وی ایکسکلوسیو: دہشتگردی کے خلاف آپریشن کے ساتھ ڈائیلاگ بھی کرنا ہوگا، خرم دستگیر
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس واقعے کے بعد یہ واضح ہوچکا ہے کہ بی ایل اے حقوق کی جنگ نہیں لڑ رہی بلکہ وہ دہشتگردی کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کوشش ہوگی کہ مولانا فضل الرحمان حکومت کا حصہ بنیں، وزارت سنبھالیں، خرم دستگیر
وی نیوز ایکسکلیوسیو میں اینکر پرسن عمار مسعود سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما خرم دستگیر نے کہا کہ 21ویں صدی میں کوئی بھی جنگ اب صرف ہتھیاروں سے نہیں جیتی جا سکتی بلکہ اس کے لیے ذرائع ابلاغ کا بھی مؤثر استعمال کرنا ہوتا ہے۔
دہشتگردی کے خاتمے کے لیے خرم دستگیر نے 3 پوائنٹس بتائے جن میں دہشتگردی کے خلاف بیک وقت آپریشن، ابلاغ بہتر بنانا اور سیاسی ڈائیلاگ شامل تھے۔
نواز شریف منظر عام پر کیوں نہیں؟نواز شریف کی سیاسی منظر سے پردہ پوشی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ خاموشی نواز شریف کی اپنی مرضی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شاید نواز شریف اپنی دختر مریم نواز کے لیے میدان کھلا چھوڑنا چاہ رہے ہوں لیکن وہ منظر عام پر ضرور آئیں گے اور یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔
مزید پڑھیے: نواز شریف نے پھر سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں، اب ان کا ہدف کیا ہے؟
خرم دستگیر نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے وقت وہ خود کابینہ کے رکن تھے مگر ہمیں اصل صورتحال کا علم نہیں تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پالیسی سازوں کو اس حوالے سے سوچنا ہوگا کہ ہم ہر تھوڑے عرصے بعد پھر واپس وہیں کیوں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے چلے تھے۔
نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عسکری آپریشن پیچیدہ اور طویل ہونے کے باوجود کامیاب رہا مگر پھر بھی خلا باقی رہ گیا تھا۔
خرم دستگیر نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کو تمام سیکیورٹی ایجنسیوں کو اکٹھا کرکے کام کرنے کی ضروت ہے۔ انہوں نے کہا دہشتگردی کے خلاف صوبوں کو بھی مل کر کام کرنا ہوگا۔
’وفاق سے وسائل کوئٹہ تو پہنچتے ہیں لیکن پھر۔۔۔‘رہنما ن لیگ نے حالیہ دہشتگردی کے حوالے سے کہا کہ صوبائی مسائل کا قانونی حل ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا صوبوں کو منصفانہ حق دینا ضروری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاق کی جانب سے کوئٹہ تک تو وسائل پہنچتے ہیں مگر کوئٹہ سے بلوچستان تک وسائل پہنچ نہیں پاتے۔
مزید پڑھیں: دہشتگرد ملک کو توڑنا چاہتے ہیں، ان کے خلاف پوری طاقت سے جنگ لڑیں گے، وزیراعلیٰ بلوچستان
خرم دستگیر نے علیحدگی پسند تحریکوں کے حوالے کہا کہ بندوق اٹھانے والے نہتے شہریوں اور ریاست کے خلاف لڑنے والے دہشتگرد ہیں جن سے لڑنا ضروری ہے اور یہ لوگ کسی رعایت کی مستحق نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں موجودہ مسلح شورش ہو رہی ہے بلکہ حالات مسلح شورش سے آگے بڑھ کر دہشتگردی تک پہنچ چکے ہیں۔
خرم دستگیر نے کہا جعفر ایکسپریس واقعے کو ہم انٹرنیشنلی پریزنٹ نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا ہم سوشل میڈیا کا بھی اچھا استعمال نہیں کر سکے۔
’دہشتگردی کے ڈانڈے پڑوسی ممالک سے ملنے کے شواہد موجود ہیں‘انہوں نے کہا کہ ہمیں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے افغانستان اور ایران سے بھی بات کرنی ہوگی کیونکہ اس دہشتگردی کے ڈانڈے ان ممالک سے ملنے کے شواہد بھی ملے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان اور کے پی پر توجہ دینے کی ضرورت، تمام جماعتیں ملک کی خاطر متحد ہو جائیں، بلاول بھٹو
خرم دستگیر نے کہا کہ وفاق کو سنجیدگی اور بڑے دل کے ساتھ اس مسئلے کو دیکھنا ہوگا۔
انہوں نے کہا وزیراعظم کو اپنی کابینہ کے اجلاس بلوچستان کے مختلف اضلاع میں رکھ کر بات کرنی چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بلوچستان دہشتگردی بلوچستان شورش خرم دستگیر خان دہشتگردی میاں محمد نواز شریف.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان بلوچستان دہشتگردی بلوچستان شورش خرم دستگیر خان دہشتگردی میاں محمد نواز شریف انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے نواز شریف حوالے سے کے حوالے کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل کے خلاف 7 نکاتی پلان، عملی منشور
پاکستان نے دوحہ میں ہونے والے ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کی تیاری کے وزارتی اجلاس میں اسرائیل کے خلاف 7 نکاتی پلان پیش کردیا۔ سات نکاتی پلان میں اسرائیل کا احتساب، جنگی جرائم کے لیے اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا، اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرنا، رکن ممالک کی طرف سے تعزیری اقدامات کا نفاذ، غزہ میں بلا روک ٹوک انسانی رسائی کو یقینی بنانا، دو ریاستی حل کے لیے حقیقی سیاسی عمل کو زندہ کرنا اور عرب اسلامی ٹاسک فورس کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔
درحقیقت، یہ واقعہ ایک چیلنج ہے کہ عالمی قوانین، ریاستوں کی خود مختاری اور سفارتی عزت و وقارکی حفاظت کے لیے ہم کس قدر متحد ہو سکتے ہیں۔ قطر پر اسرائیلی فضائی حملہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں، بلکہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشورکی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ مڈل ایسٹ کی تمام ریاستوں کی سالمیت خطرے میں ہے، حتیٰ کہ وہ ثالثی اور امن مذاکرات کی میزبانی ہی کیوں نہ کر رہی ہوں۔
پاکستان کی حکمتِ عملی، خاص طور پر نائب وزیر اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا سات نکاتی پلان، اس پسِ منظر میں نہایت اہم ہے۔ یہ منصوبہ محض ردعمل نہیں، بلکہ ایک مرکزی سیاسی عزم ہے کہ غیر قانونی حملوں کے خلاف مسلم دنیا نہ صرف بیانیہ تشکیل دے بلکہ عملی اقدامات اٹھائے۔ احتساب، اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی معطلی، جنگی جرائم پر مقدمات ، یہ تمام مطالبات ایسے ہیں جو فلسطینی مظلومیت کے تناظر میں مسلم ریاستوں کی اخلاقی اور سیاسی ذمے داری کا حصہ ہیں۔ عملی امکانات کا جائزہ لیا جائے تو کئی سوالات جنم لیتے ہیں، متحدہ ردعمل کہاں تک ممکن ہے؟ کون سی ریاستیں اپنے قومی مفادات کو عبور کر کے مسلم اتحاد کا حصہ بنیں گی؟ اقتصادی پابندیاں لگانا، سفارتی تعلقات محدود کرنا، یا حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کرنا، یہ تمام اقدامات چیلنجز کے حامل ہیں۔ قوت عمل کی کمی، علاقائی اختلافات، حصول مفاداتِ طاقت، یہ عوامل اکثر ایسے اقدامات کو کمزور یا متزلزل بنا دیتے ہیں۔
غزہ میں انسانی رسائی یقینی بنانا ایک فوری ضرورت ہے۔ انسانیت کو تحفظ کی ضرورت ہے، بنیادی امداد، طبی سہولیات، پناہ گزینوں کا تحفظ یہ وہ حقائق ہیں جنھیں چشمِ تصور سے نہیں دیکھا جائے گا، لیکن یہ رسائی کیسے ممکن بنے گی؟ انسانی تنظیموں، اقوام متحدہ اور علاقائی ریاستوں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ رکاوٹیں دور ہوں، راستے کھلیں اور امدادی کام محفوظ اور بلاخوف جاری رہیں۔دو ریاستی حل کا اعادہ کرنا، اور اسے حقیقی سیاسی سطح پر زندہ کرنا، ایمنسٹریٹیو اور سفارتی محاذوں پر ایک مستقل عزم درکار ہے۔ یہ حل صرف میز پر قراردادیں نہیں بلکہ زمین پر اقدامات، مذاکرات، ریاستی حدود، القدس کی حیثیت اور فلسطینی ریاست کا تسلیم شدہ جغرافیہ ہونے چاہیے۔ بین الاقوامی ثالثی کی ضرورت ہے، جس میں غیر جانبدار ممالک کا کردار ہو، اقوام متحدہ کا دائرہ کار ہو اور عرب دنیا سمیت اسلامی تعاون تنظیم کا تعاون ہو۔
عرب اسلامی ٹاسک فورس کا تصور اہم ہے، مگر اس کی افادیت کا انحصار اس کی تشکیل، اختیارات، مستحکم رہنمائی اور مشترکہ سیاسی عزم پر ہو گا۔ کیا یہ فورس صرف قانونی و سفارتی رد عمل کا مرکز ہوگی یا اس کے پاس کوئی عملی صلاحیت ہو گی جیسے مخصوص پابندیاں نافذ کرنا، جنگ بندی کا مطالبہ کرنا یا حتیٰ کہ عالمی فورمز پر اسرائیل کی کارکردگی کو شہری قانون کے دائرے میں لانا؟ یہ فیصلہ اورکام کرنے کی صلاحیت ہونا چاہیے، تاکہ اس کا وجود محض علامتی نہ ہو۔
پاکستان کے لیے یہ صورتحال موقع بھی ہے اور ذمے داری بھی۔ پاکستان عملی سطح پر ایک مخلص، موثر اور متوازن کردار ادا کرے۔ مسلم ممالک کے ساتھ مل کر بین الاقوامی قانونی و سفارتی محاذ تشکیل دے، انسانی امداد فراہم کرنے والوں کے کردار میں تعاون کرے اور عالمی برادری کے سامنے یہ موقف پیش کرے کہ امن اور انصاف کے اصول غیر متزلزل ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ اس منصوبے کی ترجمانی داخلی استحکام کے ساتھ کرے۔
عوامی رائے کی توقعات کو پورا کرنا ہو گا، میڈیا اور دانشورانہ حلقوں میں بحث و مباحثہ ہو، تاکہ حکومتی اقدامات مستحکم ہوں۔ داخلی اقتصادی مشکلات، خارجہ دباؤ اور علاقائی سیاست کے تقاضے حکومت کو محتاط بنا سکتے ہیں، مگر یہ وقت پسپائی کا نہیں، بلکہ عزمِ عملی کا ہے۔اب اقوام متحدہ کے امن مشن کی سالمیت خطرے میں ہے، سفارتکاری کی روشنی مدھم ہو رہی ہے اور انسانی المیے کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے، اگر اسلامی دنیا متحد ہو، مسلم قیادت عزم دکھائے، اگر عالمی قوانین کا اطلاق ہو، اگر انسانی حق اور ریاستِ فلسطین کا مطالبہ واضح اور مسلسل ہو، تو یہ لمحہ تاریخ میں ایک تبدیلی کا نکتہ بن سکتا ہے۔
آج قطر پر حملہ، ایک خود مختار ریاست کی خود مختاری پر حملہ ہے اور یہ لمحہ ہے کہ شعور، اتحاد اور اخلاقی طاقت اپنی قوت کا مظاہرہ کرے۔ یہ عملی عزم کا وقت ہے، ایسی پالیسیاں جن کی بنیاد عدالت، انصاف اور انسانیت ہو۔ ایسی پالیسی جس سے نہ صرف فلسطینیوں کے حق کا تحفظ ہو، بلکہ بین الاقوامی امن وپائیداری کو بھی کوئی گزند نہ پہنچے۔چین کے مندوب نے کہا کہ اسرائیلی حملے نے جاری سفارت کاری کو متاثر کیا ہے۔ خصوصاً جب امریکا نے 7 ستمبر کو جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی جسے اسرائیل نے قبول کیا۔ محض دو دن بعد اس تجویز پر بات چیت کرنے والی حماس کی ٹیم کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بد نیتی، غیر ذمے داری اور دانستہ طور پر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا عمل ہے جو قابلِ مذمت ہے۔پاکستان کا سات نکاتی منصوبہ اگر ایک عملی منشور بن جائے تو مسلم امن کی راہ میں نئے دریچے کھل سکتے ہیں۔
وہ دن اگرچہ دور نہیں کہ عالمی طاقتیں بھی جان لیں گی کہ ریاستوں کے وقار، قانونِ بین الاقوامی کی حکمرانی اور انسانیت کی آواز کوئی مفاہمت نہیں کرتی،کوئی سودے بازی نہیں ہوتی۔ واشنگٹن کی اسرائیل کے ساتھ ترجیحی و جانبدارانہ پالیسی نے خطے میں اس کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے اور اس کے دوست ممالک کو ناراض کیا ہے۔ دوحہ میں موجود حماس کے رہنماء غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کا جائزہ لے رہے تھے، اسی دوران صیہونی رجیم نے تمام سفارتی قوانین کو روندتے ہوئے ان پر حملہ کر دیا۔
اب مسلم حکمرانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ انھوں نے اب تک امریکا سے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جدید ترین فوجی سازوسامان خریدا ہے اور امریکا کو اپنے ملک میں فوجی اڈے فراہم کیے ہیں جن کا واحد مقصد ان کی قومی سلامتی کی حفاظت اور دفاع کرنا تھا لیکن حالیہ اسرائیلی حملے میں نہ تو امریکا اور نہ ہی برطانیہ نے ان کا ساتھ دیا اور نہ اسرائیل کو روکا ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ قطر میں امریکا کا جدید ترین میزائل ڈیفنس سسٹم سویا رہا اور اسرائیلی میزائل دارالحکومت دوحہ پر گرتے رہے؟ کیا اب وہ وقت نہیں آیا کہ مسلم حکمران خطے سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور دوست اور دشمن کی حقیقی پہچان حاصل کریں۔
اب سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کے خلاف کیا کہا جائے، سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ اگر مسلم دنیا واقعی اسرائیلی جارحیت سے تنگ آ چکی ہے اور وہ فلسطینیوں کو انصاف دلانا چاہتی ہے، اگر وہ اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنا چاہتی ہے، تو اب وقت ہے کہ بیانات سے آگے بڑھ کر اقدامات کیے جائیں۔ اقتصادی پابندیاں، سفارتی دباؤ، بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات، اقوام متحدہ میں قراردادیں، انسانی امداد کی ترسیل، یہ سب کام کرنے کے ہیں اور یہ سب ایک دن میں نہیں ہوں گے، اس کے لیے مستقل مزاجی، اتفاق رائے، اور سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔
اس وقت اسرائیل کی جارحیت صرف فلسطینیوں کے لیے خطرہ نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا کے لیے ایک انتباہ ہے۔ اگر آج قطر جیسے پرامن اور سفارتی کردار ادا کرنے والے ملک کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے، تو کل کوئی اور ملک بھی اس فہرست میں ہو سکتا ہے۔ یہی آج کا سوال ہے کہ اب اگلا نشانہ کون سا اسلامی ملک ہو گا۔اس لیے ضروری ہے کہ تمام مسلم ممالک اس حملے کو ایک سنگین خطرہ سمجھیں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔
یہ موقع ہے کہ مسلم دنیا عملی اقدامات کر کے دنیا کو دکھائے کہ ظلم کے خلاف ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ پاکستان نے پہل کر دی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ باقی دنیا، خصوصاً مسلم ممالک، اس پہل کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔ اگر آج ہم متحد ہو گئے، تو کل فلسطین آزاد ہو گا۔ لیکن اگر آج بھی ہم صرف مذمتی قراردادیں منظور کر کے، بیانات دے کر اور کانفرنسیں منعقد کر کے مطمئن ہو گئے، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔