بی ایل اے، بلوچستان سے متعلق پوسٹس کا الزام: صحافی وحید مراد کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچستان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹس کرنے صحافی وحید مراد کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
رپورٹ کے مطابق رات گئے گرفتار کیے گئے صحافی وحید مراد کو عدالت میں پیش کیا گیا، جوڈیشل مجسٹریٹ ایف آئی اے عباس شاہ نے کیس کی سماعت کی۔
وحید مراد کا کہنا تھا کہ میں نے کہا اپنی شناخت کروائی، میری ساس کینسر کی مریضہ ہیں،
میری ساس کینیڈا سے علاج کرانے کے لیے آئیں ہیں، 20 منٹ پہلے مجھے ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا ہے۔
وحید مراد کے وکیل ہادی علی چٹھہ نے استدعا کی کہ ہمیں ایف آئی آر دیکھنے کی اجازت دی جائے، فریقین کے دلائل سننے کے بعد جج عباس شاہ نے صحافی وحید مراد کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
صحافی وحید مراد نے کہا کہ پولیس دروازہ توڑ کر گھر داخل ہوئی، ساس کو بھی مارا گیا بیس منٹ پہلے مجھے ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا۔
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ وحید مراد کو حبس بے جا میں رکھنے کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے ۔
جج عباس شاہ نے استفسار کیا کہ وحید مراد کو کب گرفتار کیا گیا، ایف آئی اے نے جواب دیا کہ کل رات گرفتار کیا گیا، بی ایل اے کی پوسٹس اور بلوچستان کے حوالے سے وحید مراد نے پوسٹس کیں، ایکس اور فیس بک اکائونٹ کے حوالے سے تفتیش کرنی ہے۔
ایف آئی اے حکام نے کہا کہ وحید مراد کا موبائل بھی ریکور کرنا ہے، وحید مراد کا دس روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ وحید مراد صحافی ہیں ان کا ریمانڈ کیوں چاہئے، وکیل حادی علی چٹھہ نے کہا کہ صحافت اس ملک میں جرم بن چکا ہے۔
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ کیا ایف آئی نے پہلے وحید مراد کو نوٹس جاری کیا تھا، وکیل حادی علی چٹھہ نے کہا کہ جرم ہوا ہی نہیں تو عدالت ڈسچارج بھی کرسکتی ہے اور جوڈیشل بھی کر سکتی ہے، صحافیوں کو حراساں کرنے کیلئے گرفتار کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے محفوظ فیصلہ جاری کرتے ہوئے صحافی وحید مراد کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صحافی وحید مراد کہ وحید مراد وحید مراد کا وحید مراد کو ایف آئی اے نے کہا کہ کے حوالے کیا گیا
پڑھیں:
سردار شیر باز کا مزید 10 روزہ ریمانڈ: بلوچی رسم و رواج کے مطابق سزا دی گئی، والدہ مقتولہ
کوئٹہ+ کراچی (نیٹ نیوز) انسداد دہشت گردی عدالت کوئٹہ نے خاتون اور مرد کے قتل کے مقدمے میں نامزد ملزم سردار شیر باز ساتکزئی کو مزید 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ کوئٹہ میں انسداد دہشت گردی عدالت نمبر ایک میں خاتون اور مرد کے قتل کیس کی سماعت ہوئی، نامزد ملزم سردار شیر باز ستکزئی کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے پولیس کی استدعا پر مزید 10 روز کا ریمانڈ منظور کرتے ہوئے سردار شیر باز ستکزئی کو سیریس کرائم انوسٹی گیشن ونگ کے حوالے کر دیا۔ بلوچستان میں قتل خاتون کی والدہ کا تہلکہ خیز بیان سامنے آگیا جس نے کیس کا رخ ہی موڑ دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مقتولہ کی والدہ نے اپنے جاری مبینہ بیان میں کہا کہ میرا نام گل جان ہے اور میں بانو کی ماں ہوں، جھوٹ نہیں بول رہی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ بانو پانچ بچوں کی ماں تھی اور کوئی بچی نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا بڑا بیٹا نور احمد ہے، جس کی عمر 18 سال ہے۔ دوسرا بیٹا واسط ہے، جو 16 سال کا ہے۔ اس کے بعد اس کی بیٹی فاطمہ ہے، جو 12 سال کی ہے۔ پھر اس کی بیٹی صادقہ ہے، جو 9 سال کی ہے اور سب سے چھوٹا بیٹا زاکر ہے، جس کی عمر 6 سال ہے۔ والدہ نے کہا کہ یہ کوئی بے غیرتی نہیں تھی بلکہ بلوچ رسم و رواج کے مطابق کیا گیا، بانو 25 دن احسان کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور وہ اس کے ساتھ رہ رہی تھی۔ 25 دن بعد وہ واپس آ گئی۔ تب بانو کے شوہر نے بچوں کی خاطر اسے معاف کر دیا اور اسے ساتھ رکھنے پر راضی ہو گیا۔ احسان اللہ آئے روز میرے بیٹوں کو دھمکیاں دیتا تھا، آئے روز ٹک ٹاک ویڈیوز بنا کر میرے بیٹوں کو طیش دلاتا تھا۔ بیٹی بانو کو بلوچی رسم و رواج کے مطابق سزا دی گئی۔ بلوچی معاشرتی جرگے کے ذریعے بانو کو سزا دی گئی، ہمارے لوگوں نے کوئی ناجائز فیصلہ نہیں کیا، ہم نے لڑکی کو قتل کرنے کا فیصلہ سردار شیر باز ساتکزئی کے ساتھ نہیں، بلکہ بلوچی جرگے میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اپیل کرتی ہوں کہ سردار شیر باز ساتکزئی اور دیگر گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی خواتین ارکان نے سندھ اسمبلی میں بلوچستان میں جوڑے کے بہیمانے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد جمع کرا دی۔ بلوچستان میں جوڑے کے بہیمانے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد رکن صوبائی اسمبلی سعدیہ جاوید اور ہیر سوہو نے جمع کروائی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ وحشیانہ عمل آئین پاکستان کے خلاف ہے اور مذکورہ قرارداد میں قتل کے عمل کو غیر اسلامی اور غیر ثقافتی قرار دیا گیا ہے۔ ارکان صوبائی اسمبلی نے قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت قاتلوں کو جلد سے جلد گرفتار کرے، غیرت کے نام پر اس طرح کے واقعات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔