اللہ پاک کے قرب و رضا کے حصول کے لیے گذشتہ امتوں نے ایسی ریاضتیں لازم کرلی تھیں جو اللّہ نے ان پر فرض نہیں کی گئی تھیں۔ قرآن حکیم نے ان عبادت گزار گروہوں کو رہبان اور احبار سے موسوم کیا ہے۔ حضرت محمد مصطفیﷺ نے تقرب الی اللّہ کے لیے رہبانیت کو ترک کرکے اپنی امت کے لیے اعلٰی ترین اور آسان ترین طریقہ عطا فرمایا، جو ظاہری خلوت کی بجائے باطنی خلوت کے تصور پر مبنی ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لیے دنیا کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی محبت کو دل سے نکال دینا اصل کمال ہے۔ان طریقوں میں سے ایک طریقہ اعتکاف ہے۔
اعتکاف لغوی اعتبار سے ٹھہرنے کو کہتے ہیں جب کہ اصطلاحِ شریعت میں اعتکاف کا معنی ہے: مسجد میں اور روزے کے ساتھ رہنا، جماع کو بالکل ترک کرنا اور اللّہ تعالٰی سے تقرب اور اجروثواب کی نیت کرنا اور جب تک یہ معانی نہیں پائے جائیں گے تو شرعاً اعتکاف نہیں ہوگا، لیکن مسجد میں رہنے کی شرط صرف مردوں کے اعتبار سے ہے۔ عورتوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے بلکہ خواتین اپنے گھر میں نماز کی مخصوص جگہ کو یا کسی الگ کمرے کو مخصوص کرکے وہاں اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہیں۔ ہر مسجد میں اعتکاف ہوسکتا ہے، البتہ بعض علما نے اعتکاف کے لیے جامع مسجد کی شرط لگائی ہے۔ (احکام القرآن: جلد1صفحہ242)
اعتکاف کی تاریخ
اعتکاف کی تاریخ بھی روزوں کی تاریخ کی طرح بہت قدیم ہے۔ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اس کا ذکر بھی یوں بیان ہوا ہے۔ ارشادِخداوندی ہے:
ترجمہ: اور ہم نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کو تاکیدکی کہ میرا گھر طواف کرنے والوں کے لیے، اعتکاف کرنے والوں کے لیے اوررکوع کرنے والوں کے لیے خوب صاف ستھرا رکھیں۔ (سورہ البقرہ: آیت نمبر125)
یعنی اس وقت کی بات ہے جب جدالانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کعبۃ اللہ کی تعمیرسے فارغ ہوئے تھے یعنی اس زمانہ میں اللّہ تعالٰی کی رضا کے لیے اعتکاف کیا جاتا تھا۔
اعتکاف کی فضیلت واہمیت
حضوراکرم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ اعتکاف کیا ہے اور اس کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ چناںچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہا فرماتی ہیں کہ بے شک حضور نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ ﷺ خالق حقیقی سے جاملے۔ پھر آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
تین خندقیں
رسول اللہﷺ نے ایک دن کے اعتکاف کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص اللّہ تعالٰی کی خوش نودی کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرے گا، اللّہ تعالٰی اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کردے گا جن کی مسافت آسمان و زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوگی۔ (کنزالعمال)
ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب
رسول اللّہﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص خالص نیت سے بغیر ریا اور بلاخواہش شہرت ایک دن اعتکاف بجا لائے گا، اس کو ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب ملے گا اور اس کے اور دوزخ کے درمیان فاصلہ پانچ سو برس کی راہ ہوگا (تذکرۃ الواعظین)
تین سو شہیدوں کا ثواب
رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص خالص لوجہ اللّہ رمضان شریف میں ایک دن اور ایک رات اعتکاف کرے تو اس کو تین سو شہیدوں کا ثواب ملے گا (تذکرۃ الواعظین)
سبحان اللہ چند گھنٹوں کے اعتکاف کی اس قدر فضیلت ہے تو جو رمضان شریف میں پورے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ہیں ان کی شان کیا ہوگی۔
دوحج اور دو عمروں کا ثواب
حضرت حسین رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے رمضان المبارک میں آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا تو گویا کہ اس نے دو حج اور دو عمرے ادا کیے ہوں۔ (شعب الایمان)
حضرت عبداللّہ بن عباس رضی اللّہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معتکف (اعتکاف کرنے والے) کے بارے میں فرمایا کہ: وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیاں اس کے واسطے جاری کردی جاتی ہیں، اس شخص کی طرح جو یہ تمام نیکیاں کرتا ہو۔ (سنن ابن ماجہ، مشکو ۃ)
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ معتکف یعنی اعتکاف کرنے والا، اعتکاف کی حالت میں بہت سی برائیوں اورگناہوں.
اعتکاف کی غرض وغایت، شب قدرکی تلاش
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرمﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا، پھر درمیانے عشرے میں بھی ترکی خیموں میں اعتکاف فرمایا، پھر خیمے سے سراقدس نکال کر ارشاد فرمایا کہ: میں نے پہلے عشرے میں شب قدر کی تلاش میں اعتکاف کیا تھا پھر میں نے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا پھر میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور مجھ سے کہا کہ شب قدر آخری عشرے میں ہے، پس جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرتا تھا تو اسے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کرنا چاہیے۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اس اعتکاف کی سب سے بڑی غرض وغایت شب ِقدرکی تلاش وجستجو ہے اور درحقیقت اعتکاف ہی اس کی تلاش اوراس کو پانے کے لیے بہت مناسب ہے، کیوںکہ حالت اعتکاف میں اگر آدمی سویا ہوا بھی ہو تب بھی وہ عبادت وبندگی میں شمارہوتا ہے۔ نیز اعتکاف میں چوںکہ عبادت وریاضت اور ذکروفکر کے علاوہ اور کوئی کام نہیں رہے گا، لہٰذا شب قدر کے قدردانوں کے لیے اعتکاف ہی سب سے بہترین صورت ہے۔ حضور سیدعالمﷺ کا معمول بھی چوںکہ آخری عشرے ہی کے اعتکاف کا رہا ہے، اس لیے علما کرام کے نزدیک آخری عشرہ کا اعتکاف ہی سنت موکدہ ہے۔
اعتکاف کی قسمیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔
٭ اول…اعتکاف ِ واجب
٭ دوم.... اعتکاف ِ سنت
٭ سوم.... اعتکافِ مستحب
اعتکاف ِ واجب
اعتکاف واجب یہ ہے کہ کسی نے نذر مانی کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو میں اتنے دن کا اعتکاف کروں گا اور اس کا وہ کام ہوگیا تو یہ اعتکاف کرنا اور اس کا پورا کرنا واجب ہے ادائی نہیں کی تو گناہ گار ہوگا۔ واضح رہے کہ اس اعتکاف کے لیے روزہ بھی شرط ہے، بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہیں ہوگا۔
اعتکاف سنت
اعتکافِ سنت رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کیا جاتا ہے یعنی بیسویں رمضان کو سورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد (جائے اعتکاف) میں داخل ہوجائے اور تیسویں رمضان کو سورج غروب ہوجانے کے بعد یا انتیسویں(29ویں) رمضان کو عیدالفطر کا چاند ہوجانے کے بعد مسجد (جائے اعتکاف) سے نکلے.... واضح رہے کہ یہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر محلہ کے سب لوگ چھوڑدیں گے تو سب تارکِ سنت ہوں گے اور اگر کسی ایک نے بھی کرلیا تو سب بری ہو جائیں گے۔ اس اعتکاف کے لیے بھی روزہ شرط ہے، مگر وہی رمضان المبارک کے روزے کافی ہیں۔
اعتکافِ مستحب
اعتکاف ِمستحب یہ ہے کہ جب کبھی دن یارات میں مسجد میں داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرلے۔ جتنی دیر مسجد میں رہے گا، اعتکاف کا ثواب پائے گا۔ یہ اعتکاف تھوڑی دیر کا بھی ہوسکتا ہے اور اس میں روزہ بھی شرط نہیں ہے، جب مسجد سے باہر نکلے گا تو اعتکاف ِمستحب خود بہ خود ختم ہوجائے گا۔
اعتکاف کی نیت
نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کرلیا کہ میں سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں تو یہی کافی ہے۔ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بہتر ہے۔ اپنی مادری زبان میں بھی نیت ہوسکتی ہے۔ اگر عربی زبان میں نیت آتی ہو تو بہتر و مناسب ہے۔
اعتکاف کی نیت عربی میں یہ ہے۔
نویت سنت الاعتکاف للّہ تعالٰی
ترجمہ: میں نے اللہ تعالٰی کی رضا کے لیے سنت اعتکاف کی نیت کی۔
مسئلہ: مسجد کے اندر کھانے، پینے اور سونے کی اجازت نہیں ہوتی، مگر اعتکاف کی نیت کرنے کے بعد اب ضمناً کھانے، پینے اور سونے کی بھی اجازت ہوجاتی ہے، لہذا معتکف دن رات مسجد میں ہی رہے، وہیں کھائے، پیئے اور سوئے اور اگر ان کاموں کے لیے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: اعتکاف کے لیے تمام مساجد سے افضل مسجد حرام ہے۔ پھر مسجد نبوی شریف، پھر مسجد اقصی (بیت المقدس) پھر ایسی جامع مسجد جس میں پانچ وقت باجماعت نماز ادا کی جاتی ہو۔ اگر جامع مسجد میں جماعت نہ ہوتی ہو تو پھر اپنے محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔
مسئلہ: اعتکاف کا اہم ترین رکن یہ ہے کہ آپ اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود ہی میں رہیں اور حوائج ضروریہ کے سوا ایک لمحہ کے لیے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلیں، کیوںکہ ایک لمحے کے لیے بھی شرعی اجازت کے بغیر حدود مسجد سے باہر چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
مسئلہ: کسی شرعی عذر کے بغیر مسجد سے باہر نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ بول وبراز کے لیے اور نمازِ جمعہ کی لیے جانا شرعی عذر ہے.... وضو کے لیے اور غسل جنابت کے لیے جانا بھی عذرشرعی ہے....کھانے، پینے اور سونے کے لیے مسجد سے باہر جاناجائزنہیں ہے اور اگر کوئی مریض کی عیادت کے لیے یا نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے مسجد سے باہر گیا تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
اعتکاف کی قضاء
فقیہ الامت علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمتہ (متوفی1252ھ)لکھتے ہیں کہ: رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف ہرچندکہ نفل (سنت موکدہ) ہے، لیکن شروع کرنے سے لازم ہوجاتا ہے۔ اگر کسی شخص نے ایک دن کا اعتکاف فاسدکردیا تو امام ابویوسف کے نزدیک اس پر پورے دس کی قضالازم ہے، جب کہ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام محمدبن حسن شیبانی رحمۃاللّہ علیہما کے نزدیک اس پر صرف اسی ایک دن کی قضا لازم ہے۔
اعتکاف کی قضا صرف قصداً و جان بوجھ کر ہی توڑنے سے نہیں بلکہ اگر کسی عذر کی وجہ سے اعتکاف چھوڑدیا، مثلاً عورت کو حیض یانف اس آگیا یا کسی پر جنون وبے ہوشی طویل طاری ہوگئی ہو تو اس پر بھی قضا لازم ہے اور اگر اعتکاف میں کچھ دن فوت ہوں تو تمام کی قضا کی حاجت نہیں بلکہ صرف اتنے دنوں کی قضا کرے، اور اگرکل دن فوت ہوں تو پھرکل کی قضالازم ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالٰی معتکفین کے اعتکاف کو قبول فرمائے اور سنت کے مطابق اعتکاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رمضان المبارک کے مسجد سے باہر اعتکاف کرنے علیہ السلام الل ہ تعال ی میں اعتکاف ہ تعال ی کی اعتکاف میں رضی الل ہ لازم ہے کی تلاش اور اگر جاتا ہے کا ثواب اور اس ہے اور کی قضا ایک دن
پڑھیں:
غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔ تحریر: سید اسد عباس
9 جولائی 2024ء کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 11 ماہرین نے غزہ میں قحط کے حوالے سے شدید خطرے کی گھنٹی بجائی۔ ان ماہرین نے مشترکہ بیان میں کہا: ”فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی باہدف، سوچی سمجھی قحط کی صورتحال نسلی کشی کی ایک شکل ہے اور اس کے نتیجے میں پورے غزہ میں قحط پھیل چکا ہے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی ضروری طریقے سے زمینی راستے سے انسانی امداد کی فراہمی کو ترجیح دے۔ اسرائیل کے محاصرے کو ختم کرے اور جنگ بندی قائم کرے۔" ان ماہرین میں "Right to food" کے خصوصی نمائندے مائیکل فخری، محفوظ پینے کے پانی اورسینیٹیشن کے انسانی حقوق سے متعلق خصوصی نمائندے پیڈرو آروجو-آگوڈو، اور 1967ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق خصوصی نمائندے فرانسسکا البانیز شامل تھے۔
ان کی رائے میں، وسطی غزہ میں بچوں کو طبی امداد فراہم کرنے کی کوششوں کے باوجود بھوک سے ان کی اموات نے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ غزہ قحط کا شکار ہوچکا ہے۔ "قحط" کو عام طور پر غذائیت کی شدید کمی سمجھا جاتا ہے، جو لوگوں کے ایک گروہ یا پوری آبادی کی بھوک اور موت کا باعث بنتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی قانون میں قحط کے تصور کی کوئی متفقہ تعریف نہیں ہے۔ 2004ء میں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) نے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) تیار کی، جو آبادی کی غذائی عدم تحفظ کا نقشہ بنانے کے لیے ایک پانچ مراحل پر مشتمل پیمانہ ہے۔ اس تشخیصی نظام کا مقصد یہ ہے کہ جب غذائی عدم تحفظ کی نشاندہی کی جائے تو اجتماعی کارروائی کو تیز کیا جائے اور ایسی صورتحال کو IPC پیمانے پر لیول 5 تک پہنچنے سے روکا جائے، جہاں قحط کی تصدیق اور اعلان کیا جاتا ہے۔ اسے FAO، ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) اور ان کے شراکت داروں نے گذشتہ 20 سالوں سے ایک سائنسی، ڈیٹا پر مبنی پیمانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) کے تحت قحط کے اعلان کے لیے قابلِ پیمائش معیار خوفناک حد تک سیدھے سادھے ہیں: کسی علاقے میں 20 فیصد یا اس سے زیادہ گھرانوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہو اور ان کے پاس مقابلہ کرنے کی محدود صلاحیت ہو؛ بچوں میں شدید غذائی قلت 30 فیصد سے تجاوز کر جائے اور یومیہ اموات کی شرح فی 10,000 افراد میں دو سے زیادہ ہو تو یہ قحط ہے۔ جب یہ تینوں معیار پورے ہو جائیں، تو "قحط" کا اعلان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ اعلان کسی قانونی یا اداراتی ذمہ داری کے نفاذ کا باعث نہیں بنتا ہے، لیکن بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی کارروائی کو راغب کرنے کے لیے ایک اہم سیاسی اشارہ ہے۔ اگر مذکورہ بالا ماہرین ایک سال سے بھی پہلے، متفقہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کرسکتے تھے کہ محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی میں قحط موجود ہے، تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ متعلقہ اقوام متحدہ کے ادارے اور ایگزیکٹو سربراہان اب تک اس نتیجے پر کیوں نہیں پہنچے کہ اس سال جولائی تک غزہ میں قحط کی سطح 5 (Level 5) تک پہنچ چکی ہے۔
آج جبکہ حقیقی معلومات سمٹ کر اسمارٹ فونز پر منتقل ہوچکی ہیں، غذائی عدم تحفظ کے مہلک درجے کی حقیقت عیاں اور قابل مشاہدہ ہے۔ لاغر جسموں کی تصاویر جو نازی حراستی کیمپوں میں لی گئی تصاویر کی یاد دلاتی ہیں، غزہ کی حقیقت کی المناک کہانی بیان کرتی ہیں۔ اس کے باوجود، 20 جولائی کو فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (UNRWA) کی ان وارننگز کے باوجود کہ غزہ میں دس لاکھ بچوں کو فاقہ کشی کا خطرہ ہے، "قحط" کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ عالمی اداروں کے پاس IPC کے لیے درکار ضروری ڈیٹا موجود نہیں ہے، اسرائیلی پابندیوں کے باعث IPC کے تجزیہ کار غزہ نہیں جا پا رہے یا جانا نہیں چاہ رہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں بیٹھے افسران اپنی نوکریوں کو محفوظ نہیں سمجھتے۔
امریکی حکومت کے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان اور اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز پر ذاتی حملے اور ان پر عائد پابندیاں اس بات کی واضح یاد دہانی ہیں کہ یہ ملازمتیں خطرات سے خالی نہیں ہیں، نیز یہ کہ امریکہ اقوام متحدہ کے نظام میں سب سے بڑا مالی معاون ہے۔ کسی بھی ادارے یا افسر کے لیے امریکی ناراضگی مول لینا آسان نہیں ہے۔ آج فلسطینی دنیا کی گونجتی خاموشی کے درمیان بھوک سے مر رہے ہیں، جبکہ سرحد کے مصری حصے پر ٹنوں خوراک غزہ میں داخلے کی اجازت کا انتظار کرتے ہوئے ضائع ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں اور غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے ذریعے بھرتی کیے گئے غیر ملکی کرائے کے فوجیوں نے نام نہاد انسانی امداد کی تقسیم کی جگہوں پر امداد کے خواہاں 900 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کے مطابق تقریباً 90,000 بچے اور خواتین غذائی قلت کے فوری علاج کے محتاج ہیں؛ غزہ کی وزارت صحت نے رپورٹ کیا ہے کہ 20 جولائی کو ایک ہی دن میں 19 افراد بھوک سے ہلاک ہوئے اور اس سے بدتر حالات ابھی باقی ہیں۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔
اقوام متحدہ کے قیام سے قبل ہمارے پاس انسانی المیوں سے نمٹنے کا نظام اور معیارات موجود نہیں تھے، تاہم آج ہمارے پاس نظام اور معیارات تو ہیں، تاہم جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے محاورے کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ علامہ اقبال کا شعر ایک مرتبہ پھر یاد آگیا، جنھوں نے لیگ آف نیشنز کے قیام کے وقت کہا تھا:
برفتد تا روش رزم دریں بزم کہن
دردمندان جھان طرح نو انداختہ اند
من ازیں بینش ندانم کہ کفن دزدے چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
جہاں کا دُکھ درد رکھنے والوں نے نئی بنیاد ڈالی ہے، تاکہ دنیا سے جنگ کی ریت کو ختم کیا جائے، لیکن میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے مسلمان ممالک میں مشترکہ طور پر یک نکاتی ایجنڈے پر امریکی سفارتخانوں کے باہر مظاہرے ہوں، جس میں فقط ایک مطالبہ کیا جائے کہ مصر سے خوراک کے ٹرک بلا روک ٹوک غزہ پہنچنے چاہییں۔ یقیناً ہم سب مل کر یہ تو کر ہی سکتے ہیں۔