دی ہنڈریڈ لیگ؛ فرنچائز کی فروخت کا مسئلہ سر اٹھانے لگا
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ (ای سی بی) نے 'دی ہنڈرڈ' ٹورنامنٹ میں 49 فیصد حصص کی فروخت کیلئے مخصوص کردہ خصوصی مدت کو اپریل کے آخر تک بڑھا دیا۔
کرک انفو کی رپورٹ کے مطابق انگلش کرکٹ بورڈ کی جانب سے فیصلہ معاہدے کی شرائط اور براڈکاسٹنگ حقوق سے متعلق خدشات کے بعد سامنے آیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی امیر ترین ریلائنس انڈسٹریز کے مالک امبانی خاندار اوول انوینسیبلز میں اپنے 49 فیصد حصص کیلئے 60 ملین یورو (یعنی پاکستانی روپوں میں 18 ارب 19 کروڑ 60 سے لاکھ سے زائد) ادا کرنے کو تیار ہے جبکہ امریکی ٹیک کنسورشیم (ایم سی سی) لندن اسپرٹ میں اپنے 49 فیصد حصص کیلئے 145 ملین یورو (یعنی پاکستانی روپوں میں 43 ارب 97 کروڑ 38 لاکھ سے زائد) کی قیمت لگائی ہے۔
مزید پڑھیں: دی ہنڈریڈ؛ پیسوں کیلئے انگلش بورڈ 6 فرنچائزز کی فروخت کا منصوبہ بنالیا
مانچسٹر اوریجنلز اور ناردرن سپرچارجرز کے بھارتی مالکان کو بھی دیگر اسٹیک ہولڈرز کی شرکت کے معاہدے کے بارے میں تحفظات ہیں، یہ ایک اہم قانونی دستاویز ہے جو اس بات کا تعین کرے گی کہ مستقبل میں ٹورنامنٹ کے ٹیلی ویژن کے حقوق کس طرح فروخت کیے جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: دی ہنڈریڈ لیگ؛ آئی پی ایل فرنچائزز کے کنٹرول سنبھالنے کا امکان رد
دی ہنڈریڈ فی الحال اسکائی اسپورٹس کے ساتھ انگلینڈ کرکٹ بورڈ (ای سی بی) کے خصوصی ڈومیسٹک حقوق کے معاہدے کا حصہ ہے، جس میں بین الاقوامی کرکٹ بھی شامل ہے اور 2028 سے 2032 سائیکل کے تمام میچز نشر کرے گا۔
مزید پڑھیں: دی ہنڈریڈ لیگ؛ پاکستانی کھلاڑیوں کو نہ لینے کی بڑی وجہ سامنے آگئی
تاہم نئے مالکان نے اس ماڈل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ٹورنامنٹ کیلئے ایک علیحدہ ادارہ تشکیل دینا چاہیے۔
ٹورنامنٹ میں شریک تمام 8 فرنچائزز کے مالکان معاہدوں پر دستخط کرنے سے گریز کررہے ہیں کیونکہ وہ نئے مالکان کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دی ہنڈریڈ
پڑھیں:
ریاست کو شہریوں کی جان بچانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہو گا: لاہور ہائیکورٹ
لاہور (خبر نگار) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواستگزار کو فوری طور پر پولیس پروٹیکشن دینے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو اسے پولیس پروٹیکشن اس کا حق ہے۔ 10صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین میں شہریوں کی جان کا تخفظ مشروط نہیں بلکہ اسے ہر قیمت پر بچانا ہے۔ قرآن پاک میں بھی ہے کہ جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ ریاست کو اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہوگا۔ درخواست گزار کے مطابق وہ قتل کے متعدد کیسز میں بطور گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کا سٹار گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق مقدمے میں نامزد ایک ملزم کا پولیس مقابلہ ہو گیا، مقتول کی فیملی اسے دھمکیاں دے رہی ہے۔ آئی جی پنجاب نے رپورٹ جمع کرائی کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے درخواستگزار کو دو پرائیوٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی، ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کی تحت پولیس پروٹیکشن کی 16مختلف کیٹگریز بنائی گئی ہیں، جن میں وزیر اعظم، چیف جسٹس، چیف جسٹس ہائیکورٹ، بیوروکریٹس سمیت دیگر شامل ہیں، پالیسی کے پیرا چار میں معروف شخصیات کو پولیس پروٹیکشن دینے کا ذکر ہے۔ آئی جی پولیس مستند رپورٹ پر 30 روز تک پولیس پروٹیکشن دے سکتا ہے، غیر ملکیوں اور اہم شخصیات کو سکیورٹی دینے کیلئے پنجاب سپشل پروٹیکشنز یونٹ ایکٹ 2016 لایا گیا۔ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، آرٹیکل 4 کے تحت ہر پولیس افسر پر شہریوں کے تحفظ کی قانونی ذمہ داری عائد ہے، اضافی پولیس کی تعیناتی صوبائی پولیس افسر کی منظوری سے مشروط ہوگی۔ درخواست گزار کاروباری ہونے کے ناطے سنگین دھمکیوں کے پیش نظر پولیس تحفظ کا حق رکھتا تھا، ایف آئی آرز میں گواہ ہونے کے باعث اسے پنجاب وِٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت بھی تحفظ دیا جا سکتا تھا، پنجاب کے تمام قوانین اور پالیسیز شہری کے تحفظ کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔ درخواست گزار کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب ہے۔ پولیس کسی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے۔ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے، حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔