پاکستان جو کبھی امن و آشتی کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا آج دہشت گردی کے عفریت سے نبرد آزما ہے۔ یہ عفریت نہ صرف ہمارے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے بلکہ ملک کی سالمیت اور استحکام کو بھی شدید خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ مگر افسوس کہ ایسے نازک وقت میں بھی کچھ سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دے رہی ہیں۔ ان جماعتوں کا رویہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ یہ ملک دشمنی کے مترادف بھی ہے۔ ان میں سے ایک جماعت تحریک انصاف ہے جس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ اسے صرف اقتدار کی ہوس ہے اور وہ ملک کی سلامتی کے معاملات کو بھی اپنی سیاسی چپقلش کا حصہ بنا رہی ہے۔تحریک انصاف نے یہ باور کرا دیا ہے کہ اسے پاکستان کی سلامتی اور عوام کے مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس سیاسی جماعت نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کرکے نہ صرف سیاسی بے وقوفی کا مظاہرہ کیا اور اپنے سیاسی مستقبل کے پیروں پر خود کلہاڑی مار کر اپنے ہی پیروں کو کاٹ دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس پاکستان کے حساس ترین مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بلایا گیا تھا لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنا ایک سنگین غداری کے مترادف ہے۔ اس اجلاس میں حکومت اور اتحادی سیاسی جماعتوں نے پوری طاقت کے ساتھ شدت پسندی کے خلاف مشترکہ موقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا لیکن پی ٹی آئی نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کرکے دہشت گردی کے خلاف قومی عزم کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔پاکستان کے موجودہ حالات میں دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر 11 مارچ کو ہونے والے حملے نے ملک کے داخلی امن کو مزید خطرے میں ڈالا ہے۔ اس واقعے کے بعد پاکستان کی قومی قیادت نے شدت پسندی کے خلاف مضبوط اور مشترکہ موقف اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے اس اجلاس کا بائیکاٹ نہ صرف اس کی جماعت کی ملک دشمنی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس کے سیاسی ایجنڈے کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔یہ رویہ اس بات کا غماز ہے کہ یہ جماعت محض اقتدار کے حصول کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اس کے بانی چیئرمین عمران خان کی جانب سے اس بات کا اصرار کرنا کہ انہیں اجلاس میں شرکت کے لیے پیرول پر رہا کیا جائے یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے لیے قومی مسائل اور قومی سلامتی سے زیادہ اپنا اقتدار عزیز ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف مشترکہ سیاسی عزم کا ہونا ضروری ہے لیکن یہ جماعت اس عزم کو صرف اپنے سیاسی مفادات کی خاطر نظرانداز کر رہی ہے۔ سیاسی حکمت عملی نے اسے اس وقت ایک ایسی جماعت میں تبدیل کر دیا ہے جو ملک میں سیاسی انتشار پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتی۔ جب قومی سلامتی کے حوالے سے اس قدر اہم اجلاس ہو رہا تھا پی ٹی آئی نے ایسے بے وقعت مطالبات کیے جو نہ صرف غیر ضروری تھے بلکہ قومی سلامتی کے معاملے میں ان کی عدم دلچسپی کو بھی ظاہر کرتے تھے۔پاکستان کی سلامتی صرف حکومت یا فوج کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ہر سیاسی جماعت اور ہر محب وطن پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک کی حفاظت کے لیے متحد ہو۔ تحریک انصاف کا یہ رویہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ جب تک سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مفادات کے بجائے قومی مفادات کو مقدم نہیں رکھیں گی پاکستان دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف ایک مضبوط اور موثر موقف اختیار نہیں کر سکے گا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے سوشل میڈیا ہینڈلز کے ذریعے دہشت گردوں کی حمایت اور ملکی فوج کے خلاف زہر پھیلانے کا معاملہ بھی انتہائی سنگین ہے۔
پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں اور ان کے سوشل میڈیا ہینڈلز نے دہشت گردوں کو کریڈٹ دیتے ہوئے اس واقعے کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ہینڈلز نے امریکہ اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے اکائونٹس کے ذریعے دہشت گردوں کے حق میں مسلسل مہم چلائی جس میں پاک فوج کے خلاف گمراہ کن اور توہین آمیز بیانات دیے گئے۔ اس بات کے بھی واضح ثبوت موجود ہیں کہ پی ٹی آئی نے اپنے سیاسی ایجنڈے کو تقویت دینے کے لیے اس سب کچھ کو ملک دشمنی کے طور پر کرایا۔ یہ کارروائیاں صرف ملکی امن و امان کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں ہیں بلکہ یہ پاکستان کی داخلی سلامتی کو بھی سنگین خطرے میں ڈالتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی یہ سرگرمیاں ایک سازش کی طرح ہیں جو نہ صرف ملک کے مفادات کے خلاف ہیں بلکہ اس کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں۔ ان سوشل میڈیا ہینڈلز کے ذریعے دشمنوں کو طاقتور بنانے کی کوشش کی گئی جو ایک واضح غداری کے مترادف ہے۔سیاست کے بے ضمیر ہاتھ وطن کی جان پر کھیل رہے ہیں اور خون سے سجے چمن کو یہ زخم زخم کر رہے ہیں۔پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر نے عوام کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کیا ہے کہ آخر کب تک ملک کی سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے تحت اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرتی رہیں گی؟ یہ جماعت صرف اپنے اقتدار کے لیے پاکستان کی سلامتی کو داو پر لگا رہی ہے، اور اس کے اس رویے نے ملک کی سیاست کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف ایک مضبوط اور متفقہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اگر ملک کی سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو بالاتر کر کے قومی سلامتی کے حوالے سے ایک متفقہ لائحہ عمل اپناتی ہیں تو دہشت گردی کا مقابلہ ممکن ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کی سیاسی منافقت اور اس کا قومی سلامتی کے اجلاس میں شریک نہ ہونا اس بات کا غماز ہے کہ جب تک جماعتیں اپنے مفادات کو قومی مفادات سے اہمیت دیتی رہیں گی اس وقت تک پاکستان اس جنگ میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔اگر پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتیں اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لاتی ہیں اور اپنے ملک کے خلاف سازشوں کا حصہ بننا بند نہیں کرتیں تو پاکستان کو دہشت گردی اور شدت پسندی کی جنگ میں بہت بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سیاستدانوں کی غیر ذمہ دارانہ سیاست نہ صرف ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈالے گی بلکہ عوام کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالے گی۔پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے مسائل سنگین ہیں، اور ان سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایک متفقہ اور مشترکہ سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کا رویہ یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ جماعت ملک کی سلامتی کے حوالے سے اپنی ذمے داریوں سے منحرف ہے۔ اس جماعت کی سیاست محض اقتدار کی خواہش پر مبنی ہے اور اس کے اس رویے نے پاکستان کی سیاست کو مزید تقسیم کر دیا ہے۔ اگر پاکستان کو دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف کامیابی حاصل کرنی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی ذاتی مفادات سے بلند ہو کر ملک کی سلامتی کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف سیاسی جماعتیں اپنے قومی سلامتی کے لیکن پی ٹی آئی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کی ذاتی مفادات پاکستان کی اپنے سیاسی کی جانب سے اجلاس میں سلامتی کو مفادات کے مفادات سے کے مترادف کی سلامتی یہ جماعت اس اجلاس ہے بلکہ کرتا ہے اس بات اور اس دیا ہے کو بھی کے لیے ملک کی
پڑھیں:
پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک غیر مؤثر ہے، ان کے پاس تیاری ہے نہ عوامی حمایت،رانا ثنا
وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی ہے کہ وہ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے ایک میز پر بیٹھیں، چارٹر آف اکانومی پر متفق ہوں۔
عید الاضحٰی کی نماز کی ادائیگی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان معاشی استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے تاہم اسے درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے قومی یکجہتی، سیاسی اتفاق اور معاشی ایجنڈے پر ہم آہنگی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت معاشی بدحالی سے نکل کر معاشی استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے جو ہمارے بزرگوں کا خواب تھا۔
انہوں نے کہا کہ قوم کی یکجہتی اور سیاسی قیادت کے دلیرانہ فیصلوں کے باعث پاکستان ایک مرتبہ پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ماہ بھارت نے بلا جواز اور تکبر میں آ کر پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی مگر پاکستانی مسلح افواج نے عوام کی حمایت سے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا اور اس کا غرور خاک میں ملا دیا۔
انہوں نے کہا کہ معرکہ حق کے نام سے جاری آپریشن بنیان مرصوص میں تاریخی کامیابی حاصل ہوئی اور پاکستان دنیا کے سامنے ایک مضبوط ایٹمی طاقت کے طور پر ابھرا۔
انہوں نے کہا کہ اس کامیابی پر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور سپاہی تک سب مبارک باد کے مستحق ہیں۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان نے معاشی ترقی کی راہ پر قدم رکھ دیا ہے۔
انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی کہ وہ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے ایک میز پر بیٹھیں اورچارٹر آف اکانومی پر متفق ہوں جیسا کہ 6 سے 10 مئی کے دوران پوری قوم نے اتفاق و یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا۔
انہوں نے واضح کیا کہ سیاست بعد کا کام ہے، سب سے پہلے معیشت کو سنوارنا ضروری ہے کیونکہ 24 کروڑ عوام مہنگائی اور افراط زر کے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔
رانا ثناء اللہ نے اپوزیشن رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ وزیراعظم کی دعوت قبول کرتے ہوئے ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن کی تشکیل پر اتفاق کریں تاکہ آئندہ انتخابات شفاف ہوں اور کسی کو اعتراض نہ ہو۔
وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ عالمی سطح پر پاکستان کو عزت و وقار حاصل ہوا ہے، وہ ممالک جو پہلے پاکستان سے روگردانی کرتے تھے، آج اس کی بات سننے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ہم ذاتی اور گروہی مفادات میں الجھے رہے تو یہ قومی مفاد کے خلاف ہوگا۔ عوام کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ قومی مفادات کو ترجیح دیں۔
پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک پر تبصرہ کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ان کی تحریک غیر مؤثر ہے کیونکہ نہ ان کے پاس تیاری ہے اور نہ ہی انہیں عوامی حمایت حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان اگر اپنی رہائی کو ملک کی معاشی ترقی سے مشروط کریں گے تو یہ ملک کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
ہندوستانی عزائم پر بات کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مودی حکومت آر ایس ایس کے شدت پسندانہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اوروہ پاکستان اور مسلمانوں کی دشمن ہے۔
انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ بھارت اب دوبارہ حملے کی جرات نہیں کرے گا، تاہم پاکستان میں دہشت گردی کے ذریعے عدم استحکام پیدا کرنے کی سازشیں جاری رہیں گی۔
انہوں نے کہا کہ فوج نے اپنا کام بخوبی انجام دیا ہے، اب سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی ترقی کے لیے متحد ہوجائیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) بلدیاتی انتخابات کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور نئے بلدیاتی ایکٹ کے بعد انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی، انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔
رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ پنجاب حکومت کسان کارڈ، مزدورکارڈ اور معذور کارڈ جیسے فلاحی منصوبوں پر کام کر رہی ہے تاکہ عام آدمی کی زندگی میں بہتری لائی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں ہی ایٹمی دھماکے سمیت بڑے قومی منصوبے مکمل ہوئے اوروزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز ایک نئی سوچ کے ساتھ عوامی خدمت کے لیے میدان میں ہیں۔