بلوچستان حکومت ڈائیلاگ کے لیے تیار، سردار اختر مینگل تعاون کریں: ترجمان صوبائی حکومت
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت ڈائیلاگ کے لیے تیار ہے اور ڈائیلاگ کر بھی رہی ہے۔ سردار اخترمینگل اور ان کی جماعت سے اپیل ہے کہ وہ حکومت سے تعاون کریں۔
کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان حکومت بلوچستان نے بتایا کہ لک پاس خودکش دھماکے کے مقام سے قریب بلوچستان نیشنل پارٹی کا دھرنا جاری تھا، دھماکے میں سردار اختر مینگل اور بی این پی کی تمام سیاسی قیادت اور شرکاء محفوظ رہے۔
شاہد رند کا کہنا ہےکہ حکومت گزشتہ رات سے بی این پی کی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ بی این پی کے وفد کی گزشتہ رات انتظامیہ سے ملاقات ہوئی۔ آج حکومتی وفد نےسردار اختر مینگل سے ملاقات پر اتفاق کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیےبی این پی سربراہ سردار اختر مینگل کے دھرنے کے قریب خودکش دھماکا
انہوں نے بتایا کہ حکومتی ٹیم بی این پی کے وفد سے ملاقات کے لیے جا رہی تھی کہ افسوسناک واقعہ پیش آگیا۔ دھماکے میں سردار اختر مینگل اور بی این پی کی قیادت سمیت تمام شرکا محفوظ رہے۔ بلوچستان حکومت واقعے کی مکمل چھان بین کررہی ہے۔ تحقیقات کے نتائج سے عوام کو جلد آگاہ کیا جائے گا۔
ترجمان صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ سردار اختر مینگل اور ان کی جماعت سے اپیل ہے کہ حکومت سے تعاون کریں، کیونکہ دشمن صورت حال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت ڈائیلاگ کے لیے تیار ہے اور ڈائیلاگ کر بھی رہی ہے، سردار اختر مینگل کی جماعت نے بھی مثبت جواب دیا تھا، بات چیت سے صورتحال بہتر بنانے میں مدد کریں، امید ہے کہ بہتر راستہ نکلے گا۔
یہ بھی پڑھیےبلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کو دانستہ خرابی کی جانب دھکیلا جارہا ہے، ترجمان حکومت
قبل ازیں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل گروپ کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھیوں نے ایک شخص کو مشکوک جان کر اسے دھرنے کے قریب نہیں آنے دیا۔ پکڑے جانے کی خوف سے خود کش حملہ آور نے اپنے آپ کو دھرنے سے 400 گز کے فاصلے پر اڑا دیا۔ دھماکے میں ہمارے 4 ساتھی زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی تنظیم سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہمیں اگر کسی سے خطرہ ہے تو وہ سرکار سے ہے۔ گزشتہ شب دھرنے پر بکتر بند گاڑی چڑھانے کی کوشش کی گئی۔ دھرنے کے شرکاء پر شیلنگ بھی کی گئی۔
سردار اختر مینگل نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ حکومت جان بوجھ کر حالات کو خراب کرنا چاہتی ہے۔ تاہم ہمارا احتجاج پر امن طور پر جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ حالات کی خرابی کی تمام تر ذمہ داری حکومت پرعائد ہوگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ترجمان حکومت بلوچستان سردار اختر مینگل شاہد رند مستونگ خودکش دھماکہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ترجمان حکومت بلوچستان سردار اختر مینگل شاہد رند مستونگ خودکش دھماکہ سردار اختر مینگل صوبائی حکومت ترجمان حکومت کا کہنا ہے مینگل اور بی این پی کہ حکومت انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جائیں گی، سردار مسعود
قطر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اس حملے سے لاعلم کیسے رہا، جبکہ امریکا اور اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد ایسا تاثر جنم لے رہا ہے کہ بعض حلقے دانستہ اور بعض نادانستہ طور پر مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں کہا گیا کہ غزہ کی حکومت میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہو گا اور اگر حماس کو ختم کر دیا گیا تو فلسطین دفاعی قوت سے محروم ہو جائے گا۔ مسعود خان نے کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں پہلے ہی یہودی بستیاں آباد ہیں اور اب منصوبہ یہ ہے کہ غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں بسانے کی راہ ہموار کی جائے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین اور ریاستِ فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کا کردار قابلِ تعریف رہا ہے اور ایران اسرائیل کشیدگی کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی پاکستان کی کوششوں کو سراہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سفارتکاری کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر کے دانشمندی اور حکمت کا ثبوت دیا۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اس حملے سے لاعلم کیسے رہا، جبکہ امریکا اور اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنر ہیں اور دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں نہ صرف خطے بلکہ ایک دوسرے پر بھی نظر رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ماننا مشکل ہے کہ امریکا کو حملے کا صرف چند منٹ پہلے پتا چلا ہو۔ مسعود خان نے کہا کہ یہ حملہ عالمِ اسلام خصوصاً عرب دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور خطے میں ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک نے 80ء کی دہائی میں دفاعی قوت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اور اب دوبارہ مشترکہ دفاعی نظام بنانے پر غور کر رہے ہیں، لیکن امریکا کے زیر اثر ہونے کے باعث ان کے لیے اس پر عمل درآمد مشکل ہو گا۔
ان کے مطابق خلیجی ممالک اس صورتحال میں روس اور چین کی طرف دیکھ سکتے ہیں، تاہم ان کے ساتھ موجودہ تعلقات زیادہ تر معاشی ہیں اور دفاعی تعاون محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک کے پاس اربوں ڈالر کے سرمائے ہیں اور امریکا ہر سال انہیں اسلحہ فراہم کرتا ہے مگر اس سطح تک نہیں جو اسرائیل کی برتری کو چیلنج کر سکے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے لیے خلیجی ممالک کو کمزور کیا جائے گا یا ان کی سکیورٹی کے لیے کوئی نیا انتظام سامنے آئے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ممکنہ ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کا ایجنڈا وہی ہو گا جو 18 جون کو صدر ٹرمپ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ملاقات میں طے پایا تھا، جسے اسحاق ڈار اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان ملاقات میں حتمی شکل دی گئی تھی اور اس تناظر میں پاکستان کے لیے کچھ مثبت فیصلے متوقع ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے قطر پر حملے کو پاکستان میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن سے جوڑنا درست نہیں، کیونکہ اسامہ بن لادن کوئی مذاکرات نہیں کر رہا تھا جبکہ حماس رہنما خلیل الحیا قطر میں امریکا کی مرضی سے مذاکرات کے لیے آئے تھے۔ قطر پر حملے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کے فوری دورہ قطر کو انہوں نے ایک اہم فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ قطر کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں، وہاں بڑی تعداد میں پاکستانی اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور قطر خطے میں ایک اہم پل کا کردار ادا کرتا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے حوالے سے سردار مسعود خان نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہے، گزشتہ برس دہشت گردی میں چار ہزار افراد جان سے گئے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ کئی بار یقین دہانی کرا چکے ہیں مگر اس کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے اور دہشت گردوں کو بھارت کی حمایت حاصل ہے۔