"ٹرمپ کے دوست" کا "خطرناک مسودہ قانون"؛ ٹرک کی نئی بتی
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
سٹی42: پاکستان کی عدالتِ عالیہ میں پی ٹی آئی کے بانی اور ان کی اہلیہ کی 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا معطل کرنے، ضمانت پر رہا کرنے کی درخواستیں زیر سماعت ہیں، کئی مقدمات مین عدالتوں نے ان کی سزائیں منسوخ کر دیں، پاکستان میں تو بانی عدالتوں کی عملاً آزادی سے فیض یاب ہوتے ہیں لیکن امریکہ میں بانی کے حامی ڈالر بانٹ کر ایسا قانون بنوانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے پاکستان کی جمہوریت، آزاد عدلیہ اور جیورس پروڈنس کے مستند نظام کو ڈھکوسلا قرار دے کر عمران خان کو "سیاسی انتْقام" کے لئے عدالتوں سے سزائیں دینے کا مفروضہ گھڑ کر پاکستان کی عدلیہ اور حکومت کی شخصیات پر "پابندیاں" لگائی جائیں گی۔
اہم ملک نے پاکستانی طلبہ کیلئے مفت تعلیم کےدروازے کھول دیے
پاکستان کی عدالتوں سے پیسے کی کرپشن، عوامی عہدے کا ذاتی فائدوں کے لئے استعمال کرنے، توشہ خانہ سے ریاست کی ملکیت تحائف سستے خرید کر ملک سے باہر خفیہ طور پر مہنگے بیچنے اور حاصل ہونے والی رقم کو ٹیکس ریٹرنز اور اپنے اثاثوں کے ڈیکلئیریشن میں ظاہر نہ کرنے، رشوت حاصل کر کے پاکستان کے عوام کی ملکیت 190 ملین پاؤنڈ کی خطیر رقم کرپشن کے جرمانہ یافتہ مجرم کے جرمانہ کی ادائیگی کے لئے منتقل کرنے کی غرض سے اپنی کابینہ کے ارکان ، انگلینڈ کی حکومت اور پاکستانی عوام کو کھلم کھلا دھوکے دینے اور متعدد دوسرے جرائم میں ملوث مجرم عمران خان کو پاکستانی ریاست پر دباؤ ڈال کر جیل سے رہا کروانے میں ناکام ہونے کے بعد عمران خان کے امریکی دوستوں نے امریکہ کی کانگرس میں ایک قانون کا مسودہ پیش کیا ہے جس میں عمران خان کو سزا دینے والے ججوں پر پابندیاں لگانے سے لے کر حکومت اور عمران خان کے مجرمانہ ریکارڈ کو نظر انداز کر کے "متبادل نیریٹو" فیبریکیٹ کرنے والی ایک شہرہ آفاق نیوز آؤٹ لیٹ کے بقول پاکستان آرمی کے چیف پر بھی پابندیاں لگوائی جانے کی کوشش کی جائے گی۔
لاہور؛ عباس لائنز اور ایلیٹ ٹریننگ سکول کی عمارتیں ڈی سیل
امریکہ میں عمران خان کی حامی لابی نے پاکستان میں اخلاقی جرائم میں سزا کاٹ رہے عمران خان کی رہائی کے لئے دباؤ ڈالنے کی خاطر خصوصی قانون بنوانے کی پہلے بھی ایک کوشش کی تھی لیکن اس کوشش کو امریکہ کی سیاست کی میں سٹریم نے نظر انداز کر دیا تھا۔ اب جو نام نہاد قانون سازی کی کوشش کی گئی ہے اس کو بھی ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے مین سٹریم ارکان پارلیمنٹ کی توجہ ملنے کی امید صفر ہے، تاہم اس بل کے مسودہ سے بعض متبادل نیریٹو فیبریکیٹ کرنے والوں کو کچھ مواد ضرور مل گیا ہے۔
سٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی،ڈالر کی قدر میں بھی کمی
بی بی سی نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ تاثر دیا کہ واشنگٹن مین امریکہ کی کانگرس کے دو ارکان نے جو ہائیپوتھیٹکل بِل پیش کیا ہے وہ دراصل پاکستان کے آرمی چیف سمیت پاکستانی قیادت پر پابندی کا بل ہے۔
یہ بل کانگریس کے رپبلکن رکن جو ولسن اور ڈیموکریٹ رکن جیمز ورنی پنیٹا نے پیش کیا ہے
بی بی سی اردو اسلام آباد کی جانب سے فائل کی گئی اس "سٹوری" میں کہا گیا ہے کہ امریکی کانگریس میںعمران خان کی رہائی اور ملک میں جمہوریت کی بحالی سے متعلق ایک بِل پیش کیا گیا ہے اور پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی امریکہ آمد پر پابندی کو بھی اس بِل کا حصہ بنایا گیا ہے۔
ایوان نمائندگان میں 24 مارچ کو رپبلکن رکن جو ولسن اور ڈیموکریٹ رکن کانگریس جیمز ورنی پنیٹا نے ’پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ کے عنوان سے یہ بِل پیش کیا۔
اس بل میں تجویز یہ ہے کہ ایسی مخصوص بیرونی شخصیات پر پابندی عائد کی جائے جو "پاکستان میں سیاسی حریفوں کو قید کرنے اور ان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہیں۔" رپبلکن پارٹی کے غیر اہم رکن جو ولسن کا مطالبہ ہے کہ ’ویزے پر پابندی کے ذریعے پاکستان کی فوجی قیادت پر دباؤ ڈالا جائے تا کہ (پاکستان میں) جمہوریت کی بحالی اور عمران خان کی رہائی ممکن ہو۔‘ جو ولسن غالباً کوئی سستا نشہ بھی کرتے ہیں کہ ان کو پاکستان میں جمہوریت دکھائی ہی نہین دیتی لیکن امریکہ کی حکومت بہرحال پاکستان کے بارے میں ایک معقول اپروچ رکھتی ہے جس کا اظہار بار بار سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور فارن آفس میں پلانٹ کئے گئے سووالوں پر امریکہ ترجمانوں کے پاکستان مین مداخلت نہ کرنے کے واضح بیانات سے ہوتا رہتا ہے۔
دل کا دورہ پڑنے کے بنگلا دیشی کرکٹرتمیم اقبال کی صحت کیسی؟
گذشتہ ہفتے بھی امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے عمران خان کی قید پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی انتظامیہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ہے۔
نام نہاد ’پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ پیش کرنے والے کون ہیں
جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بنے تو پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بعض لوگ یہ متبادل نیریٹو گھڑ رہے تھے کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس مین پہنچے گا تو اڈیالہ جیل سے عمران خان رہا ہو جائے گا۔ امریکی صدر"انسانی حقوق" سے متعلق اپنی آواز بلند کریں گے۔
تاہم ٹرمپ نے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد پاکستان کے معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی انھوں نے عمران خان سے متعلق بات کی۔ کانگریس سے اپنے پہلے خطاب میں انھوں نے پاکستان کا ذکر ضرور کیا مگر یہ شدت پسند تنطیم نام نہاد دولت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے ایک شدت پسند کی گرفتاری سے متعلق تھا اور ٹرمپ نے اس گرفتاری میں مدد کرنے پر پاکستان کی حکومت ( اور اداروں) کا بار بار شکریہ ادا کیا تھا۔
عید کے موقع پر نئے کرنسی نوٹ حاصل کرنے کا طریقہ جانیے
کئی مہینوں تک "ٹرمپ جدوں آؤے گا، لگ پتہ جاوے گا ’ جیسا تخیلاتی نیریٹر بیچنے والی نیوز آؤٹ لیٹ اب بتا رہی ہے کہ ٹرمپ کی پارٹی کا ایک انتہائی غیر اہم رکن پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کے خلاف امریکی ویزوں کی پابندی لگائے گا۔
اس مفروضوں پر مبنی بل میں بی بی سی اردو کے نمائندہ کے بقول ؛لکھا ہے کہ ’جب جنرل عاصم منیر عمران خان سمیت "سیاسی کارکنان" کو رہا کر دیں تو پھر ان پر یہ پابندی اٹھائی جا سکتی ہے۔‘
جو ولسن نے کہا کہ کانگریس میں پیش کیے جانے والا یہ بل پاکستان کے آرمی چیف جنرل ’عاصم منیر پر ایک ماہ کے اندر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔‘
ان کے مطابق اس بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’تمام جرنیلوں اور سرکاری حکام اور ان کے اہل خانہ پر بھی پابندی عائد کرنے کا جائزہ لیا جائے۔‘
جو ولسن ایوان کی خارجہ امور اور آرمڈ سروسز کی کمیٹیوں کے ایک رکن ہیں۔ بی بی سی اردو نیوز نے اسے ایک اہم سیاستدان قرار دیا ہے لیکن وہ بہرحال غیر اہم ہیں اور اپنے اس بے ہودہ الزامات اور ہائیپو ٹھیٹیکل مفروضوں پر مبنی بل کو ڈسٹ بن میں ڈالے جانے کے بعد مزید غیر اہم ہو جائین گے۔
بی بی سی اردو سروس کی "رپورٹ" میں لکھا گیا کہ جوولسن کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا قریبی دوست سمجھا جاتا ہے۔ قابلِ زکر بات یہ ہے کہ جو ولسن کچھ عرصے سے عمران خان کی رہائی سے متعلق متحرک ہیں اور امریکہ میں مفت لنچ کوئی کسی کو نہیں دیتا۔
جو ولسن نے رپبلکن سٹڈی کمیٹی کے سربراہ آگسٹ پلگر کے ساتھ مل کر گذشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ وہ عمران خان کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کی فوجی قیادت سے بات کریں۔ اس خط کے مطالبہ کو وزیرخارجہ نے توجہ کے لائق نہیں سمجھا۔
جو ولسن گزشتہ چند ہفتوں کے دوران سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر متعدد پوسٹس میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن جسے بی بی سی اہم سیاستدان گردانتی ہے، اس کی سوشل میڈیا پوسٹیں امریکہ مین کسی کو متوجہ نہیں کر سکیں۔
جو ولسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر امریکہ کے وزیر خارجہ کے نام اپنا خطہی پوسٹ کر ڈالا، اور لکھا کہ وہ اور آگسٹ پلگر وزیر خارجہ مارکو روبیو پر زور دیتے ہیں کہ ’پاکستان میں جمہوریت کو بحال اور عمران خان کو رہا کروایا جائے۔‘
کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کے بعض پارلیمنٹیرینز کو پاکستان کے خلاف قانون سازی پر اکسانے میں پی ٹی آئی کے بانی کے دوست زلفی بخاری ملوث ہیں۔
پاکستان کے سینیئر صحافی نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ ’یہ خبر پی ٹی آئی کے لیے اطمینان کا باعث تو ہے‘ مگر اس خوشی کی انھیں کوئی منطق سمجھ نہیں آتی۔ ان کی رائے میں ’یہ ایک انفرادی فعل ہے اور ایسی کسی مجوزہ پابندی کا امکان بھی دور دور تک نظر نہیں آ رہا ہے۔‘
ان کی رائے میں اس قانون سازی پر جاری لابنگ حکومت کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہیں بن سکتی ہے۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: عمران خان کی رہائی عمران خان کو پاکستان میں پاکستان کی پاکستان کے پر پابندی امریکہ کی غیر اہم پیش کیا جو ولسن کے لئے گیا ہے رہا کر
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
سویلین حکومت تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے، اسٹیبلشمنٹ اس کی اجازت نہیں دیتی،پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنے کا اختیار نہیں، ترجمان کا ٹی وی چینل کو انٹرویو
امارت اسلامیہ افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنے کا اختیار نہیں۔ عمران کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے تھے، خاص طور پر تجارت، ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کی کوششوں اور دیگر شعبوں میں، سب کچھ آسانی سے چل رہا تھا۔ پاکستان کی سویلین حکومت افغانستان کے ساتھ باہمی مفادات کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ اس کی اجازت نہیں دیتی۔ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مجاہد نے کہا کہ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی ایلچی صادق خان کابل میں تھے اور انہوں نے افغان حکام سے مثبت بات چیت کی، لیکن اسی عرصے کے دوران پاکستان نے افغان سرزمین پر حملے بھی کیے۔مجاہد نے نوٹ کیا کہ پاکستان کی طرف سے ڈیورنڈ لائن کے ساتھ کراسنگ کی بندش سے دونوں طرف کے تاجروں کو بڑا نقصان ہوا ہے، اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے معاملات کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے، دوسری طرف پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات روکنا ہمارا اختیار نہیں۔دریائے کنڑ پر ڈیم بننے کی خبروں پر پاکستان کی تشویش سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغان سرزمین پر تعمیرات اور دیگر سرگرمیاں مکمل طور پر افغانستان کا حق ہے، اگر دریائے کنڑ پر کوئی ڈیم بنایا جاتا ہے تو اس سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، پانی اپنی قدرتی سمت میں بہنا جاری رہے گا، اور اسے مقررہ راستے میں ہی استعمال کیا جائے گا۔ذبیح اللہ مجاہد نے سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دور میں افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے تھے، خاص طور پر تجارت، ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کی کوششوں اور دیگر شعبوں میں، سب کچھ آسانی سے چل رہا تھا۔انہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان سرزمین پر ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے بارے میں کسی بھی معلومات کو امارت اسلامیہ کے ساتھ شیٔر کرے تاکہ مناسب کارروائی کی جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فریق چاہتا ہے کہ ہم پاکستان کے اندر ہونے والے واقعات کو بھی روکیں، لیکن پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنا ہمارے اختیار سے باہر ہے۔ امارت اسلامیہ پاکستان میں عدم تحفظ نہیں چاہتی اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ افغان سرزمین سے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔افغان ترجمان نے امید ظاہر کی کہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان مذاکرات کے اگلے دور میں دو طرفہ مسائل کے دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے دیانتدارانہ اور ٹھوس بات چیت ہوگی۔