Islam Times:
2025-04-25@11:43:21 GMT

خط و کتابت کے بہانے نفسیاتی جنگ

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

خط و کتابت کے بہانے نفسیاتی جنگ

اسلام ٹائمز: مذاکرات کے بارے میں رہبر معظم انقلاب نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ ہمہ جہت ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ تمام میدانوں میں مزاحمت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت امریکہ کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو جو خط لکھا ہے وہ محض ایک نفسیاتی جنگ ہے جس کا مقصد خود کو امن کا مدافع ظاہر کرنا ہے۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ بالفرض کل اگر ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی جنگ ہوتی ہے تو اس میں امریکہ قصور وار نہیں ہو گا۔ اس خط کا اصل مقصد امریکہ کی جانب سے ایران کے قومی ارادے پر دباو ڈالنا ہے اور اس میں محض کھوکھلے وعدوں اور دھمکیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تحریر: حسین کنعانی مقدم
 
ہم اس وقت تین بڑی اور بھرپور جنگوں سے روبرو ہیں: ارادوں کی جنگ، میڈیا جنگ اور اقتصادی جنگ۔ ارادوں کی جنگ میں رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ثابت کر دیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور غاصب صیہونی رژیم کی شیطانی سازشوں کے مقابلے میں ایرانی قوم، فلسطینی قوم اور اسلامی مزاحمت کا ارادہ اس قدر مضبوط ہے کہ ان کی دھمکیوں اور پابندیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو سکتے ہیں جبکہ تجربات نے بھی یہی ثابت کیا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے عاشورا کی منطق کے تحت یہ کام کیا ہے۔ دوسری طرف مدمقابل قوتیں آمرانہ اور فرعونی ذہنیت کی بنیاد پر یہ تصور کرتی ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کا میدان بھی مغربی فلموں کی مانند ہے جس میں کوئی بھی بہت آسانی سے مدمقابل کو گولی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔
 
اگر کوئی قوم اس آمرانہ اور فرعونی ذہنیت اور طرز عمل کے مقابلے میں کمزوری کا مظاہرہ کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قوتیں اسے جارحیت کا نشانہ بنا ڈالیں گی۔ اس کی تازہ ترین اور واضح ترین مثال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی صحافیوں اور میڈیا کے کیمروں کے سامنے شدید تحقیر اور بے عزتی کرنا ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دو ٹوک انداز میں اعلان کیا ہے کہ ہم ہر گز بدمعاشوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھیں گے تاکہ وہ اپنے ناجائز مطالبات ہم پر تحمیل کر سکیں۔ ہم رہبر معظم انقلاب کے اس شجاعانہ موقف کے بعد ارادوں کی جنگ کے میدان میں فاتح قرار پا چکے ہیں۔ امریکہ کا ارادہ ٹوٹ چکا ہے اور وہ پیچھے ہٹ گیا ہے۔
 
میڈیا کی جنگ میں مغربی طاقتوں کے پاس وسیع پیمانے پر انفارمیشن کے ذرائع اور طاقتور میڈیا ذرائع موجود ہیں جن کے ذریعے وہ ہمارا قومی ارادہ متزلزل کرنے کے درپے ہیں۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر ایران مذاکرات کے لیے تیار نہ ہوا تو تباہ ہو جائے گا۔ ممکن ہے کچھ افراد اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر یہ سوچنے لگیں کہ مذاکرات ہی واحد راہ حل ہے لیکن ماضی کے تجربات سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں مزاحمت اور ڈٹ جانے سے ہی بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ ماضی میں ایران نے جوہری مذاکرات سمیت مغربی ممالک سے متعدد مذاکرات انجام دیے جبکہ مغربی طاقتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی اور ایران کو کوئی مراعات فراہم نہیں کیں۔
 
اگلا مسئلہ اقتصادی جنگ کا ہے۔ مغربی طاقتیں معیشت کے میدان میں ایران پر زیادہ سے زیادہ بھرپور انداز میں دباو ڈالنا چاہتی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ جب عوام شدید اقتصادی مشکلات سے روبرو ہوں گے تو حکمفرما نظام کے خلاف بغاوت پر اتر آئیں گے اور یوں ایران میں سول نافرمانی کی تحریک جنم لے گی۔ اس کی واضح مثال حال ہی میں امریکہ کی جانب سے ایران کی تیل کی صنعت اور وزیر تیل پر پابندیاں عائد کیے جانا ہے۔ البتہ امریکہ اس سے پہلے بھی بارہا یہ کام کر چکا ہے اور اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ ایرانی قوم نے ثابت کیا ہے کہ جس قدر اس پر دباو میں اضافہ ہوتا جاتا ہے وہ اسی قدر مستحکم اور طاقتور ہوتی جاتی ہے اور اس کی مزاحمت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ رہبر معظم انقلاب گذشتہ کئی عشروں سے مزاحمتی اقتصاد پر زور دے رہے ہیں اور عوام کو اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لے کر پیداوار بڑھانے کی ترغیب دلا رہے ہیں۔
 
مذاکرات کے بارے میں رہبر معظم انقلاب نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ ہمہ جہت ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ تمام میدانوں میں مزاحمت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت امریکہ کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو جو خط لکھا ہے وہ محض ایک نفسیاتی جنگ ہے جس کا مقصد خود کو امن کا مدافع ظاہر کرنا ہے۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ بالفرض کل اگر ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی جنگ ہوتی ہے تو اس میں امریکہ قصور وار نہیں ہو گا۔ اس خط کا اصل مقصد امریکہ کی جانب سے ایران کے قومی ارادے پر دباو ڈالنا ہے اور اس میں محض کھوکھلے وعدوں اور دھمکیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔
 
حال ہی میں ایران، چین اور روس نے مشترکہ جنگی مشقیں انجام دی ہیں اور بیجنگ میں جوہری مذاکرات بھی انجام پائے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کی حکمت عملی سفارتکاری اور مذاکرات پر استوار ہے۔ دوسری طرف ایران نے چین اور روس سے 20 سے 25 سالہ طویل المیعاد فوجی اور سیکورٹی تعاون کا معاہدہ بھی انجام دے رکھا ہے۔ یوں ایک مشرقی نیٹو تشکیل پا چکی ہے جس کی مرکزیت ایران، روس اور چین کے پاس ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایران نے اس اتحاد میں شامل ہو کر اپنی دفاعی طاقت کا لوہا منوا لیا ہے۔ چین اور روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے پرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کے حق پر زور دیا ہے۔ لہذا اب خاص طور پر طوفان الاقصی آپریشن کے بعد خطہ اور دنیا میں طاقت کا توازن اسلامی مزاحمت کے حق میں تبدیل ہو چکا ہے اور عالمی نظام میں ایران کا اثرورسوخ بڑھ گیا ہے جو امریکہ کو بالکل پسند نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رہبر معظم انقلاب ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حکمت عملی میں ایران ہے اور اس کی کوشش رہے ہیں کیا ہے کی جنگ

پڑھیں:

ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ

ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہو گئے ہیں۔ دونوں اطراف کہہ رہے ہیں کہ معاہدہ ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ ایران اپنا نیو کلئیر پروگرام بند کرنے اور امریکا معاشی پابندیاں ختم کرنے کے اشارے دے رہا ہے۔ ایران نے واضح کیا ہے کہ اگر اس کے ساتھ ا چھی ڈیل کی جائے تو وہ ایٹم بم نہیں بنائے گا۔ اگر ڈیل نہ کی گئی توپھر اس کے پاس ایٹم بم بنانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ اب کیا یہ ڈیل ہو جائے گی۔

ویسے تو یوکرین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یوکرین کے پاس تو ایٹمی صلاحیت موجود تھی۔ اس وقت یوکرین پر بھی ایسے ہی دباؤ ڈالاگیا۔اس سے اس کی ایٹمی صلاحیت واپس لے لی گئی۔ ا س وقت یوکرین کو بھی یہی یقین دلایا گیا تھا کہ یوکرین کی سیکیورٹی دنیا کے ذمے ہوگی۔ امریکا سمیت سب نے یوکرین کو اس کے دفاع کی ضمانت دی۔

یوکرین کو یورپی یونین میں شمولیت کے سبز باغ بھی دکھائے گئے۔ لیکن آج یوکرین کی حالت دیکھیں۔ روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہوا ہے۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ امریکا اس تنازع سے پیچھے ہٹ چکا ہے، یورپ بھی اپنی جان بچانے کی فکر میں ہے۔ یوکرین کو یورپی یونین میں شامل نہیں کیا جا رہا ہے۔ یوکرین کے ایک بڑے حصہ پر روس قبضہ کر چکا ہے۔ اور دنیا یوکرین کی مزید مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سب یوکرین کو سرنڈر کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ یوکرین کو شکست تسلیم کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ یوکرین تنہا نظر آرہا ہے۔

اگر آج یوکرین کے پاس ایٹمی طاقت ہوتی تو کیا روس یوکرین پر حملہ کر سکتا تھا۔ ایٹمی طاقت دفاع کی ضامن ہے۔ پاکستان کی مثال بھی سامنے ہے۔ جب سے پاکستان نے ایٹمی طاقت حاصل کی ہے۔ بھارت کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت کئی دفعہ جنگ کے قریب آئے ہیں۔ لیکن دونوں ممالک کی ایٹمی طاقت ہی جنگ روک رہی ہے۔

ایرن اور امریکا کے درمیان معاہدہ کو ان مثالوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عالمی ماہرین کی رائے ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کے کافی قریب پہنچ چکا ہے۔ ایران چھ ماہ میں چار ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں۔ اسی لیے ایران سے فوری ڈیل کی بات کی جا رہی ہے۔ اسرائیل بھی ایران سے ڈیل کے حق میں نظر آرہا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج ایران سے ڈیل کے لیے امریکا کیوں بے تاب ہے۔ ایٹمی ایران ایک خطرناک ملک ہوگا۔

ایران اس وقت امریکا سے صلح کرے گا۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ ایران کے سب اتحادی بری طرح مارے گئے ہیں۔ حماس بھی ایران کا اتحادی ہے۔ حماس کی لڑائی بھی ایران کی لڑائی تھی۔ لیکن ایران نے حماس کا کوئی خاص ساتھ نہیں دیا۔ ایران غزہ کی جنگ سے دوررہا۔ اس نے اسرائیل سے جنگ سے اجتناب کیا ہے۔

ایران اور اسرائیل جنگ کے قریب آئے لیکن جنگ نہیں ہوئی۔ اسی طرح حزب اللہ بھی ایران کا اتحادی ہے۔ اسرائیل نے حزب اللہ کو بھی کافی نقصان پہنچایا ہے اور ایران، اسرائیل حزب اللہ جنگ سے دور رہا۔ اس نے عملی طورپر حزب اللہ کا کوئی ساتھ نہیں دیا پھر آپ حوثیوں کو دیکھ لیں۔ انھیں بھی ایران کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن اب جب امریکا حوثیوں پر حملے کر رہا ہے تو بھی ایران خاموش ہے۔

حال ہی میں سعودی وزیر دفاع نے ایران کا دورہ کیا۔ ان کی ایرانی سپریم لیڈر آئت اللہ خامنائی سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ اس میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بہتری پر بات ہوئی۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بھی حوثیوں پر ہی تنازعہ تھا۔

ایسے میں اس جنگ میں ایران حوثیوں کی مدد کرتا رہا ہے۔ لیکن اب جب امریکا نے حوثیوں پر حملے شروع کیے ہیں تو ایران نے حوثیوں کی ویسی مدد نہیں کی جیسی توقع تھی۔ ایران نے حوثیوں کے ساتھ بھی وہی پالیسی رکھی جو اس نے حزب اللہ اور حماس کے ساتھ رکھی۔ ایران نے ہر دفعہ خود جنگ سے بچنے کے لیے اتحادیوں کی قربانی دی ہے۔ ایران نے خود کو بچانے کی ضرورت کو اہم رکھا ہے۔

آج بھی ایران جنگ سے بچنے کے لیے امریکا سے معاہدہ کا خواہش مند لگ رہا ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ اگر جنگ کے بادل ایران سے ہٹ جائیں تو بہتر ہے۔ اس لیے ایران امریکا سے صلح کر رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ امریکا سے ڈیل میں اسرائیل سے ڈیل بھی شامل ہوگی۔ ایران امن کی ضمانت چاہے گا۔ ایران یہ تو نہیں چاہے گا کہ وہ ایٹمی پروگرام بھی بند کر دے۔ امریکا سے معاہدہ بھی کر لے اور پھر اسرائیل حملہ بھی کر دے۔ اس لیے میری رائے میں ایران امریکا مذاکرات میں اسرائیل شامل ہے۔ ایران کا مفاد اسی میں ہے کہ اسرائیل سے امن کی شرط بھی شامل ہو۔

لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آج جو معاہدہ ہوگا وہ قائم رہے گا۔ ایران نے تو دیکھا ہے کہ کیسے معاہدے یک طرفہ توڑ دیے جاتے ہیں۔ اس لیے ایران ایٹمی پروگرام ختم کر دیتا ہے پھر کیا ہوگا۔ کیا پھر اسرائیل سے حملہ نہیں ہوگا۔ یہ درست ہے کہ ایران کے پاس ڈرون ہیں۔ روائتی ہتھیار بھی زیادہ ہیں۔ اس لیے وہ روائتی ہتھیاوں سے ایران کا تحفظ کر سکتا ہے۔ لیکن روائتی ہتھیار اور ایٹم کی طاقت میں فرق ہے ۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بالواسطہ مذاکرات میں پیشرفت امریکہ کی حقیقت پسندی پر منحصر ہے، ایران
  • ایران جوہری مذاکرات میں امید افزا پیش رفت
  • چین اور امریکہ کے درمیان فی الحال کوئی تجارتی مذاکرات نہیں ہو رہے ،چینی وزارت تجارت
  • ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ
  • توانائی نفسیات کیا ہے؟
  • ملتان، رہبرمعظم کی سالگرہ کی مناسبت سے المصطفیٰ ہائوس میں نشست کا اہتمام، کیک بھی کاٹا گیا 
  • ایران مذاکرات میں سنجیدہ ہے، رافائل گروسی
  • بغداد، ایران-امریکہ مذاکرات کی حمایت کرتا ہے، فواد حسین
  • ایران جوہری مذاکرات: پوٹن اور عمان کے سلطان میں تبادلہ خیال
  • میں نے نتین یاہو کیساتھ ایران سے متعلق بات کی، امریکی صدر