فرحان ملک عدالتی ریمانڈ پر جیل منتقل، درخواست ضمانت پر نوٹس جاری
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
کراچی میں جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت نے صحافی فرحان ملک کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجتے ہوئے ان کی درخواست ضمانت پر نوٹس جاری کردیے۔
ایف آئی اے نے فرحان ملک کو عدالت میں پیش کیا، فرحان ملک کی طرف سے عبدالمعز جعفری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے، اس موقع پر اینکرز اور سینئر صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔فرحان ملک کے وکیل موقف اپنایا کہ ہم نے فرحان ملک کی کیس سے ڈسچارج کرنے کی درخواست دائر کی تھی، فرحان ملک صحافی ہیں۔
تفتیشی افسر نے موقف اپنایا کہ ریاست مخالف ویڈیوز پوسٹ ہوئی ہیں، عدالت نے ویڈیوز دکھانے کی ہدایت کی جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ رفتار کے نام سے یوٹیوب چینل ہے اس پر، اور بھی میٹریل ہے ہمارے پاس۔عدالت نے استفسار کیا کہ ان ویڈیوز میں ایسا کیا ہے؟ کیس میں مدعی کون ہے؟ فرحان ملک کے وکیل نے کہا کہ ان کا دفتری عملہ اس کیس میں مدعی ہے، مٹیریل آن لائن موجود ہے۔
عدالت نے فرحان ملک سے استفسار کیا کہ آپ کو مارا تو نہیں ہے، ہراساں تو نہیں کیا جارہا؟ فرحان ملک نے کہا کہ ہمارے عملے کو تنگ کیا جارہا ہے۔عدالت نے تفتیشی افسر سے سوال کیا کہ ریمانڈ میں کسی دوسرے شخص کا نام ہے؟ کسی کو تنگ کیا تو آپ کو شوکاز نوٹس جاری کریں گے۔عدالت نے فرحان ملک کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جبکہ ان کی درخواست ضمانت پر نوٹس جاری کردیے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نے فرحان ملک نوٹس جاری عدالت نے
پڑھیں:
ریاست آسام میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ آف انڈیا برہم، توہین عدالت کا نوٹس جاری
ریاستی انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست آسام کے گولپاڑہ ضلع کے ہسیلا بیلا گاؤں میں مبینہ طور پر غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کی گئی بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ریاست کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے۔ یہ نوٹس اس وقت جاری کیا گیا جب اس کارروائی سے متاثرہ افراد کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ درخواست گزاروں کے وکیل عدیل احمد نے عدالت کو بتایا کہ 13 جون 2025ء کو انتظامیہ نے ایک عمومی نوٹس جاری کیا تھا، جس میں 15 جون تک علاقہ خالی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، تاہم نہ تو کسی کو ذاتی طور پر مطلع کیا گیا اور نہ ہی کوئی سنوائی کا موقع دیا گیا۔ 667 خاندانوں کے گھروں اور 5 اسکولوں کو منہدم کر دیا گیا، جس سے بچوں کے بنیادی تعلیمی حقوق بھی متاثر ہوئے۔
وکیل نے مزید کہا کہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے 13 نومبر 2024ء کے اس حکم کی صریح خلاف ورزی ہے، جس میں بلڈوزر کارروائی سے قبل قانونی ضابطوں کی مکمل تعمیل پر زور دیا گیا تھا۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 60 برسوں سے اس علاقے میں آباد ہیں اور ان کے آبا و اجداد دریائے برہم پتر کے کٹاؤ کے سبب اپنی زمینیں کھو چکے تھے۔ لہٰذا وہ سبھی بے دخل شدہ افراد "پرانے باشندے" اور بازآبادکاری کے مستحق ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے جمعرات کو اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے آسام کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا اور آئندہ سماعت میں جواب طلب کیا۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جن افسران نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی، ان کے خلاف کارروائی کی جائے، متاثرہ خاندانوں کو مناسب معاوضہ اور متبادل رہائش فراہم کی جائے، نیز منہدم شدہ اسکولوں کی فوری تعمیر نو کا حکم دیا جائے۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہے اور آئندہ سماعت میں حکومت آسام کو اس کارروائی کی وضاحت دینی ہوگی کہ آخر کس بنیاد پر بغیر مناسب ضابطے کی تکمیل کے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بے دخل کیا گیا۔ اس کارروائی کو لے کر انسانی حقوق کے ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں اور سیاسی سطح پر بھی اس پر تنقید جاری ہے۔