Express News:
2025-11-03@16:54:23 GMT

رمضان، عید اور جبرائیل کی بددعا

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

رمضان المبارک کا آخری عشرہ سرعت کے ساتھ اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے، آج 26 واں روزہ اور ستائیس ویں رات، ممکن ہے آج کی رات ہی شب قدر ہو، وہ شب قدر جس کی ایک رات کی عبادت کو اللہ رب العزت نے 80 سال کی عبادت کے برابر قرار دیا ہے۔ شبِ قدر کے لیے مخصوص رات متعین نہیں یہ راز کسی کو معلوم نہیں ہے مگر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہی "ایک شب قدر" ہوتی ہے۔

بخاری شریف کی روایت ہے کہ "حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو"۔ طاق راتوں سے مراد، 21، 23، 25، 27، 29 کی راتیں ہیں۔ 21، 23 اور 25 تو گزر گئیں، باقی بچیں دو27 اور 29 کی طاق راتیں، اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ ان دونوں راتوں میں دل لگا کر عبادت کریں۔ پوری رات نہیں تو کچھ وقت ضرور شب بیداری کریں، ورنہ باجماعت نماز عشاء اور تراویح کے بعد دو، چار رکعت نفل پڑھ کر سوجائیں، بہتر ہے سحری سے پہلے دو چار رکعات نماز تہجد پڑھ لیں اورصبح فجر کی نماز جماعت سے پڑھ لیں تو ان شاء اللہ اگر شبِ قدرگزری نہیں ہوگی تو مل جائے گی۔

اس بابرکت، مقدس اور جہنم کی آگ سے نجات والے مہینے کے اختتام پر آنے والی رات جسے عام طور پر چاند رات کہا جاتا ہے حقیقت میں وہ لیلۃ الجائزہ ہے، یہ رات خصوصی برکتوں، رحمتوں، بخشش و مغفرت اور نہایت فضیلت کی حامل ہے۔ جس میں ایمان و احتساب کے ساتھ ثواب کی نیت سے عبادت کرنے والوں کے لیے بڑی سعادتیں اور خوش خبریاں ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اس ماہِ مبارک میں اپنی عبادات اور روزوں سے اس ماہ مقدس کی برکات و فضائل سے فیض یاب ہوئے، اللہ کی رحمت اور مغفرت کو اپنے لیے برحق بنایا، جہنم سے خلاصی کا پروانہ حاصل کیا اور اللہ تعالیٰ کی تجلیات، انوارات و انعامات کے حق دار ٹھہرے۔

لیلۃ الجائزہ (چاند رات) میں اللہ تبارک و تعالیٰ اس ماہ مبارک کی تمام راتوں سے زیادہ سخاوت و فیاضی کے ساتھ اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے، مگر یہ بدقسمتی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت عموماً اس رات کی اہمیت سے غافل رہتی ہے اور اس عظیم رات کے قیمتی لمحات کو بازاروں، شاپنگ سینٹرز، مارکیٹوں اور گلی کوچوں میں گزار کر ان کے فیوض و برکات سے محروم رہ جاتی ہے۔ ہم نے رمضان کے ابتداء میں اپنے کالم میں ذکر کیا تھا کہ اس مبارک مہینہ کی ناقدری کرنے والے کو کبھی حضرت جبرئیل امینؑ نے ان الفاظ میں بد دعا دی تھی کہ "ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکی"۔ جس پر آپ ﷺ نے آمین کہی۔ خود آپﷺ نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایاکہ "بد بخت ہے وہ شخص جو اس ماہ مبارک میں بھی باران رحمت سے محروم رہا"۔ (کنز العمال، حدیث نمبر: 23693)

اس لیے ہمیں رمضان کے ان آخری لمحات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے رب العالمین کو راضی کرکے اپنی بخشش کا پروانہ لینا چاہیے، اللہ نہ کرے کہ ہماری غفلت ہمیں ہلاکت میں ڈالے اور آسمانوں میں ہمارا شمار ان بدبختوں میں ہو جو زمین پر عید کی خوشیاں منا رہے ہوں۔ اس لیے رمضان المبارک کے باقی لمحات اور خصوصاً آخری دو طاق راتوں اور بالخصوص لیلۃ الجائزہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے وقف کردیں۔

 عید الفطرمسلمانوں کا سب سے بڑا اور اہم ترین مذہبی تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔ عید کے دن مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ آئیے آپ کو نبی رحمت کی ریاست مدینہ میں عید کے دن کی ایک جھلک دکھاتا ہوں، وجہ تخلیق کائنات آقائے نامدار نبی کریم ﷺ اپنے گھر مبارک سے نکل کر مسجد نبوی کی جانب بڑھنے لگے اچانک رسول اکرم ﷺ کے کانوں میں کسی بچے کے رونے کی آواز آئی، آپ ﷺ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس ایک بچہ، اپنے ہم عمر بچوں کے قہقہے سن کر روتے ہوئے بے اختیار اپنی درد انگیز آواز بلند کرتا تھا۔

آپ ﷺ نے اپنا رخ انور اس کی طرف کیا تو کائنات کا رخ تبدیل ہوگیا حسن و حسین اور صحابہ پیچھے چل پڑے، آپ ﷺ بچے کے قریب پہنچے، بچہ اتنا بڑا مجمع اپنی طرف آتے دیکھ کر سہم گیا اور سسکیاں بھرنے لگا حضور ﷺ کی آنکھیں بند ہوگئیں اپنا یتیمی والا دور یاد آگیا۔ فرمایا بیٹا کیوں رو رہے ہو۔ بچے نے غور سے آپ ﷺ کی طرف دیکھا اسے پہلی بار احساس ہوا کہ باپ جب اپنے لخت جگر کو بیٹا کہہ کر پکارتا ہے تو کتنا لطف آتا ہے، بچہ حیران تھا کہ میں ایک یتیم ہوں میرا تو باپ مرچکا ہے، بھوکا ہوں، نئے کپڑے نہیں ہیں مجھے کون بیٹا کہہ کر پکار رہا ہے۔

یتیم پیغمبر ﷺ نے یتیم بچے کو اپنے دوش مبارک پر سوار کیا، بچے نے سوال کیا آپ کون ہیں؟ رحمت اللعالمین ﷺ نے جواب دیا کہ میں تمہارا ابا ہوں۔ بچے کو لے کرحضور اکرم ﷺ گھر تشریف لاتے ہیں حضرت عائشہؓ آپ ﷺ کو اچانک دیکھ کرحیران ہوجاتی ہیں وجہ پوچھتی ہیں۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ "عائشہؓ تم اولاد کے لیے تڑپتی تھی نا آج خدا نے تمہاری آرزو پوری کردی میری اور سب مسلمانوں کی عید سے پہلے تمہاری عید ہوگئی۔ اللہ نے تمہاری سن لی۔ فرمایا یہ محمد ﷺ کا پسندیدہ بیٹا ہے"، عائشہؓ اہلًاوسھلًا مرحبا یا نبی کہہ کر بچے کو گود میں لے کر چومتی ہیں۔

حضور ﷺ نے اسے حسنین کریمین کے کپڑے پہنائے، کھانا کھلایا۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے میں تیرا باپ، عائشہؓ تیری ماں، فاطمہؓ تیری بہن، علیؓ تیرے چچا اور حسنؓ و حسینؓ تیرے بھائی ہوں۔ کہنے لگا یارسول اللہ ﷺ اس پر میں کیسے راضی نہیں ہو سکتا۔ وہ خوش وخرم باہر نکلا تو لڑکوں نے پوچھا ابھی تو تو رو رہا تھا اور اب بڑا خوش وخرم ہے بات کیا ہوئی ہے وہ کہنے لگا میں بھوکا، ننگا تھا اللہ رب العزت نے میرے کھانے اور کپڑے کا انتظام کردیا اور اب میرے باپ رسول اللہﷺ، ماں سیدہ عائشہؓ، بہن سیدہ فاطمہؓ، چچا سیدنا علیؓ، اور بھائی حسنؓ وحسینؓ بن چکے ہیں۔ یہ سن کا لڑکے کہنے لگے کاش آج ہمارے باپ بھی نہ ہوتے۔ یہ لڑکا ہمیشہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی زیرکفالت رہا۔

تاریخ اسلامی کے اس درخشندہ واقعہ کو پڑھ کر میرا ذہن لمحہ موجود کے ان لاکھوں یتیموں اور یسیروں سے نہیں ہٹ رہا جن کے ماں باپ ارض مقدس فلسطین میں اسرائیلی درندوں کی بربریت کا شکار ہو کر شہادت کے مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر سے لے کر سرزمین فلسطین معصوم اور بے بس مسلمانوں کے خون سے سیراب ہوچکی ہیں۔ اگرچہ عیدالفطر 30دنوں تک مسلسل روزوں کی حالت میں بھوک وپیاس برداشت کرکے بار گاہ ایزدی میں خوشی و مسرت کا نام ہے۔ مگر یہ سوچا ہے اہل کشمیر اور خصوصاً اہل فلسطین صدیوں سے عید اور دوسری بڑی چھوٹی سب خوشیوں سے محروم ہیں۔

پوری دنیا میں مسلمانوں کے بچے عید کے دنوں میں کھلونوں کے ساتھ کھیل کر دل بہلاتے ہیں مگر غزہ کے معصوم بچوں کے نصیب میں کھلونوں کے بجائے بارود اور بم ہیں۔ غزہ کے بچے پورا دن اپنے والدین کی قبروں پر گزار کر پوری انسانیت سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ انھیں کس جرم کی پاداش میں یتیم کرکے ان کی زندگی سے رنگ و نور چھین لیا گیا اور ان کے والدین کو کیوںکر تاریک راہوں میں قتل کیا گیا؟ آج عالم اسلام کا کوئی حکمران ہے جو نبی کریم ﷺ کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے ان یتیم بچوں کوسینے سے لگائے، ان کی آنکھوں کے آنسو پونچھے، انھیں نئے کپڑے پہنائے تاکہ یہ بھی عید کی خوشیاں منا سکیں۔ اگر 75 اسلامی ممالک میں ایسا کوئی حکمران نہیں اور عوامی سطح پر ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے تو پھر اپنا جائزہ لیں کہ کہیں ہمارا شمار ان بدبختوں میں تو نہیں ہوگیا جن کو جبرائیل امینؑ نے بددعا دی تھی؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رمضان المبارک کے لیے اس ماہ

پڑھیں:

خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟

      اگرچہ آج کا انسان سائنسی ترقی اور مادی وسائل میں بے پناہ اضافہ دیکھ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود دل بے چین، ذہن پریشان اور زندگی بے سکون نظر آتی ہے۔

جدید معاشرہ روحانی، معاشرتی اور اخلاقی توازن سے محروم ہو چکا ہے۔ تعلقات کی کمزوری، اقدار کی پامالی اور دینی شعور کی کمی نے معاشرے کو فکری اور جذباتی انتشار میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایسے میں اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر امن، عدل، شکر اور سادگی پر مبنی زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے۔

ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو اپنے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 13)۔ ارشادِ نبوی ؐ ہے: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 1924)۔

ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ہمیں اپنے اندر احسان، محبت، رواداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے ہوں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم ایک پرامن اور فلاحی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر فرد تحفظ اور سکون محسوس کرے۔ ایک خوشحال معاشرہ دراصل امن کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، اور اسلام نے قرآن اور رسول اللہ ؐ کی سنت کے ذریعے ایک ایسا نظام عطا کیا ہے جو نہ صرف انفرادی سکون بلکہ اجتماعی فلاح کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ایک خوبصورت معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں نہ صرف مسلمان بلکہ ہر انسان کو انصاف، رحم، محبت، اور بھائی چارے کے ساتھ رکھا جائے۔ قرآن و حدیث میں انسانیت کی عظمت اور سب انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید کی گئی ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔

’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نرمی اور انصاف کرو جو تم سے دین کی وجہ سے لڑائی نہ کریں اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالیں۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الممتحنہ (60:8)

’’ان سے حسن سلوک کے ساتھ بات کرو۔ شاید اللہ ان میں سے کوئی ہدایت یافتہ کرے یا وہ خوف سے ڈریں۔‘‘ (سورۃ النحل 16:125)

نبی ؐ نے فرمایا: ’’سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔‘‘

یقیناً! ایک خوبصورت معاشرے کی بنیاد معافی، درگزر، نرم دلی، اور باہمی احترام پر قائم ہوتی ہے۔ قرآن و سنت نے ہمیں واضح طور پر بتایا ہے کہ اگر ہم ایک پرامن اور خوبصورت معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرنا، برداشت کرنا اور اصلاح کی نیت سے خیرخواہی کرنا سیکھنا ہوگا۔

’’اور برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہے، مگر جو معاف کر دے اور اصلاح کرے، تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ بے شک اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

(سورۃ الشوریٰ 42:40)

معاف کرنا نہ صرف اخلاقی برتری ہے، بلکہ اللہ کے ہاں اس کا بہت بڑا اجر ہے۔

’’اور تم میں سے جو صاحبِ فضل اور کشادگی والے ہیں، وہ قسم نہ کھائیں کہ وہ قرابت داروں، مسکینوں اور مہاجرین کو کچھ نہیں دیں گے۔ بلکہ معاف کریں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے؟‘‘

(سورۃ النور 24:22)

جو لوگ دوسروں کو معاف کرتے ہیں، وہی اللہ سے معافی کے حق دار بنتے ہیں۔

جب طائف کے لوگوں نے نبی ؐ کو پتھر مارے اور زخمی کر دیا، تو فرشتے نے عرض کی کہ ان پر پہاڑ گرا دوں؟ نبی ؐ نے فرمایا: ’’نہیں، میں امید کرتا ہوں کہ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے۔‘‘ (صحیح مسلم: حدیث 1759)

ایک مثالی معاشرے کی قیادت وہی کرتا ہے جو درگزر کو اپنی طاقت بناتا ہے۔

ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ظلم کے نظام کا خاتمہ کرنا بہت ضروری ہے۔ حدیث میں ہے: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 2442)۔

نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’مظلوم کی دعا سے ڈرو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔‘‘ (صحیح بخاری: حدیث 2448 / صحیح مسلم: حدیث 19)

انسانی جان کا تقدس اسلام میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے، سوائے حق کے‘‘ (سورۃ الاسراء ، آیت: 33)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’جو شخص کسی نفس کو ناحق قتل کرے گا، گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت: 32)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 10)۔ اللہ تعالیٰ نے قتل کی سخت مذمت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا‘‘ (سورۃ النسآء، آیت: 93)۔ ان آیات و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں ناحق قتل کو بدترین جرائم میں شمار کیا گیا ہے اور اس کی سزا دنیا و آخرت میں شدید بتائی گئی ہے۔

غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنا اسلام کا بنیادی حکم ہے اور یہیں سے ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی خوشنودی کے لیے جو مال تم خرچ کرتے ہو اس کا بدلہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں کیا جائے گا‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت: 272)۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’جو لوگ اپنا مال اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ جس کے لیے چاہے اس سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت: 261)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی دنیاوی مشکل کو دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مشکلات کو دور فرمائے گا‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2699) غریبوں کی مدد سے معاشرے میں محبت اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ یہ عمل معاشرتی تفریق ختم کر کے انسانی مساوات قائم کرتا ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد دوسرے کے درد کو محسوس کرے، غریبوں کے ساتھ ہمدردی کرے، اور ضرورت مندوں کی مدد کرے، وہی حقیقی خوبصورت معاشرہ ہے جس کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔ کھانا کھلانا اسلام میں ایک عظیم عمل اور خوبصورت معاشرے کی بنیاد ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور وہ کھانا کھلاتے ہیں باوجود خواہش کے کہ خود انہیں بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ (سورۃ الانسان، آیت: 8)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو کھانا کھلائے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5081)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے بھوکے کو کھانا کھلایا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جنت کے پھل کھلائے گا‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5545)۔ ایک اور حدیث میں ہے: ’’اے اللہ کے رسولؐ! کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا کھلانا اور ہر جان پہچان والے اور نا جاننے والے کو سلام کرنا‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 6236)۔

رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو (سورۃ النسآء، آیت: 1)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’اور رشتہ دار اپنے حق میں ایک دوسرے پر (دوسروں سے) زیادہ حق رکھتے ہیں‘‘ (سورۃ الانفال، آیت: 75)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا رزق کشادہ کیا جائے اور اس کی عمر میں برکت دی جائے، وہ صلہ رحمی کرے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1961)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چکا دے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جو قطع تعلقی کرنے کے باوجود تعلق جوڑے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5991)۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہو‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 3895)۔ جب ہم رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں گے، خاندانی نظام کو مضبوط کریں گے، اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیں گے تو یقیناً ہمارا معاشرہ پرسکون اور خوبصورت بنے گا۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد محفوظ اور خوش ہو، وہی حقیقی اسلامی معاشرہ ہے جس کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔

ہمارے قریب رہنے والا اور دفتر میں ساتھ کام کرنے والا دونوں ہی ہمارے پڑوسی ہیں جن کے ساتھ حسن سلوک اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب کے پڑوسی، دور کے پڑوسی، ساتھ بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ بھلائی کرو‘‘ (سورۃ النسآء، آیت: 36)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کو بارہا واضح فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص مسلمان نہیں جو خود سیر ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1125)۔ ’’خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں۔‘‘ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسولؐ! کون؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’جس شخص کا پڑوسی اس کی اذیتوں (اور شر) سے محفوظ نہ رہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبرائیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کرتے رہے کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید پڑوسی کو وارث بنا دیں گے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5665)۔

اگر ہم اسلام کے ان سنہری اصولوں پر عمل کریں تو ہم ایک ایسا پرامن، خوشحال اور متوازن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جو بے چینی، اضطراب، ذہنی دباؤ اور انتشار سے پاک ہو۔ یہ اعمال درحقیقت ہمارے دل کو نرم کرتے ہیں، ہمیں انسانی ہمدردی سکھاتے ہیں، اور معاشرے میں امن و سکون قائم کرتے ہیں۔ جب ہم دوسروں کے دکھ بانٹتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں ایک خاص قسم کی تسلی اور سکون نازل فرماتے ہیں جو دنیاوی comforts سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ یہی وہ روحانی سکون ہے جو ہمیں حقیقی خوشی عطا کرتا ہے۔

ایلن مسک، بل گیٹس، مارک زکربرگ اور دیگر ارب پتی افراد انسانیت کی بہتری کے لیے کام کرکے ایک قسم کا ذہنی سکون حاصل کر رہے ہیں۔ ایلن مسک خلائی ٹیکنالوجی اور پائیدار توانائی کے ذریعے، بل گیٹس صحت اور تعلیم کے شعبوں میں، اور مارک زکربرگ طبی تحقیق اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ سب انسانیت کی خدمت کے ذریعے اطمینانِ قلب کی تلاش میں ہیں۔ بلاشبہ دولت، شہرت اور عیش و آرام کی فراوانی ذہنی سکون کے حصول کے لیے ناکافی ہیں، کیونکہ یہ سب فانی اور عارضی ہیں۔ خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے اگر مندرجہ بالااصولوں پر عمل کیا جائے، تو ایک خوبصورت اور فلاحی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے جو سکون قلب سے بھی مالا مال ہو۔

(مصنف کا تعارف: ڈاکٹر محمد زاہد رضا جامعہ پنجاب (لاہور) سے منسلک ماہر تعلیم اور محقق ہیں۔ تحقیقی جرائد میں ان کے کئی تحقیقاتی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ وہ اخبارات کے لیے مضامین بھی لکھتے ہیں۔)

متعلقہ مضامین

  • امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلت کو بند کرنا ہوگا، آیت اللہ خامنہ ای
  • بھارت پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے : عطاء اللہ تارڑ
  • افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ذبیح اللہ مجاہد
  • تجدید وتجدّْ
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • پی ٹی آئی رہنما ذاتی نہیں قومی مفاد میں کام کریں: رانا ثنا اللہ