Express News:
2025-11-03@17:52:23 GMT

دہشت گردی پر قومی اتفاق رائے

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے کی ضرورت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ لیکن کیا قومی اتفاق رائے صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق کا ہی نام ہے۔

میں یہ نہیں سمجھتا۔ یہ درست ہے کہ سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی حد تک عوامی رائے کی ترجمان ہوتی ہیں۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہم سمجھیں کہ عوامی رائے جاننے کا واحد پیمانہ سیاسی جماعتیں ہی ہیں۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں یہ ذمے داری سیاسی جماعتوں کی ہے کہ وہ اپنی پالیسیاں عوامی رائے کے مطابق بنائیں۔ لیکن اگر سیاسی جماعتوں کی پالیسی عوامی رائے کے مطابق نہ ہو تو وہ نہ صرف عوامی رائے سے محروم ہو جاتی ہیں بلکہ عوام ان سے ناراض بھی ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے ہم سیاسی جماعتوں کی حمایت میں کمی دیکھتے ہیں۔ ووٹ بینک کم اور زیادہ ہوتے دیکھتے ہیں۔

اسی طرح میں سمجھتا ہوں پاکستان کے سب لوگ دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ایک عوامی رائے بھی موجود ہے اور دہشت گردی کے خلاف ایک قومی اتفاق رائے بھی موجود ہے۔

کوئی بھی پاکستانی عسکری جدوجہد اور دہشت گردی کے واقعات کے حق میں نہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے موجود نہیں ہے، ایک غلط بات ہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت اپنے سیاسی مفاد کے لیے دہشت گردی کو استعمال کر رہی ہے تو وہ عوامی رائے کا اظہار نہیں کر رہی بلکہ اپنے سیاسی مفاد کا اظہار کر رہی ہے۔ عوامی رائے اور سیاسی مفاد کا فرق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے موجود ہے۔ اس کو سیاسی جماعتوں کی کسی مہر اور تصدیق کی ضرورت نہیں۔

بلوچستان کی بہت بات کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں لوگ دہشت گردی کے ساتھ ہیں یا دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ یہ سوال صورتحال کو کنفیوژ کرنے کے لیے بہت کیاجاتا ہے۔ ایک دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری پر بلوچستا ن میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ہوئی ہے۔ یہ شٹر ڈاؤن ہڑتال عوامی حمایت کی ترجمان ہے۔

اس سے بڑی عوامی حمایت کیا ہوگی کہ شٹرڈاؤن ہڑتال ہوئی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں تنہا شٹر ڈاؤن ہڑتال کوئی عوامی حمایت کی عکاس نہیں۔ یہ عوامی حمایت کا کوئی پیمانہ نہیں۔ شٹر ڈاؤن ہڑتال طاقت کی بھی عکاس ہے۔ آپ طاقتور ہیں اس لیے آپ نے تاجروں کوکاروبار بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ ہڑتال دہشت گرد تنظیموں کی طاقت اور خوف کی عکاس بھی قرار دی جا سکتی ہے۔ لوگ ان دہشت گرد تنظیموں کے خوف سے کاروبار بند رکھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اگر کاروبار کھولیں گے تو ان کو خدشہ ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں انھیں اور ان کے کاروبار کو نقصان پہنچائیں گی۔

سوال یہ ہے کہ ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری پر کتنے لوگ نکلے ہیں۔ کوئٹہ میں کتنے لوگ نکلے ہیں۔ آپ ترکی کی مثال سامنے رکھیں۔ استنبول کے مئیر کو گرفتار کیا گیا ہے، ہزاروں لاکھوں لوگ احتجاج کے لیے نکلے ہیں۔ یہ لوگ کسی کال کے نتیجے میں نہیں نکلے ہیں، ان کو کسی نے نکلنے کے لیے نہیں کہا۔ عوامی حمائت کسی کال اور کسی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی محتاج نہیں ہوتی۔ لوگ خود نکلتے ہیں، ایک دن نہیں روز نکلتے ہیں۔ وہ کسی لانگ مارچ کی کال کے انتظار میں نہیں رہتے۔ اسی لیے ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری پر کوئٹہ سمیت بلوچستان کے کسی بھی شہر میں لوگ بڑی تعداد میں نہیں نکلے۔

ان کے حامی تھوڑی تعداد میں نکلے ہیں۔ انھوں نے امن و امان کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کو عوامی حمایت نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں بلوچستان کے عوام بھی دہشت گردی کے خلاف ہیں ۔ ان کی رائے بھی ہمارے سامنے ہے۔ اگر بلوچ عوام ان کے حق میں ہوتے تو سردار اختر مینگل کو کسی لانگ مارچ کی کال نہیں دینی پڑتی۔ لوگ خود لانگ مارچ پر نکل آتے۔

بہر حال سیاسی جماعتیں یہ تاثر دیتی ہیں کہ وہ عوامی حمایت کی مکمل عکاس ہیں۔ ان کی رائے ہی عوامی رائے ہے۔ جیسے اگر تحریک انصاف دہشت گردی کے لیے بلائی گئی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرتی تو ایک رائے کہ دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے نہیں ہوسکتا۔ کیا یہ رائے درست ہے کہ قومی اتفاق رائے کے لیے تحریک انصاف کی شمولیت ناگزیر ہے۔

اگر تحریک انصاف دہشت گردی کے خلاف بلائی گئی قومی سلامتی کمیٹی میں شرکت نہیں کرتی تو کیا تحریک انصاف کے حامی دہشت گردی کے حق میں ہو گئے ہیں۔ کیا پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی میں تحریک انصاف اس بات پر کہ تحریک انصاف اجلاس میں نہیں آئی دہشت گردی کے حق میں ہو گئے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا۔

کیا بانی تحریک انصاف اگر دہشت گردی کے خلاف اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے تو قومی اتفاق رائے نہیں ہوگا۔ ان کے حامی رد عمل میں دہشت گردوں کے حق میں ہو جائیں گے۔ کیا کسی ایک کا بائیکاٹ قومی اتفاق رائے کو ختم کر سکتا ہے۔ کیا قوم فرد واحد کی محتاج ہے۔ایسا نہیں ہے۔ قوم یر غمال نہیں۔ قومی سوچ جانچنے کے اور بہت سے ذرایع بھی ہیں۔ کیا کوئی بھی دہشت گردوں کے حق میں بات کر سکتا ہے۔ کیا جو بائیکاٹ کر رہے ہیں وہ دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہو کر سیاست کر سکتے ہیں ۔ نہیں ہر گز نہیں۔بہر حال پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر تحریک انصاف شرکت پر مان جائے تو دہشت گردی پر قومی اتفاق رائے قائم کرنے کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلایا جا سکتا ہے۔

حکومت نے بلاول کی اس تجویز کی بظاہر حمایت کر دی ہے اور کہا ہے کہ اگر بلاول تحریک انصاف کو منا لیں تو اجلاس دوبارہ بلانے پر حکومت کو کوئی اعتراض نہیں۔ تا ہم اس حوالے سے مقتدر حلقوں کا موقف سامنے نہیں آیا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں انھیں بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف شرکت کرے گی۔ کیا وہ پھر بانی سے ملاقات اور ان کی پیرول پر رہائی کی شرط نہیں رکھیں گے۔ ملاقاتوں کا معاملہ کافی حد تک حل ہوگیا۔ عدالت نے ملاقاتوں کا طریقہ کار دوبارہ طے کر دیا ہے۔ لیکن پیرول کی شرط ابھی ہو گی۔ کیا دہشت گردی پر قومی اتفاق رائے ایک پیرول کا محتاج ہے۔ وہ نہیں تو کوئی نہیں۔ میری رائے میں شاید یہ بات نہیں مانی جائے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی جماعتوں کی عوامی حمایت کی کے حق میں ہو تحریک انصاف عوامی رائے میں نہیں نکلے ہیں سکتا ہے نہیں کر کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

سرحد پار دہشت گردی ، فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیں گے، وزیر دفاع

افغان ترجمان کی جانب سے بدنیتی پر مبنی اور گمراہ کن تبصروں سے حقائق نہیں بدلیں گے، پاکستانی قوم، سیاسی اور عسکری قیادت مکمل ہم آہنگی کے ساتھ قومی سلامتی کے امور پر متحد ہیں،خواجہ آصف
عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں،طالبان کی غیر نمائندہ حکومت شدید اندرونی دھڑے بندی کا شکار ہے، ایکس پر جاری بیان

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کے ترجمان کے گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی بیانات پر شدید ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی قوم، سیاسی اور عسکری قیادت مکمل ہم آہنگی کے ساتھ قومی سلامتی کے امور پر متحد ہیں۔وزیرِ دفاع نے ایکس اکاؤنٹ پر جاری بیان میں کہا کہ پاکستان کی سیکیورٹی پالیسیوں اور افغانستان سے متعلق جامع حکمتِ عملی پر قومی اتفاقِ رائے موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں اور اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ افغان طالبان کی غیر نمائندہ حکومت شدید اندرونی دھڑے بندی کا شکار ہے، جہاں خواتین، بچوں اور اقلیتوں پر مسلسل جبر جاری ہے جبکہ اظہارِ رائے، تعلیم اور نمائندگی کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔وزیرِ دفاع نے کہا کہ چار برس گزرنے کے باوجود افغان طالبان عالمی برادری سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں، اپنی اندرونی تقسیم، بدامنی اور گورننس کی ناکامی چھپانے کے لیے وہ محض جوشِ خطابت، بیانیہ سازی اور بیرونی عناصر کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان بیرونی عناصر کی "پراکسی” کے طور پر کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کی افغان پالیسی قومی مفاد، علاقائی امن اور استحکام کے حصول کے لیے ہے۔وزیرِ دفاع نے واضح کیا کہ پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ اور سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن اقدامات جاری رکھے گا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ جھوٹے بیانات سے حقائق نہیں بدلیں گے، اعتماد کی بنیاد صرف عملی اقدامات سے قائم ہو سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 27ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے کی جائےگی، کسی کے لیے گھبرانے کی بات نہیں، رانا ثنااللہ
  • ڈی جی آئی ایس پی آر نے رواں سال دہشت گردی کے نقصانات اور آپریشنز کی تفصیلات جاری کردیں
  • سرحد پار دہشت گردی ، فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیں گے، وزیر دفاع
  • سرحد پار دہشت گردی کیخلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رہیں گے، وزیر دفاع
  •  بدقسمتی سے اسمبلی فورمز کو احتجاج کا گڑھ بنا دیا گیا : ملک محمد احمد خان 
  • فرانس: دہشت گردی کا الزام، افغان شہری گرفتار
  • فرانس میں دہشت گردی کے الزام میں افغان شہری گرفتار
  • دہشت گردی پاکستان کےلیے ریڈ لائن ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، بیرسٹر دانیال چوہدری
  • امریکا: دہشت گردی کی کوشش ناکام، 5 افراد گرفتار
  • امریکا, دہشت گردی کی کوشش ناکام، 5 افراد گرفتار