مردہ خانے سے لاشیں لے جانے پر ماہ رنگ بلوچ سمیت 150 افراد کیخلاف دہشتگردی کا مقدمہ
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
پولیس نے بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی چیف آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور 150 دیگر افراد کے خلاف مردہ خانے سے لاشیں زبردستی لے جانے، تشدد پر اکسانے اور دیگر مبینہ جرائم کے الزام میں ایف آئی آر درج کرلی ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ کیس سول اسپتال کوئٹہ میں پیش آنے والے ایک واقعے سے متعلق ہے، جہاں بی وائی سی کے ارکان نے مبینہ طور پر مردہ خانے پر دھاوا بول کر، اس ماہ کے اوائل میں ٹرین ہائی جیکروں کے خلاف آپریشن میں ہلاک ہونے والے 5 ’عسکریت پسندوں‘ کی لاشیں لے گئے تھے۔
22 مارچ کو سریاب تھانے میں درج کی گئی ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) اور پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی مختلف دفعات کے تحت الزامات شامل ہیں۔
ان الزامات میں دہشت گردی، قتل اور اقدام قتل، تشدد اور بغاوت پر اکسانے، بدنظمی پیدا کرنے، نسلی منافرت کو فروغ دینے اور املاک کو نقصان پہنچانے جیسے جرائم شامل ہیں۔
ایف آئی آر میں بیبو بلوچ، گل زادی ستکزئی، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، صبط اللہ بلوچ، گلزار دوست، ریاض گشکوری اور ڈاکٹر شالی بلوچ سمیت بی وائی سی کے کئی دیگر اہم رہنماؤں کے نام بھی شامل ہیں۔
حکام نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور 17 دیگر افراد کو ہفتہ کی صبح گرفتار کر کے انہیں مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کی دفعہ 3 کے تحت کوئٹہ ڈسٹرکٹ جیل میں رکھا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق بی وائی سی قیادت نے مبینہ طور پر فسادیوں کو پولیس افسران، راہ گیروں اور ان کے اپنے ہی مظاہرین پر گولیاں چلانے کے لیے اکسایا، جس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور 15 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
سول لائنز تھانے میں درج ایک اور ایف آئی آر میں بی وائی سی کے 100 سے 150 حامیوں پر سول اسپتال میں گھسنے، مردہ خانے میں گھسنے اور لاشوں کو زبردستی لے جانے کا الزام لگایا گیا ہے، ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے ہاکی چوک پر نجی ایمبولینس کو بھی روکا، ڈرائیور پر حملہ کیا اور لاشوں کو گاڑی میں رکھ دیا۔
علاوہ ازیں بی وائی سی رہنماؤں گل زادی بلوچ، علی جان، شعیب، سید نور شاہ، وحید، جہانزیب، زوہیب بلوچ اور 100 سے زائد افراد کے خلاف کوئٹہ میں ویسٹرن بائی پاس روڈ بلاک کرنے، ریاست مخالف نعرے لگانے اور عوامی بے چینی پھیلانے پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کا باضابطہ طور پر انکشاف نہیں کیا گیا ہے، وہ سول لائنز پولیس کی تحویل میں نہیں اور ایم پی او کی دفعات کے تحت کوئٹہ ڈسٹرکٹ جیل میں ہیں۔
احتجاج، ناکہ بندی
کریک ڈاؤن کے بعد تربت، مستونگ، قلات، خاران، چاغی، دالبندین، ڈھاڈر اور پنجگور سمیت بلوچستان کے متعدد شہروں میں مسلسل دوسرے روز بھی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
تربت میں مظاہرین نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کے خلاف تربت کراچی شاہراہ بند کردی، جس سے ٹریفک متاثر ہوئی، جبکہ حب میں مظاہرین نے بھوانی کے مقام پر کوئٹہ کراچی شاہراہ بند کر دی۔
تاہم پولیس نے اتوار کی صبح مظاہرین کو آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے ذریعے منتشر کر دیا، پولیس کے مطابق شاہراہ کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
انٹرنیٹ کی بندش
دریں اثنا کوئٹہ اور گردونواح میں اتوار کو مسلسل چوتھے روز بھی انٹرنیٹ سروس معطل رہی۔
اگرچہ پی ٹی سی ایل حکام نے اتوار کی شام کو دعویٰ کیا تھا کہ انٹرنیٹ کی سروسز بحال کردی گئی ہیں، لیکن صارفین کو رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، بدھ کی سہ پہر بغیر کسی پیشگی اعلان کے نافذ کیے گئے شٹ ڈاؤن نے کوئٹہ اور ملک کے دیگر حصوں کے درمیان مواصلاتی رابطے منقطع کر دیے تھے۔
معطلی سے موبائل ڈیٹا اور واٹس ایپ سروسز بھی متاثر ہوئیں، جس کی وجہ سے رہائشیوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، رابطہ کرنے پر حکام طویل بلیک آؤٹ کی واضح وجہ بتانے میں ناکام رہے۔
اس سے قبل کوئٹہ میں بھی ٹرین ہائی جیکنگ کے واقعے کے بعد 4 روز کے لیے اسی طرح کی انٹرنیٹ بندش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ایف آئی آر میں بی وائی سی کے مطابق کے خلاف گیا ہے
پڑھیں:
ہارورڈ یونیورسٹی نے فنڈز منجمد کیے جانے پر امریکی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کردیا
ہارورڈ یونیورسٹی نے فنڈز منجمد کیے جانے کے خلاف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ انتظامیہ کی شرائط نہ ماننے پر ہارورڈ یونیورسٹی کی 2.2 ارب ڈالر کی امداد منجمد
غیر ملکی میڈیا کے مطابق یونیورسٹی کے صدر ایلن گاربر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران وفاقی حکومت نے ہارورڈ کی طرف سے غیر قانونی مطالبات کو ماننے سے انکار کے بعد کئی اقدامات کیے ہیں۔
ایلن گاربر نے کہا کہ ہم نے فنڈنگ کے تعطل کو روکنے کے لیے ایک مقدمہ دائر کیا ہے کیونکہ یہ غیر قانونی ہے اور حکومت کے اختیارات سے باہر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جلد ہی مسلم مخالف، عرب مخالف اور فلسطینی مخالف تعصب سے نمٹنے کے لیے ٹاسک فورس کی رپورٹ جاری کریں گے۔
ہارورڈ کے مقدمے میں جن امریکی حکومتی اداروں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں محکمہ تعلیم، محکمہ صحت، محکمہ انصاف، محکمہ توانائی اور جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن شامل ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے خاص طور پر فلسطین کے حق میں مظاہروں اور دیگر مسائل پر امریکی یونیورسٹیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران اس ممتاز ز یونیورسٹی پر بھی دباؤ بڑھا دیا ہے۔
مزید پڑھے: ہارورڈ یونیورسٹی کن طالبعلوں سے ٹیوشن فیس وصول نہیں کرے گی؟
انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے آغاز کیا جس نے امریکی کیمپس میں فلسطین کے حق میں مظاہروں کی لہر کو جنم دیا تھا۔ یونیورسٹی کی 400 ملین ڈالر کی وفاقی فنڈنگ منسوخ کر دی گئی۔
یونیورسٹی نے بالآخر ان کے دباؤ کے آگے جھک کر وسیع پالیسی تبدیلیوں کا اعلان کیا جن میں کیمپس میں مظاہروں کی پالیسی بھی شامل ہے۔
اس کے بعد انہوں نے ہارورڈ کو نشانہ بنایا اور تحقیقات کا آغاز کیا اور یونیورسٹی سے 9 ارب ڈالر کی وفاقی فنڈنگ واپس لینے کی دھمکی دی۔
مزید پڑھیں: پاکستانی طلبا کے لیے امریکی گلوبل انڈرگریجویٹ ایکسچینج پروگرام بند
انہوں نے بعد میں کارنیل یونیورسٹی اور نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی وفاقی فنڈنگ بھی منجمد کر دی کیونکہ ان یونیورسٹیوں نے فلسطین کے حق میں مظاہروں کی اجازت دی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ہارورڈ یونیورسٹی فنڈز ہارورڈ یونیورسٹی\