متحدہ علماء محاذ کے تحت یوم القدس جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
متحدہ علماء محاذ کے تحت یوم القدس جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا.
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
تنازعہ فلسطین اور امریکا
اقوام عالم غزہ میں جنگ کی تباہ کاریاں دیکھ رہی ہے اور جنگ بند کرانے کے لیے کہیں سنجیدہ کارروائی نظر نہیں آ رہی حالانکہ 20روز پہلے کی ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ بندی کے لیے درکار شرائط مان لی ہیں جب کہ حماس نے بھی کہا تھا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ ’’حتمی‘‘ جنگ بندی تجویزکا جائزہ لے رہی ہے۔
برطانوی اخبار دی ٹائمز نے بھی بتایا تھا کہ قطری ثالثوں نے دوحہ میں موجود حماس کی اعلیٰ قیادت سے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے لیے اپنے ذاتی ہتھیار حوالے کردیں۔لیکن یہ سب کچھ عملی صورت اختیار نہ کر سکا۔اب غزہ کی زمینی صورتِ حال بدستور خون ریزی میں ڈوبی رہی۔اسرائیل غزہ میںمسلسل وحشیانہ بمباری جاری رکھے ہوئے ہے ‘اسرائیل ٹارگٹڈ کارروائیاں کر کے غزہ میں فلسطینیوں کے گھر تباہ کر رہا ہے ‘غزہ کا زیادہ تر حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ‘صورت حال اس حد تک خراب ہو گئی ہے کہ غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے لیے غذائی قلت سنگین ہونے لگی ہے۔
کئی گھرانے فاقے سے دوچار ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اگلے روز بھوک سے مزید 10فلسطینی جان کی بازی ہار گئے۔اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ اب تک غذائی قلت سے اموات کی تعداد سو سے زیادہ ہو گئی جن میں80 بچے شامل ہیں۔7 اکتوبر 2023 سے اب تک6ہزار کے قریب فلسطینی شہری جان کی بازی ہار چکے ہیں۔میڈیا کے مطابق بدھ کی صبح سے غزہ کی پٹی پر مسلسل اسرائیلی فضائی حملے جاری ہیں‘ان حملوں سے 17فلسطینی شہری مارے گئے ہیں جب کہ مرنے والوں میں چار بچوں اور ایک شیر خوار بچہ بھی شامل ہے۔شہداء میں ایک ہی خاندان کے 7 افراد بھی شامل ہیں۔
غزہ کی یہ صورت حال ہے۔ غزہ کو ایک منظم منصوبے کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جب تک غزہ سے تمام فلسطینی انخلا پر تیار نہیں ہوں گے‘اسرائیل کی فوجی کارروائی جاری رہے گی جب کہ امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ بھی اس سلسلے میں مصلحت کوشی اختیار کرتے ہوئے چپ رہے گی کیونکہ صدر ٹرمپ بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ غزہ کوفلسطینیوں سے مکمل طور پر خالی کرانے کے حق میں ہیں اور اگر فلسطینی اس پر تیار ہو جائیں تو انھیں کسی متبادل جگہ پرآباد کرایا جا سکتا ہے اور اس کے لیے تمام فلسطینیوں کو پورا انفراسٹرکچر بھی تعمیر کر کے دیا جائے گا اور انھیں گھر بھی بنا کر دیے جائیں گے لیکن فلسطینی کسی بھی صورت میں غزہ خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ادھر 115 عالمی امدادی اداروں نے ایک دستخط شدہ انتباہی بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں امداد کے مکمل محاصرے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بھوک پھیل رہی ہے۔غزہ میں موجود گوداموں میں کئی ٹن خوراک، پانی اور ادویات موجود ہیں لیکن امدادی اداروں کی ان تک رسائی کو روکا گیا ہے۔مکمل سیز فائر ،امداد کے لیے تمام زمینی راستوں کو فوری کھولا جائے۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے کہا ہے کہ غزہ میں امداد کے منتظر شہریوں کا قتل ناقابلِ جواز ہے۔فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے مسلم ممالک اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ غزہ میں بھوک اور تباہی روکنے کی کوشش کریں۔
ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی صدر قتل عام روکنے، بنا رکاوٹ امداد پہنچانے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالیں۔ اسلامی تعاون تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی برادری غزہ میں فوری جنگ بندی کرائے۔اسلامی ممالک اسرائیلی مظالم کو عالمی سطح پر بے نقاب کریں۔ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے خبردار کیا ہے کہ روٹی کے ایک ٹکڑے یا گھونٹ پانی کے لیے فلسطینیوں کا مرنا ناقابلِ قبول ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ وہاں قحط ہر دروازے پر دستک دے رہا ہے اور بدترین غذائی قلت کے سبب لوگ مر رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایران کی ایوین جیل پر اسرائیلی حملے کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے فوری بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔
اقوام عالم کی لیڈر شپ اور اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام مسلسل غزہ کے لیے ہمدردانہ بیانات دے رہے ہیں ‘لیکن یہ بیانات محض بیانات ہی ہیں کیونکہ اسرائیل پر ان بیانات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔اس قسم کے ہمدردانہ بیانات تو امریکا کے صدر بھی دیتے رہتے ہیں لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ عملی کام کیا جائے لیکن عملی کام کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔
روس اور چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ہیں اور ان کے پاس ویٹو پاور بھی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان دو ممالک نے بھی اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر محض سفارتی حد تک ہی فلسطینیوں کی حمایت کی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر کچھ نہیں کیاگیا ۔
پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول، خاص طور پر تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز، بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول پاکستان کی صدارت میں منعقدہ تقریبات کے لیے کلید رہیں گے۔
سلامتی کونسل میں پاکستان کی اس ماہ کی صدارت کے حوالے سے استقبالیہ تقریب میں اسحاق ڈار نے کہا عالمی امن و سلامتی صرف کثیرالجہتی، تنازعات کے پرامن حل، جامع مکالمے اور بین الاقوامی قانون کے احترام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ سلامتی کونسل کو صرف ردعمل کا ایوان نہیں بلکہ روک تھام، مسائل کے حل اور اصولی قیادت کا فورم ہونا چاہیے۔
سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ اور مسئلہ فلسطین پر اپنی زیرصدارت مباحثے میں اسحاق ڈار نے کہا مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل ناگزیر ہے۔ غزہ میں انسانیت کا قتل عام ہو رہا ہے، ہر طرف بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، سلامتی کونسل مسئلہ فلسطین کے حل میں اپنا کردار ادا کرے، پاکستان مسئلہ فلسطین کے لیے اصولی موقف، یکجہتی کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔ غزہ میں انسانی امداد کی بلاتعطل فراہمی کو فوری ممکن بنایا جائے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنے چارٹر کے اعتبار سے بہت مضبوط ادارہ ہے۔ اس ادارے نے دنیا میں کئی اہم ممالک کے بارے میں متفقہ فیصلے کیے ہیں ‘کئی ملکوں کو آزادی بھی ملی ہے جس میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل دونوں میں اہم کردار ادا کیے ہیں۔ان میں انڈونیشیا سے آزاد ہونے والے ملک مشرقی تیمور کی مثال سب کے سامنے ہے۔ مشرقی تیمور کو آزادی ملی ہے ۔اسی طرح جنوبی سوڈان کو بھی ایک آزاد ملک کا درجہ ملا ہے لیکن فلسطینیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا کردار زیادہ اہم نہیں رہا ہے۔
اس حوالے سے امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک نے اقوام متحدہ کے ہر فورم میں اسرائیل کی حمایت میں ووٹ کاسٹ کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے معاملات میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کوئی کردار ادا نہیں کر سکا۔ تنازع کشمیر بھی ایسے ہی تنازعوں میں شامل ہے۔کشمیر کے حوالے سے بھی امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک کی حکومتوں کا طرز عمل یکطرفہ چلا آ رہا ہے اور سب نے بھارت کی حمایت کی ہے۔
اقوام متحدہ اور طاقتور اقوام کی دہری اور امتیازی پالیسیوں کے باعث فلسطین میں مسلسل خونریزی جاری ہے حالانکہ اگر امریکا اور مغربی یورپ چاہیں تو فلسطین کا تنازع حل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اسرائیل میں اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر فلسطینیوں کو دبا کر رکھے یا وہ اکیلا عرب ملکوں پر بھاری ہو سکے۔
اسرائیل دراصل امریکا کا ہی دوسرا نام ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ غزہ کا تنازعہ حل کرائیں گے۔ لیکن وہ صدر بننے کے بعد تاحال اس تنازعے کو حل نہیں کرا سکے۔ امریکا صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے، وہ مشرق وسطی میں مستقل قیام امن کے لیے ایک بیلنس پالیسی اختیار کرے تاکہ جس کا جو حق ہے وہ مل سکے۔
اسرائیل کے مفادات کا تحفظ اصولی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی یہ پالیسی امریکا کے طویل المیعاد مفادات کے حق میں ہے۔ فلسطینیوں کی بقا کو بھی مساوی اہمیت دینا ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کرائی جائے اور اس تنازعہ کا مستقل حل نکالا جائے۔