اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں صحافی وحید مراد کی پیشی
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں صحافی وحید مراد کی پیشی WhatsAppFacebookTwitter 0 26 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: صحافی وحید مراد کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں پیش کر دیا گیا، جہاں ایف آئی اے نے ان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔
وحید مراد کو رات گئے ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق، پولیس نے ان کے گھر کا دروازہ توڑ کر زبردستی داخل ہونے کے بعد انہیں حراست میں لیا۔ وحید مراد کا کہنا ہے کہ انہیں ایف آئی اے کے حوالے کیے جانے سے قبل ان کی ساس پر بھی تشدد کیا گیا۔
کیس کی سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ ایف آئی اے عباس شاہ کریں گے۔ دوران سماعت، جج عباس شاہ نے ایف آئی اے حکام سے دریافت کیا کہ وحید مراد کو کب گرفتار کیا گیا؟ جس پر ایف آئی اے حکام نے جواب دیا کہ انہیں گزشتہ رات حراست میں لیا گیا تھا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق، وحید مراد پر بی ایل اے کی پوسٹس اور بلوچستان سے متعلق حساس موضوعات پر سوشل میڈیا پوسٹس کرنے کا الزام ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ ان کے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور فیس بک اکاؤنٹس سے متعلق تحقیقات کرنا چاہتے ہیں اور ان کا موبائل فون بھی برآمد کرنا ضروری ہے۔ ایف آئی اے نے عدالت سے وحید مراد کے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔
وحید مراد کے وکلاء، ایمان مزاری اور حادی علی چٹھہ نے ایف آئی اے کے الزامات کی سختی سے مخالفت کی۔ ایمان مزاری نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ وحید مراد کو حبسِ بے جا میں رکھنے کے خلاف درخواست دائر کی جا چکی ہے۔
وکیل حادی علی چٹھہ نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر کوئی جرم سرزد ہی نہیں ہوا تو عدالت وحید مراد کو فوری طور پر ڈسچارج کر سکتی ہے یا جوڈیشل ریمانڈ دے سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں کو محض حراساں کرنے کے لیے گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ایمان مزاری نے سوال اٹھایا کہ کیا ایف آئی اے نے پہلے وحید مراد کو کوئی نوٹس جاری کیا تھا؟
حادی علی چٹھہ نے مؤقف اختیار کیا کہ ملک میں صحافت کو جرم بنا دیا گیا ہے اور صحافیوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کو اس معاملے میں انصاف پر مبنی فیصلہ دینا ہوگا۔
یہ کیس اس وقت صحافتی آزادی اور انسانی حقوق کے حوالے سے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ عدالت کی جانب سے مزید کارروائی کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد
پڑھیں:
صدر ٹرمپ پر نفرت کا الزام لگانے والا امریکا صحافی معطل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا میں اِس وقت ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ امریکا کو صحافتی آزادی کے علم برداروں میں نمایاں سمجھا جاتا ہے۔ امریکی ادارے دنیا بھر میں صحافتی آزادی جانچتے رہتے ہیں مگر خود امریکا میں اس حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ شرم ناک ہے۔
امریکی میڈیا گروپ اے بی سی کے رپورٹر ٹیری مورن کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے معاون اسٹیفن ملر کو اول درجے کے نفرت پھیلانے والے قرار دینے کی پاداش میں معطل کردیا گیا ہے۔ ٹیری مورن نے ایک ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ امریکی صدر جو کچھ کر رہے ہیں اُس کے نتیجے میں امریکا اور امریکا سے باہر نفرت پھیل رہی ہے۔ ایسی کیفیت کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔
ٹیری مورن نے جو کچھ کہا وہ امریکا میں کسی بھی سطح پر حیرت انگیز نہیں۔ حکومتی شخصیات پر غیر معمولی تنقید امریکی صحافت کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ ڈیموکریٹس پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی رہی ہے مگر اُنہوں نے کبھی اِس نوعیت کے اقدامات نہیں کیے۔ سابق صدر جو بائیڈن پر غیر معمولی تنقید کی جاتی رہی مگر اُنہوں نے کسی بھی بات کو پرسنل نہیں لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مزاج بہت الگ، بلکہ بگڑا ہوا ہے۔ وہ امریکی معاشرے اور ثقافت کی بنیادیں ہلانے والے اقدامات کر رہے ہیں۔ میڈیا کو دباؤ رکھنا بھی اُن کے مزاج اور پالیسیوں کا حصہ ہے۔
ٹیری مورن کے خلاف کی جانے والی کارروائی پر امریکا میں میڈیا کے ادارے جُزبُز ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ اِس نوعیت کے اقدامات سے ٹرمپ انتظامیہ میڈیا کے اداروں کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر یہ سب کچھ برداشت نہیں کیا جائے گا اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے علم بردار اداروں اور تنظیموں کے پلیٹ فارم سے شدید احتجاج کیا جائے گا۔