’لکھ کر تو دیکھیں، ہوسکتا ہے بجلی کا بل آئے ہی نہیں‘ جویریہ سعود مولانا کے وظیفے کے دفاع میں کھڑی ہوگئیں
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
اداکارہ و میزبان جویریہ سعود مولانا آزاد جمیل کی جانب سے بتائے گئے بجلی کے میٹر والے وظیفے کا دفاع کرنے لگیں جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔
جویریہ سعود کا کہنا تھا کہ کاش ایسا ہو کہ زم زم لکھنے سے بجلی کا بل کم آئے،ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ عقیدے سے لوگ یہ وظیفہ کریں گے تو یہ کام کر بھی سکتا ہے۔
اداکارہ و ٹی وی میزبان کا کہنا تھا کہ مولانا صاحب نے اگر وظیفہ بتایا تو انہوں نے سوچ سمجھ کر ہی بتایا ہوگا، اس پر وہ کیا کہ سکتی ہیں؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ دعاؤں سے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اداکارہ نے کہا کہ لکھ کر تو دیکھیں ہو سکتا ہے بجلی کا بل آئے ہی نہیں۔
View this post on InstagramA post shared by Maliha Rehman (@maliharehman1)
جویریہ کی ویڈیو پر صارفین نے انہیں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ وہ مولونا آزاد جمیل کے بیان کا دفاع کیسے کر سکتی ہیں تو کئی صارفین نے کہا کہ یہ ویڈیو وائرل کرنے اور سستی شہرت پانے کے ہتھکنڈے ہیں۔
واضح رہے کہ چند دن قبل رمضان ٹرانسمیشن میں ایک شہری کی جانب سے بجلی کم کرنے کا وظیفہ مانگا گیا۔ جواب میں مولانا آزاد جمیل نے بجلی کا بل کم آنے کا وظیفہ بتایا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔
مولانا آزاد جمیل نے تاکید کی جن لوگوں کے ہاں بجلی کا بل زیادہ آتا ہے وہ اپنی شہادت کی انگلی سے میٹر پر ’زم زم‘ لکھیں تو بجلی کا بل کم آئے گا اور یہ وظیفہ ایک مہینے میں 2 بار (ہر 15 دن بعد) کریں۔
اس وظیدے پر صارفین نے مولانا آزاد جمیل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ان کالز کو جعلی اور پلانٹڈ قرار دیا تھا۔ صارفین کا کہنا تھا کہ کیا جویریہ عباسی اور مولانا آزاد جمیل خود بھی یہ وظیفہ کرتے ہیں ؟ یا بس عوام ہی ملی ہے پاگل بنانے کو؟
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مولانا ا زاد جمیل بجلی کا بل کہا کہ
پڑھیں:
روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-16
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر ) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے وزیرِاعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی جانب سے صنعت و زراعت کے شعبوں کے لیے ’’روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج‘‘ کے اعلان کو قابلِ تحسین اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کی صنعتی بحالی کی سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صنعتوں کی حقیقی بقا، روزگار کے تحفظ اور پاکستان میں کاسٹ آف پروڈکشن کو یقینی بنانے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بنیادی سطح پر کمی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے صنعتی و زرعی صارفین کے لیے اضافی بجلی کے استعمال پر 22.98 روپے فی یونٹ کا رعایتی نرخ ایک اچھا آغاز ہے، مگر ان ریٹوں پر بھی صنعتی طبقہ اپنی لاگتِ پیداوار کو کم نہیں کر پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگی بجلی کی اصل وجوہات ’’کپیسٹی چارجز‘‘ اور سابق معاہدے ہیں، جب تک ان پر نظرِثانی نہیں کی جاتی، بجلی کی حقیقی لاگت کم نہیں ہو سکتی اور کاروبار کرنا دن بہ دن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔صدر چیمبر سلیم میمن نے کہا کہ کاسٹ آف پروڈکشن مسلسل بڑھنے سے نہ صرف ملکی صنعت متاثر ہو رہی ہے بلکہ برآمدی مسابقت بھی کم ہو رہی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی صارفین کے لیے بجلی اور گیس دونوں کے نرخ کم از کم ممکنہ سطح تک لائے اور ان تجاویز پر عمل کرے جو حیدرآباد چیمبر اور دیگر کاروباری تنظیموں نے پہلے بھی حکومت کو پیش کی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک کپیسٹی چارجز اور غیر ضروری معاہداتی بوجھ ختم نہیں کیے جاتے، بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔ اس صورتحال میں پاکستان میں کاروبار چلانا دن بدن ناممکن ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر صنعتی شعبے کے لیے ریلیف فراہم کرنا چاہیے تاکہ روزگار کے مواقع برقرار رہیں اور چھوٹی و درمیانی صنعتیں بند ہونے سے بچ سکیں۔صدر حیدرآباد چیمبر نے مزید کہا کہ حکومت اگر صنعتی علاقوں میں (جہاں بجلی چوری کا تناسب انتہائی کم ہے) سب سے پہلے رعایتی نرخوں کا نفاذ کرے، تو یہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف بجلی کی طلب بڑھے گی بلکہ وہ صارفین جو متبادل ذرائعِ توانائی کی طرف جا رہے ہیں، دوبارہ قومی گرڈ سے منسلک ہو جائیں گے۔ اس طرح حکومت کا ریونیو بھی بڑھے گا اور اضافی 7000 میگاواٹ پیداواری گنجائش کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے گا۔انہوں نے باورکروایا کہ اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہ کی گئی تو کاروباری طبقہ مجبورا سستے متبادل توانائی ذرائع کی طرف منتقل ہوتا جائے گا، جس سے حکومت کے لیے کپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت ان پالیسیوں پر عمل کرے جو ماضی میں کیے گئے غیر متوازن معاہدوں کی اصلاح کی طرف جائیں تاکہ توانائی کا شعبہ ایک پائیدار صنعتی ماڈل میں تبدیل ہو سکے۔انہوں نے وزیرِاعظم پاکستان، وفاقی وزیرِتوانائی اور اقتصادی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام یقیناً ایک مثبت آغاز ہے۔