کو پن ہیگن :ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں سیکڑوں افراد نے امریکی حکومت کی ڈنمارک کے خودمختار علاقے گرین لینڈ   پر قبضے کی خواہش اور امریکی نائب صدر وینس کے 28 تاریخ کو گرین لینڈ کے دورے کے  خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔اسی دن  دوپہر کو، سینکڑوں مظاہرین بینرز لے کر ڈنمارک میں امریکی سفارت خانے کے سامنے جمع ہوئے جن پر ’’ لینڈ سے دور رہو”، “ہم گرین لینڈ کے عوام کی حمایت کرتے ہیں”، “امریکہ واپس جاؤ” جیسے نعرے درج تھے  ۔ ڈنمارک کے دوسرے بڑے شہر آرہس میں بھی اسی دن سینکڑوں افراد نے شہر کے مرکزی پیدل چلنے والے علاقے میں اکٹھے ہو کر گرین لینڈ کی حمایت اور امریکہ کے خلاف اپنے  غم و غصے کا اظہار کیا ۔امریکی نائب صدر وینس نے 28 تاریخ کو ایک وفد کی رہنمائی کرتے ہوئے گرین لینڈ کے شمال میں واقع امریکی خلائی اڈے پٹو فک کا دورہ کیا۔انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گرین لینڈ امریکہ کے لیے انتہائی اہم ہے، امریکہ کو آرکٹک میں قیادت کا کردار یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈنمارک نے گرین لینڈ کی سلامتی اور دفاع جیسے شعبوں میں “ناکافی سرمایہ کاری” کی ہے اور اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ امریکی نائب صدر نے کہا کہ امید ہے کہ گرین لینڈ امریکہ کے ساتھ تعاون کا انتخاب کرے گا، گرین لینڈ “ڈنمارک کے حفاظتی چھترے کے بجائے امریکہ کے حفاظتی چھترے کے تحت زیادہ بہتر ہوگا”۔ امریکی نائب صدر کے ان الفاظ کے جواب میں  ، ڈنمارک کی وزیر اعظم میٹے فریڈرکسن نے کہا کہ یہ  بیانات “ناانصافی پر مبنی” ہیں۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: امریکی نائب صدر ڈنمارک کے گرین لینڈ امریکہ کے کہا کہ

پڑھیں:

ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 

اسلام ٹائمز: ایران کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیشرفت پر قابو نہیں پایا جاسکا اور آج اسکی طاقت کا لوہا دنیا مان رہی ہے۔ مذاکرات تو امن کے قیام کیلئے ضروری ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر ایران کبھی امریکی آمرانہ فیصلوں کو قبول نہیں کریگا، کیونکہ اسکے پاس ایک شجاع اور دوراندیش قیادت موجود ہے۔ جوہری افزودگی کو روکنے کے بہانے ایران کی سائنسی پیشرفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اس لئے امریکہ کو ایران کی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرنا چاہیئے۔ تحریر: عادل فراز

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان مسلسل کشیدگی رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایران میں اسلامی حکومت کا قیام تھا۔ شاہ ایران امریکہ کا حلیف اور اس کا قابل اعتماد آلۂ کار تھا، جس نے ایران میں امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ مثال کے طور پر اسرائیل کے قیام کے بعد ایران بھی ان ملکوں میں شامل تھا، جس نے اس کے ناجائز وجود کو تسلیم کیا تھا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کے موقف میں واضح تبدیلی آئی اور امام خمینیؒ نے اسرائیل کے وجود کو ناجائز قرار دیتے ہوئے فلسطین کے استقلال اور قبلۂ اول کی بازیابی کے لئے آواز بلند کی۔ انہوں نے مسئلۂ فلسطین کو عالمی سطح پر منعکس کیا اور آج پوری دنیا اگر مسئلۂ فلسطین پر متوجہ ہے تو یہ امام خمینیؒ کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے۔

خطے میں موجود مزاحتمی محاذ کی تقویت میں بھی ایران کا کلیدی کردار رہا ہے، جس کا اعتراف پوری دنیا کرتی رہی ہے۔ البتہ مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور استعمار نوازی نے مسئلۂ فلسطین کے حل کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ غزہ کی تباہی اور مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے بھی مسلم حکمرانوں کو سبکدوش نہیں کیا جاسکتا، جو امریکہ نوازی میں انتفاضہ القدس سے بے پرواہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لئے کوشاں ہیں۔ اس کا مشاہدہ ٹرمپ کے حالیہ دورۂ مشرق وسطیٰ کے دوران بھی کیا گیا۔ مسلم حکمران ٹرمپ نوازی میں مرے جا رہے تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر ہے، اس لئے ان سے مسئلۂ فلسطین یا عالم اسلام کے زندہ موضوعات پر کسی دلیرانہ موقف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

ایران کے ساتھ مذاکرات کا نیا دور عمان کے تعاون سے شروع ہوا تھا۔ البتہ امریکہ کی ظاہری اور باطنی پالیسیوں میں نمایاں فرق موجود ہے۔ ظاہری طور پر ٹرمپ ایران کو دھمکا کر دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ ایران امریکہ سے خوف زدہ ہوکر مذاکرات کی میز پر آیا ہے، جبکہ باطنی طور پر ٹرمپ ایران سے تصادم نہیں چاہتا اور سفارتی طور پر ایران سے نمٹنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایران کی حکمت عملی ہمیشہ امریکی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانا رہی ہے۔ مذاکرات سے پہلے اور بعد میں بھی امریکہ کے تئیں ایران کا موقف واضح ہے۔ ایران کے صدر مسعود پزشکیان اور وزیر خارجہ عباس عراقچی نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ایران کو دھمکایا نہیں جاسکتا اور اگر ہم پر حملہ کیا گیا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، جبکہ ٹرمپ نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی ایران کو دھمکانا شروع کر دیا تھا کہ اگر مذاکرات نہیں ہوئے تو ایران کو فوجی کارروائی کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔

جبکہ ٹرمپ بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران پر حملے کے لئے ہزار بار نہیں لاکھوں بار سوچنا پڑے گا، کیونکہ یہ حملہ نئی علاقائی جنگ کا باعث بنے گا، جس کی اجازت علاقائی ممالک بھی نہیں دیں گے۔ ایران پر حملے سے دنیا کو ناقابل بیان اقتصادی نقصان پہنچے گا، کیونکہ پہلی فرصت میں آبنائے ہرمز کو بند کر دیا جائے گا، جہاں سے دنیا کی ضرورت کا بیس فیصد تیل گذرتا ہے۔ گویا کہ ایران کے ساتھ جنگ عالمی سطح پر نئے اقتصادی بحران کا سبب بنے گی، جس کی اجازت امریکی حلیف طاقتیں بھی نہیں دیں گی۔ عالمی معیشت یوں بھی روبہ زوال ہے اور امریکہ نت نئے ٹیرف عائد کرکے اپنی ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دینے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ ایسی ناگفتہ بہ صورت حال میں امریکہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

ایران کے ساتھ جب بھی مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو استعماری میڈیا کے ذریعے ایران پر نفسیاتی دبائو کے لئے حملے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ سی این این سمیت تمام میڈیا اداروں نے یہ خبر نشر کی کہ اسرائیل عنقریب ایران پر حملہ کرنے والا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا، جس کی تیاری اسرائیل کر رہا ہے۔ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ جنگ کی یہ دھمکیاں صرف نفسیاتی دبائو کے لئے ہیں، جن کا ایران پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔ ایران تو ایک مدت سے جنگ کے محاذ پر ہے۔ گو کہ ابھی ایران کے ساتھ براہ راست فوجی جنگ شروع نہیں ہوئی، مگر اقتصادی اور نفسیاتی جنگ تو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد چھیڑ دی گئی تھی۔ لہذا ایران کو استعماری طاقتوں کے خلاف لڑنے کا ایک طویل تجربہ ہے۔ اس پر رہبر انقلاب اسلامی کا امریکہ کے خلاف صریح موقف عالمی استکبار کے لئے پریشان کن ہے۔

امسال انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینیؒ کی برسی کے موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں جوہری توانائی کی افزودگی پر امریکی مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ کے لئے ہمارا پیغام یہ ہے کہ ایرانی قوم کا انتخاب اس کے اختیار میں ہے۔ امریکہ کون ہوتا ہے، جو ہماری خود مختاری اور جوہری افزودگی میں رکاوٹ بن رہا ہے اور کس قانون کے تحت وہ یہ کام کر رہا ہے۔ آخر امریکہ کو دوسرے ملکوں کی جوہری صلاحیت کا تعین کرنے کی ذمہ داری کس نے دی ہے۔؟ اس کے پاس تو دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں تو اس کی قانونی یا اخلاقی حیثیت کیا ہے کہ وہ دوسروں کے جوہری پروگرام کے بارے میں رائے پیش کرے۔؟ انہوں نے امریکی جنگی جرائم اور عالمی نقض امن پر دوٹوک انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ "امریکہ کس منہ سے امن کی بات کرسکتا ہے، جبکہ بیسویں صدی میں جنگوں اور بغاوتوں کو سب سے بڑا جنم دینے والا وہ خود ہے۔"

آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی چودھراہٹ پر ضرب لگاتے ہوئے کہا کہ "ایران کو امریکہ سے (جوہری پروگرام پر) اجازت کیوں لینی چاہیئے؟ کیا صہیونی حکومت اپنے جوہری ہتھیاروں اور حالیہ جاری نسل کشی کے حوالے سے ہر طرح کی نظارت سے مستثنیٰ ہے۔؟" ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ ایران نہ تو امریکی چودھراہٹ کو قبول کرتا ہے اور نہ اپنی خود مختاری میں کسی مداخلت کو برداشت کرے گا۔ ان کا یہ کہنا کہ "ایرانی قوم کی خود مختاری ان کے ہاتھ میں ہے" امریکی منصوبوں پر پانی پھیر دیتا ہے، کیونکہ امریکہ ایران کی خود مختاری پر ضرب لگانا چاہتا ہے، جس کو رہبر انقلاب نے مسترد کرتے ہوئے امریکی چودھراہٹ پر ہی سوال اٹھا دیا۔ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر بھی ایران کے موقف کو واضح کر دیا، جس کے بعد اب مذاکرات میں جوہری پروگرام کو ختم یامحدود کرنے پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔

جوہری افزودگی ہر ملک کا بنیادی حق ہے، جس کو امریکہ سلب نہیں کرسکتا، جبکہ امریکہ نے حالیہ مذاکرات میں ایک تجویز پیش کی ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی شراکت سے علاقائی کنسورشیم تشکیل دیا جائے۔ اس تجویز میں جو امریکہ کی طرف سے عمان کے ذریعے ایران کو موصول ہوچکی ہے، کے مطابق امریکہ نے ایرانی سرزمین پر جوہری افزودگی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی تجویز، جس کو رہبر انقلاب اسلامی نے مسترد کر دیا ہے، اس کو دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ ایک کنسورشیم کی تشکیل سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ جوہری افزودگی کو روکنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جوہری توانائی کو روک کر باہر سے کنسورشیم کے ذریعے یورینیم کو حاصل کرنے کی تجویز ایران کبھی قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اس طرح ایران اپنے پاور پلانٹس کو چلانے کے لئے جوہری ایندھن کی فراہمی کے لئے دوسرے ملکوں پر منحصر ہو جائے گا۔

گویا کہ اس تجویز کا مقصد ایران کو خود کفیل بننے سے روکنا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ امریکہ ایران کی ترقی سے خوف زدہ ہے۔ اس کا مقصد جوہری مذاکرات کے ذریعے ایران کے جوہری افزودگی کے منصوبے کو روکنا نہیں بلکہ ایران کی ترقی اور خود کفیل بننے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے، جس کو ایرانی قیادت بخوبی سمجھ رہی ہے۔ ایران پر مسلسل بڑھتی ہوئی اقتصادی پابندیوں کا راز بھی یہی ہے۔ اس کے باوجود ایران کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیش رفت پر قابو نہیں پایا جاسکا اور آج اس کی طاقت کا لوہا دنیا مان رہی ہے۔ مذاکرات تو امن کے قیام کے لئے ضروری ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر ایران کبھی امریکی آمرانہ فیصلوں کو قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اس کے پاس ایک شجاع اور دوراندیش قیادت موجود ہے۔ جوہری افزودگی کو روکنے کے بہانے ایران کی سائنسی پیش رفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اس لئے امریکہ کو ایران کی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرنا چاہیئے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا میں بھارتی سفارت خانے کے سامنے سکھوں اور کشمیریوں کا احتجاجی مظاہرہ
  • امریکا میں بھارتی سفارت خانے کے سامنے سکھوں اور کشمیریوں کا احتجاجی مظاہرہ
  • چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
  • منشیات سمگلنگ، امریکی عدالت نے پاکستانی تاجر کو 16 برس کی سزا سنا دی
  • شو چھی لیانگ کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں
  • چین کے نائب وزیر اعظم برطانیہ کا دورہ اور چین امریکہ اقتصادی و تجارتی مشاورتی میکانزم کے پہلے اجلاس کا انعقاد کریں گے
  • صدر ٹرمپ نے لاس اینجلس میں احتجاج کے دوران نیشنل گارڈز کو تعینات کر دیا
  • نئی پابندیاں ایرانی عوام کے ساتھ امریکی دشمنی کو ظاہر کرتی ہیں، اسماعیل بقائی
  • ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 
  • امریکی عدالت نے حکومتی محکمے کو ذاتی معلومات تک رسائی دیدی