ایک ہی دن میں امریکی ’گولڈ کارڈ‘ ویزا اسکیم کے 1000 کارڈ فروخت
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
امریکا کے وزیر تجازت ہاورڈ لٹنک کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ کی ’گولڈ کارڈ‘ ویزا اسکیم مقبول ہو رہی ہے، ایک ہزار کارڈ ایک ہی دن میں فروخت ہوگئے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ہاورڈ لٹنک کا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہوں نے ایک ہی دن میں ایک ہزار گولڈ کارڈ فروخت کردیے ہیں اور لوگ گولڈ کارڈ خریدنے کیلئے بڑی تعداد میں رابطہ کررہے ہیں۔
امریکی وزیر تجارت کا کہنا تھا کہ ’گولڈ کارڈ‘ ویزا اسکیم کا باقاعدہ آغاز دو ہفتے کے اندر کیا جائے گا۔ان کے مطابق اس وقت ایلون مسک اس پروگرام کیلئے سوفٹ ویئر تیار کروا رہے ہیں اور اس کے بعد دو ہفتوں کے اندر اسے لانچ کیا جائے گا۔ ’’گزشتہ دن میں نے اس ویزا اسکیم کے ایک ہزار کارڈ فروخت کئے‘‘۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ امریکی ہیں تو آپ گلوبل ٹیکس ادا کرتے ہیں، لیکن باہر کے لوگ گلوبل ٹیکس دینے امریکا نہیں آئیں گے، تو اگر آپ کے پاس گرین کارڈ ہے یا اب گولڈ کارڈ ہے تو آپ امریکا کے مستقل رہائشی (ٹیکس ادا کیے بغیر) ہوں گے۔ہارورڈ لٹنک نے مزید کہا کہ آپ شہریت حاصل کرسکتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ لازمی شہری بن جائیں اور ان میں سے کوئی بھی نہیں بنے گا، (تاکہ ان کو گلوبل ٹیکس نہ دینا پڑے)۔
امریکی وزیر تجارت کے مطابق امریکا نے 1000 گولڈ کارڈ 50 لاکھ ڈالر فی کارڈ کے حساب سے فروخت کر دیئے ہیں جس کے نتیجے میں 5 ارب ڈالر کی رقم امریکا آئی، اس پروگرام کی سرمایہ کاروں میں بہت طلب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو افراد 50 لاکھ ڈالر میں ’گولڈ کارڈ‘ خرید کر امریکا میں رہنے کے حقوق حاصل کریں گے، ان کی چھان بین کی جائے گی تاکہ یہ کارڈ اچھے افراد کو ملے، اگر کارڈ خریدنے والے بُرے افراد نکلے یا کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث پائے گئے تو امریکا ان کا کارڈ منسوخ بھی کرسکتا ہے۔
ہاورڈ لٹنک نے مزید کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق دنیا میں 3 کروڑ 70 لاکھ افراد ایسے ہیں جو امریکا کا ’گولڈ کارڈ‘ خرید سکتے ہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ ہم 10 لاکھ گولڈ کارڈ فروخت کرسکتے ہیں۔امریکی وزیر تجارت کا کہنا ہے کہ اس سرکاری پروگرام سے حاصل شدہ رقم کو مالیاتی خسارہ کم کرنے کیلئے استعمال کیا جائے گا۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کارڈ فروخت ویزا اسکیم گولڈ کارڈ کے مطابق کا کہنا
پڑھیں:
اسرائیل کی حمایت میں امریکا کا ایک بار پھر یونیسکو چھوڑنے کا اعلان
امریکا نے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو (UNESCO) سے دوبارہ علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ یونیسکو اسرائیل کے خلاف تعصب رکھتا ہے اور عالمی سطح پر ’’تقسیم پیدا کرنے والے‘‘ سماجی و ثقافتی ایجنڈے کو فروغ دیتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ یونیسکو میں رہنا "امریکی قومی مفاد میں نہیں" ہے۔ یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں بھی کیا تھا، لیکن جو بائیڈن کے دور میں امریکا دوبارہ یونیسکو کا رکن بن گیا تھا۔
اب ٹرمپ کی واپسی کے بعد ایک بار پھر امریکا کا ادارے سے نکلنے کا اعلان سامنے آیا ہے، جو دسمبر 2026 میں مؤثر ہو گا۔
یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ملٹی لیٹرلزم (کثیر الجہتی تعاون) کے اصولوں کی نفی کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ فیصلہ متوقع تھا اور ادارہ اس کے لیے تیار ہے۔
یونیسکو نے کہا کہ امریکی انخلا کے باوجود ادارے کو مالی طور پر بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ گزشتہ دہائی میں امریکا کی بجٹ میں شراکت 20 فیصد سے کم ہو کر اب 8 فیصد رہ گئی ہے۔
امریکا نے یونیسکو پر الزام لگایا ہے کہ اس نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرکے اسرائیل مخالف بیانیہ بڑھایا ہے اور مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینی ثقافتی مقامات کو عالمی ورثہ قرار دینا بھی امریکی پالیسی کے خلاف ہے۔
اسرائیل نے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، جب کہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے یونیسکو کی مکمل حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکا اس سے پہلے بھی 1980 کی دہائی میں ریگن حکومت کے تحت یونیسکو سے نکل چکا ہے، اور 2000 کی دہائی میں صدر بش کے دور میں دوبارہ شامل ہوا تھا۔