Express News:
2025-06-09@18:37:18 GMT

اعتکاف

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

اللہ پاک کے قرب و رضا کے حصول کے لیے گذشتہ امتوں نے ایسی ریاضتیں لازم کرلی تھیں جو اللّہ نے ان پر فرض نہیں کی گئی تھیں۔ قرآن حکیم نے ان عبادت گزار گروہوں کو رہبان اور احبار سے موسوم کیا ہے۔ حضرت محمد مصطفیﷺ نے تقرب الی اللّہ کے لیے رہبانیت کو ترک کرکے اپنی امت کے لیے اعلٰی ترین اور آسان ترین طریقہ عطا فرمایا، جو ظاہری خلوت کی بجائے باطنی خلوت کے تصور پر مبنی ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لیے دنیا کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی محبت کو دل سے نکال دینا اصل کمال ہے۔ان طریقوں میں سے ایک طریقہ اعتکاف ہے۔

اعتکاف لغوی اعتبار سے ٹھہرنے کو کہتے ہیں جب کہ اصطلاحِ شریعت میں اعتکاف کا معنی ہے: مسجد میں اور روزے کے ساتھ رہنا، جماع کو بالکل ترک کرنا اور اللّہ تعالٰی سے تقرب اور اجروثواب کی نیت کرنا اور جب تک یہ معانی نہیں پائے جائیں گے تو شرعاً اعتکاف نہیں ہوگا، لیکن مسجد میں رہنے کی شرط صرف مردوں کے اعتبار سے ہے۔ عورتوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے بلکہ خواتین اپنے گھر میں نماز کی مخصوص جگہ کو یا کسی الگ کمرے کو مخصوص کرکے وہاں اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہیں۔ ہر مسجد میں اعتکاف ہوسکتا ہے، البتہ بعض علما نے اعتکاف کے لیے جامع مسجد کی شرط لگائی ہے۔ (احکام القرآن: جلد1صفحہ242)

اعتکاف کی تاریخ
اعتکاف کی تاریخ بھی روزوں کی تاریخ کی طرح بہت قدیم ہے۔ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اس کا ذکر بھی یوں بیان ہوا ہے۔ ارشادِخداوندی ہے:

ترجمہ: اور ہم نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کو تاکیدکی کہ میرا گھر طواف کرنے والوں کے لیے، اعتکاف کرنے والوں کے لیے اوررکوع کرنے والوں کے لیے خوب صاف ستھرا رکھیں۔ (سورہ البقرہ: آیت نمبر125)

یعنی اس وقت کی بات ہے جب جدالانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کعبۃ اللہ کی تعمیرسے فارغ ہوئے تھے یعنی اس زمانہ میں اللّہ تعالٰی کی رضا کے لیے اعتکاف کیا جاتا تھا۔

اعتکاف کی فضیلت واہمیت
حضوراکرم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ اعتکاف کیا ہے اور اس کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ چناںچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہا فرماتی ہیں کہ بے شک حضور نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ ﷺ خالق حقیقی سے جاملے۔ پھر آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

تین خندقیں 
رسول اللہﷺ نے ایک دن کے اعتکاف کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص اللّہ تعالٰی کی خوش نودی کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرے گا، اللّہ تعالٰی اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کردے گا جن کی مسافت آسمان و زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوگی۔ (کنزالعمال)

ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب
رسول اللّہﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص خالص نیت سے بغیر ریا اور بلاخواہش شہرت ایک دن اعتکاف بجا لائے گا، اس کو ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب ملے گا اور اس کے اور دوزخ کے درمیان فاصلہ پانچ سو برس کی راہ ہوگا (تذکرۃ الواعظین)

تین سو شہیدوں کا ثواب 
رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص خالص لوجہ اللّہ رمضان شریف میں ایک دن اور ایک رات اعتکاف کرے تو اس کو تین سو شہیدوں کا ثواب ملے گا (تذکرۃ الواعظین)

سبحان اللہ چند گھنٹوں کے اعتکاف کی اس قدر فضیلت ہے تو جو رمضان شریف میں پورے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ہیں ان کی شان کیا ہوگی۔

دوحج اور دو عمروں کا ثواب
حضرت حسین رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے رمضان المبارک میں آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا تو گویا کہ اس نے دو حج اور دو عمرے ادا کیے ہوں۔ (شعب الایمان)

حضرت عبداللّہ بن عباس رضی اللّہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معتکف (اعتکاف کرنے والے) کے بارے میں فرمایا کہ: وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیاں اس کے واسطے جاری کردی جاتی ہیں، اس شخص کی طرح جو یہ تمام نیکیاں کرتا ہو۔ (سنن ابن ماجہ، مشکو ۃ)

اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ معتکف یعنی اعتکاف کرنے والا، اعتکاف کی حالت میں بہت سی برائیوں اورگناہوں.

...مثلاً غیبت، چغلی، بری بات کرنے، سننے اور دیکھنے سے خودبہ خود محفوظ ہوجاتا ہے، ہاں البتہ اب وہ اعتکاف کی وجہ سے کچھ نیکیاں نہیں کرسکتا، مثلاً نمازِجنازہ کی ادائی، بیمار کی عیادت ومزاج پرسی اور ماں باپ واہل وعیال کی دیکھ بھال وغیرہ۔ اگرچہ وہ ان نیکیوں کو انجام نہیں دے سکتا لیکن اللّہ تعالی اسے یہ نیکیاں کیے بغیر ہی ان تمام کا اجرو ثواب عطافرمائے گا، کیوںکہ معتکف اللّہ کے پیارے رسول ﷺ کی سنت مبارکہ ادا کررہا ہے جو درحقیقت اللہ تعالٰی کی ہی اطاعت وفرماںبرداری ہے۔

اعتکاف کی غرض وغایت، شب قدرکی تلاش
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرمﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا، پھر درمیانے عشرے میں بھی ترکی خیموں میں اعتکاف فرمایا، پھر خیمے سے سراقدس نکال کر ارشاد فرمایا کہ: میں نے پہلے عشرے میں شب قدر کی تلاش میں اعتکاف کیا تھا پھر میں نے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا پھر میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور مجھ سے کہا کہ شب قدر آخری عشرے میں ہے، پس جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرتا تھا تو اسے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کرنا چاہیے۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اس اعتکاف کی سب سے بڑی غرض وغایت شب ِقدرکی تلاش وجستجو ہے اور درحقیقت اعتکاف ہی اس کی تلاش اوراس کو پانے کے لیے بہت مناسب ہے، کیوںکہ حالت اعتکاف میں اگر آدمی سویا ہوا بھی ہو تب بھی وہ عبادت وبندگی میں شمارہوتا ہے۔ نیز اعتکاف میں چوںکہ عبادت وریاضت اور ذکروفکر کے علاوہ اور کوئی کام نہیں رہے گا، لہٰذا شب قدر کے قدردانوں کے لیے اعتکاف ہی سب سے بہترین صورت ہے۔ حضور سیدعالمﷺ کا معمول بھی چوںکہ آخری عشرے ہی کے اعتکاف کا رہا ہے، اس لیے علما کرام کے نزدیک آخری عشرہ کا اعتکاف ہی سنت موکدہ ہے۔

اعتکاف کی قسمیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔
٭  اول…اعتکاف ِ واجب
٭  دوم.... اعتکاف ِ سنت
٭  سوم.... اعتکافِ مستحب

اعتکاف ِ واجب
اعتکاف واجب یہ ہے کہ کسی نے نذر مانی کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو میں اتنے دن کا اعتکاف کروں گا اور اس کا وہ کام ہوگیا تو یہ اعتکاف کرنا اور اس کا پورا کرنا واجب ہے ادائی نہیں کی تو گناہ گار ہوگا۔ واضح رہے کہ اس اعتکاف کے لیے روزہ بھی شرط ہے، بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہیں ہوگا۔

اعتکاف سنت
اعتکافِ سنت رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کیا جاتا ہے یعنی بیسویں رمضان کو سورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد (جائے اعتکاف) میں داخل ہوجائے اور تیسویں رمضان کو سورج غروب ہوجانے کے بعد یا انتیسویں(29ویں) رمضان کو عیدالفطر کا چاند ہوجانے کے بعد مسجد (جائے اعتکاف) سے نکلے.... واضح رہے کہ یہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر محلہ کے سب لوگ چھوڑدیں گے تو سب تارکِ سنت ہوں گے اور اگر کسی ایک نے بھی کرلیا تو سب بری ہو جائیں گے۔ اس اعتکاف کے لیے بھی روزہ شرط ہے، مگر وہی رمضان المبارک کے روزے کافی ہیں۔

اعتکافِ مستحب
اعتکاف ِمستحب یہ ہے کہ جب کبھی دن یارات میں مسجد میں داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرلے۔ جتنی دیر مسجد میں رہے گا، اعتکاف کا ثواب پائے گا۔ یہ اعتکاف تھوڑی دیر کا بھی ہوسکتا ہے اور اس میں روزہ بھی شرط نہیں ہے، جب مسجد سے باہر نکلے گا تو اعتکاف ِمستحب خود بہ خود ختم ہوجائے گا۔

اعتکاف کی نیت
نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کرلیا کہ میں سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں تو یہی کافی ہے۔ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بہتر ہے۔ اپنی مادری زبان میں بھی نیت ہوسکتی ہے۔ اگر عربی زبان میں نیت آتی ہو تو بہتر و مناسب ہے۔

اعتکاف کی نیت عربی میں یہ ہے۔

نویت سنت الاعتکاف للّہ تعالٰی
ترجمہ: میں نے اللہ تعالٰی کی رضا کے لیے سنت اعتکاف کی نیت کی۔

مسئلہ: مسجد کے اندر کھانے، پینے اور سونے کی اجازت نہیں ہوتی، مگر اعتکاف کی نیت کرنے کے بعد اب ضمناً کھانے، پینے اور سونے کی بھی اجازت ہوجاتی ہے، لہذا معتکف دن رات مسجد میں ہی رہے، وہیں کھائے، پیئے اور سوئے اور اگر ان کاموں کے لیے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

مسئلہ: اعتکاف کے لیے تمام مساجد سے افضل مسجد حرام ہے۔ پھر مسجد نبوی شریف، پھر مسجد اقصی (بیت المقدس) پھر ایسی جامع مسجد جس میں پانچ وقت باجماعت نماز ادا کی جاتی ہو۔ اگر جامع مسجد میں جماعت نہ ہوتی ہو تو پھر اپنے محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔ 

مسئلہ: اعتکاف کا اہم ترین رکن یہ ہے کہ آپ اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود ہی میں رہیں اور حوائج ضروریہ کے سوا ایک لمحہ کے لیے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلیں، کیوںکہ ایک لمحے کے لیے بھی شرعی اجازت کے بغیر حدود مسجد سے باہر چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔

مسئلہ: کسی شرعی عذر کے بغیر مسجد سے باہر نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ بول وبراز کے لیے اور نمازِ جمعہ کی لیے جانا شرعی عذر ہے.... وضو کے لیے اور غسل جنابت کے لیے جانا بھی عذرشرعی ہے....کھانے، پینے اور سونے کے لیے مسجد سے باہر جاناجائزنہیں ہے اور اگر کوئی مریض کی عیادت کے لیے یا نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے مسجد سے باہر گیا تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

اعتکاف کی قضاء
فقیہ الامت علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمتہ (متوفی1252ھ)لکھتے ہیں کہ: رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف ہرچندکہ نفل (سنت موکدہ) ہے، لیکن شروع کرنے سے لازم ہوجاتا ہے۔ اگر کسی شخص نے ایک دن کا اعتکاف فاسدکردیا تو امام ابویوسف کے نزدیک اس پر پورے دس کی قضالازم ہے، جب کہ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام محمدبن حسن شیبانی رحمۃاللّہ علیہما کے نزدیک اس پر صرف اسی ایک دن کی قضا لازم ہے۔

اعتکاف کی قضا صرف قصداً و جان بوجھ کر ہی توڑنے سے نہیں بلکہ اگر کسی عذر کی وجہ سے اعتکاف چھوڑدیا، مثلاً عورت کو حیض یانف اس آگیا یا کسی پر جنون وبے ہوشی طویل طاری ہوگئی ہو تو اس پر بھی قضا لازم ہے اور اگر اعتکاف میں کچھ دن فوت ہوں تو تمام کی قضا کی حاجت نہیں بلکہ صرف اتنے دنوں کی قضا کرے، اور اگرکل دن فوت ہوں تو پھرکل کی قضالازم ہے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالٰی معتکفین کے اعتکاف کو قبول فرمائے اور سنت کے مطابق اعتکاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رمضان المبارک کے مسجد سے باہر اعتکاف کرنے علیہ السلام الل ہ تعال ی میں اعتکاف ہ تعال ی کی اعتکاف میں رضی الل ہ لازم ہے کی تلاش اور اگر جاتا ہے کا ثواب اور اس ہے اور کی قضا ایک دن

پڑھیں:

انکار کیوں کیا؟

ثناء یوسف، ایک 17سالہ لڑکی جو 22سالہ نوجوان کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پھر کہنے والوں نے وہ وہ کہا کہ جس سے انسانیت شرما جائے۔ 

’اچھا ہوا، مار دیا۔۔۔ معاشرے کا گند صاف ہوگیا۔۔’۔

’جس نے بھی کیا، اچھا کیا‘۔ 

’یہ ٹک ٹاکرز اسی قابل ہیں‘۔ 

’بے حیائی پھیلاتی تھی۔ اچھا ہوا، صفائی ہوگئی‘۔

’برے کام کا برا نتیجہ ہی ہوتا ہے‘۔

انسانیت کی اس سے زیادہ توہین کیا ہی ہوسکتی ہے جو یہ رذیل اور پست ذہنیت کے لوگ کر رہے ہیں۔  

اپنی اس نیچ سوچ سے اس گھناونے جرم کو تقویت دینے والے یہ وہ ہی لوگ ہیں کہ جن کی عورت کو دیکھ کر رال ٹپکتی ہے۔ جو اسے عیاشی کا سامان اور ضرورت کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔ اس پہ جملے کسنا ، اس کا تعاقب کرنا، اس تک پہنچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا، اور اگر حاصل نہ ہو پا رہی ہو تو اسے ہراساں کرنا یا اس کی کردار کشی کرنا، یہ ان کا عام رویہ ہے۔

جب گیم ان کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائے تو یا یہ  اپنی فرسٹریشن میں پستی کی آخری حد تک گر جاتے ہیں یا جعلی مولوی بن کر دوسروں کو اخلاقی اور دینی اسباق پڑھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے لیے اپنے گھر کی عورتوں کو چھوڑ کر ہر عورت گندی ہے۔ جس پر کیچڑ اچھالنا یہ واجب سمجھتے ہیں۔ 

یہ ایک واقعہ نہیں، یہ ایک سلسلہ ہے۔ کئی دہائیوں سے مسلسل کتنی ہی عورتیں اس غلاظت بھری سوچ کا نشانہ بن رہی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر، کبھی کسی کی جنسی ہوس کا شکار ہوکر، کبھی کسی کی نفسیاتی بیماری کا نشانہ بن کر، کبھی کسی کی انا کی تسکین کے طور پر۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو کسی نہ کسی طور منظر عام پر آ رہے ہیں۔ کتنی ہی عورتیں چپ چاپ کسی کی ہراسانی، بلیک میلنگ،  اور نفسیاتی، اور جنسی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں یا غیرت کے نام پر مار کرگھر کے صحنوں میں دفن کر دی جاتی ہیں۔

ثنا ایک ٹین ایجر بچی تھی، جس کی آنکھوں میں خواب تھے، کچھ شوق تھے۔ کسی قسم کی بری حرکات نہیں کر رہی تھی۔ مگر اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہی ہے یہ انسانیت سوز معاشرہ ہے، یہ کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں۔ 

وہ اس معاشرے میں رہ رہی تھی جہاں کچھ لوگوں کی جانب سے انکار کو ایک منفی رویہ مانا جاتا ہے۔ نہ تو انکار کرنا سکھایا جاتا ہے نا انکار کو سہنا سکھایا جاتا ہے۔ بلکہ ان کے ہاں ایک عورت کا انکار ان کی مردانگی پہ وار ہے۔ 

پھر یہ کسی نا مرد کی انا پر تازیانہ بن کر، کسی کی جان لے لینے پر ختم ہوتا ہے۔ ایسا ہی ثناء یوسف کے ساتھ ہوا۔

 دوسری حل طلب بات ہے جہالت اور جہالت پر ڈھٹائی۔ اگر اس جہالت کو اپنی حد تک رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے مگر بھئی جو خود دنیا میں رہنے کے قابل نہیں وہ دوسروں کی تقدیروں کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

یہ وہی ہیں  جن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ان کی جنسی خواہش دبا کے بیٹھی ہے،  وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹک ٹاکر تھی تو اسی قابل تھی کہ مار دی جاتی۔

جب ایک عورت سڑک پہ چلتی ہے تو ان مردوں کی آنکھیں اسکا بھرپور تعاقب کرتی ہیں، جسم تو کیا ! کچھ آنکھیں روح تک کو چیردینے کو بے قرار ہوتی ہیں، اور پھر یہ عورت کے ساتھ ہوئے ہر ظلم کو بے حیائی اور برے کاموں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

جبکہ یہ وہی ہیں جو ان کو دیکھتے ہیں، ٹٹولتے ہیں، چاہتے ہیں۔ یہ سڑکوں پہ گاڑیاں روکتے ہیں تبھی عورت سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ان کے دام لگاتے ہیں تو وہ ذریعہ بناتی ہیں۔ انہیں مردوں کے گاہک بننے کی امید ہوتی ہے تو کوٹھوں پہ بیٹھتی ہیں۔ یہ استمعال کرتے ہیں تو وہ استمعال ہوتی ہیں۔ 

 دوسروں کی مرضی پر، ان کے افعال پر، ان کی زندگی پر حق جتانے کی یہ ذہنیت کہاں سے بن کرآ رہی ہے۔ کیا اولاد کی شخصیت کی، ان کی سوچ اور کردار کی صحیح تشکیل دی جا رہی ہے؟

یہاں قصور وار صرف اس معاشرے کی ‘تربیت’ ہے۔  خدارا اسے سمجھیں کہ نسل پیدا کرنے سے بڑی ذمہ داری اس نسل کی تربیت ہے۔ پہلے اپنی نسلوں کو جنس کی تفریق سے بالاترہو کر انسان کی تعظیم کرنا سکھائیں۔

کسی انسان کی شخصی آزادی، اس کی انفرادیت، اس کی مرضی کا احترام کرنا سکھائیں۔ اس کے اقرار کی قدر اور اس کے انکار کا احترام سکھائیں۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا سکھائیں، ان کو شعور دیں۔ 

کوئی عورت چاہے ٹک ٹاکر ہو، اداکارہ ہو ،رقاصہ ہو، کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہو، یہاں تک کہ طوائف ہی کیوں نہ ہو اس کی زندگی پر اور اسکی مرضی پر صرف اس کا اور خدا کا حق ہے۔  وہ قابلِ لحاظ ہے ، قابلِ عزت و تکریم ہے ، صرف اس لیے کہ وہ عورت ہے۔ عورت کا پیشہ نہیں، اس کا کام نہیں، اس کی ذات قابلِ عزت ہے، اور عورت کی تعظیم ہی مردانگی کی نشانی ہے۔ 

انسان کی زندگی صرف خدا کی ملکیت ہے۔  جسکا وہ صرف اپنے خدا کو جوابدہ ہے۔ ایک عورت ہی کیا، کسی بھی انسان کی زندگی  پر،  اس کی عزت پر کسی دوسرے انسان کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس کی تذلیل کرے یا اسے زندگی کے حق سے محروم کرے، چاہے وہ کسی کے لیے کتنی بھی باعثِ تکلیف اور باعثِ نفرت کیوں نہ ہو۔ 

یہ وہ وقت نہیں ہے جب خاموشی کو اقرار سمجھا جاتا تھا۔ اب اقرار کی گونج سنتی ہے۔ اس کی آواز ہے، اس کے جیسچرز ہیں، اس کی باڈی لینگویج ہے، اس کا ایکسپریشن ہے۔ اب خاموشی بھی انکار ہے۔ ‘نو’ اور ‘نہیں’ ہی نہیں کسی کے چہرے کا خوف، اس کی ہچکچاہٹ، اس کے چہرے کا ماند پڑ جانا اور اس کی انرجی کا گر جانا بھی انکار ہے۔ 

انکار ـــ شخصی حق ہے۔ وہ حق جو ہر انسان کو اپنی مرضی سے اپنی ذات پر، اپنی زندگی پر حاصل ہے۔ ہر انکار صرف انکار ہوتا ہے، جس میں کیوں، اگر، مگر کی بھی گنجائش نہیں کیوں کہ ہر شخص اپنی وجہ رکھتا ہے اور اس تک پہنچنا بھی دوسرے انسان کے لیے ضروری نہیں۔

کیا ثناء یوسف اس صورتحال پر قابو پا سکتی تھی؟  کسی بھی قسم کی ہراسانی، زبردستی یا خطرے کی صورت میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے، اگلے بلاگ میں پڑھیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سعدیہ سویرا

ثنا یوسف ٹک ٹاکر عورت مرد

متعلقہ مضامین

  • میر واعظ عمر فاروق کو عیدالاضحیٰ پر مسجد جانے سے روک دیا گیا
  • دینہ منورہ میں بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے آنے والے عازمینِ حج کے استقبال کی تیاریاں مکمل
  • مسجد الاقصیٰ پر تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر، وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے
  • کشمیر میں اگر سب کچھ معمول پر ہے تو جامع مسجد کیوں بند ہے، التجا مفتی
  • جامع مسجد سرینگر میں نماز کی اجازت نہ دینا افسوسناک ہے، عمر عبداللہ
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • بھارتی ہٹ دھرمی: جامع مسجد سری نگر میں ساتویں سال بھی نماز عید ادا نہ ہو سکی
  • مودی انتظامیہ نے کشمیری مسلمانوں کو تاریخی جامع مسجد اور عید گاہ میں نماز عید سے روک دیا
  • انکار کیوں کیا؟
  • عیدالاضحیٰ آج منائی جائیگی، صدر، وزیراعظم کی مبارکباد