تنخواہ دار طبقہ 331 ارب روپے کے ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانے پر مجبور
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
تنخواہ دار طبقے نے آٹھ ماہ میں 331 ارب روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا جو حکومت کے منظور نظر طبقے یعنی ریٹیلرز کے ادا کردہ ٹیکس سے 1350 فیصد زیادہ ہے لیکن آئی ایم ایف سے ریلیف کیلئے یہ اب بھی ناکافی ہے۔
رواں مالی سال میں جولائی تا فروری کے دوران تنخواہ دار افراد کی جانب سے ادا کیا گیا ٹیکس گزشتہ مالی سال اسی عرصے کے دوران جمع کی گئی رقم سے 120 ارب روپے یا 56 فیصد زائد ہے ۔
گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں یہ رقم 211 ارب روپے تھی۔ حکومت نے پورے مالی سال 2024-25 کے لیے تنخواہ دار طبقے سے 75 ارب روپے اضافی وصول کرنے کا ہدف رکھا تھا۔
یہ رقم پہلے ہی 120 ارب روپے زیادہ ہو گئی ہے اور مالی سال کے اختتام میں ابھی چار ماہ باقی ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں تنخواہ دار طبقے نے 368 ارب روپے ٹیکس ادا کیا۔ اسکے باوجود، ذرائع کے مطابق حکومت نے مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف کے ساتھ اس طبقے پر بوجھ کم کرنے کا معاملہ اٹھایا اور نہ ہی اس بارے میں کوئی بات کی۔
رابطہ کرنے پر ایف بی آر کے ترجمان ڈاکٹر نجیب میمن نے کہا کہ حکومت آئندہ بجٹ کے موقع پر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا جائزہ لے گی۔ دوسری جانب ریٹیلرز نے جو زیادہ تر غیر رجسٹرڈ ہیں ود ہولڈنگ انکم ٹیکس کی مد میں 23 ارب روپے کا حصہ ڈالا۔
ذرائع نے بتایا کہ ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز نے بھی آٹھ ماہ میں 16 ارب روپے کا ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کیا جبکہ ان میں سے تقریباً نصف غیر رجسٹرڈ تھے۔ بجٹ میں حکومت نے تاجروں پر 2.
شرح میں اضافے سے تاجروں سے مزید 12 ارب روپے وصول کرنے میں مدد ملی لیکن مطلوبہ مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔ تاجروں نے اضافی ٹیکس صارفین سے وصول کیا ۔ حکومت کی ایک کروڑ تاجروں کو نیٹ میں لانے کی تاجر دوست سکیم بھی بری طرح ناکام ہوئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر نے آئی ایم ایف کے سامنے اعتراف کیا کہ تاجر اور جیولرز سے ٹیکس وصولی مشکل کام تھا، ڈیزائن کی بڑی خامیوں کی وجہ سے سکیم ناکام ہوگئی۔
اس سکیم کے تحت50 ارب روپے کی وصولی کا تخمینہ تھا لیکن اس سے بہت کم حاصل ہوا۔ بڑے تاجروں نے چھوٹے تاجروں کو اس سکیم میں شمولیت سے روکا جس کے نتیجے میں اسکیم کو 43 شہروں تک توسیع نہیں دی جا سکی اور 10ملین ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا منصوبہ فلاپ ہوگیا۔
ذرائع نے بتایا کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایف بی آر سے کہا ہے کہ وہ تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس پر نظرثانی کا کام شروع کرے تاکہ کچھ ریلیف ملے تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ ایسی کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
دریں اثنا حکومت نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس کا بوجھ کم کرنے کے لیے مذاکرات کی کوشش کی تاہم آئی ایم ایف نے مطالبہ تسلیم نہیں کیا اور فی الحال اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
نان کارپوریٹ سیکٹر کے ملازمین نے اس سال 141 ارب روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا جو 42 ارب روپے یا 43 فیصد زیادہ ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کے ملازمین نے 101 ارب روپے ادا کیے جو کہ 37 ارب روپے یا 56 فیصد زیادہ ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تنخواہ دار طبقے ٹیکس ادا کیا ا ئی ایم ایف ارب روپے کا مالی سال حکومت نے
پڑھیں:
ٹی بلز کی نیلامی: حکومت نے ایک کھرب سے زائد کی بولیوں میں سے 200 ارب روپے حاصل کرلیے
حکومت نے بدھ کو منعقدہ ٹریژری بلز (ٹی بلز) کی نیلامی میں 175 ارب روپے کے مقررہ ہدف کے مقابلے میں 201.8 ارب روپے جمع کرلیے، یوں مقررہ ہدف سے زیادہ رقم جمع ہوئی تاہم کٹ آف منافع کی شرح تقریباً برقرار رکھی، اس نیلامی میں بولیاں ایک کھرب روپے سے زائد موصول ہوئیں، لیکن حکومت نے مقررہ حد کے اندر رہتے ہوئے ہی فنڈز حاصل کیے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ کُل ایک ہزار 71 ارب روپے کی بولیاں موصول ہوئیں جن میں سے 145.86 ارب روپے مسابقتی بولیوں اور 56 ارب روپے غیر مسابقتی بولیوں کے ذریعے منظور کیے گئے، یوں کُل 201.8 ارب روپے حاصل ہوئے۔
اسٹیٹ بینک کے حالیہ مانیٹری پالیسی بیان میں بتایا گیا کہ حکومت کو 2.4 کھرب روپے فراہم کیے گئے جس سے کمرشل بینکوں سے قرض لینے پر انحصار کم کرنے میں مدد ملی۔
مالی سال 2026 کے پہلے 2 ماہ میں حکومت نے شیڈول بینکوں کو 39.9 ارب روپے خالص قرض واپس کیا جبکہ گزشتہ مالی سال اسی مدت میں 717.8 ارب روپے خالص قرض لیا گیا تھا، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب سے پیدا ہونے والے معاشی دباؤ اور کمزور ریونیو کلیکشن کے باعث جلد ہی حکومتی قرض لینے کی شرح دوبارہ بڑھ سکتی ہے۔
بدھ کی نیلامی میں 197 ارب روپے مالیت کے پرانے ٹی بلز میچور ہورہے تھے، جبکہ حکومت نے اس کے مقابلے میں 201.8 ارب روپے جمع کیے، سرمایہ کاروں کی دلچسپی ایک ماہ اور 12 ماہ کی مدت والے بلز میں نمایاں رہی۔
ایک ماہ کے بلز کے لیے 414.3 ارب روپے کی بولیاں آئیں لیکن صرف 11.7 ارب روپے منظور کیے گئے، 12 ماہ کے بلز کے لیے 293.3 ارب روپے کی بولیاں لگیں مگر صرف 2.8 ارب روپے قبول کیے گئے۔ حکومت نے 3 ماہ کے بلز کے لیے 189.5 ارب روپے کی بولیوں کے مقابلے میں 99.2 ارب روپے اور 6 ماہ کے بلز کے لیے 174 ارب روپے کی بولیوں کے مقابلے میں 32 ارب روپے حاصل کیے۔
بینکاروں کے مطابق نجی شعبے کی جانب سے قرض لینے کی کم طلب کے باعث بینکنگ سیکٹر میں وافر لیکویڈیٹی موجود ہے، صنعتکار گروپس اب بھی شرح سود میں کمی کا مطالبہ کررہے ہیں جو گزشتہ ہفتے سے 11 فیصد پر برقرار ہے، ان کا کہنا ہے کہ جب مہنگائی صرف 3.2 فیصد کے قریب ہے تو 11 فیصد کی بلند شرح سود کاروباری سرمایہ کاری کو مہنگا بنا رہی ہے اور اس کے باعث معیشت کی ترقی رکی ہوئی ہے۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں نے ستمبر میں افراط زر بڑھنے کی پیش گوئی کی ہے جس کا تخمینہ 6 سے 7 فیصد لگایا جا رہا ہے، اس کی بڑی وجہ معیشت پر سیلابی نقصانات کے اثرات کو قرار دیا جا رہا ہے۔
Post Views: 5