہیں اور زمین کی فصل کاٹ رہے ہیں۔
شیخ نعیم قاسم نے تاکید کی کہ لبنان کا ہر ٹکڑا اس ملک کا حصہ ہے، مستقبل میں زمین کا مالک وہی ہے، جو مزاحمت کرے گا، جو زمین چھوڑ دے گا، اور جو اس پر سودا کرے گا وہ اسے کھو دے گا۔ انہوں نے کہا کہ جو کوئی بھی طائف معاہدے کی پاسداری کرنا چاہتا ہے وہ اس کے ایک حصے کا انتخاب نہیں کر سکتا اور دوسرے حصوں کو ترک نہیں کر سکتا، پہلی ترجیح زمین کو آزاد کرانا ہے۔ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے صیہونی حکومت کی مسلسل امریکی حمایت اور لبنان میں جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں پر اس کی طرف سے حکومت کو دیئے جانے والے گرین سگنل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سطحی طور پر امریکہ لبنان کے بحران کے حل اور صیہونی حکومت کی جارحیت کو روکنے کے لیے ثالث ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ امریکہ اسرائیلی جارحیت کا اصل حامی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن کا اصل ہدف لبنان کی خودمختاری اور آزادی کو کمزور کرنا اور علاقے میں صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کی حمایت کرنا ہے، جب کہ امریکی ایلچی لبنان کا سفر کرتے ہیں اور استحکام کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر ان کے بیانات کا مقصد اسرائیلی جارحیت کو جواز فراہم کرنا ہے۔ شیخ نعیم قاسم نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ امریکہ ہمیشہ لبنان پر الزام لگاتا ہے اور دباؤ ڈال کر اس ملک کی فوج کو سنگین حرکتوں مجبور کرنیکی کوشش کرتا ہے تاکہ لبنان کی طاقت اور آزادی محدود رہے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ صیہونی حکومت کی طرف سے پانچ ہزار سے زائد جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر امریکہ کا موقف کیا ہے؟ حزب اللہ تحریک کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ابھی تک اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کے لیے واشنگٹن کی طرف سے کوئی مذمت یا سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے تاکید کی کہ دھمکیاں ہمارے موقف کو تبدیل نہیں کریں گی اور ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے یا جبری وعدوں کو قبول نہیں کریں گے، ہماری زمین کے ساتھ ہمارے تعلق کی مضبوطی ان کی فوجی صلاحیتوں سے زیادہ مضبوط ہے، چاہے وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمت لبنان کے لیے ایک مضبوط نقطہ ہے جسے برقرار رکھنا ضروری ہے، تم قتل کر سکتے ہو لیکن ہمارے اندر سے غیرت اور افتخار کے جذبے کو ختم نہیں کر سکتے اور ہمارے دلوں اور زندگیوں سے زمین کی محبت کو ختم نہیں کر سکتے۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ لبنانی صدر کا موقف ایک ذمہ دارانہ حیثیت کا حامل رہا ہے، جس نے فوج کو اسرائیلی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے تاکید کی کہ اس موقف کو اتحاد کے ساتھ مضبوط ہونا چاہیے اور ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوج کی حمایت کے منصوبے پر غور کرے تاکہ وہ دشمن کے مقابلے میں کھڑی ہوسکے۔