Express News:
2025-11-03@16:15:35 GMT

سینئر سٹیزن کے حقوق کا خیال رکھا جائے

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

قارئین! جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے رمضان کا آخری روزہ ہوگا، رمضان المبارک میں سب سے زیادہ مہنگائی آپ کو ٹھیلے والوں کی جانب نظر آئے گی، انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں اگر آپ ٹھیلے کے قریب گاڑی کھڑی کردیں تو یہ جھگڑا اور فساد برپا کرتے ہیں۔

دکانوں کو تو چھوڑدیں ٹھیلے والے جو روٹ پر قبضہ کیے ہوئے ہیں وہ تربوز 200 روپے کلو، خربوزہ 200 روپے کلو، سیب300 روپے کلو،کیلے عام سے 250 روپے درجن اگر آپ ان سے صرف یہ کہہ دیں کہ’’ بھائی! یہ تو بہت مہنگا ہے صحیح قیمت لگا لو ‘‘ تو جواب سن لیں ’’ جاؤ، دماغ نہیں خراب کرو‘‘ اور جن کو یہ کہہ دیا ہے۔

ان میں عام آدمی کے علاوہ Phd ڈاکٹر، ایم بی بی ایس ڈاکٹر، MBA، CA، اکاؤنٹینٹ شامل ہیں۔ یہ اس قوم کے لیے المیہ ہے کہ ان داداگیروں پر کسی کا کنٹرول نہیں، نہ جانے اس شہر میں کیا ہو رہا ہے؟ کوئی پرسان حال نہیں اور معاف کیجیے گا، یہ یہاں ہو رہا ہے۔

پنجاب میں کسی حد تک کنٹرول ہے میں پھر یہی کہوں گا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کہاں تک حالات کو دیکھیں گے یہ کام تو پرائس کنٹرول والوں کا ہے۔ ادھر مرغی فروشوں نے سرکاری ریٹ ماننے سے صاف انکار کردیا ہے، ان کا کہنا ہے 640 روپے ہم مرغی کا گوشت فروخت نہیں کرسکتے۔

اب یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ انتظامیہ یا دکاندار دونوں میں سے کون قصور وار ہے۔ اخبارات میں اشتہارات جو صدقہ، زکوٰۃ کے حوالے سے آج کل آ رہے ہیں۔ اس میں نیکی، سادگی اور لوگوں کی مدد کے تذکرے ہوتے ہیں، ساری خدمت رمضان میں سینہ کھول کر آ جاتی ہے، ایسے ایسے اداروں کے نام آتے ہیں کہ عقل حیران و پریشان ہو جاتی ہے۔ اشتہارات کی مد میں چندہ لیا جاتا ہے اور یہ صرف رمضان میں ہوتا ہے۔

آج کل کینسر کے علاج میں 55 سے 60 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت لکھی ہے جب کوئی پریشان غربت کا مارا کینسر میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کا علاج کرانے والا کوئی نہیں ہوتا۔

مجبوری کے تحت جب اس کے لواحقین کچھ تنظیموں سے رابطہ کرتے ہیں جو اشتہارات بھی صرف رمضان میں دیتے ہیں ان سے جب رابطہ کرو تو ان کے پاس بجٹ (پیسے) نہیں ہوتے جب کہ اشتہارات کی مد میں لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور اگر کوئی مریض 50 سال سے زیادہ کا ہو تو بڑی آسانی سے جان چھڑا لیتے ہیں کہ ان کی عمر اب زیادہ ہوگئی ہے، ہم ایسے مریض نہیں لیتے یعنی کے 50 سالہ شخص کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

کم درجہ والے کینسر کا علاج بھی 40 لاکھ سے کم نہیں ہے، اس میں اسپتال کی فیس اور سہولت شامل نہیں ہے اور مزے کی بات دیکھیں اکثر اسپتال میں تو بغیر اے سی کا روم ہوتا ہی نہیں ہے۔ بے شک وہ چھوٹے سے چھوٹا اسپتال کیوں نہ ہو جناح اور سول اسپتال کے علاوہ کینسر کے علاج کی سہولت کسی اسپتال میں نہیں۔

پرائیویٹ اسپتال کے اخراجات اتنے ہوتے ہیں جو غریب کے لیے ناقابل برداشت ہیں ذیابیطس (شوگر) اب ہر تیسرے گھر میں ڈیرے ڈال چکی ہے غریب تو جیتے جی مر گیا وہ علاج کیسے کرائے شوگر کے بعد چند اور بیماریاں بھی شوگر کی وجہ سے ہو جاتی ہیں، اس کا علاج بھی کرانا پڑتا ہے۔

 ادھر آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ٹیکس اصلاحات کریں۔ گزشتہ 30 سال سے ہم آئی ایم ایف کے بارے میں سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں، دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستان میں سیاسی طور پرکبھی سیاست دانوں نے یہ کوشش نہیں کی کہ ہمیں آئی ایم ایف کے سہارے کے بغیر چلنا ہوگا۔ مزے کی بات دیکھیں، گیس کے نئے ذخائر اکثر نمودار ہوتے ہیں۔

پاکستان میں سب سے پہلے گیس کے ذخائر 1952 میں بلوچستان کے ڈیرہ بگٹی کے قصبے سوئی سے دریافت ہوئے تھے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمارے سیاسی حضرات نے گیس کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

ڈاکٹر قدیر خان نے کہا تھا کہ حکومت میرا ساتھ دے تو میں بجلی تیاری میں آپ کا مکمل ساتھ دے سکتا ہوں اور فی یونٹ 4 روپے بجلی تیار کرکے دے سکتا ہوں مگرکسی بھی سیاست دان نے ان کی بات پر توجہ نہیں دی اور وہ اپنے رب کی طرف لوٹ گئے۔

معروف سائنس دان ثمر مبارک نے حکومت کو باورکرایا کہ حکومت میرا ساتھ دے میں بہت ہی سستی بجلی تیار کرکے آپ کو کوڑیوں کے مول دے سکتا ہوں، یہ بیان انھوں نے غالباً ایک سال پہلے دیا تھا مگر اس پر ہماری کسی سیاسی شخصیت نے توجہ نہیں دی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جنھیں توجہ دینی ہے انھیں تمام مراعات مفت میں مل جاتی ہیں تو اس جھگڑے میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟

گزشتہ دنوں ایک خبر اخبارات میں نمایاں طور پر شایع ہوئی جس میں وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے ایک سماجی تقریب میں سینئر سٹیزن کارڈ کے اجرا کا اعلان کیا گیا۔ سماجی بہبود کے وزیر میر طارق علی خان تالپور اپنے کام کو بہت خوبصورتی سے انجام دیتے ہیں اور امید ہے کہ وہ اس مسئلے کو بھی سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس ملک کو سینئر سٹیزن نے ہمیشہ خوبصورت سہارا دیا۔ کیا ہم ان عمر رسیدہ افراد کی خدمات کو نظرانداز کرسکتے ہیں جیسے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، نوابزادہ نصراللہ خان، سابق نگران وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی۔

بلاشبہ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ پوری کوشش کررہے ہیں کہ سینئر سٹیزن کو حکومت سندھ کی جانب سے سہولتیں فراہم کی جائیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ماضی میں سینئر سٹیزن نے کولہو کے بیل کی طرح اس ملک کی خدمت کی ہے۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں سینئر سٹیزن کو بہت سہولتیں دی جاتی ہیں، راقم دنیا کے بیشتر ممالک میں گیا اور ہم نے وہاں جو عمر رسیدہ لوگوں کو سہولتوں کے ذریعے خوشحال زندگی گزارتے دیکھا بلکہ یہ جملہ زیادہ بہتر ہے کہ وہاں عمر رسیدہ افراد کے چونچلے اٹھائے جاتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ صوبے کی بہتری کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں اب وہ سارے اداروں کی چھان بین تو کرنے سے رہے، لوگ اپنی ذمے داریوں کو خود محسوس کریں ۔ گزشتہ دنوں بذریعہ ہوائی جہاز اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ میری مودبانہ گزارش ہے حکومت سے کہ ایئرپورٹ پر سینئر سٹیزن کے کاؤنٹر ہی الگ بنائے جائیں اور ریلوے میں بھی یہی سلسلہ کیا جائے۔

25 فروری کے اخبارات میں یہ خبر نمایاں طور پر موجود تھی کہ حکومت اگلے دو ماہ تک بجلی کی قیمت میں 6 سے 8 روپے فی یونٹ کمی کرے گی اچھی خبر تھی اب دیکھنا یہ ہے کہ اپریل میں کچھ دن رہ گئے ہیں، پاور ڈویژن کب اس پر عمل کرتی ہے ۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سینئر سٹیزن ہوتے ہیں رہے ہیں نہیں ہے ہیں کہ

پڑھیں:

نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی

حمیداللہ بھٹی

ہمارامزاج کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ اگر کچھ عرصہ پُرسکون گزرے تو بے چین ہوجاتے ہیں اور خود ایسی کوششوں میں لگ جاتے ہیں جن سے بے چینی ا ورہیجان کو فروغ ملے اِس کی وجہ عدم برداشت ، رواداری کا فقدان اور نفرت انگیز بیانیہ ہے۔ اگرکوئی بے بنیاد لیکن سنسنی خیزخبر سنائے تو لوگ نہ صرف دلچسپی اورمزے سے سنتے ہیں بلکہ اپنے رفقاکوبھی سنانے میں لذت محسوس کرتے ہیں ۔ایسامزاج بالغ نظر معاشرے کانہیں ہوسکتا ۔مزید یہ کہ ہم سچائی کے متلاشی نہیں رہے سُنی سنائی بات پرفوراََ یقین کرلیتے ہیں۔اِس طرح نفرت انگیز بیانیے کے لیے حالات سازگار ہوئے ہیں اور جھوٹ ہمارے مزاج کاحصہ بن گیاہے۔ ہر کوئی جب چاہے کسی پربھی دشنام طرازی کرنے لگتا ہے اور پھراِسے کارنامہ جان کر فخر سے اپنے رفقاکو بتاتاہے کہ فلاں اہم شخص کو اِس طرح بدنام کیا ہے تعجب یہ کہ سُننے والا بھی حوصلہ شکنی کی بجائے واہ واہ کرتا ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ جھوٹ اورنفرت انگیز بیانیہ رکھنے والے کی حوصلہ شکنی کی جائے لیکن ایسا نہیں ہورہا کیونکہ اکثریت کوسچ سے کوئی غرض نہیںصرف اپنے مزاج کے مطابق سنناہی پسند ہے ۔
ذرائع ابلاغ نے بہت ترقی کرلی ہے اِس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ حقیقت جاننے میں مشکل پیش نہ آئے مگرذرائع ابلاغ کی ترقی نے حقائق سے آگاہی مشکل کردی ہے۔ ویسے لوگ بھی حقیقت جاننے کی جستجو ہی نہیں کرتے اور جب سے سوشل میڈیا کاظہورہوا ہے یہ توبالکل ہی جھوٹ پر مبنی نفرت انگیز بیانیہ پھیلانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اب جس کا جی چاہتا ہے وہ گلہ پھاڑ کر ہرکسی پر کیچڑ اُچھالنے لگتا ہے کیونکہ تدارک کا کوئی طریقہ کار نہیں۔ لہٰذاسوشل میڈیانے معاشرے کوجھوٹ سُننے اور سنانے کے لیے مادرپدرآزاد کردیاہے ۔یہ سوشل میڈیا کا تعمیری کی بجائے نقصان ہے ۔دنیامیںیہ مقبولیت بڑھانے اور تجارت کے لیے استعمال ہوتا ہے مہذب معاشروں کے لوگ اخلاق اور دلیل سے بات کرتے ہیں اور سچائی جاننے کی جستجو کرتے ہیں اسی لیے ہلچل وہیجان کم ہوتا ہے۔ اگر کوئی من گھڑت اور بے بنیاد واقعات کی تشہیر کرے توجلدہی کوئی سچ سامنے لے آتا ہے اسی لیے نفرت انگیز بیانیے کی گنجائش نہیں اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی اپنے اطوار کا جائزہ لیں اوربرداشت و رواداری پر مبنی زمہ دارانہ بیانیہ اپنائیں ۔
دنیا میں کوئی ایسا ملک بتا دیں جس کے شہری اپنے ملک کی بجائے سرِعام خودکودوسرے ملک کاکہیں اپنے علاقوں کو ہمسایہ ملک کا حصہ قراردیں ۔اگر کوئی ایسے کسی فعل کامرتکب ہوتونہ صرف اِداروں کامعتوب ہوتا ہے بلکہ عام شہری بھی ایسی حرکت کابُرامناتے اور نفرت کرتے ہیں مگر زرا دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں کیا ہمارے یہاں بھی ایسا ہے؟ہرگز نہیں۔یہاں تو قوم پرستی کا لبادہ اوڑھے کچھ لوگ پاک وطن کا شہری کہلوانے سے گریزاں ہیں۔ اِن کی اولاد بھی ایسا ہی نفرت انگیز بیانیہ رکھتی ہے مگر ریاست خاموش ہے ۔اب تو ایسے ہی ایک قوم پرست کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا ہے ۔اِس کا والد قیامِ پاکستان کا مخالف رہا ۔اِس کی اولاد نے پاکستانی سرزمین پر جنم لیا تعلیم حاصل کی اسی ملک کے وسائل استعمال کیے مگرپاک وطن کی وفادار نہیں بلکہ لسانی اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم کی علمبردارہے ۔یہ امن کے بجائے لڑائو،گھیرائو اور جلائو پر فریفتہ ہے۔ رواداری اور برداشت سے کوئی سروکار نہیں۔ البتہ سچ پر جھوٹ کو ترجیح دینے سے خاص رغبت ہے اسی خاندان کے سربراہ کا قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈربن جاناسمجھ سے بالاتر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے خاندان اور شخصیات کی حوصلہ شکنی کیوں نہیں کی جاتی؟کیونکہ ایسے چہروں کوعزت و مرتبہ ملنے سے وطن پرستی کی بجائے نفرت انگیز بیانیے کادرس ملتا ہے ۔
اپنے وطن کی ترقی پر شہری خوش ہوتے ہیں مگر ہمارے یہاں ایسا رواج نہیں ہمارے حکمرانوں کوکہیں عزت واہمیت ملے تویہاں رنجیدگی ظاہر کی جاتی ہے لیکن بے عزتی ہونے کواُچھالتے ہوئے سوشل میڈیاپر لوگ جھوم جھوم جاتے ہیں ۔ارے بھئی کوئی ملک اگر ہمارے حکمرانوں کو عزت دیتا ہے تو یہ ایک حکومتی شخص کی نہیں بلکہ پاکستان کی عزت ہے۔ اگر کسی کوسیاسی ،علاقائی ،لسانی یاقومیت کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہے تواظہار کے اور بھی کئی طریقے ہیں یہ طریقہ تو کوئی مناسب نہیں کہ ملک کوعزت ملنے پر غمزدہ ہواجائے اور بے عزتی پر خوشی کے شادیانے بجائے جائیں۔
بھارت نے پاک وطن کو نیچا دکھانے اور خطے پر بالادستی ثابت کرنے کے لیے رواں برس چھ سے دس مئی کے دوران جارحیت کاارتکاب کیا جس کاجواب پاک فوج نے دندان شکن دیادشمن کی جارحیت پر موثر،شاندار اور نپے تُلے ردِعمل نے دشمن کو دن میں تارے دکھا دیے بھارت کے جنگی طیارے کچھ اِس طرح گرائے جیسے شکاری شکارکے دوران پرندے گراتا ہے۔ اِس بے مثال کامیابی کو دنیا نے تسلیم کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص ہر اہم تقریب میں خوشی سے تذکرہ کرتا ہے وہی امریکہ جہاں ماضی میںہمارے وزیرِ اعظم کا ٹیلی فون سُننے تک سے اجتناب کیاجاتا تھا اب پاکستان پر فداہے ۔ہمارے حکمرانوں کی عزت افزائی کرتا اور فیلڈمارشل کو پسندیدہ قرار دیتا ہے دنیا کی تینوں بڑی طاقتیں امریکہ ،روس اور چین اِس وقت پاکستان پر مہربان ہیں جس کی وجہ پاک فوج کی مہارت وطاقت ہے تینوں بڑی عالمی طاقتوںکو معلوم ہے کہ پاک فوج میں حیران کردینے والی صلاحیت ہے۔ حرمین شریفین کے تحفظ کی الگ سعادت ملی ہے جبکہ بھارت کی سفارتی تنہائی عیاں ہے مگر یہاں ایسے بھی لوگ ہیں جواب بھی نفرت انگیز بیانیہ رکھتے اور مایوسی کا پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔ شاید یہ لوگ چاہتے ہیں ہماری حکومت اور فوج ہر جگہ ماردھاڑ کرے اور بے عزت ہواگر ایسا ہی ہے تویہ وطن پرستی ہر گز نہیں ارے بھئی پاکستان کوبھی ترقی کرنے کا حق ہے تاکہ ہر شہری خوشحال ہو اور دنیا میں عزت وتکریم کاحقدار ٹھہرے۔
شمال مغربی سرحد کی صورتحال پر ہر پاکستانی فکرمند ہے اور چاہتا ہے کہ افغانستان سے دوبدوہونے کی نوبت نہ آئے حکومت اور فوج کی بھی یہی سوچ ہے مگر ڈالرزملنے کی وجہ سے طالبان قیادت پاک وطن کے خلاف بھارت کی پراکسی بن چکے ہیں۔ بار بارسمجھانے اوردہشت گردی کے ثبوت دینے کے باوجود وہ نمک حرامی ترک نہیں کر رہے۔ قطر اور ترکیہ میں ہونے والے مذاکرات بھی اسی وجہ سے ناکام ہوئے۔ اب پاکستان کے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں رہا کہ نمک حراموں کو طاقت سے کچل دے لیکن سوشل میڈیا پر ایسے نا ہنجاربھی ہیں جو مشورہ دیتے ہیں کہ پاکستان لڑنے کی بجائے افغانستان سے ہونے والے حملوں کو برداشت کرے کیوں بھئی؟کیوں برداشت کرے؟ جب پاک فوج خود سے آٹھ گُنا بڑے دشمن کو دھول چٹاسکتی ہے توافغانستان کے چند ہزارگوریلا جنگ لڑنے والوں کی کیا حیثیت ؟ کا ش نفرت انگیز بیانیہ رکھنے والے یہ حقیقت سمجھ جائیں اور سیاست پر رواداری اور برداشت کو ترجیح دیں۔ ملک اور اداروں کا ساتھ دیناوطن پرستی ہے جس دن ایسا ہوگیا وہ دن پاکستان کی ترقی ،خوشحالی اور سیاسی استحکام کی بنیاد ثابت ہوگا۔
٭٭٭

 

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریگی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • پی پی نے کراچی کی نوکریوں پر قبضہ کر رکھا ، شہر کو لوٹ مار سے آزاد کرائیں گے، حافظ نعیم
  • پیپلز پارٹی نے کراچی کی نوکریوں پر قبضہ کر رکھا ہے: حافظ نعیم
  • پیپلز پارٹی نے کراچی کی نوکریوں پر قبضہ کر رکھا ہے، شہر کو لوٹ مار سے آزاد کرائیں گے: حافظ نعیم
  • نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی
  • دہشت گردی پاکستان کےلیے ریڈ لائن ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، بیرسٹر دانیال چوہدری