حکومت کابچوں کی پیدائشی رجسٹریشن سے متعلق اہم فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
سندھ حکومت نے بچوں کی پیدائش کی 100فیصد رجسٹریشن کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق چیف سیکریٹری سندھ کی زیرصدارت بچوں کی پیدائشی رجسٹریشن سے متعلق اجلاس ہوا جس میں بچوں کی رجسٹریشن کے طریقہ کار اور اس میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے تجاویز پر غور کیا گیا۔حکومت نے بچوں کی پیدائش کی 100فیصد رجسٹریشن کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔رجسٹریشن کو لازمی بنانے کے لیے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کی جائے گی۔
چیف سیکرٹری کا کہنا ہے کہ بچوں کی صحت، تعلیم اور دیگر حقوق کی فراہمی کیلئے رجسٹریشن بنیادی قدم ہے سندھ حکومت نے صوبے بھر میں پیدائش کی رجسٹریشن کو مفت کر دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حفاظتی ٹیکوں، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی میں رجسٹریشن معاون ہو گی۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رجسٹریشن کو بچوں کی
پڑھیں:
وفاقی حکومت کا اقتصادی سروے: 2کروڑ 48 لاکھ بچوں کا اسکولوں سے باہر رہنے کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اقتصادی سروے رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں 2 کروڑ 48 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں جبکہ ملک میں شرح خواندگی 60 اعشاریہ 6 فیصد ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اقتصادی سروے 25-2024 کے مطابق تعلیم کے شعبے پر مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا محض 0.8 فیصد خرچ کیا گیا۔
اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر شرح خواندگی 60.6 فیصد رہی، مردوں کی شرح خواندگی 68 فیصد اور خواتین کی شرح خواندگی 52.8 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ خواجہ سراؤں کی خواندگی 40.2 فیصد ہے، یعنی مرد خواتین سے 16 فیصد زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔
رواں مالی سال میں شہری علاقوں میں خواندگی کی شرح 74 فیصد جبکہ دیہات میں 51.6 رہی، پنجاب 66.3 فیصد کے ساتھ سرفہرست ہے، سندھ میں 57.5 فیصد، خیبرپختونخوا میں 51.1 فیصد اور بلوچستان میں 42.0 فیصد خواندگی کی شرح ہے۔
ملک میں 2 کروڑ 48 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں، بلوچستان 69 فیصد کے ساتھ سرفہرست ہے، سندھ میں 47 فیصد، پنجاب میں 32 فیصد اور خیبرپختونخوا میں سب سے کم 30 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں اس وقت یونیورسٹیوں کی کل تعداد 269 ہے، مجموعی یونیورسٹیوں میں سے 160 سرکاری اور 109 نجی یونیورسٹیاں ہیں۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحت اعلیٰ تعلیم کے شعبے پر 61 ارب 10 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، یونیورسٹی سطح پرپی ایچ ڈی فیکلٹی ممبرز کی شرح 37.97 فیصد ہے۔
اقتصادی رپورٹ کے مطابق ہر چوتھا تعلیمی ادارہ بجلی سے محروم ہے، پاکستان کے ہر تیسرے ادارے میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔