سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کا دورہ امریکا اور PTI کی ’’فری عمران‘‘ مہم
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
اسلام آباد: (انصارعباسی)… سابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اپنےدورہ امریکا کے دوران امریکا میں مقیم تحریک انصافپارٹی کے ان رہنماؤں کے ساتھ پارٹی کی “عمران رہائی” کی مہم کو امریکہ میں فعال طور پر آگے بڑھا تے رہے ہیں۔
اس مہم میں پارٹی کے چند رہنما اورپارٹی عہدیدارایسی سرگرمیوں میں ملوث رہے جنہیں حکومت اور ریاستی ادارے “ریاست مخالف” یا “فوج مخالف” سرگرمیاں قرار دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ بیرونِ ملک ان کی سرگرمیوں کا مقصد قانون کی بالادستی یقینی بنانا اور پارٹی و قیادت کے خلاف ہونے والے مبینہ انتقامی اقدامات کے خلاف آواز بلند کرنا ہے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ان سرگرمیوں میں قومی اداروں، خصوصاً فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا گیا اور بعض اقدامات سے ریاستی مفادات کو بھی نقصان پہنچا۔
بیرون ملک تحریک انصاف زیادہ ترامریکا میں سرگرم رہی لیکن نہ تو سابق بائیڈن انتظامیہ نے نہ ہی موجودہ صدر ٹرمپ نے پی ٹی آئی کی توقعات کے مطابق پاکستان پر کوئی دباؤ ڈالا۔
ڈاکٹر عارف علوی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اپنے حالیہ امریکی دورے میں انہوں نے ارکان کانگریس ہیلی سٹیونز، جیک برگمین، اور لاس ویگاس کی میئر شیلی برکلی سمیت متعدد اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں، جن میں انہوں نے عمران خان کی رہائی کا مقدمہ پیش کیا۔
اس کے علاوہ وہ فاکس نیوز پر بھی نمودار ہوئے جہاں انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان میں یو ایس ایڈ کے فنڈز کا استعمال انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کے لیے کیا گیا۔ انہوں نے کہا میں امریکا میں عمران خان کو آزادی دلوانے کے مشن پر ہوں۔
انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بھی بات کی اور دعویٰ کیا کہ 26 نومبر کو “درجنوں افراد” جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ڈاکٹر علوی کی یہ ملاقاتیں اور میڈیا میں شرکت پی ٹی آئی امریکہ چیپٹر کے تعاون سے ممکن ہوئیں، جن میں شہباز گل، قاسم سوری اور دیگر شامل تھے۔ ان افراد پر حکومت کی جانب سے ریاستی اداروں خصوصاً فوج کے خلاف مہم چلانے اور سوشل میڈیا پر گمراہ کن بیانیہ پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
حکام کی تحقیقات کے مطابق شہباز گل اور قاسم سوری ان پی ٹی آئی رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے بیرونِ ملک فوج کے خلاف منفی مہموں میں حصہ لیا۔ ان کی کوششوں میں امریکی کانگریس میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر قراردادیں پیش کرانے کا مقصد بھی شامل تھا۔
بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل عاصم منیر کے خلاف بار بار منفی باتیں کی گئیں، اور امریکی کانگریس میں ایک مجوزہ قانون سازی کی بھی لابنگ کی گئی جس کا مقصد پاکستانی فوجی قیادت پر امریکی ویزا کی پابندی لگوانا تھا۔
امریکا میں مقیم پی ٹی آئی کے ایک رہنما کا سابق امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد سے قریبی رابطہ بھی زیرِ بحث آیا ہے، جو اکثر پاکستانی فوج پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بیرونِ ملک تنظیمی سیکریٹری سجاد برکی، لندن میں مقیم بین الاقوامی میڈیا کوآرڈینیٹر زلفی بخاری، اور امریکہ و برطانیہ میں متحرک دیگر رہنما جیسے عاطف خان اور ملک عمران خلیل بھی حکام کی نظر میں ہیں۔
سجاد برکی اور عاطف خان پی ٹی آئی امریکہ چیپٹر سے جبکہ ملک عمران خلیل، نظر عباس، معاذ ملک اور ناصر میر پی ٹی آئی برطانیہ چیپٹر سے تعلق رکھتے ہیں۔پی ٹی آئی کے امریکہ اور برطانیہ چیپٹر نے اپریل 2022 سے اب تک 20 سے زائد احتجاجی مظاہرے کیے ہیں، جن کا مرکزی موضوع انتخابی عمل میں مبینہ دھاندلی، حکومت کی تبدیلی میں فوج کے مبینہ کردار، پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف مقدمات، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، یو ایس ایڈ کے فنڈز کا مبینہ غلط استعمال، آئی ایم ایف قرضوں کی مخالفت اور اعلیٰ عسکری قیادت کے خلاف عوامی بیانیہ رہا ہے۔
(انصارعباسی)
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امریکا میں پی ٹی ا ئی انہوں نے کے خلاف
پڑھیں:
امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیسکو سے علیحدگی کی وجہ ادارے کی جانب سے ''تفریق کرنے والے سماجی و ثقافتی نظریات کو فروغ دینا‘‘ ہے۔
بروس نے کہا کہ یونیسکو کا فیصلہ کہ وہ ’’فلسطین کی ریاست‘‘ کو رکن ریاست کے طور پر تسلیم کرتا ہے، امریکی پالیسی کے منافی ہے اور اس سے ادارے میں اسرائیل مخالف بیانیہ کو فروغ ملا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی اسسٹنٹ پریس سیکرٹری اینا کیلی نے کہا، ''یونیسکو ایسے تقسیم پسند ثقافتی و سماجی مقاصد کی حمایت کرتا ہے جو ان عام فہم پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتیں جن کے لیے امریکی عوام نے نومبر میں ووٹ دیا۔
(جاری ہے)
‘‘
یونیسکو کا ردِعملیونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے واشنگٹن کے فیصلے پر ''گہرے افسوس‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ اس صورتحال کے لیے پہلے سے تیار تھا۔
انہوں نے اسرائیل مخالف تعصب کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا، ''یہ دعوے یونیسکو کی اصل کوششوں کے برخلاف ہیں۔‘‘
اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں یونیسکو کے لیے ''غیر متزلزل حمایت‘‘ کا اعلان کیا اور کہا کہ امریکہ کا فیصلہ فرانس کی وابستگی کو کمزور نہیں کرے گا۔
یونیسکو کے اہلکاروں نے کہا کہ امریکی علیحدگی سے ادارے کے کچھ امریکی فنڈ سے چلنے والے منصوبوں پر محدود اثر پڑے گا، کیونکہ ادارہ اب متنوع مالی ذرائع سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کا صرف 8 فیصد بجٹ ہی امریکہ سے آتا ہے۔
اسرائیل کا ردعملاسرائیل نے امریکہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے یونیسکو پر ''مسلسل غلط اور اسرائیل مخالف جانبداری‘‘ کا الزام عائد کیا۔
اسرائیلی وزیر خارجہ نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں امریکہ کی ''اخلاقی حمایت اور قیادت‘‘ کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’اسرائیل کو نشانہ بنانے اور رکن ممالک کی سیاسی چالوں کا خاتمہ ضروری ہے، چاہے وہ یونیسکو ہو یا اقوام متحدہ کے دیگر پیشہ ور ادارے۔
‘‘ امریکہ پہلے بھی یونیسکو چھوڑ چکا ہےیونیسکو طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان ایک بین الاقوامی محاذ رہا ہے، جہاں فلسطینی عالمی اداروں اور معاہدوں میں شمولیت کے ذریعے اپنی ریاستی حیثیت تسلیم کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسرائیل اور امریکہ کا مؤقف ہے کہ فلسطین کو اس وقت تک کسی بھی بین الاقوامی ادارے میں شامل نہیں ہونا چاہیے جب تک وہ اسرائیل کے ساتھ ایک مکمل امن معاہدے کے تحت ریاستی درجہ حاصل نہ کر لے۔
امریکہ نے پہلی بار 1980 کی دہائی میں یونیسکو پر سوویت نواز جانبداری کا الزام لگا کر اس سے علیحدگی اختیار کی تھی، لیکن 2003 میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی۔ لیکن سابق صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں دو سال قبل امریکہ نے یونیسکو میں دوبارہ شمولیت اختیار کی تھی ۔
ادارت: صلاح الدین زین