متحدہ علماء محاذ کے تحت آل پارٹیز القدس سیمینار، شیعہ سنی اکابرین کا خطاب
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
آل پارٹیز القدس سیمینار سے خطاب میں مقررین نے کہا کہ اقوام متحدہ، او آئی سی مسلم حکمران غزہ میں فوری جنگ بندی اور غذائی و طبی سمیت ہر قسم کی امداد پہنچانے میں اسرائیلی ظالمانہ رکاوٹوں کو ختم کرنے کیلئے بھرپور طاقت کے ساتھ موثر کارروائی عمل میں لائیں، حماس اور حزب اللہ سمیت دیگر شہدائے مقاومت فلسطین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، جن کی عظیم شہادتوں نے مجاہدین کے جذبوں حوصلوں کو بلند کرکے نئی جلا بخشی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ متحدہ علماء محاذ پاکستان کے زیر اہتمام مرکزی صدر علامہ مرزا یوسف حسین کی زیر صدارت، بانی سیکریٹری جنرل مولانا محمد امین انصاری کی میزبانی میں مقامی ہال گلشن اقبال میں منعقدہ 17واں سالانہ بسلسلہ عالمی یوم القدس جمعة الوداع، آل پارٹیز القدس سیمینار میں شریک مختلف مکاتب فکر کے جید علماء مشائخ، سیاسی زعماء، دانشور، صحافی، وکلاء، تاجر، شاعر و ممتاز شخصیات نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس پر اسرائیلی غاصبانہ قبضہ اور انسانیت سوز وحشیانہ جارحیت کے خلاف آزادی القدس اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے، بانی اسلامی انقلاب ایران آیت اللہ امام خمینی کے فرمان پر 27 رمضان جمعة الوداع کو عالمی یوم القدس جوش و جذبے کے ساتھ منائیں گے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری غیر قانونی، ناجائز و جرم ہے، قرارداد مقاصد پاکستان میں بھی فلسطین میں جبری یہودی آبادکاری کی مخالفت و مذمت کی گئی ہے۔
آل پارٹیز القدس سیمینار سے خطاب میں مقررین نے کہا کہ اقوام متحدہ، او آئی سی مسلم حکمران غزہ میں فوری جنگ بندی اور غذائی و طبی سمیت ہر قسم کی امداد پہنچانے میں اسرائیلی ظالمانہ رکاوٹوں کو ختم کرنے کیلئے بھرپور طاقت کے ساتھ موثر کارروائی عمل میں لائیں، حماس اور حزب اللہ سمیت دیگر شہدائے مقاومت فلسطین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، جن کی عظیم شہادتوں نے مجاہدین کے جذبوں حوصلوں کو بلند کرکے نئی جلا بخشی ہے، شہدائے مقاومت فلسطین نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بلاامتیاز رنگ و مسلک اسرائیل، امریکہ و استعماری قوتوں کے خلاف آزادی القدس کیلئے متحد و بیدار کردیا ہے، اسرائیلی گریٹر منصوبے کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے، نام نہاد انسانی حقوق کا علمبردار امریکہ غزہ فلسطین میں لاکھوں نہتے معصوم بچوں، بوڑھوں، عورتوں، ہسپتالوں، عبادتگاہوں، کیمپوں، رہائشی علاقوں پر وحشیانہ بمباری کے لئے کھلم کھلا جدید ترین خطرناک اسلحہ فراہم کررہا ہے، جس سے امریکہ کا اصل قاتل چہرہ دنیا کے سامنے آشکار ہوگیا ہے۔
آل پارٹیز القدس سیمینار سے خطاب میں مقررین نے کہا کہ شہدائے مقاومت اور ان کی سب سے زیادہ ہر قسم کی مدد کرنے والے برادر اسلامی ملک ایران کو خراج عقیدت و تحسین پیش کرتے ہیں، پاکستان کے شیعہ سنی علماء و عوام فلسطین و کشمیر کی آزادی، ملکی امن و استحکام افواج پاکستان کی کامیابی کیلئے متحد و بیدار ہیں۔ آل پارٹیز القدس سیمینار کی متفقہ قرارداد میں جیو چینل کے اینکر پرسن شاہ زیب خانزادہ کے حماس کیلئے دہشت گرد کا لفظ استعمال کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان سے معافی مانگنے اور جیو سے ان سے لاتعلقی کا اظہار کرکے بے دخل کرنے کا پرزور مطالبہ کیا گیا۔ سیمینار میں حکومت سے 23 مارچ قرارداد مقاصد پاکستان پر عمل درآمدکا مطالبہ اور اس کی تکمیل و تحفظ کا عزم اور قائدین و شہدائے پاکستان کو خراج عقیدت پیش کیا گیا، ہاتھوں میں ہاتھ بلند کرکے فلسطین و کشمیر، شہدائے مقاومت، شہدائے افواج پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا، امریکہ اسرائیل مردہ باد، پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کئے گئے۔
سیمینار سے محاذ کے مرکزی چیئرمین علامہ عبدالخالق فریدی سلفی، جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر مسلم پرویز، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے بانی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابومریم، جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ سید محمد عقیل انجم قادری، پاکستان مسلم لیگ علماء مشائخ کے سربراہ علامہ پیر سید ازہر علی شاہ ہمدانی، مسلم لیگ ن کراچی کے رہنما محمد اسلم خان خٹک ایڈووکیٹ، محاذ کے مرکزی نائب صدر علامہ پروفیسر ڈاکٹر سید شمیل احمد قادری حنبلی، پاکستان نظریاتی پارٹی سندھ کے ترجمان فاضل نوجوان مولانا قاری حافظ محمد ابراہیم چترالی، بزرگ عالم دین علامہ محمد حسن شریفی، ممتاز قانون دان و سماجی رہنما ناصر احمد ایڈووکیٹ، پاسٹر امانوئیل صوبہ، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ پاکستان کے مرکزی نائب امیر علامہ مفتی عبدالغفور اشرفی نے خطاب کیا۔
سیمینار میں مرکزی جماعت اہلحدیث کے رہنما علامہ مرتضیٰ خان رحمانی، مسلم اتحاد فورم پاکستان کے چیئرمین مولانا قاری سید طاہر جمال تھانوی، پاکستان امن کونسل سندھ کے صدر علامہ عبدالماجد فاروقی، مولانا قاری محمد اقبال رحیمی، الاحمر انٹرنیشنل نیوز سروسز کے ایڈیٹر ممتاز صحافی و کالم نگار قاضی سمیع اللہ، AINS نیوز کے صحافی رپورٹرز آغا علی یاور نے شرکت کو خطاب کیا، ارسلان حارث، عزیز گلگتی، وِش نیوز کے صحافی رپورٹر جواد علی، فاطمیہ ہسپتال انسٹی ٹیوٹ آف نرسنگ کے ایڈمن آفیسر محمد حسین، عافیہ موومنٹ پاکستان کے رہنما قاری امام حسین ہمدم، مسرور بیس کالج کے پروفیسر مولانا حافظ عبدالماجد انصاری، امن کونسل برائے بین المذاہب ہم آہنگی کراچی کے صدر مولانا مفتی علی المرتضیٰ، پاکستان نظریاتی پارٹی کراچی کے صدر اعجاز فضل بھی شرکت و خطاب کرنے والوں میں شامل ہیں۔
سیمینار میں تحفظ حقوق الصراف کے چیئرمین فہیم الدین انصاری، سواد اعظم اہلسنت یوتھ فورس کراچی کے صدر تحریک صوبہ ہزارہ کراچی کے رہنما مولانا پیر حافظ گل نواز خان ترک، اے این آئی کے چیئرمین طلحہ محبوب صدیقی، متحدہ علماء محاذ کے نائب صدر علامہ زاہد حسین ہاشمی مشہدی، مسلم لیگ ن کے قاضی محمد زاہد حسین نقشبندی و دیگر بھی شرکت و خطاب کرنے والوں میں شامل ہیں۔ سیمینار کے آغاز پر محاذ کے صوبائی رہنما مولانا قاری محمد اقبال رحیمی نے قرآن کریم کی تلاوت کی اور اے این آئی کے ڈپٹی کنوینئر معروف نعت و منقبت خواں محمدایاز قادری نے بارگارہ رسالتۖ میںنذرانہ عقیدت پیش کیا جبکہ ممتاز شاعر نعت و منقبت خواں ذوالفقار حیدر پرواز، خواجہ پیر سید معاذ علی نظامی اور پاکستان حمد و نعت کونسل کے رہنما مولانا محمد اسلم طیب نے فلسطین و شہدائے مقاومت کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: آل پارٹیز القدس سیمینار خراج عقیدت پیش شہدائے مقاومت کو خراج عقیدت مولانا قاری پاکستان کے صدر علامہ کراچی کے کے مرکزی کے رہنما محاذ کے کے ساتھ کے صدر
پڑھیں:
تنازعہ فلسطین اور امریکا
اقوام عالم غزہ میں جنگ کی تباہ کاریاں دیکھ رہی ہے اور جنگ بند کرانے کے لیے کہیں سنجیدہ کارروائی نظر نہیں آ رہی حالانکہ 20روز پہلے کی ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ بندی کے لیے درکار شرائط مان لی ہیں جب کہ حماس نے بھی کہا تھا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ ’’حتمی‘‘ جنگ بندی تجویزکا جائزہ لے رہی ہے۔
برطانوی اخبار دی ٹائمز نے بھی بتایا تھا کہ قطری ثالثوں نے دوحہ میں موجود حماس کی اعلیٰ قیادت سے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے لیے اپنے ذاتی ہتھیار حوالے کردیں۔لیکن یہ سب کچھ عملی صورت اختیار نہ کر سکا۔اب غزہ کی زمینی صورتِ حال بدستور خون ریزی میں ڈوبی رہی۔اسرائیل غزہ میںمسلسل وحشیانہ بمباری جاری رکھے ہوئے ہے ‘اسرائیل ٹارگٹڈ کارروائیاں کر کے غزہ میں فلسطینیوں کے گھر تباہ کر رہا ہے ‘غزہ کا زیادہ تر حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ‘صورت حال اس حد تک خراب ہو گئی ہے کہ غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے لیے غذائی قلت سنگین ہونے لگی ہے۔
کئی گھرانے فاقے سے دوچار ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اگلے روز بھوک سے مزید 10فلسطینی جان کی بازی ہار گئے۔اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ اب تک غذائی قلت سے اموات کی تعداد سو سے زیادہ ہو گئی جن میں80 بچے شامل ہیں۔7 اکتوبر 2023 سے اب تک6ہزار کے قریب فلسطینی شہری جان کی بازی ہار چکے ہیں۔میڈیا کے مطابق بدھ کی صبح سے غزہ کی پٹی پر مسلسل اسرائیلی فضائی حملے جاری ہیں‘ان حملوں سے 17فلسطینی شہری مارے گئے ہیں جب کہ مرنے والوں میں چار بچوں اور ایک شیر خوار بچہ بھی شامل ہے۔شہداء میں ایک ہی خاندان کے 7 افراد بھی شامل ہیں۔
غزہ کی یہ صورت حال ہے۔ غزہ کو ایک منظم منصوبے کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جب تک غزہ سے تمام فلسطینی انخلا پر تیار نہیں ہوں گے‘اسرائیل کی فوجی کارروائی جاری رہے گی جب کہ امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ بھی اس سلسلے میں مصلحت کوشی اختیار کرتے ہوئے چپ رہے گی کیونکہ صدر ٹرمپ بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ غزہ کوفلسطینیوں سے مکمل طور پر خالی کرانے کے حق میں ہیں اور اگر فلسطینی اس پر تیار ہو جائیں تو انھیں کسی متبادل جگہ پرآباد کرایا جا سکتا ہے اور اس کے لیے تمام فلسطینیوں کو پورا انفراسٹرکچر بھی تعمیر کر کے دیا جائے گا اور انھیں گھر بھی بنا کر دیے جائیں گے لیکن فلسطینی کسی بھی صورت میں غزہ خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ادھر 115 عالمی امدادی اداروں نے ایک دستخط شدہ انتباہی بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں امداد کے مکمل محاصرے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بھوک پھیل رہی ہے۔غزہ میں موجود گوداموں میں کئی ٹن خوراک، پانی اور ادویات موجود ہیں لیکن امدادی اداروں کی ان تک رسائی کو روکا گیا ہے۔مکمل سیز فائر ،امداد کے لیے تمام زمینی راستوں کو فوری کھولا جائے۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے کہا ہے کہ غزہ میں امداد کے منتظر شہریوں کا قتل ناقابلِ جواز ہے۔فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے مسلم ممالک اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ غزہ میں بھوک اور تباہی روکنے کی کوشش کریں۔
ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی صدر قتل عام روکنے، بنا رکاوٹ امداد پہنچانے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالیں۔ اسلامی تعاون تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی برادری غزہ میں فوری جنگ بندی کرائے۔اسلامی ممالک اسرائیلی مظالم کو عالمی سطح پر بے نقاب کریں۔ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے خبردار کیا ہے کہ روٹی کے ایک ٹکڑے یا گھونٹ پانی کے لیے فلسطینیوں کا مرنا ناقابلِ قبول ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ وہاں قحط ہر دروازے پر دستک دے رہا ہے اور بدترین غذائی قلت کے سبب لوگ مر رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایران کی ایوین جیل پر اسرائیلی حملے کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے فوری بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔
اقوام عالم کی لیڈر شپ اور اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام مسلسل غزہ کے لیے ہمدردانہ بیانات دے رہے ہیں ‘لیکن یہ بیانات محض بیانات ہی ہیں کیونکہ اسرائیل پر ان بیانات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔اس قسم کے ہمدردانہ بیانات تو امریکا کے صدر بھی دیتے رہتے ہیں لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ عملی کام کیا جائے لیکن عملی کام کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔
روس اور چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ہیں اور ان کے پاس ویٹو پاور بھی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان دو ممالک نے بھی اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر محض سفارتی حد تک ہی فلسطینیوں کی حمایت کی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر کچھ نہیں کیاگیا ۔
پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول، خاص طور پر تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز، بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول پاکستان کی صدارت میں منعقدہ تقریبات کے لیے کلید رہیں گے۔
سلامتی کونسل میں پاکستان کی اس ماہ کی صدارت کے حوالے سے استقبالیہ تقریب میں اسحاق ڈار نے کہا عالمی امن و سلامتی صرف کثیرالجہتی، تنازعات کے پرامن حل، جامع مکالمے اور بین الاقوامی قانون کے احترام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ سلامتی کونسل کو صرف ردعمل کا ایوان نہیں بلکہ روک تھام، مسائل کے حل اور اصولی قیادت کا فورم ہونا چاہیے۔
سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ اور مسئلہ فلسطین پر اپنی زیرصدارت مباحثے میں اسحاق ڈار نے کہا مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل ناگزیر ہے۔ غزہ میں انسانیت کا قتل عام ہو رہا ہے، ہر طرف بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، سلامتی کونسل مسئلہ فلسطین کے حل میں اپنا کردار ادا کرے، پاکستان مسئلہ فلسطین کے لیے اصولی موقف، یکجہتی کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔ غزہ میں انسانی امداد کی بلاتعطل فراہمی کو فوری ممکن بنایا جائے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنے چارٹر کے اعتبار سے بہت مضبوط ادارہ ہے۔ اس ادارے نے دنیا میں کئی اہم ممالک کے بارے میں متفقہ فیصلے کیے ہیں ‘کئی ملکوں کو آزادی بھی ملی ہے جس میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل دونوں میں اہم کردار ادا کیے ہیں۔ان میں انڈونیشیا سے آزاد ہونے والے ملک مشرقی تیمور کی مثال سب کے سامنے ہے۔ مشرقی تیمور کو آزادی ملی ہے ۔اسی طرح جنوبی سوڈان کو بھی ایک آزاد ملک کا درجہ ملا ہے لیکن فلسطینیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا کردار زیادہ اہم نہیں رہا ہے۔
اس حوالے سے امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک نے اقوام متحدہ کے ہر فورم میں اسرائیل کی حمایت میں ووٹ کاسٹ کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے معاملات میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کوئی کردار ادا نہیں کر سکا۔ تنازع کشمیر بھی ایسے ہی تنازعوں میں شامل ہے۔کشمیر کے حوالے سے بھی امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک کی حکومتوں کا طرز عمل یکطرفہ چلا آ رہا ہے اور سب نے بھارت کی حمایت کی ہے۔
اقوام متحدہ اور طاقتور اقوام کی دہری اور امتیازی پالیسیوں کے باعث فلسطین میں مسلسل خونریزی جاری ہے حالانکہ اگر امریکا اور مغربی یورپ چاہیں تو فلسطین کا تنازع حل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اسرائیل میں اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر فلسطینیوں کو دبا کر رکھے یا وہ اکیلا عرب ملکوں پر بھاری ہو سکے۔
اسرائیل دراصل امریکا کا ہی دوسرا نام ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ غزہ کا تنازعہ حل کرائیں گے۔ لیکن وہ صدر بننے کے بعد تاحال اس تنازعے کو حل نہیں کرا سکے۔ امریکا صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے، وہ مشرق وسطی میں مستقل قیام امن کے لیے ایک بیلنس پالیسی اختیار کرے تاکہ جس کا جو حق ہے وہ مل سکے۔
اسرائیل کے مفادات کا تحفظ اصولی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی یہ پالیسی امریکا کے طویل المیعاد مفادات کے حق میں ہے۔ فلسطینیوں کی بقا کو بھی مساوی اہمیت دینا ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کرائی جائے اور اس تنازعہ کا مستقل حل نکالا جائے۔