پاکستان، صحافی وحید مراد ضمانت پر رہا
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 مارچ 2025ء) اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے جمعہ کو سائبر کرائمز ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں گرفتار صحافی وحید مراد کی ضمانت منظور کر لی۔
پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق چھبیس مارچ کو تحویل میں لیے گئے مراد کو آج دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج عباس شاہ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
ان کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔معصوم شہریوں کے اغوا پر آواز اٹھانے والا صحافی اغوا پھر گرفتاری ظاہر
سماعت کے آغاز پر جج عباس شاہ نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے نمائندے سے استفسار کیا، "وحید مراد سے کیا برآمد کیا گیا ہے؟"
ایف آئی اے کے اہلکار نے کہا کہ اختر مینگل کی جس پوسٹ کی بات کی جا رہی ہے، اس میں 'بلوچ نسل کشی‘ کی بات کی گئی ہے۔
(جاری ہے)
وحید مراد کی وکیل ایمان مزاری نے بتایا کہ مراد نے سوشل میڈیا پوسٹ میں اختر مینگل کے الفاظ کا محض حوالہ دیا تھا۔
پاکستانی صحافی وحید مراد لاپتا ہو گئے، فیملی
وکیل ہادی علی چٹھہ نے مزید وضاحت کی کہ مراد کا پہلا ٹویٹ مینگل کے بیان پر مبنی تھا۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد مراد کی 50 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں پر بعد از گرفتاری ضمانت منظور کر لی۔
مبینہ 'اغوا‘ کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہاس سے قبل وحید مراد کی ساس نے لاپتہ صحافی کی بازیابی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں متعدد اعلیٰ عہدے داروں کو مدعا علیہ نامزد کیا گیا، جن میں سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری دفاع، اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل آف پولیس اور کراچی کمپنی تھانے کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) شامل ہیں۔
سال دو ہزار چوبیس پاکستانی صحافیوں کے لیے کیسا رہا؟
درخواست میں مراد کو ڈھونڈنے اور بازیاب کرانے کے لیے فوری کارروائی کرنے پر زور دیا گیا، جبکہ اس کے مبینہ اغوا کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی بھی استدعا کی گئی ہے۔
صحافی کے اہل خانہ کے مطابق 26 مارچ کو وحید مراد کو اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ میں واقع ان کے گھر سے 'سادہ کپڑوں میں ملبوس نقاب پوش افراد نے اغوا‘ کر لیا تھا۔
وحید مراد 'اردو نیوز‘ سے وابستہ صحافی ہیں۔ اس سے قبل وہ 'نیوز ون‘ اور روزنامہ 'اوصاف‘ کے ساتھ بطور رپورٹر منسلک تھے۔ وہ 'پاکستان 24‘ کے نام سے اپنی ایک نیوز ویب سائٹ بھی چلاتے ہیں اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کافی فعال نظر آتے ہیں۔
ج ا ⁄ ر ب (خبر رساں ادارے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسلام آباد مراد کی کیا گیا
پڑھیں:
کراچی میں تاوان کی غرض سے اغوا کی گئی بچی کس طرح بازیاب ہوئی؟
کراچی کے علاقے خواجہ اجمیر نگری پولیس کی بروقت کارروائی سے اغواء ہونے والی 3 سالہ بچی 24 گھنٹوں میں بازیاب ہو گئی، مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق تھانہ خواجہ اجمیر نگری کی حدود میں پیش آنے والے ایک افسوسناک واقعے میں 3 سالہ کمسن بچی ریحانہ کو 23 جولائی کو شاہنواز بھٹو کالونی سے اغوا کیا گیا، جس کی اطلاع اہلِ خانہ نے تھانے میں دی۔
یہ بھی پڑھیں:فوجداری قانون میں ترمیم، خاتون کو اغوا یا بے لباس کرنے والے کو پناہ دینے پر سزائے موت ختم
اس کے بعد پولیس نے خفیہ معلومات کی بنیاد پر فوری کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف بچی کو بحفاظت بازیاب کروا لیا بلکہ اغوا میں ملوث مرکزی ملزم کو بھی گرفتار کر لیا۔
ایس ایچ او خواجہ اجمیر نگری سرفراز عرف کمانڈو کی قیادت میں پولیس ٹیم نے جدید ٹیکنیکل ذرائع، مقامی نگرانی اور خفیہ معلومات کی بنیاد پر 24 گھنٹوں کے اندر کامیاب آپریشن کیا۔
پولیس کے مطابق کارروائی نہایت رازداری اور پیشہ ورانہ انداز میں مکمل کی گئی تاکہ کمسن بچی کو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔
پولیس ذرائع کے مطابق گرفتار ملزم نے دورانِ تفتیش انکشاف کیا کہ اس کے بھائی کو منگھوپیر پولیس نے تحویل میں لیا تھا جو اب جیل میں ہے۔ بھائی کو ضمانت پر رہا کرنے کے لیے رقم کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے اس نے تاوان حاصل کرنے کی غرض سے بچی کو اغوا کیا۔
یہ بھی پڑھیں:’را‘ کی پشت پناہی سے سرگرم بی ایل اے کے ہاتھوں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 10 افراد اغوا
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی معلومات کے مطابق ملزم کا تعلق بچی کے خاندان ہی سے ہے اور اس نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے بچی کے والدین کو بلیک میل کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ رقم حاصل کرکے اپنے بھائی کو جیل سے رہا کروا سکے۔
پولیس کے مطابق ملزم سے مزید تفتیش جاری ہے اور امکان ہے کہ اس کارروائی سے وابستہ مزید حقائق جلد منظرِ عام پر آئیں گے۔
یہ جاننے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملزم نے جو کہا ہے، آیا بچی کو اغوا کرنے کی اصل وجہ یہی ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور مقصد بھی تھا۔
پولیس ذرائع کے مطابق اس نوعیت کے کیس رازداری سے نمٹانے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ملزمان خوف زدہ ہو کر مغویوں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کیس میں خاص احتیاط برتی گئی۔ اہلِ خانہ اور اہلِ محلہ سے معلومات اکھٹی کی گئیں، لیکن ساتھ ہی وقت کا بھی خیال رکھا گیا۔ جن پر شک تھا، انہیں حراست میں لیا گیا۔
جب معلوم ہوا کہ ایک رشتہ دار کا بھائی جیل میں ہے تو شک ہوا کہ یہ شخص ملوث ہو سکتا ہے۔ اسے گرفتار کیا گیا، تفتیش شروع کی گئی، تو اس نے سب اُگل دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اغوا بچی کا اغوا خواجہ اجمیر نگری سندھ پولیس