حماس ہتھیار ڈال دے، جنگ بندی کے لیے اسرائیل کی شرط
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
ایسے وقت میں جب غزہ میں فائر بندی معاہدے کے وساطت کار سمجھوتے کو دوبارہ سے راستے پر لانے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں اسرائیل نے اپنی شرائط کا تعین کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فوج کی بمباری میں حماس کے اہم رہنما صلاح البردویل شہید، مزاحمتی تنظیم کا بدلہ لینے کا اعلان
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیر خارجہ نے پیر کے روز کہا ہے کہ اگر حماس انسانی امداد سے مستفید ہو گی تو تل ابیب یہ امداد غزہ کی پٹی میں داخل نہیں ہونے دے گا۔
وہ یورپی یونین میں خارجہ پالیسی کی اعلیٰ ذمے دار کایا کیلس کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں شریک تھے۔ اسرائیلی وزیر دفاع کے مطابق اگر حماس ہتھیار ڈال دے اور یرغمالیوں کو رہا کر دے تو جنگ کل ہی روکی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب کایا کیلس نے زور دیا ہے کہ مستقبل میں غزہ میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے باور کرایا کہ غزہ کی پٹی کے مستقبل کے حوالے سے کام کرنے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔
کایا کے نزدیک اسرائیل کو حق حاصل ہے کہ وہ حماس، حوثی یا حزب اللہ کے خلاف اپنا دفاع کرے۔
فائر بندی کے لیے نئی تجویزدوسری جانب مصر نے ایک نئی تجویز پیش کی ہے جس کا مقصد اسرائیل اور حماس کے درمیان فائر بندی معاہدے کو دوبارہ اپنے راستے پر لانے کی کوشش ہے۔
ایک مصری ذمے دار نے پیر کو میڈیا کو بتایا کہ حماس تنظیم 5 زندہ قیدیوں کو آزاد کرے گی جن میں امریکی نژاد اسرائیلی شہری شامل ہے۔
اس کے مقابل اسرائیل ایک ہفتے کی فائر بندی میں داخل ہو گا اور اس دوران میں غزہ میں انسانی امداد کے داخلے کی اجازت دے گا۔ اسی طرح اسرائیل سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کرے گا۔
حماس کے ایک عہدیدار کا کہنا ہےکہ تنظیم نے اس تجویز پر مثبت جواب دیا ہے۔ تاہم انہوں نے اس کی مزید تفصیل نہیں بتائی۔
مزید پڑھیے: غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی تشدد کی مذمت، اقوام متحدہ کا امداد کی فراہمی بحال کرنے پر زور
یہ تجویز اسرائیل کی جانب سے گزشتہ ہفتے فائر بندی کو ختم کر دینے کے بعد سامنے آئی ہے۔ اسرائیل نے اچانک سے فضائی حملوں نیا سلسلہ شروع کر دیا جس میں اب تک سیکڑوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
البتہ حماس نے معاہدے میں ترمیم کے حوالے سے اسرائیل کی تائید شدہ ترامیم کو مسترد کر دیا۔
ان ترامیم کا مقصد مستقل فائر بندی کے حوالے سے بات چیت شروع ہونے سے قبل مزید اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ہے۔
حماس نے اعلان کیا تھا کہ وہ صرف 59 بقیہ قیدیوں کو آزاد کرے گی جن میں 24 کے بارے میں خیال ہے کہ وہ زندہ ہیں۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کی لبنان پر راکٹ حملوں کے بعد بمباری، 2 شہری جاں بحق
اس کے مقابل سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی، مستقل فائر بندی اور غزہ کی پٹی سے اسرائیلی انخلا کو یقینی بنایا جائے۔
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے گزشتہ ہفتے دوبارہ حملے شروع کرنے کے بعد سے غزہ میں تقریباً 700 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں کم از کم 400 خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی جنگ میں کم از کم 50 ہزار 82 فلسطینیوں کی شہادت اور ایک لاکھ 13 ہزار 408 کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ دوسری جانب غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے شہادتوں کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اسرائیل کی شرط جنگ بندی حماس مصر کی تجویز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل اسرائیل کی شرط مصر کی تجویز اسرائیل کی فائر بندی غزہ کی کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں فلسطینیوں کیخلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہئے، ترکیہ
اپنے ایک جاری بیان میں یورو-میڈیٹیرین ہیومن رائٹس واچ کا کہنا تھا کہ غزہ کے اقصادی محاصرے کے خاتمے اور بلا مشروط انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے کیلئے عالمی برادری موثر تعاون کرے۔ جان بوجھ کر اس طرح کی غیر انسانی شرائط کو مسلط کرنا، نسل کشی کی واضح ترین مثال ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ "هاکان فیدان" نے کہا کہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار انقرہ میں وزارت خارجہ کی عمارت میں اپنے نارویجین ہم منصب "سپین بارت ایدہ" کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے غزہ میں انسانی صورت حال کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں 50 روز سے انسانی امدادکا داخلہ بند ہے۔ یہ صورت حال مزید جاری نہیں رہ سکتی۔ اسی سلسلے میں یورو-میڈیٹیرین ہیومن رائٹس واچ نے غزہ کی پٹی کی سنگین معاشی اور انسانی صورت حال سے خبردار کیا۔ اس ادارے نے اعلان کیا کہ غزہ کی مالی امداد روک کر اسرائیل نے منظم طریقے سے یہاں کے مکینوں کو تباہ کرنے کی ٹارگٹڈ پالیسی اپنائی ہے۔
غزہ میں نسل کشی کے آغاز سے صیہونی رژیم نے یہاں کسی بھی قسم کی امداد اور رقوم کو داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔ یہ مالی محاصرہ غزہ میں شدید اقتصادی بحران پیدا کر رہا ہے اور فلسطینیوں کو اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ بلیک مارکیٹ سے مہنگی قیمتوں پر اشیائے ضروریہ خریدیں جو کہ اُن کی مالی حالت کو مزید بگاڑ رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے اس ادارے نے مزید کہا کہ یہ اقتصادی دباؤ صرف غزہ کے اقتصادی ڈھانچے پر ہی حملہ نہیں بلکہ وہاں کی آبادی کو بھوک سے مرنے اور بتدریج تباہ کرنے کی صیہونی پالیسیوں کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس ادارے نے مطالبہ کیا کہ غزہ کے اقصادی محاصرے کے خاتمے اور بلا مشروط انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے کے لئے عالمی برادری موثر تعاون کرے۔ جان بوجھ کر اس طرح کی غیر انسانی شرائط کو مسلط کرنا، نسل کشی کی واضح ترین مثال ہے۔